❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 10, 2025 at 01:57 PM
نفرت زدہ سیاست میں مودی و اویسی کی پالیسی۔ بھارت کی موجودہ سیاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اسد الدین اویسی کی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کا کردار نہایت اہم، پیچیدہ اور بعض اوقات متنازع رہا ہے، دونوں کی سیاست کے مختلف دھارے ہیں، لیکن بعض اوقات ان کے بیانیے اور اثرات ایک دوسرے کو متاثر کرتے نظر آتے ہیں۔ بی جے پی اس وقت بھارت کی سب سے بڑی اور برسرِ اقتدار جماعت ہے، جو ہندوتوا نظریہ پر مبنی سیاست کرتی ہے، نریندر مودی کی قیادت میں 2014 سے یہ جماعت مسلسل مرکز میں بر سر اقتدار ہے، با وجود اس کے کہ عوام کی اکثریت نے 2024 ‌کے‌ الیکشن‌‌ میں بھاجپا اقتدار کو مسترد کردیا تھا لیکن فیصل ادرے بدعنوانی کی گود میں بیٹھے ہوئے اپنا کام کرگئے اور عوام کی‌ شکست‌ ہوئ، یہی کچھ 2022 میں‌اتر پردیش میں اور 2024 میں ہریانہ و مہاراشٹرا میں ہوا، جہاں الیکشن کمیشن نے پوری طاقت سے ایلکشن‌ لڑا‌ اور نمایا جیت حاصل کی۔ ہندوتوا ایجنڈا‌ بھاجپا کی بنیاد ہے اور اس‌ کی‌ جڑیں‌ اس‌قدر مضبوط ہورہی ہیں کہ ملک کے سیکولر و جمہوری اسیٹس‌ کو زبردست خطرہ لاحق ہے۔ رام مندر کی تعمیر، کاشی، متھرا، سی اے اے، این آر سی، اور یکساں سول کوڈ جیسے معاملات کو بی جے پی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکزی حصہ بنایا، اور اب اس نے سنبھل جامع‌‌ مسجد کے علاوہ درجنوں مسجدوں کو چھیڑا ہے‌، ساتھ ہی اس نے اوقاف پر زبردست شب خون مارا ہے، جہاں بی جے پی مکمل‌ طور پر کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے، بی‌ جے پی کبھی کبھی سکھوں کو بھی چھیڑتی ہے لیکن‌ فورا پیچھے ہٹ جاتی ہے اس لئے کہ سکھ ایک زبان، ایک آواز اور ایک ایکشن ہیں، مگر مسلمانوں‌ میں یہ بات نہیں ہے ان‌ کا تہتر فرقوں پر زبردست ایمان ہے۔ مسلم پرسنل‌لا بورڈ کو عام مسلمان ایک متحدہ آواز تسلیم کرتے ہیں لیکن‌ وہ بھی‌ امید و بیم کے درمیان‌ کٹی ہوئ پتنگ کی مانند ہے، ممبران بورڈ کے بارے میں عام رجحان یہ ہے کہ وہ بھی اپنے ذاتی مفادات کے‌ پیش نظر گھٹنوں کے‌ بل زمین‌ پر آ پڑے ہیں، کسی کا ادارہ خطرہ میں ہے تو کسی کی خانقاہ، کسی کی اکیڈمی تلوار کی نوک پر تو کوئ منی لانڈرنگ کے خوف میں مبتلا ہے، ایک بہت ہی معتبر شخصیت نے بتایا کو امیر الہند نے فرمایا تھا کہ اگر ہم احتجاجا سڑکوں‌ پر نکلے تو یہ سرکار ہمیں پیس کر رکھ دے گی، ہمارے قائدین کی قیادت بس یہی ہے جسے ہم دیکھ رہے، عدالت عدالت اور عدالت،‌ کانفرنس‌ کانفرنس‌ اور کانفرنس، امیر الہند کی‌بات اگر ٹھیک بھی ہے تو پھر ہم نے‌ ان سے ہی سیکھا ہے کہ بغیر پسے‌ حنا کا رنگ نہیں نکھرتا، بہر حال جتنی دیر ہوگی اتنی مشکلیں‌ بڑھیں گی اور بے‌ تحاشہ قربانیاں دینی‌‌ پڑیں‌ گی۔ بھارتی جنتا پارٹی نے اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، ہریانہ، مہاراشٹرا اور کئی دیگر ریاستوں میں نمایاں اکثریت حاصل کی اور اب من مانے فیصلے کئے جا رہے ہیں، عدالتوں کی‌ توہین تو ان ریاستوں میں گلی ڈنڈے کے کھیل سے زیادہ نہیں، بے لگام سرکاروں کے بد تمیز وزراء نے تمام قانونی و اخلاقی حدیں توڑ دی ہیں۔ جہاں تک مسلم‌ ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ کی بات ہے تو وہ صفائ ستھرائ اور‌ مساجد میں لاؤڈ اسپیکروں یا ڈرگس کے خلاف میٹنگیں کرتے، اعلی افسران کو میمورنڈم سونپتے، زر خرید میڈیا کو بائٹ دیتے اور اخبار کے لئے عمدہ قسم کی شہ سرخی کے ساتھ پریس ریلیز جاری کرنے‌‌ میں ساری طاقت صرف کئے ہوئے ہیں جبکہ دوسری‌ طرف‌ مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا انتظام‌ ہو رہا ہے، افسوس کہ مسلم ووٹ پر دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتیں میمورنڈم دینے‌ فوٹو کھنچوانے میں ایک دوسرے کو مات دے رہی ہیں، ابو عاصم اعظمی صاحب نے مسلمانوں میں بے چینی محسوس کی اور عام‌ مجرمانہ خاموشی کو توڑتے ہوئے انہوں نے لاؤڈ اسپیکر کے متعلق آواز اٹھائ اور‌ ساتھ ہی قربانی کے تعلق سے بھی قانونی و دستوری طور پر جو ضروری تھا وہ کیا، لیکن اعظمی صاحب کے حرکت آتے ہی کانگریس‌ و ایم آئ‌ ایم نے‌ بھی دوڑو لگانے‌ شروع کردی، جیسے اس کے علاوہ کوئ ایشو بچا ہی نہیں ہے، ایم آئ‌ ایم نے موقع کا فائدہ اٹھا کر گوونڈی میں اور کانگریس نے‌ساکی ناکہ میں جلسہ بھی کر ڈالا، لیکن یہ جلسے بھی فوٹو شوٹ سے آگے نہ بڑھے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے مسلمانون کے ساتھ تعصب برتنے، ہجومی تشدد (موب لنچنگ)، اور‌ ان کی آواز کو دبانے‌‌ کے لئے سرکار پوری طاقت کا استعمال کرتی ہے، ہجومی تشدد سرکار کی خاموش تائید، بعض سنگھی لیڈران اور وزراء کے بیانات بلکہ ان کی کھلی للکار کا‌حصہ ہے۔ معاشی‌ طور پر ناکام‌ بھاجپا‌‌ نے کئ پر گرام متعارف کراۓ جیسے ڈیجیٹل انڈیا، آتم نربھر بھارت، اور ووکل فار لوکل، ان پروگراموں کے ذریعہ عوامی سطح پر اثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن‌ ناکامی ہاتھ لگی اور پھر انہیں ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا کیونکہ ان‌ پروگراموں سے ووٹ نہیں ملتا۔ موجودہ سیاست‌‌ میں ایڈوکیٹ پرکاش امبیڈکر کا کردار ناقابل فہم ہے، ان کے پاس سماج کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے، وہ بابا صاحب کی عطاء و نوازشات کے رتھ پر سوار ہیں، با وجود اس کے‌ کہ وہ ایک انتہائی با صلاحیت، شریف سیاستدان اور خورد نواز ہیں، ان کا کیڈر حقیقت‌ میں ان کے ساتھ نہیں کھڑا ہے، بابا صاحب کی وجہ سے عقیدت‌ تو ہے پر سیاسی طور‌ کیڈر کی اکثریت ذو الوجہین ہے، کچھ مسلم بازیگر بھی ان‌ کے ساتھ لگے ہوئے ہیں وہ صرف الیکشن کے دوران چند سیٹوں پر ممبئی کی زبان میں کام بجاتے ہیں، اس کے‌ لئے کچھ ایسے کام بھی کرواتے ہیں جو اخبارات کی سرخیاں بنتے ہیں، جیسے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بل، (یہ بل‌ یقینا بہت اہم ہے لیکن اس کا پاس ہونا موجودہ سیناریو میں ناممکن ہے)‌ اور اورنگ زیب کے مزار پر اچانک حاضری پھر