
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 9, 2025 at 09:56 AM
*اسلام، مغرب اور مغربی میڈیا: پروفیسر ایڈورڈ سعید کی نظر سے*
*مرتبہ و ترجمہ: محمد عمران مسجدی*
سعیدنےمسلمانوں اور اسلام کے خلاف مغرب کی مبالغہ آمیزی، نہ تبدیل ہونے والی سوچ اور گہری دشمنی کا اعتراف کرتے کہا کہ مغرب کے نزدیک اسلام ہائی جیکنگ اور دہشتگردی کا دوسرا نام ہے۔۔۔ مشرق سے متعلق مغرب کاعلم، حقائق پر مبنی نہیں ۔ مغربی مفکرین نے مشرق، مشرقی وسطی اور مسلمانوں کی تہذیبوں کا مطالعہ خالصتاً سیاسی مقاصد کے پیش نظر کیا اور منفی انداز میں پیش کیا ہے۔۔۔ مغربی میڈیا مسلمانوں اور عربوں کو تیل سپلائی کرنے والے اور دہشتگردوں کے طور پر پیش کرتا ہے اور ان کی زندگی اور جذبات کے حوالے سے بہت کم معلومات فراہم کی جاتی ہیں ۔ ۔۔ میڈیا اسلام کوخواتین کے حجاب، قتل پر پھانسی کی سزا، مذہب کے خلاف کتب جلانے کے غیر علمی عمل، شراب اور جوئے پر پابندی اور شادی سے قبل اور بعد کے جنسی معاملات کے اظہار پر پابندی کے حوالے سے پیش کرتا ہے۔۔۔اسلام کے حوالےسے تشدد، پسماندگی، رجعت پسندی اور دہشت گردی کی اصطلاحات کی تکرار اسلیے کی جاتی ہے تا کہ یہ عوام کے کانوں سے محو نہ ہو سکیں ۔۔۔ مغربی میڈیا اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ اسلامی گروپوں کی اکثریت امریکہ کی اتحادی یااس کے زیر کفالت ہے ۔امریکہ، مسلم ممالک کی جن حکوموں کی اعلانیہ حمایت کر رہا ہے وہ اپنے ممالک کے عوام سے کٹی ہوئی ہیں اور حکمران طبقہ اقلیت میں ہے ،جو مسلم ایجنڈے پر عمل کے بجائے اپنی بقا کے لیے امریکہ کی سر پرستی حاصل کرنے پر مجبور ہے۔امریکہ کی اسی مداخلت کے باعث ان ممالک میں عسکریت پسند سر اٹھا رہے ہیں۔۔۔مسلمان کے ایمان ، ثقافت اور مسلم عوام کو خطرناک قرار دے کر اس کا تعلق واضح طور پر دہشتگردی، بنیاد پرستی اور تشدد کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ ۔۔ اسرائیل کے حامی ’’اسلام ایک خطرہ ہے‘‘ کے تاثر کو اسلیے تسلسل سےپھیلا رہے ہیں تا کہ امریکی اور یورپی باشندے اسرائیل کو مظلوم اور مسلمانوں کو ظالم جان لیں ۔۔۔آج امریکی یونیورسٹیوں یا کالجوں میں زیر تعلیم امریکی طلبہ سے پوچھا جائے کہ ’مسلم‘ کے کہتے ہیں تو ان سب کا متفقہ جواب یہی ہو گا کہ بندوق لہراتا، داڑھی والا متعصب دہشت گرد جس کی زندگی کا مقصد اپنے عظیم دشمن امریکہ کو تباہ کرناہے، اسے مسلمان کہتے ہیں (یاد رہے ایڈورڈ سعید بے شمار مغربی تعلیمی اداروں سے وابستہ رہا)۔ ۔۔ سیکولر ازم کی دعویدار طاقتوں کی جدیدیت اور سیکولر ازم محض دکھاوا ہے جسکے پردے میں وہ اسلام کو کمتر ثابت کرنے کی مذہبی جنگ لڑتے ہوئے اپنی لاعلمی اور غلط بیانی پر بضدہیں۔۔۔ مغرب میں اسلام کے حوالے سے مدلل اور حقیقی خیالات بہت کم نظر آتے ہیں کیونکہ مارکیٹ ایک ایسے اسلام کو پیش کرتی ہے جوغصہ ور اور دوسروں کے لیے خطرہ ہے اور سازشوں کے سہارے پھل پھول رہا ہے۔۔۔ اسلامی دنیا کے اندرونی خلفشار کی موجودگی میں اسلام سے کسی خطرے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔۔۔