✍️🌺محفل ذوق و شوق💖🍧🥘اردو چینل Cooking, Funny, Islamic Novels, Status
✍️🌺محفل ذوق و شوق💖🍧🥘اردو چینل Cooking, Funny, Islamic Novels, Status
May 27, 2025 at 03:03 PM
داستان مجاہد۔۔۔۔۔۔ قسط 2 Follow the ✍️🌺محفل ذوق و شوق💖🍧🥘 channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaL0meQAu3aMCAHFZw2D نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول ....وہ یہ دیکھ رہی تھی کہ اس کے لال دشمن کی صفوں کو چیرتے اور روندتے ہوئے جا رہے ہیں اور دشمن کے گھوڑے اور ہاتھی ان کے بے پناہ حملوں کی تاب نہ لا کر آگے بھاگ رہے ہیں۔ اس کے نوجوان بیٹے ان کے تعاقب میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریاؤں میں گھوڑے ڈال رہے ہیں۔ وہ دشمن کے نرغے میں کئی بار اٹھ اٹھ کر گرتے ہیں اور بالآخر زخموں سے نڈھال ہو کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ جنت کی حوریں ان کے لیے شراب طہور کے جام لیے کھڑی ہیں۔ صابرہ نے انا للہ و اناا لیہ راجعون پڑھا اور سجدے میں سررکھ کر دعا مانگی ’’اے زمین و آسمان کے مالک! جب مجاہدوں کی مائیں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں تو میں کسی سے پیچھے نہ رہوں گی۔ ان بچوں کو اس قابل بنا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو قائم رکھ سکیں۔‘‘ دعا کے بعد صابرہ اٹھی اور بچوں کو گلے لگا لیا۔ قسط نمبر 2: انسانی زندگی کے ہزاروں واقعات ایسے ہیں جو عقل کی محدود چار دیواری سے گزر کر مملکت دل کی لا محدود وسعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ ہم دنیا کے ہر واقعہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں تو ہمارے لیے بعض اوقات نہایت معمولی باتیں بھی طلسم بن کر رہ جاتی ہیں۔ہم دوسروں کے احساسات و جذبات کا اندازہ اپنے احساسات و جذبات سے کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی وہ حرکات جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں ہمارے لیے ایک معمہ بن جاتی ہیں۔ آج کل کی ماؤں کو قرون اولیٰ کی ایک بہادر ماں کی تمنائیں اور دعائیں کس قدر عجیب معلوم ہوں گی۔ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو آگ اور خون میں کھیلتے ہوئے دیکھنے کی آرزو انہیں کس قدر بھیانک نظر آتی ہو گی۔ اپنے بچوں کوبلی کا خوف دلا کر سلانے والی مائیں ان کے شیروں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے خواب کب دیکھتی ہوں گی۔ ہمارے کالجوں، ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں پہلے ہوئے نوجوانوں کا علم اور عقل پہاڑوں کی بلندی اور سمندر کی گہرائی کو خاطر میں نہ لانے والے مجاہدوں کے دلوں کا راز کیسے جان سکتی ہے۔رباب کے تاروں کی جنبش کے ساتھ لرز جانے والے نازک مزاج انسانوں کو تیروں اور نیزوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے والے جواں مردوں کی داستانیں کس قدر حیرت زا معلوم ہوں گی۔ اپنے گھونسلے کے ارد گرد چکر لگانے والی چڑیاں عقاب کے انداز پرواز سے کس طرح واقف ہو سکتی ہے؟ (۲) صابرہ کا بچپن اور جوانی زندگی کے نا ہموار ترین راستوں سے گزر چکے تھے۔ اس کے رگ و ریشہ میں عرب کے ان شہسواروں کا خون تھا جو کفر و اسلام کی ابتدائی جنگوں میں اپنی تلواروں کے جوہر دکھا چکے تھے۔ ان کا دادا جنگ یرموک سے غازی بن کر لوٹا اور قادسیہ میں شہید ہوا۔ وہ بچپن ہی سے غازی اور شہید کے الفاظ سے آشنا تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب وہ اپنی توتلی زبان سے ابتدائی حروف ادا کرنے کی کوشش کیا کرتی تو اس کی ماں کا سکھلایا ہوا پہلا فقرہ ’’آبا غازی ‘‘ اور چند دنوں کے بعد کا سبق ’’ آبا شہید‘‘ تھا۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے کے بعد اس کی جوانی اور بڑھاپے سے ہر وہ توقع کی جا سکتی تھی جو ایک مسلمان فرض شناس عورت سے وابستہ کی جا سکتی ہے۔ وہ بچپن میں عرب عورتوں کی شجاعت کے افسانے سنا کر تی تھی۔ بیس سال کی عمر میں اس کی شادی عبد الرحمن کے ساتھ ہوئی۔ نوجوان شوہر ایک مجاہد کی تمام خوبیوں سے آراستہ تھا اور وفا شعار بیوی کی محبت اسے گھر کی چاردیواری میں بند کر دینے کی بجائے ہمیشہ جہاد کے لیے ابھارتی رہی۔ عبد الرحمن جب آخری مرتبہ جہاد پر روانہ ہوا تو اس وقت عبد اللہ کی عمر تین سال اور نعیم کی عمر تین مہینے سے کچھ کم تھی۔ عبد الرحمن نے عبد اللہ کو اٹھا کر گلے لگا لیا اور نعیم کو صابرہ کی گود سے لے کر پیار کیا۔ چہرے پر قدرے ملال کے آثار پیدا ہوئے لیکن فوراً ہی مسکرانے کی کوشش کی۔ رفیق حیات کو میدان جنگ کی طرف رخصت ہو تا دیکھ کر صابرہ کے دل میں تھوڑی دیر کے لیے طوفان سا امڈ آیا لیکن اس نے اپنی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے آنسوؤں کو بہنے کی اجازت نہ دی۔ عبد الرحمن نے کہا ’’صابرہ! مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر میں جنگ سے واپس نہ آیا تو میرے بیٹے میری تلواروں کو زنگ آلود نہ ہونے دیں گے!‘‘ ’’آپ تسلی رکھیں۔‘‘ صابرہ نے جواب دیا۔ ’’میرے لال کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔‘‘ عبد الرحمن نے خدا حافظ کہہ کر گھوڑے کی رکاب میں پاؤں رکھا۔ صابرہ نے اس کے رخصت ہونے کے بعد سجدے میں سر رکھ کر دعا کی۔ ’’اے زمین و آسمان کے مالک! اسے ثابت قدم رکھنا!‘‘ جب شوہر اور بیوی صورت اور سیرت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے قابل رشک ہوں گی تو محبت کے جذبات کا کمال کی حد تک پہنچ جانا کوئی نئی بات نہیں۔ بیشک صابرہ اور عبد الرحمن کا تعلق جسم اور روح کا تعلق تھا۔ اور رخصت ہونے کے وقت لطیف جذبات کو اس طرح دبا لینا کسی حد تک عجیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ کونسا عظیم الشان مقصد تھا جس کے لیے یہ لوگ دنیا کی تمام خواہشات اور تمناؤں کو قربان کر دیتے تھے ؟ وہ کون سا مقصد تھا جس نے تین سو تیرہ کو ایک ہزار کے مقابلہ میں کھڑا کیا تھا؟ وہ کونسا جذبہ تھا جس نے مجاہدوں کو دریاؤں اور سمندروں میں کودنے، تپتے ہوئے وسیع صحراؤں کو عبور کرنے اور فلک بوس پہاڑوں کو روندنے کی قوت عطا کی تھی؟ ان سوالات کا جواب ایک مجاہد ہی دے سکتا ہے۔ عبد الرحمن کو رخصت ہوئے سات مہینے گزر چکے تھے۔ اس بستی کے چار اور آدمی بھی اس کے ہمراہ گئے۔ ایک دن عبد الرحمن کا ساتھی واپس آیا اور اونٹ سے اترتے ہی صابرہ کے گھر کی طرف بڑھا۔ اس کے آتے ہی بہت سے لوگ اس کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے۔ کسی نے عبدالرحمن کے متعلق پوچھا۔ نووارد نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ صابرہ کے مکان میں داخل ہو گیا۔ صابرہ نماز کے لئے وضو کر رہی تھی۔ اسے دیکھ کر اٹھی۔ نووارد آگے بڑھا اور چند قدم کے فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔ صابرہ نے دھڑکتے ہوئے دل پر قابو پا کر پوچھا: ’’وہ نہیں آئے!‘‘ ’’وہ شہید ہو گئے‘‘ ’’شہید!‘‘ ضبط کے باوجود صابرہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے بہہ نکلے۔نووارد نے کہا۔ ’’اپنے آخری لمحات میں جب وہ زخموں سے چور تھے۔ انہوں نے یہ خط مجھے اپنے خون سے لکھ کر دیا تھا۔‘‘ ’’صابرہ! میری آرزو پوری ہوئی۔ اس وقت جب کہ میں زندگی کے آخری سانس پورے کر رہا ہوں۔ میرے کانوں میں ایک عجیب راگ گونج رہا ہے۔ میری روح جسم کی قید سے آزاد ہو کراس راگ کی گہرائیوں میں کھو جانے کے لئے پھڑپھڑا رہی ہے۔ میں زخموں سے چور ہونے کے باوجود ایک فرحت سی محسوس کرتا ہوں۔ میری روح ایک ابدی سرور کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہے۔ میں اس بستی کو چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں جا رہا ہوں جس کا ہر ذرہ اس دنیا کی تمام رنگینیاں اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے۔ میری موت پر آنسو نہ بہانا۔ میں اپنے مقصود کو پا چکا ہوں۔ یہ خیال نہ کرنا کہ میں تم سے دور جا رہا ہوں۔ ہم کسی دن ایسے مقام پر اکٹھے ہوں گے جو دائمی سرور کا مرکز ہے۔ جہاں کی صبح شام سے اور بہار خزاں سے آشنا نہیں۔ یہ مقام اگرچہ چاند اور ستاروں سے کہیں بلند ہے مگر مرد مجاہد وہاں ایک ہی جہت میں پہنچ سکتا ہے۔ عبد اللہ اور نعیم کو اس مقام پر پہنچ جانے کا راستہ دکھانا تمہارا فرض ہے! میں تمہیں بہت کچھ لکھتا مگر میری روح جسم کی قید سے آزاد رہنے کے لئے بے قرار ہے۔ میں آقائے نامدار کے پاؤں چومنے کے لیے بے تاب ہوں۔ میں تمہیں اپنی تلوار بھیج رہا ہوں۔ بچوں کی قدر و قیمت بتانا۔ جس طرح میرے لیے تم ایک فرض شناس بیوی تھیں میرے بچوں کے لئے ایک فرض شناس ماں بننا۔ مامتا کو اپنے ارادوں میں حائل نہ ہونے دینا۔ انہیں یہ بتانا کہ مجاہد کی موت کے سامنے دنیا کی زندگی بے حقیقت او ر ہیچ ہے۔‘‘ (تمہارا شوہر )
❤️ 💯 😂 11

Comments