سیاسی بھونچال وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں‌ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اسد الدین اویسی صاحب اور AIMIM کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، اب تو خاص طور پر، کیونکہ خلیجی ممالک میں سرکاری پروجیکٹ کو مطلوبہ انجام تک پہونچانے‌‌ کے‌ بعد وفادار ہندوستانی ہونے کا سرکاری سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں کامیابی جو مل گئی۔ اسد الدین اویسی صاحب حیدرآباد سے رکن پارلیمان ہیں اور AIMIM کے صدر ہیں، وہ خود کو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی آواز کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عام مسلمانوں نے اب تک ان کو قبول نہیں کیا، وجوہات کئ ہیں‌‌، ان پر پھر کبھی تفصیل سے لکھیں گے۔ سر دست یہ بتا‌تا‌ چلوں کہ اویسی صاحب یقینا اقلیتوں کی وکالت کرتے ہیں، بی جے پی اور کانگریس دونوں پر مسلم مسائل کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہیں ان کی تقریریں اکثر مسلمانوں کے حقوق، تعلیم، تحفظ اور شناخت کے گرد گھومتی ہیں، لیکن‌ اس سے کوئ انکار نہیں کرسکتا کہ ان کے والد محترم‌ مرحوم سالار کے دور سے اب تک جب جب کانگریس کی سرکار رہی وہ اس کے حامی رہے، من موہن سرکار کو اویسی صاحب کی بلا شرط حمایت تو سبھی کو یاد ہے، آپ نے‌ اس‌ دوران‌ بھی صرف تقریریں کیں، بالکل ایسے ہی جیسے اروند کیجریوال پاور میں‌‌ آنے‌ سے پہلے اور پاور میں آنے کے بعد دونوں‌ دور میں صرف‌ بھاجپا و کا نگریس‌ کو کوسنے اور بے لباس کرنے‌ میں لگے رہے، ایل جی کے خلاف احتجاج کرتے اور دھرنا‌ دیتے رہے، مسائل کے حل پر توجہ کم دی، انجام ہمارے سامنے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اویسی صاحب نے‌‌ ایک تفویض کردہ پروجیکٹ کے طور سیاسی توسیع تقریبا 2012 سے شروع کی جس وقت کانگریس کو ہٹانے اور مودی کو لا‌نے‌ کا بگل بج چکا تھا، کانگریس کے خلاف اویسی صاحب کے پاس جتنا مواد تھا وہ شاید کسی کے پاس نہیں تھا کیونکہ سقوط حیدرآباد اور پھر وہاں کی سماجی بدحالی کانگریس کی زیادتی ان‌ کی نگاہوں کے سامنے تھی اور دوسری بات یہ کہ کانگریس‌ نے ان کو جیل‌ بھی بھیج دیا تھا لہذا‌ اس حرکت نے بھی اویسی صاحب کو کانگریس کے خلاف کھڑا کیا، پھر کیا ہوا "پاسباں مل گئے کعبے سے صنم خانے کو"، اویسی صاحب کی رفتار بڑھی اور بڑھتی چلی گئی‌، مہاراشٹرا ، بہار، اترپردیش، بنگال، راجستھان، کرناٹک،‌‌ تمل‌ناڈو، دلی، جہاں‌ ضروت محسوس کی گئ وہاں کنڈیڈٹ‌ اتار دئے، نتائج کی پرواہ کئے بغیر بھر پور طریقہ سے پارٹی کو وسعت دینے کی کوشش کی گئ۔ ناقدین کا الزام ہے کہ اویسی صاحب کی سیاست فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کو مزید بڑھاوا دیتی ہے، اور بعض اوقات وہ بی جے پی کو بالواسطہ فائدہ پہنچاتے ہیں کیونکہ ان کے داخلے سے سیکولر ووٹ تقسیم ہو جاتا ہے‌، الزام لگانے‌ والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ "جنتی چابھی بھری رام نے اتنا چلے کھلونا"، میڈیا اور عوام الناس چیخ چیخ کر کہتے ہیں‌ کہ ایم آئ ایم بی جے پی کی "بی" ٹیم ہے، یہ الزام سراسر‌ غلط‌ ہے، وہ "بی" ٹیم نہین‌ "اے" ٹیم ہے، لوگوں کو چاہئے معلومات درست کرلیں۔ بعض سیاسی مبصرین اور مخالفین کا کہنا ہے کہ اویسی صاحب کی جماعت بی جے پی کے ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے کیونکہ ان کی موجودگی سے ہندو ووٹ کا پولرائزیشن ہوتا ہے، تاہم اویسی صاحب نے ہمیشہ ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے، ارے بھئ اگر کوئ پارٹی اپنا‌ وجود ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس میں کسی کو کیا تکلیف ہے، کون متحد ہوتا اور کون منتشر ہوتا ہے اگر اس پر سیاسی پارٹیاں کان دھریں‌ گی تو پھر سیاست چھوڑ دیں این جی او چلائیں‌، رہی بات ووٹ بینک مستحکم ہونے یا کرنے کی، تو یہ جان لینا چاہئے کہ اب سیاست اخلاق و کردار کی بالا دستی اور عوامی فلاح و بہبود کے جذبہ سے سرشاری کا نام نہیں بلکہ ایک غیر اعلان شدہ تجارت ہے جہا‌ں چھوٹے بڑے ہر قسم کے سودے ہوتے ہیں، جو سب کرتے ہیں‌ وہ یہ بھی کرتے ہیں‌ اس‌ میں‌ حرج‌ کیا ہے،‌ وہ خالص سیاستدان ہیں کوئ‌ امام مسجد نہیں کہ پینترے بازی میں کسی سے کم‌ ہون، البتہ کبھی کبھی کچھ حاصل کرنے لئے تو کبھی جان‌ و مال اور عزت و عظمت کے تحفظ کے لئے قدم آگے پیچھے کرنا پڑتا ہے جو سیاست کا حصہ ہے، لیکن بر سر اقتدار جماعت کی اسلام دشمنی اور‌ مسلم کش کاروائیوں پر مصلحت کے دبیز پردے ڈالنا، فرقہ وارنہ فسادات اور مسلمانوں کی‌ جانی و مالی تباہی کا ذمہ دار پڑوسیوں کو قرار دینا اور جس‌ حاکم کا ہر قدم اسلام کے خلاف او‌ر مسلمانوں کی تباہی کے لئے اٹھتا ہو، جس کی نظر میں کتے کے پلے کی اہمیت مسلمانوں سے زیادہ ہو اس کو کلین چٹ دینا اور اس کے اقتدار میں مسلمان کے محفوظ ہونے بات کرنا چہ معنی دارد، "کچھ تو ہے جس‌ کی پردہ داری ہے"۔ تجزیہ نگاروں کی نگاہ میں بی جے پی ایک بڑی اور منظم پارٹی ہے جو قومی سطح پر اثر رکھتی ہے جس کی بنیاد بندوتوا کے سایہ میں اقتدار کے حصول کی ہر قیمت پر کوشش ہے، تاکہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی راہ ہموار ہوسکے، جب کہ اویسی صاحب کی پارٹی محدود علاقائی اثر رکھتی ہے مگر میڈیا اور اقلیتوں میں اس کی پہچان نمایاں ہے، دونوں کا بیانیہ ایک دوسرے کے برعکس ہے، لیکن عملی سیاست میں دونوں کے کردار ایک دوسرے کو تقویت بھی دیتے ہیں۔ بی جے پی کی پالیسیوں نے اقلیتوں میں خوف اور تشویش کو جنم دیا ہے، جس کے ردعمل میں اویسی صاحب جیسے لیڈران کی مانگ بڑھی ہے، کیونکہ‌ مسلمان ہوش سے‌ زیادہ جوش پر یقین رکھتا ہے، اور اسی کا فائدہ دونوں کو ملتا ہے، بقول وسیم بریلوی، نہ جانے کتنے‌ بجھا دئے گئے بنا وضاحت کے دیوں کی گرم مزاجی ہوا کے کام آئ تاہم، اویسی صاحب کی سیاست نے بعض سیکولر پارٹیوں کے لیے مشکل پیدا کی ہے کیونکہ ان کے آنے سے وہ مسلم ووٹ بٹ جاتے ہیں جو کبھی فیصلہ کن‌ تھے اور‌ اب بے حیثیت،‌ اس کا ذمہ دار کون؟؟؟. جناب محمد لقمان ندوی صاحب

Comments