Asif Mahmood
May 31, 2025 at 04:26 AM
مولانا طارق جمیل اور رائے ونڈ آصف محمود مولانا طارق جمیل اور رائے ونڈ، دونوں کا احترام ہے اور اس احترام کا تقاضایہ ہے ان کی باہمی تلخی میں فریق نہ بنا جائے اور ہر دو کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرتے ہوئے اصلاح احوال کی کوشش، یا کم از کم خواہش، کی جائے۔ معاملہ کچھ کچھ واضح ہے اور معلوم یہ ہو رہا ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کو بھی نہ مکمل غلط قرار دیا جا سکتا ہے نہ مکمل درست۔ ایسے میں غصے یا عقیدت کا شکار ہو کر کسی ایک کے ساتھ کھڑا ہو جانا مناسب نہیں۔ خیر خواہی یہ ہے کہ دونوں کا ساتھ دیا جائے۔ دونوں کی خدمت میں سوال رکھے جائیں اور دونوں سے کہا جائے کہ وہ خود کو تھام لیں۔ ایک طالب کے طور پر، جو واقف حال تو نہیں مگر محبت اور احترام کے رشتے سے جڑا ہوا ہے، چند سواالات میرے بھی ہیں اور دونوں سے ہیں۔ رائے ونڈ انتظامیہ سے پوچھا جانا چاہے کہ طارق جمیل صاحب پر جو پابندیاں لگی ہیں، ان کی شان نزول کیا ہے۔ کیا مولانا طارق جمیل نے اپنے بیان میں کہیں کوئی ایسی بات کی ہے جو دین کی مبادیات سے متصادم ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کی نشاندہی کی جانی چاہیے۔ اور اگر ان پابندیوں کی وجہ انتظامی معاملات ہیں یا رائے ونڈ کا ڈسپلن اس بات کا متقاضی ہے تو اس کو بھی واضح کر دینا چاہیے۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ مولانا طارق جمیل کا پاکستان تحریک انصاف کی طرف وابستگی کی حدوں کو چھوتا جھکاؤ اس کی وجہ بنا ہے۔ اور شاید یہ سمجھا گیا ہے کہ داعی کی سیاسی وابستگی دعوت و تبلیغ کی روح پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر رائے ونڈ انتظامیہ کو واضح کرنا ہو گا کہ کیا اس کے تمام داعیان اور مبلغین ہر قسم کی سیاسی وابستگی سے پاک ہیں؟یا یہ کہ رائے ونڈ کی فقہ کی رو سے جمعیت علمائے اسلام سے سیاسی وابستگی تو بالکل جائز ہے البتہ کسی دوسری جماعت کی طرف سیاسی رجحان قابل قبول نہیں۔ یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ رائے ونڈ اور تبلیغی جماعت کے منتظمین کی اصل شکایت کیا ہے؟ اگر طارق جمیل سیاسی رجحانات کی وجہ سے زیر عتاب ہیں تو وہ بزرگ زیر عتاب کیوں نہیں جو طارق جمیل صاحب ہی کی طرح بلکہ ان سے بڑھ کر جمعیت علمائے اسلام سے سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔ کچھ سوالات مولانا طارق جمیل صاحب کے جواب آں غزل نے بھی پیدا کیے ہیں۔ میں نے ان کی گفتگو سنی اور اس کا حاصل دکھ افسوس، تکلیف اور صدمے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ چند فقرات آپ بھی پڑھ لیجیے۔ طارق جمیل فرماتے ہیں: ”اوئے عقل کے اندھو! نہ تم لوگوں کو دین کی سمجھ ہے، نہ قرآن کی سمجھ ہے، نہ سیرت کی سمجھ ہے۔“ ”تم لوگ اخلاقی گراوٹ میں جا چکے ہو۔“ ”تمہاری خباثت نے میرے زخم ادھیڑ دیے ہیں۔“ ”نہ تم میں شرم ہے، نہ حیا ہے، نہ دید ہے۔“ ”کم بختو تمہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ میں ایک بڑے خاندان سے (ہوں)۔ اللہ نے مجھے عزت بخشی۔“ ”اللہ نے مجھے تبلیغ کو 6 بر اعظموں میں پھیلانے کا ذریعہ بنایا، تمہی تو رائے ونڈ کے باہر کوئی سلام کرنے والا نہیں، کوئی جاننے والا نہیں۔