
Tahaffuz-e-Islam Media Service
May 30, 2025 at 06:29 PM
*دارالعلوم دیوبند کی ”یومِ تاسیس“ اور اکابر دیوبند کا طرزِ عمل!*
*✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ*
*(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)*
دارالعلوم دیوبند برصغیر کی وہ عظیم دینی درسگاہ ہے جس نے نہ صرف اسلامی علوم کی شمع روشن کی بلکہ برطانوی استعمار کے خلاف فکری و عملی جہاد کا بھی مرکز رہی۔ اس ادارے کی بنیاد ١٥؍ محرم الحرام ١٢٧٣ھ مطابق 31؍ مئی 1866 کو رکھی گئی، اور اس کے بعد سے یہ ادارہ امت مسلمہ کی علمی، دینی، اور فکری رہنمائی کا مرکز بنا رہا۔ تاہم *حالیہ برسوں میں بعض حلقوں کی جانب سے ”یومِ تاسیس“ منانے کی روایت شروع کی گئی ہے، جو دیوبند کے اصل مزاج و منہج سے ہم آہنگ نظر نہیں آتی۔*
دارالعلوم دیوبند کی امتیازی خصوصیات میں اخلاص، سادگی، ریاکاری سے اجتناب اور غیر رسمی طرزِ عمل شامل رہے ہیں۔ اکابرینِ دیوبند کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی رسمی تقریبات، سالگرہ منانے یا ادارہ جاتی دنوں کی خصوصی تقریبات سے اجتناب کرتے رہے۔ ان کے نزدیک دین کی خدمت ہی اصل شرف ہے، نہ کہ اس کی نمائش۔
بعض لوگوں کی نظر میں یومِ تاسیس منانا ایک جائز امر ہے، جس میں ادارے کی خدمات کا اعتراف اور نئی نسل کو اس کی تاریخ سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ عمل؛ رسمی تقاریب، دکھاوے اور دنیاوی نمائش کا شکار ہو جائے، اخلاص کی جگہ شہرت اور پذیرائی مقصود ہو جائے، اور یہ تقاریب دیگر مکاتبِ فکر کی غیر اسلامی رسوم کی نقل پر مبنی ہوں۔
*دارالعلوم دیوبند کی تاریخ میں تقریباً ڈیڑھ صدی گزر جانے کے باوجود اس کے اکابرین نے کبھی بھی ”یومِ تاسیس“ منانے کا اہتمام نہیں کیا۔ نہ اس کی کوئی باقاعدہ تقریب منعقد کی، نہ ہی اس دن کو خصوصی اہمیت دی اور نہ ہی اس کی کوئی عملی مثال چھوڑی۔* حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ، مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ، اور دیگر *جملہ اکابر نے دارالعلوم کی بنیاد کے دن کو کوئی ”مقدس“ یا ”خصوصی“ حیثیت نہیں دی۔ ان کے نزدیک دارالعلوم کی اہمیت اس کی تاریخِ آغاز سے نہیں، بلکہ اس کے مشن اور خدمات سے تھی۔*
یہ بات غور طلب ہے کہ *اکابر کی اتنی طویل جماعت میں سے کسی نے بھی کبھی اس دن کو منانے کا مشورہ نہیں دیا، نہ ہی اس پر کوئی مضمون، تقریر یا تحریر موجود ہے۔ اگر اس طرح کا اہتمام مستحسن ہوتا، تو یقیناً ہمارے اکابر اس پر نہ صرف خاموش نہ رہتے بلکہ اس کی عملی مثال بھی قائم کرتے۔* ان کے نزدیک ہر دن علم، تقویٰ، اور دین کی خدمت کا دن تھا۔ دارالعلوم کی بقا کا راز بھی اسی خلوص، سادگی، اور ریاکاری سے اجتناب میں پوشیدہ ہے۔
کسی بھی بدعت کی ابتداء بظاہر جائز یا مباح امور سے ہوتی ہے، لیکن وقت کے ساتھ وہی عمل رسم بن جاتا ہے، اور پھر اس میں دین داری کا گمان پیدا ہو جاتا ہے۔ *اگر آج ہم یومِ تاسیس کو ”محض تاریخی یادگار“ کہہ کر منائیں، تو کل کو یہی عمل ”دینی تقاضا“ سمجھا جانے لگے گا۔*
*دارالعلوم دیوبند کی عظمت اس کی تاریخ منانے میں نہیں، بلکہ اس کے منہج کو زندہ رکھنے میں ہے۔ اگر ہم واقعی دارالعلوم سے محبت رکھتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کے اکابر کے طرزِ عمل کو اپنائیں، علم، اخلاص، اور عمل سے وابستہ رہیں، نہ کہ رسمی تقاریب اور دنیاوی نمائش سے۔ دارالعلوم دیوبند کی یومِ تاسیس منانا نہ صرف دیوبندی مزاج کے خلاف ہے بلکہ اس میں ایسی رسمیت اور دکھاوا شامل ہو سکتا ہے جو دین کی روح کے خلاف ہے۔ ہمیں اپنے اسلاف کے طریقے پر چلتے ہوئے سادگی، خلوص، اور خدمتِ دین کو اپنانا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اکابر کے مزاج، منہج، اور فکری طہارت کو زندہ رکھیں۔ خلوص کے اس چراغ کو دنیاوی رسموں اور غیر ضروری تقریبات کی ہوا سے بجھنے نہ دیں۔ امید ہے کہ ہم اس طرف توجہ فرمائیں گے، اور دیوبندیت کو محض ظاہری نسبت نہیں بلکہ فکری و عملی پیروی کی شکل میں اپنائیں گے۔*
*فقط و السلام*
*بندہ محمّد فرقان عفی عنہ*
*30؍ مئی 2025ء، بروز جمعہ*
https://markaztahaffuzeislamhind.blogspot.com/2025/05/blog-post_30.html
#paighamefurqan | #darululoomdeoband | #darululoom | #deoband