دارالافتاء بھاٹاباڑی
دارالافتاء بھاٹاباڑی
May 21, 2025 at 11:42 PM
▒▓█ دارالافتاء بھاٹاباری گروپ █▓▒ 📖 #کتاب_الصلوۃ ؛ #باب_السنن_و_النوافل 📖 📚سوال نمبر: (14451592)📚 عنوان:-  *نمازِ ظہر سے پہلے چار رکعت سنت مؤکدہ یا دو رکعت سنت مؤکدہ؟* س✺✺═════••✦✿✦••═════✺✺     سوال :      محترم مفتی منور صاحب آپ نے فتوی نمبر :14441544 میں لکھا ہے کہ "اگر  کوئی ظہر سے پہلے چار رکعات سنت مؤکدہ کی جگہ صرف دو رکعت پڑھ لے تو یہ چار سنتوں کے قائم مقام نہیں ہوں گی اور نہ ہی سنت کی ادائیگی ہوگی، بلکہ یہ دو رکعت  نفل  شمار ہوگی ۔ ظہر کی چار رکعت سنت الگ سے پڑھنا ضروری ہوگا،"  جبکہ بخاری شریف کی حدیث ہے : حَدَّثَنَا  ابْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا  اللَّيْثُ ، عَنْ  عُقَيْلٍ ، عَنِ  ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي  سَالِمٌ ، عَنْ  عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْجُمُعَةِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ. جس کی پوری تفصیل " تحفۃ القاری شرح البخاری ٣/ ٥٠٢ + ٥٠٣ مکتبہ حجاز دیوبند، تحفۃ الألمعي ٢/ ٢٥٤ + ٢٥٥ زمزم پبلشز کراچی اور معارف الحدیث ٣/ ١٩٧ + ١٩٨ دارالاشاعت کراچی" میں ہے  جس میں ظہر سے پہلے دو رکعت کی سنت مؤکدہ ہونے کا بھی ذکر ہے اس بارے میں کیا خیال ہے؟ ج✺✺═════••✦✿✦••═════✺✺     *اَلْجَوَابُ حَامِدًاوَّمُصَلِّیًاوَّمُسَلِّمًا:* یہ بات واضح رہے کہ ظہر سے پہلے دورکعت سنت مؤکدہ کی روایت بھی ہے اور چار کی بھی ،لیکن احناف کے نزدیک راجح اور مفتی بہ قول کے مطابق ظہر سے پہلے چار رکعت ہی سنت مؤکدہ ہیں لہذا چار رکعات کا ہی اہتمام کیا جائے ، اور دو رکعت سنت پڑھنے کی صورت میں ، وہ چار رکعات کا بدل نہیں ہو سکتی ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَعُ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ. . اه (بخاری شریف ، ج ١ ص ١٥٧ ) . نیز حضرت علی ، حضرت عمر بن الخطاب، حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت براء بن عازب، حضرت عبد الله بن السائب، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنهم أجمعين سے بھی چار رکعت والی روایات منقول ہیں ۔سوال میں ذکر کردہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ والی روایت کے بارے میں امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے دو نفل مراد ہیں ۔ قال محمد هذا تطوع وهو حسن - اه ( مؤطا امام محمد ) - نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے چار رکعت گھر میں پڑھی ہوں اور دو رکعت گھر کے علاوہ پڑھی ہوں ۔ ( بذل المجہودج ۲ ص ۲۵۸) ۔ بعض حضرات نے ان احادیث میں اسطرح بھی تطبیق دی ہے کہ آپ گھر میں چار رکعات پڑھتے تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اس کو بیان فرما رہی ہیں ۔ اور جب آپ مسجد میں جاتے تھے تو دو رکعت تحیتہ المسجد پڑھتے تھے جسے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنها نے سنت ظہر سمجھا. (لمعات شرح مشكوة بجواله حاشیه ابوداود : ج ۱ ص ۱۷۸) علامہ علاء الدين کاساني رحمۃ اللہ علیہ نے چار رکعات پر صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع نقل کیا ہے ۔ عن عبيدة السلماني ما اجتمع اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم على شئ كاجتماعهم على محافظة الاربع قبل الظهر وتحريم نكاح الاخت فى عدة الاخت . (بدائع الصنائع ج ۱ ص ۲۸۵). مستفاد از خیر الفتاوی جلد ٢/ ٤٨٧ مکتبہ امدادیہ ملتان)      علامہ عبد اللہ محمود ابن مودود رحمۃ اللہ بھی چار رکعت ہی سنت مؤکدہ ہونے کے قائل ہیں " أربع قبل الظھر و رکعتین بعدھا، … ویستحب أن یصلي بعد الظھر أربعاً... (أربع قبل الظھر و رکعتین بعدھا……) فھذہ موٴکدات لا ینبغي ترکھا……(ویستحب أن یصلي بعد الظھر أربعا) قالت أم حبیبة: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: من حافظ علی أربع رکعات قبل الظھر وأربع بعدھا حرمہ اللہ علی النار" (المختار مع الاختیار، کتاب الصلاة، باب النوافل، ج١/ ٦٥ ، ط: دارالکتب العلمیہ ، بیروت)۔ اور علامہ علاء الدين حصكفي نے بھی چار رکعت کے ہی سنت مؤکدہ کا ذکر کیا ہے. وسن موٴکداً أربع قبل الظھر ……ورکعتان …بعد الظھر، ……ویستحب أربع قبل العصر وقبل العشاء وبعدھا بتسلیمة وإن شاء رکعتین وکذا بعد الظھر لحدیث الترمذي من حافظ علی أربع قبل الظھر وأربع بعدھا حرمہ اللہ علی النار (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۵۱، ۴۵۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ علامہ محدث ظفر احمد عثمانی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی چار رکعت کے ہی قائل ہیں اور دو رکعت کو استحباب کی قبیل سے فرمایا ہے : "قولہ: ”عن علي الخ“: دلالتہ علی تاکید الأربع قبل الظھر والرکعتین بعدھا ظاھرة۔ قولہ: ”عن أم حبیبة الخ“: قال الموٴلف: فیہ ترغیب، وھو لا یدل علی التأکید، وإنما یدل علی الاستحباب إلا إذا قترن بقرینة دالة علی التأکید، وقد ثبت کون الأربع قبل الظھر والرکعتین بعدھا سنة موٴکدة فبقي الرکعتان علی الاستحباب (إعلاء السنن، کتاب الصلاة، باب النوافل والسنن، ۷: ۳، ۴، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة کراتشي)۔ علامہ خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی چار رکعت کو ہی سنت مؤکدہ قرار دیا ہے : "قلت: وقد أخرج الترمذي من طریق الثوري عن أبي إسحاق عن المسیب بن رافع عن عنبسة بن أبي سفیان عن أم حبیبة، وفیہ: ” من صلی في یوم ولیلة ثنتي عشرة رکعة بني لہ بیت في الجنة: أربعاً قبل الظھر ورکعتین بعدھا“ الحدیث، وھذا ھو الموافق لما روت عائشةفي ھذا الباب، فالظاھر أن الرکعتین في الأربع بعد الظھر موٴکدتان والرکعتین غیر موٴکدتین" (بذل المجھود، کتاب الصلاة، باب الأربع قبل الظھروبعدھا، ۵: ۴۸۶، ط: دار البشائر الإسلامیة بیروت)۔مستفاد از فتاوی دارالعلوم دیوبند رقم الفتوی : 168684) فقط واللہ اعلم وعلمہ اتم ۔ ✍️  *کَتَبَہُ  الْعَبْدُمُنَوَّرٌبْنُ مُصْلِح الدِّیْنْ شیخ بھاٹاباری* 10/ صفرالمظفر 1445ھ۔مطابق 28/ اگست 2023ء *الجواب صحیح : مفتی ابو محمود شاہد حسن عثمانی* 11/ صفرالمظفر 1445ھ۔مطابق 29/ اگست 2023ء *الجواب صحیح : محمد حیدر مظاہری* 11/ صفرالمظفر 1445ھ۔مطابق 29/ اگست 2023ء *الجواب صحیح : ابو محمد منور صوفی کشگنجوی* 11/ صفرالمظفر 1445ھ۔مطابق 29/ اگست 2023ء   ضروری سوال پوچھنے کے لیے کلک کریں 📎. https://masailemmb.blogspot.com/2023/07/blog-post.html?m=1 📎 📎.  https://www.facebook.com/groups/Daruleftabhatabari/?ref=share  📎 📎  https://t.me/daruleftabhatabari 📎

Comments