اگر خود کش حملے اسلام سے خطرے کی علامت ہیں تو پھر یہ کوئی خطرہ نہیں کیونکہ انھوں نے اسرائیل ، امریکہ اور مسلم دنیا میں ان کی حلیف حکومتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے سوا اور کوئی کام نہیں کیا۔۔۔ الغرض یورپ اور امریکہ میں عوام کے لیے اسلام ایک ناخوشگوار خبر ہے جس کے متعلق میڈیا، حکومت اور ماہرین سب کی متفقہ رائے یہی ہے کہ اسلام مغرب اور مغربی تہذیب کے لیے خطرہ ہے ۔ ۔۔ اسلام پر کوئی سنجیدہ ادبی کتاب شائع ہوتی ہے تو اس پر چند ایک تبصرے ایسے اخبارات میں شائع ہوتے ہیں جن کی سرکولیشن محدود ہوتی ہے۔ اس کے بعد کتاب غائب ہو جاتی ہے۔((یاد رہے! سعید کی تحریرو تنقید، اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سےمغرب کے ان ابتدائی حالات اور فضا تیار کرنے کا احاطہ کرتی ہے جس کے بعد اور دوران نائن الیون ہوا، جنگجو گروہ ابھرے،دہشتگردی کے خلاف جنگ کو افغانستان سےفلسطین تک اورلبنان و شام و اردن و یمن تک تادیبی کاروائیوں کی شکل میں پھیلادیا گیا ہے، نیز پوری دنیا خصوصاً مسلم نیشن اسٹیٹس میں حکومتی سطح پر ریاست مخالف ایکٹرز کے خلاف فوجی کاروائیاں جاری ہیں۔م))
ایڈورڈ سعید ۱۹۳۵ء میں بیت المقدس میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق فلسطین کے ایک عیسائی گھرانے سے تھا۔ فلسطین کا تنازع شروع ہوا تو ان کے والد اپنے خاندان کے ساتھ قاہرہ منتقل ہو گئے ۔ ایڈورڈ نے اپنی ابتدائی تعلیم بیت المقدس اور قاہرہ میں جبکہ اعلیٰ تعلیم امریکہ میں حاصل کی۔ وہ نیو یارک کی کولمبیا یو نیورسٹی میں پروفیسر کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ بے شمار امریکی یونیورسٹیوں میں مہمان پروفیسر کے طور پر بھی لیکچر دیتے رہے۔ وہ یورپ ، ایشیا اور مشرق وسطی کے متعدد اخباروں میں لکھتے تھے۔ انھوں نے فلسطینی ریاست کے قیام اور اسرائیل میں فلسطینیوں کے لیے برابری کے حقوق پر زور دیا۔ انھوں نے ۱۹۶۹میں فلسطین کے حوالے سے پہلا مضمون لکھا جس میں فلسطینیوں کا بھر پور دفاع کیا گیا۔ ایڈورڈ نے بائیسں کتب لکھیں جن کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔
مغربی خصوصاً امریکی میڈیا کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سخت رویے کو تاریخ، ثقافت اور ہر حوالے سے غلط قرار دیتے ہوئے ایڈورڈ نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ میڈیا کے اس منفی رویے نے عوام کے ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویرا جا گر کی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مغرب کی مبالغہ آمیزی، نہ تبدیل ہونے والی سوچ اور گہری دشمنی کا ذکر کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ مغرب کے نزدیک اسلام ہائی جیکنگ اور دہشت گردی کا دوسرا نام ہے۔ ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اسرائیل نے بھی تو مسلم علاقوں پر قبضہ کیا ہے اور کچھ عرب مسلم علاقوں کو اپنے ملک میں زبردستی شامل بھی کیا ہے۔ پھر مغربی قو تیں اسے اس بات کی سزا کیوں نہیں دیتیں ؟ آخر مسلم ممالک اور مسلم عوام ہی کیوں حقارت اور غیر متوازن وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنتے ہیں ۔ آج صورت حال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ مغرب خصوصا امریکیوں کی اکثریت اسلام کو فساد کا دوسرا نام کہتی ہے۔ ایڈورڈ کی رائے میں مغربی مفکرین نے مشرق، مشرقی وسطی اور مسلمانوں کی تہذیبوں کا مطالعہ خالصتاً سیاسی مقاصد کے پیش نظر کیا ہے۔
