
ففروا الی اللہ 🫀
June 9, 2025 at 01:29 PM
بات تلخ ہے اور بہت سارے لوگوں کو چبھے گی مگر سچ یہی ہے کہ ٹک ٹاک پر ڈیجیٹل کری ایشن کے نام پر جو دھندہ چل رہا ہے وہ بڑا ہی گندہ ہے۔
راتوں رات وائرل ہونے اور پھر ڈالروں میں کھیلنے والی یہ لڑکیاں بدقسمتی سے نئی نسل کے لیے رول ماڈل بن چکی ہیں۔کیونکہ اس میں ٹیلنٹ اور محنت کے بجائے صرف خوبصورت ہونا کافی ہوتا ہے۔
اور ان ٹک ٹاکرز کا لائف سٹائل اور عیاشی ہمارے ملک کا بہت بڑا طبقہ اپنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ راتوں رات پیسہ اور شہرت اور اتنا پیسہ کہ پورا خاندان بیٹیوں کی اس کمائی پر پلنے لگے۔حلال کا محنت سے کمایا ہوا رزق کمانا بہت مشکل ہے ۔اتنا مشکل کہ اس ملک کے نوجوان مرد ڈیجیٹل کریئیٹرز کو دیکھ لیں جو گرافک ڈیزائننگ ، ویب ڈیولپمنٹ ،تھری ڈی اینیمیشن ،وی لاگنگ ، ویڈیو ایڈیٹنگ یا اس جیسی کسی مشکل اور محنت طلب فیلڈ سے وابستہ ہیں۔یہ نوجوان اپنی فیلڈ میں سالوں لگا کر بھی وہ حاصل نہیں کر سکتے جو یہ ٹک ٹاکر لڑکیاں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا گورا چہرہ اور سرخ ہونٹ دکھا کر دو مہینے میں حاصل کر کے دبئی چھٹیاں منانے بھی پہنچ جاتی ہیں ۔۔ساتھ ہی خاندان بھر کی چاندی ہو جاتی ہے سب ایک غریب بدبودار محلے سے اٹھ کر مہنگے مہنگے پر تعیش بنگلوں میں پہنچ جاتے ہیں یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے ۔
اور سب سے بڑی سہولت جو ان لڑکیوں کے پاس ہر وقت دستیاب ہوتی ہے کہ جب بھی ڈالرز کی آمد میں کمی ہونے لگے تو اپنی ایک نا زیبا ویڈیو خود ہی ریکارڈ کر کے مارکیٹ میں پھینک دو اور پھر سے ہن برسنا شروع۔
ایسی لڑکیوں کے خاندان والے چونکہ عادی ہو جاتے ہیں اس لیے کون غیرت کھا کر ایسی لگژری لائف کو ٹھوکر مارتا ہے۔کبھی کسی ایک آدھ کیس میں کوئی غیرت کر لے تو کر لے ورنہ ایک دو دن کی تھوتھو کے بعد سب اپنے دھندے پر لگ جاتے ہیں۔بیٹھ کر بلکہ پاؤں پسار کر کھانا کسے پسند نہیں ۔اس کے لیے عزت اور غیرت جیسی فرسودہ چیزوں کی پرواہ کون کرتا ہے؟
ایمان داری سے بتائیں کہ آپ کے نزدیک ڈیجیٹل کریئیٹر کی تعریف کیا ہے؟
وہی جو جنت مرزا ، علیزے سحر ، مناہل ملک اور امشا رحمن کر رہی ہیں کیا وہی ڈیجیٹل کری ایشن ہے؟
وہی سج سنور کر آئینے کے سامنے جسم اور ادائیں دکھانا ، ڈانس کرنا ، ذو معنی گفتگو اور اشارے کرنا اور چوبیس گھنٹے فضول کی بک بک کو آپ بھی ڈیجیٹل کری ایشن سمجھتے ہیں تو مبارک ہو آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں ۔
اب تازہ ترین واقعہ ایک اور ٹک ٹاکر ثناء یوسف کا ہے۔
بقول لوگوں کے وہ تو بہت ہی سادہ اور شریفانہ کونٹنٹ بناتی تھی۔میں نے اس کی موت کے بعد چند ویڈیوز دیکھیں جن میں وہ کہہ رہی تھی کہ لڑکو شادی کسی پٹھانی یا چترالی لڑکی سے کرنا ۔کیوں؟
کیونکہ وہ میری طرح گوری اور خوبصورت ہوتی ہیں۔
