PTI اسلام آباد ریجن (آفیشل)
June 10, 2025 at 05:08 PM
عمران خان کیا سوچ رہا ہے؟
یہ بات اب بالکل واضح ہو چکی ہے کہ خان کی لڑائی مقامی سطح سے نکل کر بین الاقوامی حدود میں داخل ہو چکی ہے۔
بلکہ یوں کہیے کہ یہ لڑائی ابتدا ہی سے بین الاقوامی تھی، مگر اس کے خدوخال اب نمایاں ہو کر سامنے آ رہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے روز بروز بڑھتے ہوئے اشاروں سے ملتا ہے۔ اس مطالبے کے بڑے حامیوں میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی صدر ٹرمپ شامل ہیں۔
خان سے پہلے پاکستانی فوج کی لڑائی جن سیاست دانوں سے رہی، وہ اکثر “کچھ لو، کچھ دو” کے اصول پر جلد ہی ختم ہو جاتی رہی، اور اس کا نتیجہ محض حکومتی چہروں کی تبدیلی کی صورت میں نکلتا رہا۔ یہ لڑائی ہمیشہ مقامی سطح پر ہی رفع دفع ہو جاتی تھی۔ اس لڑائی کا ایک بڑا المیہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی صورت میں بھی دیکھا، مگر افسوس کہ اس عظیم قربانی کے باوجود نظام جوں کا توں رہا۔ بلکہ یوں کہیے کہ یہ لڑائی ہمیشہ فوج کی بالادستی پر ختم ہوتی رہی، جس کے نتیجے میں طاقت کا توازن فوج کے حق میں دن بدن بڑھتا گیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ فوج مکمل طور پر ملکی اور خارجی معاملات پر قابض ہے، جبکہ بظاہر ایک سول سیاسی حکومت منظر پر دکھائی دیتی ہے۔ مگر سب، بشمول یہی سیاسی حکومت، جانتے ہیں کہ ان کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں۔
اب یہ لڑائی خان اور اس کے کارکن لڑ رہے ہیں۔ بیرسٹر شہزاد اکبر کے حالیہ ولاگ سے ہمیں اس لڑائی میں فوج کی بدلتی ہوئی positioning کا بڑی clarity کے ساتھ اندازہ ہوا ہے کہ 35 مطالبات سے بات سُکڑ کر پانچ مطالبات تک پہنچ چکی ہے۔ ان پانچ مطالبات کا خلاصہ یہ ہے کہ تحریک انصاف، فوج کی تمام آئین شکنی کو فراموش کر کے دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح فوج کی چھتر چھاؤں تلے کام کرے، اور باقی سیاسی پارٹیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جگہ بنائے، اور باری آنے پر اقتدار سنبھال لے۔ یہ وہی حکمتِ عملی ہے جس پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست کر رہی ہیں اور اقتدار میں آتی جاتی رہی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں “عملی سیاست” اور “حقیقت پسندی” کے نام پر ملکی سیاسی نظام کو آہستہ آہستہ ایک آمرانہ قوت کے حوالے کر چکی ہیں۔ گویا یہی اصل پانچ مطالبات ہیں جو نظام کی تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر خان یہاں سپر ڈال دیتا ہے تو اس میں اور باقی سیاست دانوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔
ایسے میں مجھے احمد الیاس کی چند دن پہلے پڑھی ہوئی ایک تحریر یاد آ گئی، جو بڑی حد تک اس معاملے میں میری سوچ کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خان نے ایک بے مثال زندگی گزاری ہے، بلکہ میں کہوں گا کہ خان نے ایک ہی زندگی میں کئی زندگیاں جی ہیں اور ہر مرحلے میں اپنے زورِ بازو سے کمال کا رتبہ حاصل کیا ہے۔ اور ہر زندگی کے اختتام پر اپنے لیے ایک نیا مقصد طے کیا ہے۔ ایک شاندار سپورٹس کیریئر ختم ہوا تو مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھا۔ ایک فلاحی کارکن کی حیثیت سے پاکستان جیسے ملک میں بین الاقوامی معیار کا کینسر اسپتال بنایا، تو تکمیل کے بعد خود کو اس کے انتظامی معاملات سے مکمل طور پر الگ کر لیا۔ سیاست کا آغاز کیا تو مقصد وزیراعظم بننا تھا تاکہ نظام کو بدلا جا سکے۔ ایک آؤٹ سائیڈر کی حیثیت سے اس کا خیال تھا کہ پاکستان کی تباہی کے مکمل ذمہ دار وہی دو خاندان ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ وہ اس پوری مساوات کا ایک بڑا اور نمایاں حصہ تو ہیں ، مگر برائی کی جڑ کہیں اور ہے۔۔۔ اور اس کے ڈانڈے بین الاقوامی قوتوں سے بھی جا ملتے ہیں۔
اب جب وہ خود ان مقامی اور بین الاقوامی قوتوں کے جبر کا شکار ہے، تو اگر اس کا مقصد صرف دوبارہ وزیراعظم بننا ہے، تو اُسے سمجھوتہ کر لینا چاہیے اور اپنے پروفائل میں "دو مرتبہ وزیراعظم رہنے" کا اضافہ کر لینا چاہیے۔ لیکن اس کا مقصد شاید یہ نہیں۔ وہ زندگی کے اس مقام پر اپنے ہیرو کے مرتبے سے دستبردار نہیں ہونا چاہے گا۔ اس وقت شاید اسے اپنی زندگی سے زیادہ، اپنی جماعت سے زیادہ اپنی لیگیسی کی فکر ہے۔ آپ اس کے گزشتہ دو برس کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیجیے؛ وہ بار بار کہتا ہے کہ وہ ساری زندگی جیل میں رہ لے گا، جان دے دے گا، مگر نظام کے سامنے ہار نہیں مانے گا۔ اور یہ محض بڑھک نہیں، وہ ذہنی اور روحانی طور پر اس کے لیے تیار بھی ہے۔
ہم ایک عام انسان، ایک پاکستانی، ایک خیرخواہ، اور ایک معتقد کی حیثیت سے اس موقع پر اس سے جس لچک (flexibility) کی توقع رکھتے ہیں، شاید وہ خود اس سے مختلف سوچتا ہے۔
ایسے وقت میں، جب حالات بظاہر اس کے لیے انتہائی ناسازگار ہو چکے ہیں، اتنے ناسازگار کہ ہم جیسے کارکن بھی اسے کسی حد تک سمجھوتے کا مشورہ دے رہے ہیں، وہ خود شاید اس وقت اپنی زندگی کا سب سے بڑا رسک لیئے بیٹھا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو گیا، تو یقیناً نظام کو بدلنے میں بھی کامیاب ہو جائے گا اور اگر خدانخواستہ ناکام ہو گیا تو مزاحمت کی لیگسی چھوڑتے ہوۓ ایک ہیرو کا سا اختتام اس کا مقدر ہو گا۔
لیڈر اور فالوور میں یہی فرق ہوتا ہے۔ اور شاید سیاست دان اور اساطیری لیڈر میں بھی یہی فرق ہوتا ہے
🇧🇫💯✌
❤️
👍
💯
✌️
❤
🇧🇫
🐖
🐗
😂
😮
40