مشرق سے متعلق مغرب کے علم کے حوالے سے ایڈورڈ سعید بلا تامل کہتا ہے کہ یہ علم حقائق پر مبنی نہیں ہےبلکہ پہلے سے قائم شدہ اس نظریے کے حوالے سے ہے کہ مشرقی معاشرے مغربی معاشروں سے متضاد اور بنیادی طور پر ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ اس نظریے نے مشرق کو مغرب کے لیے غیر مہذب بنا دیا ہے۔ مشرق کو مغربی تہذیب کے مقابلے میں منفی حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔ ایڈورڈ نے طاقت اور علم کے مابین تعلق پر کھل کر بحث کی ہے اور مشرقی وسطی افریقہ اور ایشیا کی تاریخ اور تہذیب کے حوالے سے مغربی رویوں کا بھر پور تجزیہ کیا ہے۔
وہ واضح کرتا ہے کہ مغربی میڈیا مسلمانوں اور عربوں کو تیل سپلائی کرنے والے اور دہشت گردوں کے طور پر پیش کرتا ہے اور ان کی زندگی اور جذبات کے حوالے سے بہت کم معلومات فراہم کی جاتی ہیں ۔ اسلامی دنیا سے متعلق محدود اور اصلیت سے دور خاکے پیش کیے جاتے ہیں ۔ ایڈورڈ سعید اپنے مضمون Islam Through Western Eyes میں کہتا ہے:
"Very little of the detail, the human density, the passion of Arab-Moslem life has entered the awareness of even those people whose profession it is to report the Arab World.
ایڈورڈ مغربی میڈیا کے کردار پر کڑی تنقید کرتا ہے کہ مغربی میڈیا ہی اس چیز کا تعین کرتا ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ اور یہ کہ میڈیا نے نہایت محدود انداز میں اس امر کا یقین کر رکھا ہے کہ اسلام کے بارے میں مغرب کو کیا جاننا چاہئے اور کیا نہیں۔ یہ میڈیا اسلام کوخواتین کے حجاب، قتل پر پھانسی کی سزا، مذہب کے خلاف کتب جلانے کے غیر علمی عمل، شراب اور جوئے پر پابندی اور شادی سے قبل اور بعد کے جنسی معاملات کے اظہار پر پابندی کے حوالے سے پیش کرتا ہے۔ الجیریا، لبنان اور مصر کو شدت پسند، پاکستان، سعودی عرب اور سوڈان کو پس ماندہ ذہنیت اور تنگ نظری، فلسطین، کشمیر اور انڈونیشیا کو عالی تنازعات کا سبب بننے اور ترکی اور ایران کو انتہائی خطرناک اسلامی ممالک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ایڈ ورڈ نے نشاندہی کی ہے کہ مغربی میڈ یا نہیں چاہتا کہ عوام کو پتا چلے کہ اسلام میں مرد اور عورت برابر ہیں۔ اسلام جرائم اور ان کی وجوہات کے تدارک کے سلسلے میں بہت سخت ہے۔ یہ علم اور بہتری کا مذہب ہے جو انسان کی اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے اور بھائی چارے اور اتحاد جیسے مضبوط تہذہبی اصولوں کی تعلیم دیتا ہے۔ معاشرتی طور پر اسلام عدل اور انصاف کا درس دیتا ہے اور روحانی طور پر ایک مکمل عملی مذہب ہے ۔
وہ کہتا ہے کہ مغربی میڈیا آزادی خیالات، جمہوریت اور ترقی کے نام پر اسلام کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کر رہا ہے۔ اس کے ذہن پر بنیاد پرست کا غلبہ ہے مگروہ یہ نہیں جانتا کہ بنیاد پرستی کا اسلام کی نسبت عیسائیت، یہودیت اور ہندومت سے زیادہ گھیرا تعلق ہے۔ ایڈورڈ لکھتا ہے:
"Thus one thing about "terrorism" is the imbalance in its perception, and the imbalance in its perpetration. One could mention, for example, that in every instance when Israeli hostages were used to try to gain the release of Palestinians held in Israeli jails, it was always the israeli forces who offered fire first, knowingly causing a bloodbath..."(Edward W. Said The question of palestine)
’’اس طرح "دہشت گردی" کے بارے میں ایک چیز اس کے ادراک میں غیر متوازن اور اس کے ارتکاب میں عدم توازن رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی یہ ذکر کر سکتا ہے کہ جب بھی اسرائیلی یرغمالیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے لیے استعمال کیا گیا تو ہمیشہ اسرائیلی افواج نے پہلے گولی باری کی، دانستہ خون خرابہ کا سبب بنا۔ ۔۔‘‘
ایڈورڈ سعید نے اسرائیل اور امریکہ کے ارادوں اور منصوبوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ عرب ممالک فلسطینیوں کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں؟
فلسطین کے حوالے سے ان کا ایک اور سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ یہودی اور امریکی فلسطینیوں کے بارے میں کیا سوچ اور کر رہے ہیں اور کن اخلاقی اور سیاسی معیارات کے تحت فلسطینیوں سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے قومی تشخص سے دستبردار ہو جائیں اور اپنی زمین اور انسانی حقوق کو فراموش کر دیں ۔ فلسطین کے حوالے سے یہ تمام مسائل نہایت پیچیدہ ہیں اور ان کے پس منظر میں بڑی طاقت کی سیاست شامل ہے۔ علاقائی جھگڑوں اور نظریاتی مسائل کا شعور ہی در اصل فلسطینی تحریک کی بنیاد ہے۔ ایڈورڈ کے بقول:
"According to the most precise calculation get made, approximately 780,000 Arab-Palastinians were disapossessed and displaced in 1948 in order to facilitate the reconstruction and rebuilding of Palestine. These are 48 the Palestinian refugees who now number well over two million."(Edward W. Said, The Question of Palestie)
’’سب سے درست حساب کتاب کے مطابق، 1948 میں تقریباً 780,000 عرب-فلسطینیوں کو بے گھر اور دربدر کردیا گیا تھا تاکہ فلسطین کی تعمیر نو اوراز سرِ نو بنانے میں آسانی ہو۔ یہ 48 کے فلسطینی پناہ گزین ہیں جن کی تعداد اب 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔‘‘
ایڈورڈ نے مغربی میڈیا کے شعوری طور پر اسلام میں بنیاد پرستی کے تصور کے فروغ کی کاوشوں کو شد یدتنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرز عمل کے نتیجے میں مغرب کے ذہن میں اسلام کا تصورمحد ود ہو گیا ہے اور مسلمانوں کے ایمان، اسلام کے بانی اور اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ایک منفی سوچ پیدا ہوگئی ہے ۔
اسلام کے حوالےسے تشدد، پسماندگی، رجعت پسندی اور دہشت گردی کی اصطلاحات کی تکرار اس لیے کی جاتی ہے تا کہ یہ عوام کے کانوں سے محو نہ ہو سکیں ۔ جس قسم کی باتیں دنیا کے کسی اور مذ ہب ، ثقافت یا عوام کے بارے میں نہیں جاتیں، مغربی میڈ یا اسلام کو بلا تامل ان کا نشانہ بناتاہے۔ اسلام کے متعلق یہ طرزِ عمل نہایت غیر امہ داران فعل ہے۔