محض سترہ سال کی عمر کی بچی اور ایسی سوچ؟
مٹھائی کی پلیٹ کھلی رکھ دی جائے تو اس پر مکھیاں بیٹھ کر اسے آلودہ کر دیتی ہیں۔تو ایسی خوبصورت اور بھولی بھالی بیٹیوں کو والدین دوسروں کے سامنے شوپیس یا ان کا جذباتی کھلونا (جذباتی کی جگہ ایک اور لفظ مناسب تھا) بننے کی اجازت اور آزادی کیوں دیتے ہیں کیا وہ عمر کے اس حصے میں بھی ہمارے ہاں کے مردوں کی عمومی گھٹیا سوچ سے واقف نہیں ہوتے؟
چلیں مان لیا کہ وہ سترہ سالہ بچی صاف ستھرا کونٹنٹ بناتی تھی تو کیا دیکھنے والے اسے صرف بچی سمجھتے تھے؟
کیا وہ اس کے سارے مرد فولورز اسے اپنی بہن کی طرح نظریں جھکا کر دیکھتے تھے؟
کیا اس کے فولورز نے اس پر کبھی بری نظر نہیں ڈالی ہوگی؟
اس کی ویڈیوز کے نیچے اس کے فولورز گھٹیا کمنٹس نہیں کرتے تھے؟
سیانے کہتے ہیں۔
not every follower is your fan.
آج کل کے بھولے والدین یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ آپ کی بھولی بھالی بیٹی کو ہوس کے پجاری معصوم نظروں سے نہیں دیکھتے ۔وہ اسے انہی نظروں سے دیکھتے اور تولتے ہیں جن نظروں سے ایک ہوس پرست مرد کسی بھی نا محرم لڑکی یا عورت کو دیکھتا ہے۔اور اس کے ساتھ وہی کچھ کرنا چاہتا ہے جو ایسا مرد کسی بھی عمر کی عورت کے ساتھ کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ بچی سترہ کی ہے یا چھ سال کی ۔
اور یہ سب غلاظت وہ اپنے کمنٹس کی صورت میں ایسی بھولی بھالی لڑکیوں کی ویڈیوز پر سب کے سامنے کمنٹس کے ذریعے پھیلاتے رہتے ہیں۔
خدارا اپنی بھولی بھالی بیٹیوں کو ٹک ٹاک نامی ہوس کی اس ڈیجیٹل منڈی کی جنس نہ بننے دیں۔اپنی بیٹیوں کی خود حفاظت کریں ۔بے شک ان کی ہر خواہش پوری کریں مگر گھر کی چار دیواری کے اندر انہیں محفوظ رکھیں۔
دنیا بڑی ظالم ہے یقین نہیں آتا تو ثناء یوسف کا مردہ چہرہ دیکھ لیں۔اللہ پاک اس کی مغفرت فرمائے۔ آمین ثم آمین
اور اس کے قاتل کو سخت ترین سزا دے کر مثال عبرت بنایا جائے۔
یقین مانیں میں اس ڈیجیٹل کری ایشن کے خلاف نہیں ہوں۔ہماری آج کی نسل کے پاس پہلے سے کہیں بڑھ کر مواقع ہیں ۔اپنی بات کہنے کے ، آگے بڑھنے کے ، اپنا آپ منوانے کے، اپنے حالات بدلنے کے اور ترقی کرنے کے مگر اس کے لیے جسم کی نمائش جیسا شارٹ کٹ اپنانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔یہ ہماری اقدار نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ہماری تہذیب ہے۔ ہماری بیٹیاں ہمارا فخر ہیں باپ کے سر پر رکھی پگڑی ہیں ،بھائیوں کے کاندھے کی چادر ہیں۔ان کی حیا اور خوبصورتی اتنی سستی نہیں کہ ٹک ٹاک پر ٹکے ٹکے کے مردوں کے سامنے بطور تفریح پیش کی جائے۔
اور اگر والدین نے اب بھی اپنی آنکھیں نہ کھولیں اور ان واقعات سے عبرت نہ پکڑی تو آنے والے وقت میں ایسے واقعات سے ہونے والی تباہی بہت بھیانک ہوگی۔
ناہید اختر بلوچ ۔
#sanayousif
❤️
👍
3