✍️🌺محفل ذوق و شوق💖🍧🥘اردو چینل Cooking, Funny, Islamic Novels, Status
✍️🌺محفل ذوق و شوق💖🍧🥘اردو چینل Cooking, Funny, Islamic Novels, Status
June 4, 2025 at 11:22 AM
داستان مجاہد۔۔۔۔۔۔ قسط 4 https://whatsapp.com/channel/0029VaL0meQAu3aMCAHFZw2D نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول تھا۔ یہ دونوں اس حکم کو بجا لانے کی تیاری کر رہے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ ظہیر نے دروازہ کھولا تو سامنے سعید سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈھکا ہوا گھوڑے پر بیٹھا تھا۔ سعید گھوڑے سے اترا اور ظہیر نے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔ قسط نمب سعید اور ظہیر بچپن کے دوست تھے۔ ان کی دوستی سگے بھائیوں کی محبت سے بھی زیادہ بے لوث تھی۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تعلیم پائی تھی۔ ایک ہی جگہ فنون سپہ گری سیکھے تھے اور کئی میدانوں میں دوش بدوش لڑ کر اپنے بازوؤں کی طاقت اور تلواروں کی تیزی کے جوہر دکھا چکے تھے۔ ظہیر نے سعید کے اس طرح اچانک آنے کی وجہ پوچھی۔ ’’مجھے والی قیرون نے آپ کی طرف بھیجا ہے!‘‘ ’’خیر تو ہے؟‘‘ ’’نہیں ‘‘۔ سعید نے جواب دیا ’’افریقہ میں بغاوت نہایت سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ اہل روم جاہل بربریوں کو اکسا کر ہمارے مقابلے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ اس آگ کو فرو کرنے کے لیے تازہ دم فوجوں کی ضرورت ہے۔ گورنر نے دربار خلافت سے چلا چلا کر مدد مانگی ہے لیکن وہاں ہماری آواز کوئی نہیں سنتا۔ نصرانی ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر ان حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ہم اس وسیع خطہ زمین کو ہمیشہ کے لئے کھو بیٹھیں گے۔ گورنر نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور آپ کے نام یہ خط دیا ہے۔‘‘ ظہیر نے خط کھول کر پڑھا، خط کا مضمون یہ تھا: ’’سعید تمہیں افریقہ کے حالات بتا دے گا۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض ہے کہ جس قدر سپاہی فراہم کر سکوں ان کو لے کر فوراً پہنچ جاؤ۔ میں نے ایک خط دربار خلافت میں بھی بھیجا ہے لیکن موجودہ حالات میں جبکہ اہل عرب طرح طرح کی خانہ جنگیوں میں مبتلا ہیں، مجھے وہاں سے کسی مدد کی امید نہیں۔ تم اپنی طرف سے کوشش کرو۔‘‘ ظہیر نے ایک نوکر کو بلا کر سعید کا گھوڑا اس کے حوالے کیا اور اسے اپنے ساتھ مکان کے ایک کمرے میں لے گیا۔ اس کی آنکھوں سے شب عروسی کا خمار اتر چکا تھا۔ اس نے دوسرے کمرے میں جا کر دیکھا، یاسمین بارگاہ الٰہی میں سر بسجود تھی۔ دل کو گونہ مسرت ہوئی۔ واپس سعید کے پاسا کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: ’’سعید میری شادی ہو چکی ہے!‘‘ ’’مبارک ہو۔ کب ؟‘‘ ’’کل‘‘ ’’مبارک ہو!‘‘ سعید مسکرا رہا تھا۔ لیکن اس کی مسکراہٹ اچانک پژمردگی میں تبدیل ہونے لگی۔ وہ دیرینہ دوست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا اور اس کی نگاہیں سوال کر رہی تھیں کہ شادی کی خوشی نے تمہیں جذبہ جہاد سے تو عاری نہیں کر دیا؟ ظہیر کی آنکھیں اس سوال کا جواب نفی میں دے رہی تھیں۔ دنیا میں کم و بیش ہر انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا وقت ضرور آتا ہے جب اسے کسی بلندی تک پہنچنے یا بڑا کام کرنے موقع ملتا ہے لیکن ہم اکثر نفع نقصان کی سوچ میں ایسے موقع کو کھو دیتے ہیں۔ سعید نے پوچھا ’’آپ نے خط کے متعلق کیا سوچا؟‘‘ ظہیر نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ سعید کے کندھوں پر رکھ دیا اور کہا: ’’اس میں سوچنے کی کیا بات ہے۔چلو!‘‘۔ ’’چلو‘‘ بظاہر ایک سادہ سا لفظ تھا لیکن ظہیر کے منہ سے سعید کو یہ لفظ سن کر جو خوشی ہوئی اس کا اندازہ کرنا ذرا مشکل ہے۔ وہ بے اختیار اپنے دوست سے لپٹ گیا۔ ظہیر نے کوئی اور بات نہ کی۔ سعید کو اپنے ساتھ لے کر گھر سے باہر نکلا اور مسجد کی طرف ہو لیا۔ صبح کی نماز ختم ہوئی اور ظہیر تقریر کے لیے اٹھا۔ ایک مجاہد کو اپنی زبان میں اثر پیدا کرنے کے لئے اچھے اچھے الفاظ اور لمبی لمبی تاویلوں کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے سیدھے سادے مگر جذبے سے بھرے ہوئے الفاظ لوگوں کے دلوں میں اتر گئے۔ اس نے تقریر کے دوران میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا: ’’مسلمانوں ! ہماری خود غرضیاں اور خانہ جنگیاں ہمیں کہیں کا نہ چھوڑیں گی۔ آج وہ وقت آگیا ہے کہ اہل روم جن کی سلطنت کو ہم کئی بار پاؤں تلے روند چکے ہیں ایک بار پھر ہمارے مقابلے کی جرات کر رہے ہیں۔ وہ لوگ یرموک اور اجنادین کی شکستیں بھول چکے ہیں۔ آؤ انہیں ایک بار پھر بتائیں کہ مسلمان اسلام کی عظمت کی حفاظت کے لئے اب بھی اپنے خون کو اتنا ہی ازاں سمجھتا ہے جتنا کہ پہلے سمجھتا تھا۔ انہوں نے طرح طرح کی سازشیں کر کے افریقہ کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ وہ یہ خیالات کرتے ہیں کہ ہم خانہ جنگیوں کی وجہ سے کمزور ہو چکے ہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اس دنیا میں جب تک ایک بھی مسلمان زندہ ہے، ان لوگوں کو ہم سے ڈر کر رہنا چاہیے۔ مسلمانو! آؤ ایک بار پھر انہیں یہ بتا دیں کہ ہمارے سینوں میں وہی تڑپ ہے، ہمارے بازوؤں میں وہی طاقت اور ہماری تلواروں میں وہی کاٹ ہے جو کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں تھی۔‘‘ ظہیر کی تقریر کے بعد اڑھائی سو نوجوان اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہو گئے۔ (۳) یاسمین اپنی زندگی کی تمام خواہشوں کے مرکز کو اپنی آنکھوں سے میدان جنگ کی طرف رخصت ہوتے دیکھ رہی تھی۔ دل کا بخار آنکھوں کے راستے آنسو بن کر بہنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا لیکن یاسمین کے نسوانی غرور نے شوہر کے سامنے اپنے آپ کو بزدل ظاہر کرنے کے اجازت نہ دی۔ آنکھوں کے آنسو آنکھوں میں ہی دبے رہے۔ ظہیر نے بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ حزن و ملا کی تصور بنی سامنے کھڑی تھی۔ دل نے سفارش کی کہ ایک لمحہ اور ٹھہر جاؤ۔ چند باتیں کرو۔ لیکن اسی دل کی دوسری آرزو تھی کہ ایک اور امتحان سے بچو! ’’اچھا یاسمین! خدا حافظ‘‘۔ کہہ کر ظہیر لمبے لمبے قدم اٹھاتا دروازے کی طرف بڑھا۔ پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔ ایک ایسا خیال جسے اس نے ابھی تک اپنے قریب نہ بھٹکنے دیا۔ برق کی سی تیز رفتاری کے ساتھ س اس کے دل و دماغ پر حاوی ہو گیا۔ دل کے لطیفے حصے نے اپنی کمزور آواز میں فقط اتنا کہا کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو لیکن ایک لمحے کے اندر اندر اس خیال نے ایک ہنگامے کی صورت اختیار کر لی۔ وہ رکا اور مڑ کر یاسمین کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ آگے بڑھی۔ ظہیر نے آنکھیں بند کر کے بانہیں پھیلا دیں اور وہ روتی ہوئی اس سے لپٹ گئی۔ ’’یاسمین!‘‘ ’’آقا!‘‘ وہ آنسو جنہیں یاسمین اپنے دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ رکھنے کی نا کام کوشش کر رہی تھی، بے اختیار بہہ نکلے۔ دونوں کے دل دھڑک رہے تھے۔ لیکن دلوں کی یہ دھڑکن اس وقت بہت مدھم تھی اور بدستور کم ہو رہی تھی۔ کائنات اسی پر کیف نغمے سے لبریز تھی لیکن اس نغمے کی تانیں پہلے کی نسبت بہت گہری تھیں۔ مجاہد کے امتحان کا وقت تھا۔ احساس محبت اور احساس فرض کا مقابلہ....! ظہیر کے سامنے یاسمین تھی۔ فقط یاسمین۔ حسن و لطافت کا ایک پیکر۔ رنگ و بو کی دنیا۔ پھر اچانک اس کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی ہو گئی اور وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا: ’’یاسمین یہ فرض ہے۔‘‘ ’’آقا مجھے معلوم ہے۔‘‘ یاسمین نے جواب دیا۔ ’’میرے آنے تک حنیفہ تمہارا خیال رکھے گی۔ تم گھبرا تو نہ جاؤ گی؟‘‘ ’’نہیں۔ آپ تسلی رکھیں۔‘‘ ’’یاسمین مجھے مسکرا کر دکھاؤ۔ بہادر عورتیں ایسے موقع پر آنسو نہیں بہایا کرتیں۔ تم ایک مجاہد کی بیوی ہو!‘‘ شوہر کے حکم کی تعمیل میں یاسمین مسکرا دی۔ لیکن اس مسکراہٹ کے ساتھ ہی آنسوؤں کے دو موٹے موٹے قطرے اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔ ’’آقا مجھے معاف کرنا۔‘‘ اس نے جلدی سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔’’ کاش میں نے بھی ایک عرب ماں کی گود میں پرورش پائی ہوتی۔‘‘ یہ فقرہ ختم کرتے ہوئے انتہائی کرب کی حالت میں اس نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے بازو ایک بار پھر ظہیر کی طرف پھیلا دیے لیکن آنکھیں کھولنے پر معلوم ہوا کہ محبوب شوہر جا چکا ہے جاری
⁉️ ❤️ 2

Comments