
✍️🌺محفل ذوق و شوق💖🍧🥘اردو چینل Cooking, Funny, Islamic Novels, Status
May 26, 2025 at 01:46 PM
داستان مجاہد۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://whatsapp.com/channel/0029VaL0meQAu3aMCAHFZw2D
نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول
قسط نمبر 1
صابرہ
سورج کئی بار مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہوا۔ چاند نے اپنے مہینے بھر کا سفر ہزاروں بار طے کیا۔ ستارے لاکھوں بار رات کی تاریکی میں چمکے اور صبح کی روشنی میں غائب ہو گئے۔ ابنِ آدم کے باغ میں کئی بار بہار اور خزاں نے اپنا اپنا رنگ جمایا۔ جنت سے نکالے ہوئے انسان کی نئی بستی ایک ایسی رزم گاہ تھی جس میں فطرت کے مختلف عناصر ہمیشہ بر سر پیکار رہے۔ طرح طرح کے انقلابات آئے۔ تہذیب و تمدن نے کئی چولے بدلے۔ ہزاروں قومیں قعر مذلت سے اٹھیں اور آندھی اور بگولہ بن کر ساری دنیا پر چھا گئیں۔ لیکن قانون فطرت میں کمال اور زوال کا رشتہ ایسا مضبوط ہے کہ کسی کو بھی ثبات نہیں۔ وہ قومیں جو تلواروں کے سائے میں فتح کے نقارے بجاتی ہوئی اٹھیں، طاؤس اور رباب کی تانوں میں مدہوش ہو کر سو گئیں۔ کوئی اس نیلگوں آسمان سے پوچھے جس کے وسیع سینے پر گزرے ہوئے زمانے کی ہزاروں داستانیں نقش ہیں جس نے قوموں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔ جس نے بڑے بڑے جابر بادشاہوں کو تاج و تخت سے محروم ہو ہو کر گداؤں کا لباس پہنتے اور گداؤں کو اپنے سر پر تاج رکھتے دیکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان داستانوں کے بار بار دہرائے جانے سے کچھ بے نیاز ہو گیا ہو۔ لیکن ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ صحرا نشینانِ عرب کی ترقی اور تنزلی کی طویل داستان میں جو ربع مسکوں کی تمام داستانوں سے مختلف ہے، اسے ابھی تک یاد ہو گی۔ اگرچہ اس داستان کا کوئی حصہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں، لیکن اس وقت ہمارے سامنے اس کا وہ رنگین باب ہے جب کہ مغرب و مشرق کی وادیاں، پہاڑ اور صحرا مسلمانوں کے سمند اقبال کے قدم چوم رہے تھے اور ان کی خارا شگاف تلواروں کے سامنے ایران اور روما کے سلطان عاجز آ چکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ترکستان، اندلس اور ہندوستان کی سر زمین مسلمانوں کو قوت تسخیر کے امتحان کی دعوت دے رہی تھی۔
بصرہ سے کوئی بیس میل کے فاصلے پر سر سبز و شاداب نخلستان کے درمیان ایک چھوٹی سی بستی تھی، جس کے ایک سیدھے سادے مکان کے صحن میں صابرہ، ایک ادھیڑ عمر کی عورت عصر کی نماز پڑھ رہی تھی۔ دوسرے تین بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ دو لڑکے اور ایک لڑکی۔ لڑکی نے ہاتھوں میں لکڑی کی دو چھوٹی چھوٹی چھڑیاں پکڑی ہوئی تھیں۔ لڑکی غور سے ان کی حرکات کا معائنہ کر رہی تھی۔ بڑے لڑکے نے چھڑی گھماتے ہوئے چھوٹے کی طرف دیکھا اور کہا:
’’دیکھو نعیم! میری تلوار!‘‘
چھوٹے لڑکے نے بھی اپنی چھڑی گھمائی اور کہا:
’’ میرے پاس بھی تلوار ہے۔ آؤ ہم جنگ کریں۔‘‘
’’تم رو پڑو گے!‘‘ چھوٹے لڑکے نے جواب دیا۔
’’تو پھر آؤ!‘‘ بڑے نے تن کر کہا۔
معصوم بچے ایک دوسرے پر وار کرنے لگے اور لڑکی قدرے پریشان ہو کر یہ تماشہ دیکھنے لگی۔ اس لڑکی کا نام عذرا تھا۔‘‘
