❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 8, 2025 at 11:31 AM
*آہ ابراہیم جان، ایک گمنام چراغ، قائد جمعیت کا سچا خادم* *تحریر: مولانا امان اللہ حقانی* ہمارے محترم وکیل دوست، جناب اکبر خان ایڈوکیٹ مرحوم قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم العالیہ کی شخصیت پر بات کرتے ہوئے اکثر ایک جملہ بڑے اعتماد اور محبت سے فرمایا کرتے تھے: حضرت مولانا بیک وقت بادشاہ بھی ہیں، خان بھی، مدرسِ عالم بھی ہیں اور پیرِ کامل بھی۔ پھر اس کی وضاحت یوں کرتے کہ: بادشاہ اس لیے کہ ملک کا ہر ”بادشاہ وقت“ اُن کے آستانۂ سیاست اور علم و حکمت پر حاضری دیتا ہے۔ اقتدار کے ایوان ہوں یا فیصلوں کے ایوان،کوئی حکومت اُن کی مشاورت، دعاؤں اور رضامندی کے بغیر نہ قائم ہو سکتی ہے، نہ چل سکتی ہے۔ گویا وہ اقتدار کے حقیقی رمز شناس اور حکمتِ عملی کے بادشاہ ہیں، جن کے ایک اشارے پر سیاسی سمتیں متعین ہوتی ہیں۔اور یہ خوبی بادشاہوں کی ہے، مدرس عالم اس حیثیت سے کہ جب وہ کسی علمی نشست میں کتاب کھول کر بیٹھتے ہیں، تو وقت کے بڑے بڑے اساتذہ، جید علما اور کہنہ مشق مدرسین بھی اُن کے درس اور بیان کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ ان کا استدلال، حوالہ، اور فہمِ دینی اتنا راسخ ہوتا ہے کہ سننے والے حیرت میں گم، اور اہل علم انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ پیر اس طرح ہیں کہ جب بھی کارکنوں یا عوام کے درمیان نظر آتے ہیں،تو ان کے گرد اخلاص و محبت کا ایسا ہجوم ہوتا ہے گویا کوئی عظیم روحانی پیشوا ہو۔کوئی ان کے کندھے دبا رہا ہے، کوئی ان کا ہاتھ تھامے خدمت میں لگا ہوا ہے،اور سب کی نگاہوں میں عقیدت کا وہ رنگ جھلکتا ہے جو صرف پیروں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ اور خان اس لیے کہ جب کبھی اُن کی رہائش گاہ پر جانا ہوا، ہر وقت دسترخوان وسیع، مہمان نوازی کا عالم قابل دید، اور خاندانی وقار کے وہ مناظر نظر آتے ہیں جو صرف پختون و قبائلی روایت کے بڑے ”خان خوانین“ کے ہاں پائے جاتے ہیں۔ مہمانوں کی تعداد گننے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی، کیونکہ ان کا در کھلا ہے اور دل کشادہ۔ ایسی ہمہ گیر اور کثیر الجہات اور عبقری شخصیت کے ساتھ رہنا،ان کے سفر و حضر میں گویا سایہ بن کر ساتھ رہنا، بظاہر تو ایک اعزاز ہے، لیکن حقیقتاً ایک بڑی ذمہ داری اور آزمائش بھی ہے، جو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ گزشتہ روز عید الاضحی کے مبارک دن قائد جمعیت کے ایک خادم خاص اللہ کو پیارے ہوگئے، جس سے مولانا کو بہت دکھ پہنچا، ایسی شخصیت کا خادم بھی اعلی خوبیوں کا مالک ہوتا ہے۔ *ابراہیم جان ایک گمنام چراغ:* مولانا کا سچا خادم، کل کی شام دل کو بے حد بوجھل کر گئی۔ حضرت مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم العالیہ کے ایک نہایت قریبی، مخلص، وفادار اور باوقار خادم کا انتقال سن کر جیسے دل تھم سا گیا۔ یہ وہ کم عمر نوجوان تھا جس کا نام شاید بہت کم لوگوں نے سنا ہو، لیکن جس کا فیض ہزاروں نے مولانا کی خدمت کے وسیلے سے پایا۔ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں، کیونکہ ان کا تعارف خود خدمت تھی۔ مولانا جیسے عبقری، متحرک، اور فکری و سیاسی عظمت کے مینار کے ساتھ رہنا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف وہی شخص نبھا سکتا ہے جو خود بھی اخلاص، وفا، صبر، خاموشی اور خدمت جیسے اعلیٰ اوصاف کا پیکر ہو۔ مرحوم میں یہ سب خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں۔ ان کا چہرہ ہمیشہ متبسم، ہاتھ ہمیشہ خدمت کے لیے تیار، اور دل ہمیشہ مولانا کی راحت کا متلاشی رہتا تھا۔ *خاموشی میں عظمت* مرحوم شور و شہرت کے قائل تھے، نہ فوٹو سیشنوں کے شوقین۔ وہ ”عمل کی زبان“ بولتے تھے۔ان کی خاموشی میں ایک وقار تھا، ان کے قدموں کی چاپ میں اخلاص کی گونج سنائی دیتی تھی۔ صبح ہو یا رات کا آخری پہر، وہ مولانا کے آس پاس سایے کی طرح موجود رہتے۔ انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی وقفِ خدمت انسان ہو۔ *خدمت کی تقدیس* ان کا جذبۂ خدمت،معمولی نہیں تھا۔ وہ صرف جسمانی خدمت نہ کرتے، بلکہ دل و دماغ، وقت و نیند، حتیٰ کہ اپنی زندگی کو بھی مولانا کے مشن، ان کی عزت، ان کی دعا و دعا گوئی کے لیے وقف کر چکے تھے۔ وہ اکثر کہتے، ”حضرت کی خدمت اصل میں دین کی خدمت ہے۔“ اور یہی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ *مولانا کا دکھ* جب ایسے لوگ چلے جاتے ہیں، تو صرف خاندان نہیں روتا، بڑے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔حضرت مولانا کی آنکھوں میں جو غم کا سایہ کل نظر آیا، وہ اسی محبت اور قربت کی گواہی ہے جو اس خادم کو حاصل تھی۔ مولانا جیسے صاحبِ حال،صاحبِ دل اور عبقری انسان کسی کے جانے سے اگر دل گرفتہ ہو جائیں، تو یہ جان لیجیے کہ وہ جانے والا کوئی عام آدمی نہ تھا، کل رات جنازے کے موقع پر ان کی اچانک جدائی پر مولانا کے ہر کارکن اور عہدیدار کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ مرحوم خادم کا انتقال محض ایک فرد کا جانا نہیں، ایک دور کا خاتمہ ہے۔ ان کی زندگی ہمارے لیے اس سبق کی مانند ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ عظمت صرف منصب، شہرت یا دولت سے نہیں آتی۔ اصل عظمت خدمت، وفا، نرمی اور خلوص سے آتی ہے،اکثر لوگ جب مرحوم کو مولانا کے ساتھ سائے کی طرح لازم پاتے تو ہم سے استفسار کرتے کہ یہ نوجوان ہے کون ہے ؟تو ہمارا جواب ہوتا کہ یہ قائد جمعیت کا سچا اور مخلص خادم ہے، اب انکی اچانک وفات نے پورے ملک میں انکا اچھا تعارف کرایا، ہم اس دعا کے ساتھ قلم روکتے ہیں *اللّٰهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعفُ عنه، وأكرم نُزُله، ووسع مُدخلَه، واغسله بالماء والثلج والبرد، ونقه من الخطايا كما يُنقّى الثوب الأبيض من الدنس۔* اللّٰہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے، اور حضرت مولانا اور انکے کارکنان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

Comments