ایڈورڈ مغربی ناقدین کی کم علمی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اپنی کم علمی کو چھپانے کے لیے اسلام اور اس کے اندر موجو علم و حکمت کو بیمار ذہنیت کا شاخسانہ بنا کر پیش کرتےہیں۔ مغرب کی نظر میں اسلام اور بنیاد پرستی ہر اس چیز کے برابر ہے جس سے مغرب کو اسی طرح مقابلہ کرنا ہے جیسے سرد جنگ کے ایام میں کمیونزم سے کیا گیا تھا۔
ایڈورڈنے مغربی میڈیا کی کج بحثی کے مقابلے میں پروفیسر جان اسپازیٹو(john esposito) کو ایسی واحد شخصیت قرار دیا ہے جس نے اپنی کتاب ’’ اسلامی خطرہ خیالی یا حقیقی the islamic threat: myth or reality میں معقول اور مدلل انداز میں مغرب کے اس نظریے کو باطل ثابت کیا ہے کہ اسلام ایک خطرہ ہے۔
اس کی رائے میں مغربی میڈیا اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ اسلامی گروپوں کی اکثریت امریکہ کی اتحادی یااس کے زیر کفالت ہے اور یہ کہ امریکہ سعودی عرب ، ایڈونیشیا، ملائشیا، پاکستان، مصر، مراکش، اردن اور ترکی کی جن حکوموں کی اعلانیہ حمایت کر رہا ہے وہ اپنے ممالک کے عوام سے کٹی ہوئی ہیں اور حکمران طبقہ اقلیت میں ہے جو مسلم ایجنڈے پر عمل کے بجائے اپنی بقا کے لیے امریکہ کی سر پرستی حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ امریکہ کی اسی مداخلت کے باعث ان ممالک میں عسکریت پسند سر اٹھا رہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اسلام ایک خطرہ ہے" کی تکرار سے مسلمانوں کی کتنی دل آزاری ہوگی اور اس تکرار سے ہر مسلمان یہ تاثر لے گا کہ اس کے ایمان ، ثقافت اور مسلم عوام کو خطرناک قرار دے کر اس کا تعلق بھی واضح طور پر دہشتگردی، بنیاد پرستی اور تشدد کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔
ایڈورڈ نے نشاندہی کی ہے کہ اسرائیل کے حامی ’’اسلام ایک خطرہ ہے‘‘ کے تاثر کو اس لیے تسلسل کے ساتھ پھیلا رہے ہیں تا کہ امریکی اور یورپی باشندے اسرائیل کو مظلوم اور مسلمانوں کو ظالم جان لیں ۔ اسلام کو خطرہ قرار دینے کا مقصد عربوں کے ذہنوں سے اس بات کو دھندلانا بھی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اسلام دشمنی میں کیا کر رہے ہیں۔ انھی دو ممالک نے مصر، اردن، شام، لیبیا، صومالیہ اور عراق سے مسلم ممالک پر ہماری اور زمینی حملے کیے کے اور اسرائیل تو اس وقت بھی چار عرب مسلم ممالک کے علاقوں پر قابض ہے اور امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے اس فوجی قبضے کی تعلم کھلا حمایت کرتا ہے۔ ((جون 2025تک اسرائیل چار کے بجائےپانچ عرب ممالک پر قابض ہے: فلسطین، شام، مصر، لبنان، اردن (غربِ اردن)۔م))
ان حقائق کی روشنی میں وہ مسلمانوں پر اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتا ہے کہ مسلمان مغرب کی جدیدیت سے برہم ہیں ۔ ایڈورڈ کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ان طاقتوں سے شکایت ہے جو اسرائیل اور امریکہ کی طرح آزاد جمہوریت ہونے کی دعویدار ہیں مگر کمزوروں کے ساتھ ان کا سلوک جمہوری اقدار کے منافی اور ذاتی مفاد اور تحقیر پر مبنی ہوتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اگر عراق مسلم ملک نہ ہوتا اور اس نے تیل کی دولت سے مالا مال ایک ایسے ملک پر قبضہ نہ کیا ہوتا جس کے ذخائر امریکہ کے لیے محفوظ ہیں تو اس پر بھی حملہ نہ ہوتا بلکہ جس طرح امریکہ نے مغربی کنارے اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے اور مشرقی بیت المقدس کے انضمام کو نظر انداز کیا ہے بالکل ویسے ہی عراقی حملے کوبھی نظر انداز کر دیا جاتا۔
