
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
185 subscribers
About ❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
'مسلم امہ اور عصر حاضر'ایک مؤثر اور بصیرت افروز چینل ہے جس کا مقصد اسلامی تعلیمات کی حفاظت اور ان کی حقیقی روح کو عام کرنا ہے۔ اس چینل پر نہ صرف دین کی بنیادوں اور اصولوں کو واضح کیا جاتا ہے، بلکہ امت مسلمہ کو درپیش جدید دور کے چیلنجز اور دشمنوں کی سازشوں سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کا نصب العین یہ ہے کہ مسلمانوں کو دین کی روشنی میں درست رہنمائی فراہم کی جائے اور انہیں موجودہ دور میں پیش آنے والے خطرات کا ادراک اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت دی جائے، تاکہ وہ اپنے ایمان اور عقائد کا دفاع مؤثر طریقے سے کر سکیں۔
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*نیتن یاہو: "میں نے اور ٹرمپ نے کہا تھا کہ امن طاقت سے آتا ہے؛ پہلے طاقت، پھر امن۔"* جبکہ مسلمانوں کے اسکولوں کے نصاب اور جامعات کی "انسانی علوم" کی تعلیم میں ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے: "پیارے بچو! ہمیں زمین کے تمام انسانوں کے ساتھ رواداری، امن اور بھائی چارے سے رہنا چاہیے۔ ہمیں تشدد اور انتہا پسندی کو رد کرنا چاہیے اور طاقت کی زبان استعمال کرنے والوں سے دور رہنا چاہیے، کیونکہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی شق نمبر 1، پیراگراف 1 کے مطابق: "بین الاقوامی امن و سلامتی کا تحفظ، ان اسباب کا سدباب کرنا جو امن کے لیے خطرہ ہوں، جارحیت اور دیگر خلافِ امن اقدامات کا قلع قمع کرنا، اور بین الاقوامی تنازعات یا ایسے حالات کو پرامن ذرائع سے حل کرنا جو امن کو خطرے میں ڈال سکتے ہوں۔" بالموقع، اس دستاویز کا سرکاری عنوان یہ ہے: "امن، وقار اور مساوات کا حامل ایک ایسا سیارہ جہاں صحت کی نعمت میسر ہو۔" تو کیا یہ کسی "زمردہ" نامی سیارے کی بات ہو رہی ہے جو اسپیسٹون کارٹونز میں دکھایا جاتا ہے؟ اور پھر وہ "تنویر پسند" مصنفین جو غلام حکومتوں کی چھتری تلے اور مغربی اداروں کے عطیوں پر پلتے ہیں، اور وہ یوٹیوبرز جو مغرب کی پشت پناہی سے بولتے ہیں، وہ کہتے ہیں: "اسلام ایک ایسا دین ہے جو تشدد پر اکساتا ہے، جس میں دوسروں کے خلاف نفرت کے بیج موجود ہیں، اور جو ایک کھلے دل و دماغ والی مہذب دنیا کے لیے مناسب نہیں۔ ایسی دنیا جو مکالمہ، تمدن، اور پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتی ہے۔" اب تمام امور مزید واضح ہو چکے ہیں — تاکہ ہلاک ہونے والا دلیل سے ہلاک ہو، اور زندہ رہنے والا دلیل پر زندہ رہے: ﴿لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ﴾ (سورۃ الأنفال: 42)

جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی رہنماء ڈاکٹر صدیق( پشین )کے قتل کی مذمت ڈاکٹر صدیق اور ان کے ساتھی کا قتل افسوسناک ہے ۔مولانا فضل الرحمان قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ناکامی کا اعلان کریں ۔مولانا فضل الرحمان حکومت قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچائے ۔مولانا فضل الرحمان اللہ کریم مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر دے ۔مولانا فضل الرحمان بلوچستان اور کے پی جنگل کا منظر پیش کررہا ہے جہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ۔ مولانا فضل الرحمان جے یو آئی کارکنوں کو اسلام اور پاکستان سے وفاداری کی سزا دی جارہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان جے یو آئی قیادت نے ہمیشہ امن کی بات کی ،لیکن ریاست شاید امن کے جذبے کا انتقام لے رہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان حالات تباہی کے دھانے پہنچ گئے ہیں لیکن حکومت اور ریاست کو کوئی پرواہ نہیں ۔ مولانا فضل الرحمان میڈیا سیل جے یو آئی پاکستان

استاذ محترم شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی طرف سے ایران پر امریکی حملوں اور پاکستان کے نوبل پرائز کے لیے منتخب کرنے پر تبصره


امریکا نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پہ حملہ کر دیا ذرائع


