❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 9, 2025 at 09:57 AM
*اسرائیل کی حماس مخالف فلسطینی پراکسی: ابو شباب کی پاپولر فورس* *تحقیق و ترجمہ: محمد عمران مسجدی* یہ گینگ اسرائیلی پراکسی بن چکا ہےجو اسرائیل کی نسل کشی، نسلی تطہیر اور فاقہ کشی کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔۔۔ یہ ایسے ہی گروہ ہیں جو امداد کی لوٹ مار کرنے، انسانی ہمدردی کے کارکنوں پر حملہ کرنےاور امریکی-اسرائیلی حمایت یافتہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GFH) کے ساتھ تعاون کرنے کے ذمہ دار ہیں۔۔۔ تیسری قوت (پراکسی یا اسٹیٹ بیکڈ ملیشیا) کی یہ نسل پرست اسٹریٹجی 1980-90 کی دہائی میں ساؤتھ افریقہ میں سامنے آئی۔۔۔ نیتن یاہو، جس نے حماس کو غلط فہمی کی بنا پر اربوں ڈالر نقد رقم منتقل کی کہ اس سے اسکے موقف میں تبدیلی آئے گی، اب ایک خطرناک نیا خیال فروغ دے رہا ہےکہ وہ داعش سے منسلک غزہ کی ملیشیاؤں کو مسلح کررہا ہے(سابق اسرائیلی چیف آف سٹاف )۔۔۔ اسکے قبیلے کے سرکردہ افراد نے اس سے اظہارِ لاتعلقی کرتے کہا کہ انہوں نے اس وقت تک ’’اس کا خون حلال کر دیا ہے‘‘ جب تک وہ اپنے اعمال سے باز نہیں آتا۔۔۔ نیتن یاہو نے ISIS سے منسلک غزہ کے ان گروہوں کی حمایت کرنے کا اعتراف کیا جن پر انسانی امداد چوری کرنے کا الزام ہے اور وہ اسرائیل کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے اسرائیلی پراکسی بن گئے ہیں۔چند روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم نے اس بات کی تصدیق کی کہ: اسرائیلی حکومت جنوبی غزہ میں مبینہ داعش (ISIS)سے منسلک اور مجرم ملیشیاؤں کو مسلح، مالی امداد اور تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ اسرائیلی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ ’’حماس کی حکومت کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کا فائدہ ہمیں ہوتا ہے‘‘۔ 300 جنگجوؤں کا ایک گروہ، جس میں غیر تربیت یافتہ منشیات فروش، چور، قاتل اور بنیاد پرست شامل ہیں، حماس کے 30,000 عسکریت پسندوں کو زیر نہیں کر سکتے تاہم زمینی حقائق اس سے کہیں زیادہ مذموم اسکیم کی نشاندہی کرتے ہیں: وہ گینگ ایک پراکسی ہےجو اسرائیل کی نسل کشی، نسلی تطہیر اور فاقہ کشی کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ یہ ایسے ہی گروہ ہیں جو امداد کی لوٹ مار کرنے، انسانی ہمدردی کے کارکنوں پر حملہ کرنےاور امریکی-اسرائیلی حمایت یافتہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GFH) کے ساتھ تعاون کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ گروہ مشرقی رفح میں علاقے میں کیمپ قائم کر رہے ہیں جس علاقے میں اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو دھکیل رہی ہےاور لوٹی گئی غذائی اجناس کو لوگوں کو لالچ دینے کے لئے بطور چارہ استعمال کررہی ہے۔ *یاد رہے!* چند ہفتوں قبل اسرائیل کے سابق وزیر دفاع اور اپوزیشن ایویگڈور لائبرمین avigdor liebermanکی جانب سے نیتن یاہو گورنمنٹ پر "غزہ کی پٹی میں جرائم پیشہ ملیشیاؤں" کو ہتھیار فراہم کرنے کے منصوبہ کے افشاءکئے جانے پر اسرائیل میں شور برپاہواجس کے بعد ایک اسرائیلی اہلکار نے انکشاف کیا کہ حکومت حماس کے خلاف ’’مقامی مزاحمت (صہیونی ملیشیاisraeli proxy)‘‘ کی تیاری کے منصوبے کے تحت جنوبی غزہ میں علاقے کے ایک حصے پر کنٹرول قائم کرنے والی ایک چھوٹی فلسطینی ملیشیا کو مسلح کر رہی ہے۔