ایڈورڈ سعید کے نزدیک اسلامی معاشرے کے حوالے سے احساس کمتری شخصی آزادی کی عدم موجودگی ، انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے نظریات کی غیر حقیقی تصویر کشی نے اسلام اور مسلمانوں کو مغرب کے نزدیک نا پسندیدہ اور گھٹیا چیز بنا دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے ہمیشہ اسلام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔
امریکی میڈیا کے نزدیک اسلام اور عرب ایک ہیں اور ان پر وقفے وقفے سے حملے کیے جاسکتے ہیں۔ اسلام سے متعلق مغربی میڈیا کے منفی پر چار کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر آج امریکی یونیورسٹیوں یا کالجوں میں زیر تعلیم امریکی طلبہ سے یہ پوچھا جائے کہ مسلم کے کہتے ہیں تو ان سب کا متفقہ جواب یہی ہو گا کہ بندوق لہراتا، داڑھی والا متعصب دہشت گرد جس کی زندگی کا مقصد اپنے عظیم دشمن امریکہ کو تباہ کرناہے، اسے مسلمان کہتے ہیں ۔ (((یاد رہے! ایڈورڈ سعید بے شمار مغربی اعلیٰ تعلیمی اداروں سے وابستہ رہا۔م))
مغربی میڈیا نے جہاد کے حوالے سے ایسی بے شمار فلمیں بنائی ہیں جن کا نداز سنکی ہے اور جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان دہشتگرد کہاں کہاں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسی فلموں کا مقصد امریکہ میں جہاد کے خوف کو ابھارنا اور اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرناہے۔ بڑے پیمانے پر ایسی فیچر فلمیں تیار ہورہی ہیں جن کا مقصد مسلمانوں کو انسانیت کی سطح سے گرا ہوا شیطان ثابت کرنا اور مغرب اور خصوصاً امریکہ کو اتنے جرات مند اور زبردست ہیرو کے روپ میں پیش کرناہے جو ان مسلمانوں کو آسانی سے قتل کر سکتا ہے۔
عرب اور مسلم دہشتگرد کو ایسے ولن کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے جس کی چمکدار آنکھوں میں امریکیوں کوقتل کرنے کی خواہش جھلکتی ہے۔ ایسی فلموں میں تمام مسلمانوں کو بلا امتیاز شرانگیز اور متشددقرار دینے کے ساتھ ساتھ واجب القتل ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایڈورڈ سیکولر ازم کی دعویدار طاقتوں پر چوٹ کرتا ہے کہ ان کی جدیدیت اور سیکولر ازم محض دکھاوا ہے جس کے پردے میں وہ اسلام کو کمتر ثابت کرنے کی مذہبی جنگ لڑتے ہوئے اپنی لاعلمی اور غلط بیانی پر بضدہیں۔ مغرب میں اسلام کے حوالے سے مدلل اور حقیقی خیالات بہت کم نظر آتے ہیں کیونکہ مارکیٹ ایک ایسے اسلام کو پیش کرتی ہے جوغصہ ور اور دوسروں کے لیے خطرہ ہے اور سازشوں کے سہارے پھل پھول رہا ہے۔ اسلام کی ایسی تصویر کشی میں مالی فائدے کے ساتھ ساتھ ہیجانی کیفیت بھی پیدا کی جاتی ہے جو لطف لینے کے لیے بھی کی جاسکتی ہے اور غیر ملکی برائی کے خلاف جذبات کو بھڑکانا بھی اس کا مقصد ہو سکتا ہے ۔