فلاں کا بیان ہو رہا تھا کراچی میں (مولانا نے تو فلاں کا نام بھی لے لیے، میرا قلم بھاری ہو رہا ہے کہ میں یوں کسی کس تمسخر اڑاؤں اس لیے نام کی جگہ فلاں لکھ رہا ہوں)، مجمع میں سے کوئی جانتا ہی نہیں تھا کہ بیان دینے والا کون ہے۔جس کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں، اس کو تم بٹھا رہے ہو اور جس کو اللہ نے نعمت دی ہے بات کرنے کی اس کو تم کاٹے لگا رہے ہو۔ میں تمہیں شرم دلا رہا ہوں۔تمہارے دلوں میں نفاق بھرا ہوا ہے۔۔۔۔۔ یہ سارے میسج میں اب ساری دنیا میں پھیلا دوں گا۔“ مولانا کا بیان میں نے سنا تو وہ بڑھیا یاد آگئی جس نے ساری عمر سوت کاٹا اور آخر میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیے۔ ساری عمر ہم جیسوں نے مولانا سے انکسار، تحمل اور عاجزی کے درس سنے اور جب مولانا کو اس لہجے میں بات کرتے سنا تو احساس میں کڑواہٹ بھر گئی۔ مولانا سے عرض ہے کہ یہ کون سا لب و لہجہ ہے؟ یہ داعی کا اسلوب بیان تو نہیں، یہ تو کسی تند خو ’انقلابی‘ قسم کے نووارد سیاست دان کا انداز گفتگو ہے۔سادہ لفظوں میں عرض کروں تو یوں لگا جیسے طارق جمیل صاحب کے لہجے میں تحریک انصاف کا کوئی رہنما بول رہا ہو۔”اوئے، عقل کے اندھو، تمہاری خباثت، کم بختو، بے شرمو، بے دیدو“۔۔۔۔۔ داعی تو رہا ایک طرف یہ لفظ تو کوئی عام سا انسان بھی ادا نہیں کرتا جسے تھوڑا سا بھی روایتی قدروں کا خیال ہو۔ یہ بڑا خااندان کیا ہوتا ہے؟ یہ کیسا معیار فضیلت ہے جس کا حوالہ دیا جا رہا ہے؟ یہ کون سا معیار ہے جس پر کسی کو پرکھا جائے؟ یہ غلط فہمی مولانا کو کب سے ہونے لگی کہ اللہ نے انہیں کسی بڑے خاندان میں پیدا کر کے عزت بخشی۔ عزت کا یہ معیار جاہلیت کا معیار ہے۔ذات پات، یہ خاندان، اسلام ایسے کسی معیار کو نہیں مانتا۔ خود مولانا کو اللہ نے جو عزت بخشی وہ قرآن و سنت کے بیان کی وجہ سے بخشی۔ ہم جیسوں کو تو معلوم ہی نہیں وہ کس خاندان کے ہیں۔ نہ ہی ہم یہ جانتے ہیں کہ ان کے بڑے خاندان کی جاگیریں سات براعظموں تک محدود ہیں یا چاند اور مریخ پر بھی ان کے مربعے ہیں۔ کسی داعی کو ہر گز زیب نہیں دیتا خاندانوں کی فضیلت کے رجز پڑھتا رہے۔ اسی طرح ایک داعی کو یہ بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے مبلغ کی شہرت کم ہونے پر اس کی کمر پر اپنی شہرت کا کوڑا برسا نے لگے۔ خدا کا دین محتاج نہیں کہ اس کا بیان کرنے والا مشہور ہے یا غیر معروف۔ نہ ہی خدا کا دین چھ براعظموں میں کسی ایک فرد واحد کی وجہ سے پہنچا۔ننہ ہی کوئی اس دنیا میں ناگزیر ہے۔ دیگر علماء پر فقرے اچھالنا کہ فلاں کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں یا فلاں کا نام کوئی جانتا، انتہائی نامناسب بات ہے۔ دین کا کام ہے، اللہ کسی سے بھی لے لے۔ سوال تو خود مولانا کے انداز بیان اور بیان کروہ روایات کی صحت پر بھی اٹھتے ہیں۔ پھر مولانا خود بھی اچھے مقرر تو ہیں لیکن عالم دین تو نہیں۔ فہم دین میں ایسے ایسے جید اکابرین برصغیر میں گزرے ہیں اور اب بھی ہیں جن کے سامنے طارق جمیل صاحب طفل مکتب بھی نہیں ہیں۔ انہیں خود کو تھام لینا چاہیے۔ یہ’میں‘ اور انا کا بت ہے جو بڑا ظالم ہوتا ہے۔اس بت کو ٹوٹ جانا چاہیے۔آپ بہت اچھے ہیں مگر نظم اجتماعی سے بڑے نہیں۔ آپ دلوں کے مکین ہی اور قابل احترام ہیں لیکن آپ ناگزیر نہیں۔ رک جائیے۔
❤️ 👍 😢 😭 🙏 🤲 129

Comments