اس ملیشیا کے رہنما یاسر ابو شباب کو اسرائیلی فوج کی جانب سے وہ ہتھیار ملے جو جنگ کے دوران غزہ کے اندر سے ملے تھے۔نیتن یاہو نے اپنی انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا:’’اسرائیل غزہ میں حماس مخالف گروہوں کی حمایت کر رہا ہے تو اس میں کیا غلط ہے؟ یہ ایک اچھی بات ہے۔ یہ اسرائیلی فوجیوں کی جانیں بچاتا ہے‘‘۔ سابق چیف آف سٹاف کے نائب یائر گولان yair golanنے نیتن یاہو کے اس اقدام کو غلطی قرار دیتے ہوئے"ایکس" پر کہا کہ نیتن یاہو، جس نے حماس کو غلط فہمی کی بنا پر اربوں ڈالر نقد رقم منتقل کی کہ اس سے اسکے موقف میں تبدیلی آئے گی، اب ایک خطرناک نیا خیال فروغ دے رہا ہےاور وہ یہ کہ وہ داعش سے منسلک غزہ کی ملیشیاؤں کو مسلح کررہا ہے۔ گزشتہ نومبر میں، اسرائیلی اخبار ہارٹیز نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فوج "غزہ میں گروہوں کو امدادی ٹرکوں کو لوٹنے اور ڈرائیوروں سے تحفظ کی فیس وصول کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔" وہ لٹیرے ہر ٹرک سے $4,000 کی "تحفظ فیس" وصول کر رہے تھے یا پورے ٹرک پر قبضہ کر رہے تھے اور امداد کو بلیک مارکیٹ میں بیچ رہے تھے۔یہ لوٹ مار بندوق کی نوک پر ہو رہی تھی جبکہ اسرائیلی ٹینک اور فوجی کچھ میٹر ز کے فاصلے پر کھڑے تھے۔ یہ فوجی عام طور پر اپنے دائرہ کار میں آنے والے کسی بھی فلسطینی کو پہلی نظر پڑتے ہی گولی مار دیتے ہیں، لیکن یہ انکے سامنے ہتھیار لئےکھڑے ہوتے ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ یہ ہے کہ ’’اس نے اس تشویش کی وجہ سے ان گروہوں کے خلاف کارروائی سے گریز کیا کہ امدادی کارکنوں کو نقصان پہنچانے سے بین الاقوامی تنقید ہو سکتی ہے‘‘۔ لیکن درحقیقت، جب بھی مقامی پولیس یا حتیٰ کہ لاٹھیاں اٹھائے غیر مسلح رضاکار لوٹ مار کو روکنے کے لیے قریب پہنچے تو اسرائیل نے ان امدادی قافلوں پر فائرنگ اور بمباری شروع کردی۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی سربراہ سنڈی مکین cindy mccainنے متعدد مواقع پر امدادی قافلوں پر فائرنگ اور بمباری کرنے پر اسرائیل کی مذمت کی۔ غزہ کے چیمبر آف کامرس کے چیئرمین، عید ابو رمضان ayed abu ramadan نے بتایا: ’’یہ واضح ہے کہ [لوٹ مار کرنے والے گروہ] اور اسرائیلی حکام کے درمیان تعاون ہے۔اسرائیل سوائے ان گروہوں کے، سرحدوں کے قریب آنے والوں پر ہتھیاروں یا لاٹھیوں سے بمباری کردیتا ہے۔ وہ ٹرکوں کو روک کر لوٹ لیتے ہیں، پھر سرحد کے قریب علاقوں میں چھپ جاتے ہیں اور اسرائیلیوں سے تحفظ حاصل کرتے ہیں‘‘۔ واشنگٹن پوسٹ کے ذریعے حاصل کردہ اقوام متحدہ کے اندرونی میمو کے مطابق ان لوٹ مار کرنے والے گروہوں نے ملٹری کمپاؤنڈز قائم کررکھے ہیں جہاں سے وہ ٹرکوں پر حملے شروع کرتے ہیں اور لوٹے ہوئے ٹرکوں کو اتارنے کے لیے فورک لفٹ کے ساتھ گودام میں اسے منتقل کردیتے ہیں۔ اس امدادی سامان کو فروخت کرتے اور ان پر بھاری قیمت وصول کرتے ہیں۔ یہ گودام رفح میں ہیں۔یہ وہ علاقہ ہے جسے اسرائیلی فوج نے مکمل طور پر خالی کرواکر تباہی شدہ مقام بنا دیا ہے۔جو بھی فلسطینی اس میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے اسے قتل یا اغوا کر لیا جاتا ہے۔ اسرائیل نے کبھی بھی ابو شباب کے کمپاؤنڈ پر چھاپہ نہیں مارا یا بمباری نہیں کی، جس سے اقوام متحدہ کے میمو میں اسرائیل پر اس گینگ کو "فعال یا غیر فعال تحفظ" فراہم کرنے کا الزام لگایا گیاہے۔ ابو شباب گینگ،رفح کے مشرق میں کرم ابو سالم کراسنگ کے قریب اور رفح کے مغرب میں امداد تقسیم کرنے والے مقام کے قرب و جوار میں تعینات ہےاور اسرائیلی نگرانی میں اسلحہ کے ساتھ متحرک ہے۔ یہ امریکی -اسرائیلی انسانی امداد کی تقسیم کے طریقہ کار کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اسرائیلی نیوز ہارٹیز کے مطابق: اسرائیلی فوج نے گزشتہ نومبر میں کہا تھا کہ حکومت نے ان انتہائی مسلح گروہوں اور انکے پیچھے موجود قبیلوں کو امداد کی تقسیم کا ذمہ دار بنانے پر غور کیا تھا۔ یہ اسرائیلی فوج کے اس اعتراف کے باوجود ہے کہ "قبائل کے کچھ ارکان دہشت گردی میں ملوث ہیں اور کچھ اسلامک اسٹیٹ (IS)جیسی شدت پسند تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں۔" اب اس اسرائیلی اسٹریٹجی کو زمینی حقیقت کے طورپر بخوبی مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ *یاد رہے!* جنوبی افریقہ کے میڈیا ریویو نٹورک MRNکے شریک بانی اقبال جست، نسل پرست طاقتوں اور انکی تیار کردہ پراکسی تنظیموں کو تیسری قوت third forceقرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرستی کی تاریخ پر ایک سرسری نظر سے اور آزادی کی تحریکوں میں خلل اورپھوٹ ڈالنے اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے انقلاب کے مخالفین کے مکروہ کردار سے بہت سے اہم اسباق اخذ کئے جاسکتے ہیں۔1980 کی دہائی کے اوائل اور 1990 کی دہائی کے اواخر کے درمیانی عرصے میں کئی خفیہ کارروائیاں دیکھنے میں آئیں جس سے دنیا کو معلوم ہوا کہ نسل پرست حکومت کی تیسری قوت کے ہٹ اسکواڈ، قتل و ٹارگٹڈ کلنگ، تشدد اور تباہی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔اسی طرح اسرائیلی وزیرِ اعظم کی طرف سے فلسطینی مزاحمتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کردہ ایک منحرف اور مکروہ تیسری قوت کو ’حماس کے خلاف جنگ‘ میں استعمال کیا جارہا ہے۔ (Netanyahu’s Latest Gamble: “Third-Force” headed by Criminal Gang Leader Abu Shabab) یاسر ابو شباب غزہ کی پٹی کے جنوب میں رفح میں 19 دسمبر 1993 میں پیدا ہونے والا ایک 32سالہ فلسطینی ہےجو ترابین قبیلے سے تعلق رکھتاہے۔ اسکا خاندان جنوبی فلسطین کے سب سے بڑے عرب قبائل میں سے ایک ہے۔یہ خاندان غزہ کی پٹی میں موجودہے۔اسے سات اکتوبر 2023 سے پہلے مجرمانہ سرگرمیوں کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا تھا مگرسکیورٹی ہیڈ کوارٹرز پر اسرائیلی بمباری کے بعد اسے نکال لیاگیا۔ رفح میں اس جگہ کا نام اس وقت نمایاں ہوا جب حماس کے مسلح ونگ القسام بریگیڈز نے اس جگہ کو اسرائیلی ایجنٹوں کی بھرتی وپناہ گاہ قرار دیا اور ’’یاسر ابوشباب‘‘ گینگ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا۔ ابو شباب کے گروپ نے شروع میں خود کو ’’انسداد دہشت گردی فورس‘‘ کا نام دیا پھر 10 مئی 2025 کو "عوامی افواج" کے نام سے سامنے آیا۔یہ گروپ، اب خود کو "عوامی فورسزpopular forces" کہتا ہے۔اس چند سو جنگجوؤں پر مبنی ملیشیا نے ایک ویڈیو بھی جاری کی جس میں مسلح افراد کو ایم-16 ائفلیں اور کلاشنکوف لے کر غزہ کی گلیوں میں گھومتے دکھایا گیا تھا۔ یاسر ابو شباب نے اپنے قبیلے کا نام سماجی تحفظ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی مگرناکام رہا کیونکہ اسکے قبیلے کے سرکردہ افراد نے 30 مئی 2025 کو اس سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس وقت تک ’’اس کا خون حلال کر دیا ہے‘‘ جب تک وہ اپنے اعمال سے باز نہیں آتا۔

Comments