/\/\/-\|QB/-\|_
/\/\/-\|QB/-\|_
June 9, 2025 at 04:49 PM
کہ فتح شام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ خط ملتے ہی حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے جنگی مجلس مشاورت منعقد کی اور اس میں پہلے پایا کہ اسلامی فوج کو شمال کی طرف پیشقدمی کر کے مزید علاقے فتح کرنے چاہئیں۔ حمص اور قنسرین کو نہیں چھیڑا جا سکتا تھا کیونکہ وہ معاہدہ امن کی شرائط کے تحت محفوظ تھے مگر باقی علاقوں کے لئے ایسا کوئی معاہدہ نہ تھا اور ان پر حملہ کر کے قبضہ کیا جا سکتا تھا۔ نومبر 635 عیسوی کا ابتدائی (وسط رمضان 14 ہجری) کا زمانہ تھا جب اسلامی فوج نے حمص سے حما کی طرف کوچ کیا، جہاں کے شہریوں نے شہر سے باہر آ کر مسلمانوں کا استقبال کیا اور شہر بخوشی ان کے حوالے کر دیا۔ اسلامی فوج برابر آگے بڑھتی رہی اور یکے بعد دیگرے شیزر افامیہ (جسے آج قلعہ المریق کہتے ہیں) اور مرة حمص (اب معرة النعمان) کے شہروں نے پر امن طور پر اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا اور جزیہ دینا قبول کر لیا. بعض جگہ تو مسلمانوں کا استقبال موسیقاروں نے کیا جو اس بات کی علامت تھی کہ مسلمانوں کو خوش آمدید کہا جارہا ہے۔ شام کے ان علاقوں میں پہلی دفعہ یہاں کے شہریوں نے بڑے پیمانے پر اسلام قبول کیا۔ لوگوں کے اس قبول اسلام میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی شرافت اور شان کریمانہ کا بڑا دخل تھا۔ اُس زمانے میں، جب مسلمان شیزر میں تھے انہوں نے یہ خبر سنی کہ رومیوں کی تازہ دم فوجیں قنسرین اور حمص کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ اس طرح التوائے جنگ کے معاہدے کو رومیوں نے توڑ دیا۔ کمک کی آمد سے قنسرین اور حمص کے رومیوں میں نئی جرأت پیدا ہوئی اور موسم سرما کی آمد سے ان کا دل اور بھی بڑھا۔ انہیں یہ اطمینان ہوا کہ وہ اپنے قلعوں میں سردی سے محفوظ رہیں گے جبکہ مسلمان عربوں کا کھلی جگہ میں شام کی غیر مانوس شدید سردی سے سوائے خیموں کے کوئی بچاؤ نہ ہو گا اور وہ اس سے بہت تکلیف اُٹھائیں گے۔ درحقیقت ہرقل نے حمص کے فوجی حاکم ہربیس کو لکھا تھا کہ ان لوگوں کی خوراک اونٹ کا گوشت ہے اور ان کا مشروب اس کا دودھ، وہ سردی برداشت نہیں کر سکتے۔ تم ان سے ان ایام میں جنگ کرنا جب شدید سردی ہو تاکہ موسم بہار تک ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہے۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے حمص پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اپنی عقبی فوج کو شمالی شام پر حملوں کے لئے فارغ کر لیں۔ بالآخر مسلمانوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور جیش عراق کے پیچھے پیچھے حمص کا رخ کیا۔ شہر کے پاس پہنچنے پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک طاقتور رومی فوج ان کا راستہ روکے کھڑی ہے مگر ان کے ایک فوری شدید حملے کی تاب نہ لا کر وہ قلعے میں واپس چلی گئی۔ یہ رومی ہرقل کی اس ہدایت پر عمل کر رہے تھے کہ مسلمانوں سے ہر اس دن جنگ کی جائے جب سردی شدید ہو مگر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس پہلی ہی جھڑپ کے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ موسم سرما کو اپنا کام خود کر لینے دیا جائے۔ انہوں نے قلعے میں داخل ہو کر دروازے بند کیے ہی تھے کہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بقیہ فوج لیے وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے فوج کو چار حصوں میں تقسیم کر کے حمص کے چاروں دروازوں پر تعینات کر دیا۔ حمص کے لگ بھگ آدھ میل قطر کے گول سے شہر کے اردگرد ایک فصیل اور ایک کھائی بھی موجود تھی۔ قلعے کے اندر ایک پہاڑی پر ایک بالا حصار بھی بنا ہوا تھا۔ شہر کے باہر ایک سرسبز میدان تھا جس کے مغربی علاقے کی طرف دریائے عاصی (قدیم رند) بہتا تھا۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ خود حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ان کے رسالے کے ساتھ شمالی حصے میں خیمہ زن ہوئے جہاں باب رستن بہت قریب تھا۔ حمص میں مسلمانوں کی فوج کی تعداد 15000 اور رومیوں کی 8000 تھی۔ اب نومبر کا اخیر یا دسمبر کا آغاز تھا اور موسم سرما نے پورے حمص کو کمبل کی طرح ڈھک لیا تھا۔

Comments