ایک بار پھر اسرائیل کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل کو ایک مصری ہیکر نے ہیک کر لیا، جس نے قرآن پاک کی تلاوت نشر کیں، اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کرنے والے نعرے شائع کیے۔

دلخراش واقعہ چند دن پہلے برادرم مولانا اسجد محمود صاحب ڈیرہ اسماعیل خان سے لکی مروت جے ٹی آئی کے سابق مرکزی جنرل سیکرٹری آصف اللہ مروت کی اہلیہ کے جنازے میں شرکت کرنے جارہے تھے ان کے ساتھ تین گاڑیاں تھیں سہ پہر کوئی چار بجے کا وقت ہوگا اور یہ کوئی کچے کا علاقہ نہیں تھا بلکہ یہ قومی شاہراہ این 55 پر تھانہ یارک کے حدود میں موقع تھا راستے میں 30 ،40 مسلح لوگ ان کے سامنے کھڑے ہوگئے ان کا راستہ روک لیا ان میں راکٹ لانچر اٹھائے لوگ بھی تھے کہ آپ تین گاڑیوں پر مشتمل سب لوگوں نے ہمارے ساتھ جانا ہوگا ہمیں امیر کا حکم ہے اس دوران اسجد محمود کے محافظوں نے بھی بندوق تھان لئے کہ زندہ ہم نے کسی صورت نہیں جانا ہے بہرحال مین ہائی وے پر تقریبا پندرہ بیس منٹ لے جانے اور نہ جانے کی بات ہورہی تھی کہ اس دوران ان لوگوں نے اپنے امیر سے رابطہ کیا تو وہاں سے گرین سگنل ملنے پر ان کا راستہ چھوڑا گیا۔ یہ کوئی عام بندے کی بات نہیں ہورہی بلکہ یہ ملک کے نامور سیاستدان مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے کے ساتھ ایسا ہوا ہے خود سوچیں عام آدمی کا کیا حال ہوگا ہمیں تو پہلے سے علم تھا لیکن بات چھپائی رکھی آج سینیٹ میں مولانا عطاءالرحمن صاحب اس پر بولے ہیں تو ہم نے لب کشائی کردی۔ سیکیورٹی میں ناکامی چاہے کچے میں ڈاکووں کے ساتھ ہو یا خیبرپختون خواہ میں کسی مقام پر سوال یہ ہے کہ ہماری ریاست انڈیا جیسی ملک کے ساتھ تو گھنٹوں میں نمٹ سکتی ہے تو یہاں چھوٹے گروہوں کے سامنے بے بس کیوں ہے؟ یہی سوال مولانا فضل الرحمن صاحب نے بھی کل حیدرآباد جلسے میں اٹھادیا ہے خیبرپختون خواہ میں تو ریاست کی رٹ مکمل طور پر زیرو بٹہ زیرو ہے۔ تحریر = عارف اللہ مروت

*امریکہ و اسرائیل: عرب ومشرقِ وسطیٰ کے بارے چشم کشا تاریخی حقائق کا تسلسل* *تدوین و اضافہ: محمد عمران مسجدی* امریکا اور برطانیہ نے سالہا سال بعثت پارٹی اورصدام حسین (۱۹۷۹-۲۰۰۳)کی مدد کی اور پھر کہاکہ وہ عراق کو اس کے ایک قابل نفرت ظالم سے نجات دلا رہے ہیں۔۔۔فی الاصل عراق پر اختیار تمام عرب اقوام کے خلاف ایک انتہائی سنگین خطرے کی علامت ہے۔۔۔ عراق کے خلاف مہم اور جنگ جس کا بیان کردہ مقصد ایک مخصوص حکومت کا تختہ الٹ دیناتھا مگر اصل مقصد ایک انتہائی طاقت ور عرب ملک کو تباہ و برباد کر دینا تھا۔۔۔ عرب، ایک قوم نہیں متفرق ملکوں کا مجموعہ ہیں جو بیرونی مداخلت اور حکمرانی کے لیے بے عذر دستیاب ہو جاتے ہیں۔۔۔ حالیہ ’امریکی -اسرائیلی تسلط‘ کا ایک در پردہ سازشی انداز فکر ۱۹۴۰ء کے عشرہ سے امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں سے ظاہر ہے۔ عرب قوم پرستی سے انکی نہایت زہریلی اور گہری مخاصمت ہے اور عربوں کی مخالفت ہر ممکن طریقے سے گویا ان پر واجب ہے۔۔۔آج (غالباً ۲۰۰۳)امریکا کا مقصد یہ ہے کہ عرب دنیا کا ایک نیا نقشہ بنائے ، ایسا نقشہ جو عربوں کے بجائے امریکی مفادات کے مطابق ہو۔۔۔ عربوں کا انتشار، اجتماعی بے عملی ، فوجی اور اقتصادی کمزوریوں پر ہی تو امریکی پالیسی پھل پھول رہی ہے۔۔۔ ایک بات صداقت سےبیان کر دینا چاہوں گا کہ بیسویں صدی کے ابتدا سے ہی عرب اپنی سرزمین پر غیر ملکی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی بنا پر اپنی مکمل یا جزوی آزادی بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ آج کوئی بھی عرب ریاست حسبِ خواہش اپنے وسائل کا سودا نہیں کر سکتی یا اپنے ریاستی مفادات کے مطابق کوئی موقف اختیار نہیں کر سکتی ہے، بالخصوص اس صورت میں کہ اسکے مفادات سے امریکی پالیسیوں کو خطرہ لاحق ہو۔ ۔۔ جب سے امریکا نے بالادستی حاصل کی ، اس نے مشرقی وسطی کے بارے میں اپنی پالیسی انہی دو اصولوں پر قائم کی :(۱)۔اسرائیل کادفاع اور (۲)۔عربوں کی سرزمین سے تیل کی آزادانہ ترسیل۔۔۔امریکی پالیسی ہر نمایاں پہلو سے عربوں کے لیے ذلت آمیز ، معاندانہ اور عرب اقوام کی امنگوں کے منافی رہی ۔۔۔