چھوٹے لڑکے کا نام نعیم اور بڑے کا نام عبد اللہ تھا۔ عبد اللہ نعیم سے تین سال بڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں رپ مسکراہٹ کھیل رہی تھی لیکن نعیم کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ واقعی میدان کار زار میں کھڑا ہے۔ نعیم وار کرتا اور عبد اللہ متانت سے روکتا۔ اچانک نعیم کی چھڑی اس کے بازو پر لگی۔ عبد اللہ نے قدرے غصے سےا کر وار کیا۔ اب نعیم کی کلائی پر چوٹ لگی اور اس کے ہاتھ سے چھڑی گر پڑی۔ عبد اللہ نے کہا۔ ’’دیکھو اب رونا مت۔‘‘
’’میں نہیں، تم رو پڑو گے!‘‘ نعیم نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے جواب دیا اور زمین سے ایک ڈھیلا اٹھا کر عبد اللہ کے ماتھے پر دے مارا۔ اس کے بعد اس نے اپنی چھڑی اٹھا لی اور گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ عبد اللہ بھی سر سہلاتا ہوا اس کے پیچھے بھاگا لیکن اتنی دیر میں نعیم صابرہ کی گود میں چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’امی! بھائی مارتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
عبد اللہ غصے سے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔ لیکن ماں کو دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
ماں نے پوچھا۔ ’’عبد اللہ! کیا بات ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’امی! اس نے مجھے پتھر مارا ہے۔‘‘
’’تم لڑے کیوں تھے بیٹا؟‘‘ صابرہ نے نعیم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ ہم تلواروں سے جنگ کر رہے تھے۔ اس نے میرا ہاتھ توڑ دیا۔ پھر میں نے بھی بدلہ لے لیا۔‘‘
’’تلواروں سے ؟ تلواریں تم کہاں سے لائے؟‘‘
’’یہ دیکھو امی! ‘‘ نعیم نے اپنی چھڑی دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ لکڑی کی ہے لیکن مجھے لوہے کی تلوار چاہیے۔ لے دو نا۔ میں جہاد پر جاؤں گا!‘‘
کم سن بیٹے کے منہ سے جہاد کا لفظ سننے کی خوشی وہی مائیں جان سکتی ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو لوری دیتے وقت یہ گایا کرتی تھیں :
’’اے رب کعبہ! میرا یہ لال مجاہد بنے اور تیرے محبوب کے لگائے ہوئے درخت کو جوانی کے خون سے سیراب کرے۔‘‘
نعیم کی زبان سے تلوار اور جہاد کے الفاظ سن کر صابرہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور اس کے رگ و ریشہ میں مسرت کی لہریں دوڑنے لگیں۔ اس نے فرط انبساط سے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ ماضی اور حال کو فراموش کر چکی تھی اور تصور میں اپنے بیٹوں کو نوجوان مجاہدوں کے لباس میں خوبصورت گھوڑوں پر سوار میدان جنگ میں دیکھ رہی تھی۔
....وہ یہ دیکھ رہی تھی کہ اس کے لال دشمن کی صفوں کو چیرتے اور روندتے ہوئے جا رہے ہیں اور دشمن کے گھوڑے اور ہاتھی ان کے بے پناہ حملوں کی تاب نہ لا کر آگے بھاگ رہے ہیں۔ اس کے نوجوان بیٹے ان کے تعاقب میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریاؤں میں گھوڑے ڈال رہے ہیں۔ وہ دشمن کے نرغے میں کئی بار اٹھ اٹھ کر گرتے ہیں اور بالآخر زخموں سے نڈھال ہو کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ جنت کی حوریں ان کے لیے شراب طہور کے جام لیے کھڑی ہیں۔ صابرہ نے انا للہ و اناا لیہ راجعون پڑھا اور سجدے میں سررکھ کر دعا مانگی
’’اے زمین و آسمان کے مالک! جب مجاہدوں کی مائیں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں تو میں کسی سے پیچھے نہ رہوں گی۔ ان بچوں کو اس قابل بنا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو قائم رکھ سکیں۔‘‘
دعا کے بعد صابرہ اٹھی اور بچوں کو گلے لگا لیا۔۔۔
جاری
❤️
💞
👍
😂
😢
🫀
14