ایڈورڈ سعید نے رچرڈ بلیٹ ( richard bullies) کی کتاب اسلام؛ ایک کنارے سے جائزہ islam: the view from the edge کو یک غیر معمولی نفیس اور بہترین کتاب قرار دیا ہے جس میں اسلام کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا گیا ہے مگر انھیں افسوس ہے کہ ایسی ہر کتاب کے مقابلے میں بے شمار کتابیں اور مضامین سامنے آجاتے ہیں جو اسلام اور دہشتگردی کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔
اس نے برنارڈ لوئیس کو اسلام کے خلاف ثقافتی جنگ میں سب سے زیادہ سرگرم شخصیت قرار دیا ہے جس کا شمار ان برطانوی مستشرقین میں ہوتا ہے جو اسلام کو عیسائیت اور اپنی آزادانہ روش کے خلاف خطرہ سمجھتے ہیں ۔ لوئس نے اپنی تحریروں میں اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ اسلام اس معلوم، مانوس اور قابلَ قبول دنیا کا حصہ ہی نہیں ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ وہ یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ مسلمان چونکہ مغرب سے تعلق نہیں رکھتے اس لیے وہ اچھے ہو ہی نہیں سکتے ۔ ایڈورڈ کے نزدیک لیوئس اپنے اس خیال کے ساتھ اس بری طرح چمٹا ہوا ہے کہ اسے کچھ اور سجھائی ہی نہیں دیتا۔
ایڈورڈ تسلیم کرتا ہے کہ مغرب میں اسلامی خطرے کو جس حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے، خطرہ اتنا نہیں ہے تاہم مسلمانوں سے اسلام کے نام پر جواپلیں کی جارہی ہیں ان میں اسلام کا نام استعمال کر کے امریکہ اسرائیل اتحاد کے خلاف مزاحمت کو بھڑ کا یا گیا ہے مگر ان کا رروائیوں کا الٹا اثر یہ ہوا ہے کہ امن قائم کرنے کی کوششوں ہی سے کاری ضرب لگتی ہے۔ اسلامی دنیا کے اندرونی خلفشار کی موجودگی میں اسلام سے کسی خطرے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔
اگر خود کش حملے اسلام سے خطرے کی علامت ہیں تو پھر یہ کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ انھوں نے اسرائیل ، امریکہ اور مسلم دنیا میں ان کی حلیف حکومتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے سوا اور کوئی کام نہیں کیا ۔ اسلام کی تصویر کو جس مسخ شدہ انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اس کے متعلق جتنی غلط فہمیاں پیدا کر دی گئی ہیں اس کے باعث مغرب میں نہ تو اس مذہب کو سمجھنے اور دیکھنے اور نہ ہی سننے کی خواہش باقی رہی ہے۔ اسلام کے متعلق الٹی سیدھی باتیں کرنے والے لوگ اناڑی اور علمیت سے عاری تھے اس کے باوجود مغرب میں جو لوگ خبروں سے دلچسپی رکھتے ہیں مغربی میڈیا انھیں سمجھانے کے لیے دہشت گردی کی خبروں کو مسلمانوں اور مساجد کی تصویروں کے ساتھ ایسے جوڑ کر پیش کرتا ہے کہ اسلام دشمنی اور لاعلمی پھیلتی جارہی ہے۔
امر یکی ٹیلی ویژن کے تبصروں کے حوالے سے ایڈورڈ کہتا ہے کہ امریکہ میں ٹیلی ویژن کے تمام بڑے مبصرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمان اس ملک سے نفرت کرتے ہیں اور جب یہ گفتگو شاعرانہ انداز اختیار کرلیتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بحرانوں کا ہلال ایک طوفان کی طرح سرسبز و شاداب علاقوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔پھر ایسا مجمع دکھایا جاتا ہےجو اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مجمع کے ایسا کہنے کا مقصد امریکہ سے نفرت کا اظہار ہے۔