نہ تو ان کی بے اندازہ اجتماعی اقتصادی طاقت نے اور نہ ان کے عوام کے ارادوں نے عرب ریاستوں میں اتنی تحریک بھی پیدا نہیں کی کہ انکار کا خفیف سا اشارہ بھی دیتے۔ ہر حکومت، خوفزدہ رہتی ہے کہ امریکا سے تعلقات کہیں خراب نہ ہو جا ئیں۔بعض امریکی امداد پر انحصار کرتے ہیں،دیگر امریکا کے فوجی تحفظ پر تکیہ کرتے ہیں۔وہ امریکا کے غرور اور طنطنے کو اور ان سے ملنے والی تحقیر کو ترجیح دیتے ہیں (امریکی صدر ٹرمپ کا حالیہ خلیجی ریاستوں کا دورہ۲۰۲۵)۔۔۔ عراق پر حملے کے بعد اب عرب شدید مایوس، کچلے اور پٹے نظر آتے ہیں اور اس سے زیادہ کچھ کرہی نہیں سکتے کہ امریکا کے اعلان کردہ منصوبے کو چپ چاپ مان لیں جس کے تحت مشرق وسطی کا نقشہ از سر نو کھنیچا جائے گا جو امریکا کے یعنی اسرائیل کے مفادات کے مطابق ہوگا(غزہ -اسرائیل جنگ ۲۰۲۳-۲۵ملاحظہ ہو)۔۔۔ فلسطین کے بارے امریکی روڈ میپ منصو بہ اسلئے بنایا:(۱) فلسطینی خانی جنگی کو مزید تیز کرے (۲) فلسطینی، اصلاح کی غرض سے اسرائیلی -امریکی مطالبوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر عمل کریں ، جسکے عوض انہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔۔۔ عراق میں امریکی طرز کی جمہوریت لانے کے معنی یہ ہیں کہ ملک کو بنیادی طور پر امریکی پالیسی سے نتھی کر دیا جائے ، یعنی ایک معاہدہ امن اسرائیل کے ساتھ ، تیل کی منڈیاں امریکی منافع کے لیے اور نظم و نسق کم سے کم ہو کہ نہ تو حقیقی اختلاف کی اجازت دی جائے ، نہ صحیح معنوں میں ادارے قائم ہوں ۔(کیا اب بھی مغرب کی گود میں بیٹھی شام کی الشرع حکومت کی حیثیت اور مستقبل نظر نہیں آتا)۔۔۔عراقی آئین کی سپرویژن صہیونی امریکی پروفیسر فیلڈ مین نے کی جو نہ صرف عراق کے منھ پر طمانچہ ہےبلکہ تمام عربوں اور مسلمانوں کے قانونی دانشوروں کے چہرے پر بھی ہے، امریکہ کہتا ہے کہ’’ہم نے عراق کو ایک نئی جمہوریت عطا کی ‘‘۔یہ تذلیل اتنی گاڑھی ہے کہ اسے چاقو سے تراشا جا سکتا ہے۔ ۔۔ اس درجہ طاقت کے مظاہرے کے بعد ایک ہی ممکنہ امتناعی صورت یہ رہ گئی تھی کہ عرب حکمران اور ان کے عوام اپنے مابین بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کریں،مشترکہ دشمن سے مزاحمت کے لیے ایک ایک شہری کو متحرک کریں اور ایک مشترکہ محاذ بنا ئیں۔۔۔ عرب دنیا کے بارے میں اقوام متحدہ کی پچھلے سال کی ترقیاتی رپورٹ پڑھی تو حیران رہ گیا کہ اسمیں عرب دنیا میں سامراجی مداخلتوں کا اقرار نہ ہونے کے برابر تھا۔۔۔امریکی اسرائیلی جارحیت کے خلاف آج فلسطین کی حیثیت کتنی موثر ہوتی اگر یہ عرب ممالک (امریکی وزیرخارجہ۲۰۰۱-۲۰۰۵)کولن پاول کے ساتھ ملاقاتیوں کے دفد میں اپنی اپنی حیثیت کے تعین کے لیے تگ ودو کے بجائے اتحاد کا مشترکہ مظاہرہ ہوتا ۔ ۔۔ بنیادی مسئلہ محض فلسطین میں ہی نہیں ہر جگہ حکمرانوں اور عام لوگوں کے درمیان تفرقے کا ہے، جو سامراجیت کی ایک زہریلی شاخ کی طرح پھوٹ نکلا ہے۔۔۔آج عرب عام اسے چاہیں یا نہ چاہیں، لیکن انکےمستقبل کو ایک سامراجی طاقتامریکہ کے بھر پور حملے کا سامنا ہے، جو اسرائیل کے ساتھ مل کر ہمیں سمجھا بجھا کر ، ڈرا دھمکا کر اور آخر میں ہمیں چھوٹی چھوٹی متحارب حکومتوں میں تبدیل کر دے گا، ایسی حکومتیں جن کی اولین وفاداری اپنے عوام کے ساتھ نہیں بلکہ ز بر دست سپر پاور ( اور اسکے مقامی پاسداروں) کے ساتھ ہوگی۔۔۔پہلا قدم یہ ہوگا کہ مسئلے کے پھیلاؤ کو سمجھا جائے اور پھر صورت حال پر قابو پایا جائے جس نے ایک لا چار غصے اور محرومی کے ردعمل تک پہنچا دیا ہے۔۔۔ میرے خیال میں بہت سے عرب ان دنوں یہ محسوس کرتے ہیں کہ گذشتہ دو مہینوں کے اندر عراق پر جو کچھ گزری وہ ایک ہولناک تباہی سے کچھ ہی کم تھی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ صدام حسین کی حکومت ہر لحاظ سے قابل نفرت تھی اور اس قابل تھی کہ اسے ہٹا دیا جاتا۔ ان بہت سے لوگوں کا غم و غصہ بھی برحق ہے، جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کی حکومت کس انتہا کی ظالمانہ اور آمرانہ تھی اور عراق کے عوام کسی بھیا تک عذاب سے گزرتے آئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی حکومتوں نے اور افراد نے صدام حسین کو اقتدار میں رکھنے کے لیے چشم پوشی سے کام لیا ۔ سبھی نے منہ پھیر لیا اور اپنے اپنے کام سے لگے رہے۔ ان سب کے باوجود کوئی ایک بھی بات اخلاقی طور پر جائز یا منطقی طور پر درست نہ تھی، سوائے اندھی فوجی طاقت کے جس سے امریکا کے لیے جواز نکل آیا کہ اس ملک پر بمباری کرے اور اس کی حکومت کو تباہ کر دے۔ امریکا اور برطانیہ نے سالہا سال تک بعث پارٹی اور صدام حسین کی مدد کی اور یہ اختیار نے پاس رکھا کہ صدام کی آمریت میں خود اپنی اعانت سے انکار کا حق استعمال کریں اور پھر یہ کہیں کہ وہ عراق کو اس کے ایک قابل نفرت ظالم سے نجات دلا رہے ہیں۔ اور اب ملک میں جنگ کے دوران اور وہاں کے عوام اور تہذیب کے خلاف اینگلو امریکی جنگ کے بعد بھی کچھ یوں نظر آرہا ہے کہ فی الاصل عراق پر اختیار تمام عرب اقوام کے خلاف ایک انتہائی سنگین خطرے کی علامت ہے۔ سب سے پہلے تو ہمارے لیے یادر کھنے کی بہت اہم بات یہ ہے کہ اپنے بہت سے تفرقوں اور متنازعوں کے باوجود عرب در حقیقت ایک قوم نہیں متفرق ملکوں کا مجموعہ ہیں جو بیرونی مداخلت اور حکمرانی کے لیے بے عذر دستیاب ہو جاتے ہیں۔ سولہویں صدی میں عربوں پر سلطنت عثمانیہ کے دور حکومت سے اب تک واضح طور پر حکمرانی کا ایک تسلسل پایا جاتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں عثمانیوں کے بعد انگریزی اور فرانسیسی آئے ، پھر انکے بعد دوسری عالمی جنگ کے دوران میں امریکی اور اسرائیلی آئے، حالیہ امریکی اسرائیلی تسلط کا ایک در پردہ سازشی انداز فکر اور جو ۱۹۴۰ء کے عشرہ سے امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں سے ظاہر ہے، عرب قوم پرستی سے ان کی نہایت زہریلی اور گہری مخاصمت ہے اور عربوں کی مخالفت ہر ممکن طریقے سے گویا ان پر واجب ہے۔ عرب قوم پرستی کا بنیادی مفروضہوسیع تر معنوں میں یہ ہے کہ ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود اور یہ کہ اپنے داخلی وجود میں اور طرز اظہار میں میں الگ ہوتے ہوئے بھی یکجا ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی زبان اور کلچر کی شناخت عرب ہے اور مسلمان ہیں ( آپ انہیں عربی بولنے والی اقوام کہہ سکتے ہیں، جیسا کہ البرٹ حورانی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ) وہ سب مل کر ایک قوم بنتے ہیں اور انہیں شمالی افریقہ سے ایران کی مغربی سرحدوں تک پھیلی ہوئی منتشر ریاستوں کا ایک مجموعہ نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ چنانچہ اس مفروضے کے آزادانہ اظہار پر علانیہ حملہ کیا گیا ، جس طرح کہ ۱۹۵۶ء کی جنگ سوئیز میں ہوا ۔ الجزائر کے خلاف فرانس نے نو آبادی جنگ لڑی ، پھر قبضہ کرنے اور پرانے لوگوں کو داخل کرنے کی وہ جنگ جو اسرائیل نے چھیڑ دی اور عراق کے خلاف مہم ، ایک ایسی جنگ جس کا بیان کردہ مقصد ایک مخصوص حکومت کا تختہ الٹ دینالیکن اصل مقصد ایک انتہائی طاقت ور عرب ملک کو تباہ و برباد کر دینا تھا۔ اور جس طرح فرانس، برطانیہ، اسرائیل اور امریکہ نے عبدالناصر کے خلاف مہم چلائی تھی جس کا کھلا مقصد طاقت کا استعمال تھا اور صاف طور پر کہا گیا تھا کہ ان کی مہم سے مراد عربوں کو ملا کر ایک طاقت ور آزاد سیاسی قوت تیار کرنا تھا، عین اسی طرح آج غالباً (۲۰۰۳ ۔ صدام حکومت گرائی گئی)امریکا کا مقصد یہ ہے کہ عرب دنیا کا ایک نیا نقشہ بنائے ، ایسا نقشہ جو عربوں کے مفادات نہیں بلکہ امریکی مفادات کے مطابق ہو۔ عربوں کا منتشر ہونا ، ان کی اجتماعی بے عملی ، ان کی فوجی اور اقتصادی کمزوریوں ، امریکی پالیسی انہی باتوں پر تو پھل پھول رہی ہے۔ اس دلیل سے تو کوئی احمق ہی انکار کرے گا کہ الگ الگ عرب ریاستوں کی قوم پرستی اور جداگانہ حیثیت ، خواه و و عرب ریاست مصر ہو، شام ہو، کویت یا اردن ہو، ایک بہتر اور زیادہ مفید سیاسی حقیقت پر مبنی ہوگی، بہ نسبت کسی ایسی بین العرب اسکیم کے جو ان کے درمیان اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی دائروں میں تعاون کے لیے کی جائے۔ یہ ٹھیک ہے اور میں ان ( عرب ریاستوں ) کے درمیان مکمل ادغام کی ضرورت بھی نہیں سمجھتا لیکن کسی طرح کا باہمی تعاون اور منصو بہ ان توہین آمیز چوٹی کی کانفرنسوں سے بہت ہوگا جس نے عراق کے بحران کے دور میں ہماری قومی زندگی کے خدو خال بگاڑ دیے۔ ہر عرب یہ سوال کرتا ہے ، جس طرح ہر غیر ملکی پوچھتا ہے کہ عرب اُن مقاصد کے حصول کی جدو جہد کے لیے، جن کی حمایت کے وہ سرکاری طور پر دعویدار ہیں اور ان میں فلسطین بھی ہے، جس کے لئے عرب عوام شدت سے جدو جہد میں شریک ہیں اور جس میں وہ گہرا یقین رکھتے ہیں، تو یہ عرب اپنے وسائل مجتمع کیوں نہیں کرتے ؟ میں یہ دلیل دے کر اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا کہ عرب قومیت پرستی کے فروغ کی خاطر جو کچھ بھی کیا جائے ، وہ سب اپنی غلطیوں کے ساتھ قابل معافی ہے اس کی کوتاہ بینی ، وسائل کا زیاں ، تشدد اور حماقت ، یہ کوئی اچھا ریکارڈ نہیں ہے۔ لیکن میں ایک بات صداقت کے ساتھ بیان کر دینا چاہوں گا کہ بیسویں صدی کے ابتدا سے ہی عرب اپنی سرزمین پر اس کی علاقائی اور تہذیبی اہمیت کے حوالے سے غیر ملکی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی بنا پر اپنی اجتماعی آزادی مکمل آزادی یا جزوی آزادی بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ آج کوئی بھی عرب ریاست حسبِ خواہش اپنے وسائل کا سودا نہیں کر سکتی یا اپنے ریاستی مفادات کے مطابق کوئی موقف اختیار نہیں کر سکتی، بالخصوص اس صورت میں کہ اس کے مفادات سے امریکی پالیسیوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ جب سے امریکا نے ساری دنیا پر بالادستی حاصل کی ہے اور خاص طور پر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے، اس نے مشرقی وسطی کے بارے میں اپنی پالیسی اور انہی دو اصولوں پر قائم کی ہے، اسرائیل کے دفاع اور عربوں کی سرزمین سے تیل کی آزادانہ ترسیل میں(مشرقِ وسطیٰ میں۱۹۰۸میں اور سعودیہ [دمام] میں ۱۹۳۸ میں آئل دریافت ہوا)۔ اور یہ دونوں ہی باتیں عرب قوم پرسی کے خلاف جاتی ہیں۔ امریکی پالیسی بہ استثنائے چند مواقع کے ، ہر نمایاں پہلو سے عربوں کے لیے ذلت آمیز ، معاندانہ اور عرب اقوام کی امنگوں کے منافی رہی ہے۔ (مصر کے جمال )ناصر کی حیرت انگیز کامیابی اور پھر اس کی وفات کے بعد ایسے حکمراں نہ مل سکے، جنہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ، جس کی ان سے توقع کی جاتی تھی۔ ان عرب ریاستوں میں سے کسی نہ کسی ریاست پر شدید دباؤ کا زمانہ بھی آیا ہے۔ ( مثال کے طور پر ۱۹۸۲ میں لبنان پر اسرائیل کا حملہ، یا عراق پر پابندی جس کا مقصد اس کے عوام کو اور ریاست کو بہ اعتبار مجموعی کمزور کرنا تھا ، لیبیا اور سوڈان پر بمباری، شام کو دھمکی سعودی عرب پر دباؤ )۔ لیکن ان سب کی اکٹھی کمزوری ایسی ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جائے۔ نہ تو ان کی بے اندازہ اجتماعی اقتصادی طاقت نے اور نہ ان کے عوام کے ارادوں نے عرب ریاستوں میں اتنی تحریک بھی پیدا نہیں کی کہ انکار کا خفیف سا اشارہ بھی دیتے۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی حاکمانہ پالیسی پوری طرح حاوی رہی ہے، کیونکہ ہر حکومت اس امکان سے خوفزدہ رہتی ہے کہ اس کے امریکا سے دو طرفہ تعلقات کہیں خراب نہ ہو جا ئیں ۔ کسی بھی وقوعے کے امکان پر خواہ وہ کتنا ہی فوری نوعیت کا ہو مصلحت کو بہر طور ترجیح دی جائے گی ۔ بعض ممالک امریکی امداد پر انحصار کرتے ہیں، کچھ دیگر ممالک امریکا کے فوجی تحفظ پر تکیہ کرتے ہیں۔ یہ بات بہر حال طے ہے کہ وہ ایک دوسرے پر اتنا زیادہ اعتماد نہیں کرتے جتنی شدت کے ساتھ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کا خیال کرتے ہیں (جس کے معنی یہ ہیں کہ بالکل نہیں کرتے ) وہ امریکا کے غرور اور طنطنے کو اور ان سے ملنے والی تحقیر کو ترجیح دیتے ہیں جو عرب ریاستوں کے ساتھ معاملات میں بتدریج بڑھتی ہی جارہی ہے، کیونکہ وہ واحد سپر پاور ہے، جس کے غرور کی کوئی حد نہیں ۔(امریکی صدر ٹرمپ کا حالیہ خلیجی ریاستوں کا دورہ۲۰۲۵) ۔بڑی عجیب بات ہے کہ عرب ملکوں نے باہر کی حقیقی جارحیت کے ساتھ اس طرح جنگ نہیں کی جتنی آسانی کے ساتھ وہ ایک دوسرے سے جنگ کرتے آئے ہیں۔ عراق پر حملے کے بعد اب اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عرب قوم شدید طور پر مایوس، کچلی ہوئی اور پٹی ہوئی نظر آتی ہے اور اس سے زیادہ کچھ کرہی نہیں سکتی کہ امریکا کے اعلان کردہ منصوبے کو چپ چاپ مان لے جس کے تحت مشرق وسطی کا نقشہ از سر نو کھنیچا جائے گا جو امریکا کے یعنی اسرائیل کے مفادات کے مطابق ہوگا۔ اس غیر معمولی طور پر زبر دست اسکیم کے جواب میں عرب ریاستوں کی طرف سے کوئی خفیف سی اجتماعی آواز سنائی نہیں دی ، جو بظاہر سہمے ہوئے سے نظر آتے ہیں اور کسی نئی بات کے رونما ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ (غزہ -اسرائیل جنگ ۲۰۲۳-۲۵ملاحظہ ہو)۔ادھر بش ، رمسفیلڈ ، پاول اور دیگر ا چکتے پھر رہے ہیں کہ ابھی دھمکی دی، پھر منصوبے کا اعلان کر دیا، پھر دورہ، پھر بمباری کی دھمکی، پھر یک طرفہ اعلان ۔ اس ساری صورت حال میں جو بات خاص طور پر درد ناک ہے وہ یہ کہ جہاں عربوں نے امریکی تجویز ( یا چار بیتی ) کو کلیتاً تسلیم کر لیا ہے، جو جارج بش کے خواب بیداری کا نمونہ ہے، وہیں اسرائیل نے اقرار کو بس اپنی حد تک محدود رکھا۔ فلسطینی کو دیکھتے ہوئے کیا محسوس ہوگا کہ ابو مازن جیسا دوسرے درجے کا لیڈر جو ہمیشہ (یاسر) عرفات کا تابعدار نائب رہا ہے، کولن پاول کو اور امریکیوں کو گلے لگاتا ہے، جبکہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی یہ بات سمجھتا ہے کہ امریکی روڈ میپ منصو بہ بنایا اس لیے گیا ہے کہ : (۱) فلسطینی خانی جنگی کو مزید تیز کرے اور (ب) فلسطینی، اصلاح کی غرض سے اسرائیلی -امریکی مطالبوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر عمل کریں ، جس کے عوض انہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ہم اور کتنے ذلیل ہوں گے؟ اور جہاں تک عراق میں امریکا کے منصوبوں کا تعلق ہے قطعی طور پر ظاہر ہے کہ وہاں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا کہ ایک نو آبادتی حکومت بالکل پرانے طرز کی قائم ہو جائے گی ۔ بالکل اسی طرح جیسے ۱۹۶۷ء سے اسرائیل کا قبضہ چلا آ رہا ہے۔ عراق میں امریکی طرز کی جمہوریت کو لانے کے معنی یہ ہوں گے کہ ملک کو بنیادی طور پر امریکی پالیسی سے نتھی کر دیا جائے گا، یعنی ایک معاہدہ امن اسرائیل کے ساتھ ، تیل کی منڈیاں امریکی منافع کے لیے اور نظم و نسق کم سے کم ہو کہ نہ تو حقیقی اختلاف کی اجازت دی جائے ، نہ صحیح معنوں میں ادارے قائم ہوں ۔(کیا اب بھی مغرب کی گود میں بیٹھی شام کی الشرع حکومت کی حیثیت اور مستقبل نظر نہیں آتا)۔ شاید یہ بھی خیال ہو کہ عراق کو لبنان کی خانہ جنگی کے دور میں پہنچایا جائے ۔ میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا لیکن جس طرح کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، اس کی ایک چھوٹی سے مثال ہے۔ حال ہی میں امریکی اخبارات میں اس مفہوم کا اعلان شائع ہوا کہ نیو یارک یونیورسٹی میں قانون کے ایک اسٹنٹ پروفیسر ۳۲ سالہ نوحا فیلڈیس کو عراق کا نیا آئین بنانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ (یہ دراصل نوحا فیلڈ مینnoah feldman ہے جو غالباً ترجمہ کے دوران فیلڈیس بن گیا۔حتمی عراقی آئین ۲۰۰۵ کے فائنل مسودہ کی نگرانی پروفیسر نوح فیلڈمین نے کی، اسکے ساتھ ڈاکٹر رعد القادری اسسٹنٹ ۔م)۔اس اہم تقریر کی بابت ذرائع ابلاغ کی مہیا کردہ تفصیلات کے مطابق فیلڈ مین اسلامی قانون کے ایک نہایت ذہین اور غیر معمولی اہلیت کے حامل ماہر ہیں۔ انہوں نے پندرہ سال کی عمر سے عربی سیکھنی شروع کی اور بڑے ہو کر ایک کٹر صیہونی بن گئے۔ لیکن انہوں نے عرب دنیا میں کہیں بھی قانون کی پیروی نہیں کی ۔ کبھی عراق نہیں گئے اور معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کے بعد عراق کے حقیقی مسائل اور ان کے عملی پس منظر سے آگاہ نہیں ۔ عراق کے منھ پر ایسا طمانچہ مارا ہے، اور نہ صرف عراق بلکہ پورے عربوں اور مسلمانوں کے قانونی دانشوروں پر جو عراق کے مستقبل کی خدمت میں قابل قبول خدمات انجام دے سکتے تھے۔ لیکن نہیں ، امریکا چاہتا ہے کہ یہ کام کوئی تازہ دم نو خیز انجام دے اور وہ یہ کہہ سکے کہ ’’ہم نے عراق کو ایک نئی جمہوریت عطا کی ہے‘‘۔یہ تذلیل اتنی گاڑھی ہے کہ اسے چاقو سے تراشا جا سکتا ہے۔ ان سب حالات کے سامنے جو بات اتنی حوصلہ شکن ہے ، وہ ہے ظاہری ناتوانی اور محض اس لیے نہیں کہ اس سے اجتماعی طور پر نپٹنے کے لیے حقیقی طور پر کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ کوئی فرد جو اس صورتِ حال کو باہر سے دیکھ رہا ہو ور اس پر سوچتا بھی ہو جس طرح میں دیکھ رہا ہوں. اس کے لیے یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ بحران کے ان لمحات میں بھی ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ حکمرانوں نے اپنے عوام سے مدد مانگی ہو کہ آخر اسے پوری قوم کے لیے خطرناک سمجھنے کی ضرورت تھی۔ امریکا کے فوجی منصوبہ سازوں نے اس حقیقت کو صیغہ راز میں نہیں رکھا کہ ان کا منصوبہ عرب دنیا میں غیر معمولی تبدیلی کرنا ہے، ایسی تبدیلی جسے وہ طاقت کے ذریعے نافذ کریں گے۔ کیونکہ ان کو کسی اختلاف کا سامنا نہیں ۔ اس کے علاوہ ان کوششوں کا محرک اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ عرب اقوام کے اسی اتحاد کو ایک بار پھر ہمیشہ کے لیے تباہ کر دیا جائے ۔ ان کی زندگی کی بنیاد یں اور امنگیں اس طرح تبدیل کر دی جائیں کہ پھر ان کی درستی ممکن نہ ہو سکے۔ میرا خیال تھا کہ اس درجہ طاقت کے مظاہرے کے بعد ایک ہی ممکنہ امتناعی صورت یہ رہ گئی تھی کہ عرب حکمران اور ان کے عوام اپنے مابین بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ لیکن جیسا کہ ظاہر ہے اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہوگی کہ ہر عرب حکومت معاشرے کو اپنے عوام کے لیے کھول دے۔ ان کو لب کشائی کے لیے آمادہ کرے۔ تمام سخت حفاظتی اقدامات ختم کرے، تا کہ ایک نئے سامراج کے خلاف منظم مزاحمت کے اسباب پیدا ہوں۔ ایک قوم جسے ڈرا دھمکا کر جنگ میں شریک کیا جائے یا ایک قوم جسے دبایا اور جس کا منہ بند رکھا گیا ہو، اسکے لیے اس موقع پر اٹھ کھڑا ہونا ہرگز ممکن نہیں ہو گا۔ اب ہماری ناگزیر ضرورت ایسے معاشروں کی ہے جو حکمرانوں اور عام لوگوں کے در میان ایک خود ساختہ محاصرے کی کیفیت سے آزاد ہوں۔ اس کے عوض وہ آزادی اور حق خود اختیاری کی مداخلت کیوں نہ کریں اور جمہوریت کا خیر مقدم کیوں نہ کریں؟ یہ کیوں نہ کہو کہ ہم ایک مشترکہ دشمن سے مزاحمت کے لیے یک ایک شہری کو متحرک کریں گے اور ایک مشترکہ محاذ بنا ئیں گے؟ ہماری رضامندی کے بغیر ہماری زندگیوں کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی جو سامراجی حکمت عملی وضع کی گئی ہے اس کے خلاف ہمیں ہر دانش ور کو اور ہر سیاسی طاقت و یکجا اور متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ مزاحمت کو انتہا پسندوں پر اور خود کشن ہم بازوں پر ہی کیوں چھوڑ دیا جائے؟ اس گفتگو سے ہٹتے ہوئے میں ایک بات عرض کروں کہ جب میں نے عرب دنیا کے بارے میں اقوام متحدہ کی پچھلے سال کی ترقیاتی رپورٹ پڑھی تو اس بات پر حیران رہ گیا کہ اس میں عرب دنیا میں سامراجی مداخلتوں کا اقرار نہ ہونے کے برابر تھا۔ اور پھر سامراجی مداخلتوں کا اثر کتنا گہرا اور دیر پا رہا ہو گا ۔ میں یہ بات یقیناً نہیں مانتا کہ ہمارے سارے مسائل کے ذمہ دار صرف باہر والے ہیں، لیکن میں یہ بھی کہوں گا کہ سارے مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں ۔ تاریخ کے سیاق و سباق اور سیاسی ٹوٹ پھوٹ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قوام متحدہ کی رپورٹ میں اس طرف کوئی توجہ نہیں تھی ۔ جمہوریت کے نا پید ہونے کی وجہ جزوی طور پر ایک تو مغربی طاقتوں کے ساتھ سمجھوتے تھے اور دوسری طرف چھوٹی چھوٹی حکمراں پارٹیاں اور حاکم تھے۔ اس لیے نہیں کہ عربوں کو جمہوریت سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ اس بنا پر کہ اس سارے ڈرامے میں بہت سے فعال کرداروں نے جمہوریت کو اپنے لیے خطرہ کہا۔ علاوہ ازیں جمہوریت کے لیے صرف امریکی طریقہ کیوں اختیار کیا جائے ؟ ( عام طور پر اس سے مراد، آزاد منڈی اور انسانی حقوق اور سماجی خدمات کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ) یہ ایسا موضوع ہے جو زیادہ غور و بحث کا تقاضہ کرتا ہے، لہذا امیل اصل نقطے کی طرف واپس آتا ہوں۔ ذرا سوچئے! کہ امریکی اسرائیلی جارحیت کے خلاف آج فلسطین کی حیثیت کتنی موثر ہوتی اگر (یہ عرب ممالک امریکی وزیرخارجہ۲۰۰۱-۲۰۰۵)کولن پاول کے ساتھ ملاقاتیوں کے دفد میں اپنی اپنی حیثیت کے تعین کے لیے تگ ودو کے بجائے اتحاد کا مشترکہ مظاہرہ ہوتا ۔ اتنے ال گزرنے کے بعد میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ اسرائیلی قبضے کی مخالفت کی خاطر فلسطینی لیڈر ایک مشترکہ اور متحدہ حکمتِ عملی کیوں نہیں بنا سکے اور کبھی ایک اور کبھی دوسرے مچل اورٹینٹ کی طرف یا کسی کو کورٹیٹ پلان ( چار بیتی منصوبے) کی طرف بھٹکتے رہے۔ تمام فلسطینیوں سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہمارے سامنے ایک ہی دشمن ہے، جس کا منصوبہ ہماری زندگیوں پر اور ہماری زمینوں پر تصرف حاصل کرنا ہے، اور یہ سب کچھ بخوبی ظاہر ہے اور ہم سب کو اس کے خلاف مل کر لڑنا چاہیے؟ بنیادی مسئلہ محض فلسطین میں ہی نہیں ہر جگہ حکمرانوں اور عام لوگوں کے درمیان اصل تفرقے کا ہے، جو سامراجیت کی ایک زہریلی شاخ کی طرح پھوٹ نکلا ہے۔ یہی جمہوریت کے ساتھ شراکت کا خوف ، گویا بہت زیادہ آزادی دینے سے مقتدر نو آبادیاتی اشرافیہ، شاہی اقتدار کی عطا کردہ مراعات میں سے چند سے محروم ہو جائے گی ۔ اس کا نتیجہ صرف یہی نہیں کہ اس مشترکہ جدوجہد میں ایک ایک فرد کے متحرک نہ ہونے کی کمی محسوس ہوگی ، بلکہ منتشر ہونے کا عمل اور گھٹیا گروہ بندی اور زیادہ بڑھ جائیں گے، جیسا کہ حالات سے ظاہر ہے، آج کی دنیا میں رب شہریوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، جو لا تعلق اور شرکت کرنے سے بے نیاز ہیں۔ آج عرب عام اسے چاہیں یا نہ چاہیں، لیکن ان کی مستقبل کو ایک سامراجی طاقت۔۔۔ امریکہ کے بھر پور حملے کا سامنا ہے، جو اسرائیل کے ساتھ مل کر ہمیں سمجھا بجھا کر ، ڈرا دھمکا کر اور آخر میں ہمیں چھوٹی چھوٹی متحارب حکومتوں میں تبدیل کر دے گا۔ ایسی حکومتیں جن کی اولین وفاداری اپنے عوام کے ساتھ نہیں بلکہ ز بر دست سپر پاور ( اور اس کے مقامی پاسداروں) کے ساتھ ہوگی ۔ اس بات کو نہ سمجھنا کہ یہ تنازعہ آئندہ سالہا سال کے لیے ہمارے اس علاقے کو ایک ہی نئی شکل دے گا، گویا بخوشی اپنی آنکھیں بند کر لینا ہو گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ہتھکڑیوں کو توڑ دیا جائے ، جنہوں نے عرب معاشروں کو غیر مطمئن شہریوں، غیر محفوظ رہنماؤں اور بے تعلق دانشوروں کو آہنی ٹکڑیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ ایسا بحران ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں پہلا قدم یہ ہوگا کہ مسئلے کے پھیلاؤ کو سمجھا جائے اور پھر اس صورت حال پر قابو پایا جائے جس نے ایک لا چار غصے اور محرومی کے ردعمل تک پہنچا دیا ہے، ایسی حالت جو کسی طور سے بھی حسبِ منشا قبول نہیں کی جاسکتی ۔ ایسی غیر دلچسپ صورت حال کی یوں ایک ہی کیفیت ہو سکتی ہے۔۔۔۔ امید اور زیادہ اُمید۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عربوں کے احوال از ایڈورڈ سعید، مترجم: حسن عابدی

ایران اسلامی برادری کا حصہ ہے،ایران پر اسرائیل کے جارحانہ حملے کی ہم صرف مذمت نہیں کرتے بلکہ ہم ایران کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ نیتن یاہو کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہورہا ہے اور وہ مسلمانوں کے خلاف دندناتا پھر رہا ہے،اس ماحول میں جمعیۃ علماء اسلام سب کو جنجھوڑ رہی ہے کہ فلسطین کے بعد ایران پر حملہ ہوا ہے اس کے بعد اگلی باری کس اسلامی ملک کی ہوگی ؟ اگر حرمین شریف کی طرف پیشرفت کی گئی تو ہم جس طرح آج فلسطین کے ساتھ کھڑے اسی طرح دنیا کا ہر ایک مسلمان حرمین شریفین کے تحفظ کے لئے اپنا خون بہا لے گا لیکن حرمین شریفین پر آنچ نہیں آنے دے گا۔! مولانا فضل الرحمن

ایران اسرائیل جنگ لبرل ورلڈ آرڈر پر کاری ضرب کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ مادی طور پر بے حد طاقتور قوتوں کی راجدھانی میں ایک ایسے پابندی زدہ ملک کا ردعمل جس پر اسلامی لیبل لگا ہو وہ سب کو حیرت میں ڈال چکا ہے۔ اہل ایمان کے لیے تو یہ عمل اللہ کا وجود، اللہ کی حقانیت، اللہ کی حاکمیت پر ایقان بڑھا گیا۔ باقی سب ٹیکنالوجی وغیرہ کے دھندوں میں لگے ہوئے ہیں