مشرق اور اسلام سے متعلق امریکی میڈیا کی رپورٹنگ کی خامیوں کے حوالے سے ایڈورڈ کا تجزیہ ہے کہ اگر اسی طرز پر مغربی یورپ کی رپورٹنگ کی جائے تو اسے کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔ اخباری صحافی جانتے ہیں کہ ٹیلی ویژن کے نمائندے ہر روز ایسی کہانیاں پیش کر سکتے ہیں جو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کریں۔ چنانچہ وہ قارئین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے طریقے سوچتے ہیں۔ یہی کشمکش انھیں حقیقی کو ریج اور صحیح رپورٹنگ سے دور کر دیتی ہے۔ ٹیلی ویژن کے پروگرام صرف ان لوگوں کے لیے نہیں ہوتے جو خبریں سننا چاہتے ہیں بلکہ حکومتوں کے لیے بھی ہوتے ہیں اور سیاسی حلقوں کے لیے بھی۔ اسی احساس نے امریکہ کے رپورٹروں کو محدود اور مختصر انداز میں سوچنے پر مجبور کیا ہے۔
الغرض یورپ اور امریکہ میں عوام کے لیے اسلام ایک ناخوشگوار خبر ہے جس کے متعلق میڈیا، حکومت اور ماہرین سب کی متفقہ رائے یہی ہے کہ اسلام مغرب اور مغربی تہذیب کے لیے خطرہ ہے ۔ اسلام پر کوئی سنجیدہ ادبی کتاب شائع ہوتی ہے تو اس پر چند ایک تبصرے ایسے اخبارات میں شائع ہوتے ہیں جن کی سرکولیشن محدود ہوتی ہے۔ اس کے بعد کتاب غائب ہو جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ اسلامی ثقافت کو شعوری طور پر غیر موزوں بنانے کا نتیجہ یہ ہے کہ ناقدین نے زیادہ گہرائی میں جائزہ لینے کے بجائے اسی روایتی کام کو جاری رکھا جو پہلے سے ہو رہا تھا اور میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے کارٹونوں کی اشاعت کو ہی اسلام شناسی سمجھ لیا۔
ایڈورڈ سعید نے اسلام کے حوالے سے مغرب اور مغربی میڈیا کے متعصبانہ انداز فکر و عمل کو جس حقیقت اور جرأت کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس نے اگر چہ ایڈورڈ کو مغرب میں ایک متنازعہ شخصیت بنادیا اور اسے تند و تیز تبصروں اور بے جا تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر علمی وادبی دنیا میں ایڈورڈ کو ایک دیانت دار، بے باک اور حق گو مصنف اور ناقد کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، جس کی تحریروں کے بغور مطالعے سے اسلام کے حوالے سے مغرب اور مغربی میڈیا کے متعصبانہ طرز عمل اور اس کے محرکات نہایت وضاحت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔
((یاد رہے! سعید کی تحریرو تنقید، اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سےمغرب کے ان ابتدائی حالات اور فضا تیار کرنے کا احاطہ کرتی ہے جس کے بعد اور دوران نائن الیون ہوا، جنگجو گروہ ابھرے،دہشتگردی کے خلاف جنگ کو افغانستان سےفلسطین تک اورلبنان و شام و اردن و یمن تک تادیبی کاروائیوں کی شکل میں پھیلادیا گیا ہے، نیز پوری دنیا خصوصاً مسلم نیشن اسٹیٹس میں حکومتی سطح پر ریاست مخالف ایکٹرز کے خلاف فوجی کاروائیاں جاری ہیں۔م))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈورڈ سعید کے تنقیدی نظریات کا تجزیاتی مطالعہ (اسلام مغرب اور مغربی میڈیا کے خصوصی حوالے سے )از ڈاکٹر رابعہ سرفراز