Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
May 13, 2025 at 09:07 PM
"𝘽𝙞𝙧 𝘼𝙨𝙠 𝙃𝙞𝙠𝙖𝙮𝙚𝙨𝙞" 𝙃𝙖𝙣𝙞𝙖 𝙉𝙤𝙤𝙧 𝘼𝙨𝙖𝙙 "بیر اشک ہیکے ایسی" "میری محبت کی کہانی" "قسط نمبر 15" تیسرا باب ـــــــــــ"ارحام" (خون کے رشتے) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ وہ گاڑی پارک کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہوا تھا۔ یہ ایک خوبصورت گھر تھا ۔ ایک عالی شان بنگلہ ۔ احمد اکبر کے گھر جیسا ۔ شاندار اور لگژری ، جہاں دنیا کی ہر چیز میسر تھی۔ رحام پہلے ہی اوپر چلی گئی تھی۔ وہ تقریباً پچیس منٹ بعد کمرے میں داخل ہوا ۔ سامنے رحام ڈریسنگ مرر کے آگے بیٹھی ہاتھوں پر نائٹ کریم لگا رہی تھی۔ وہ نائٹ سوٹ میں ملبوس تھی۔ "رحام ۔۔۔۔ تمہیں میرا ویٹ کرنا تھا۔۔۔۔ تم نے چینج کیوں کر لیا؟" روشان نے کوٹ اتار کر بیڈ پر پھینکا تھا۔ وہ بلیک ڈنر سوٹ میں ملبوس تھا۔ "رحام احمد اور انتظار ؟؟؟ طبیعت خراب ہے آپکی شاید اے سی پی صاحب ۔۔۔۔" رحام نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے آئینے سے ہی اسے دیکھا۔ "رحام اب اپنی عادتوں کو بدل لو ۔۔۔۔ پہلے برداشت کر لیتا تھا کیوں کہ کوئی حق نہیں تھا تم۔پر میرا ۔۔۔ لیکن اب ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔" روشان نے انگلی اٹھا کر وارن کیا تھا۔ "نہیں تو کیا کر لو گے؟؟" رحام ایک دم سے اٹھ کر اسکے روبرو آ کھڑی ہوئی تھی۔ "ہاتھ پیر توڑ کر گھر بٹھا دوں گا ۔۔۔ یو نو۔۔۔ یہ میرا پیشہ ہے ۔۔۔ ہڈیاں توڑنا اور لوگوں کو سدھارنا۔۔۔۔" روشان نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھڑلے سے کہا۔ "تمیز سے بات کرو، بیوی ہوں تمہاری ۔۔۔۔"گھنگھریالے کھلے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے غصہ کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔ "بیوی ہو۔۔۔۔ ماں نہیں ۔۔۔" روشان نے اسمرک پاس کی ۔ "بہت گھٹیا انسان ہو ویسے تم ..." وہ اسکا گریبان پکڑ کر بولی۔ "اور تم اس گھٹیا انسان کی پہلی بیوی ۔۔۔۔ رائٹ ؟" وہ اسے تپانے کے موڈ میں تھا۔ "پہلی اور آخری ۔۔۔" رحام نے طنزیہ مسکراہٹ اچھالی۔ روشان نے اپنے گریبان سے اسکے ہاتھ ہٹا کر ہاتھوں میں پکڑے اور آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گہری سانس لے کر بولا۔ "لو یو سو مچ مائے بیوٹی فل ڈائن۔۔۔" یہ کہتے ہوئے اس نے رحام کے ماتھے پر لب ثبت کر دیے۔ رحام مسکرائی اور اگلے ہی پل اس نے ایڑھیوں پر اوپر اٹھتے ہوئے روشان کا عمل دہرایا۔ "Love you more, wild ghost". روشان حیران ہوا تھا۔ اسے بلکل بھی آئیڈیا نہیں تھا کے رحام یہ رد عمل دے گی۔ "مجھے لگا تم شرماؤ گی۔۔۔۔ تمہارا فیس بلش کرے گا۔۔۔۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔۔۔ مجھے شرم آ گئی لیکن تمہیں نہیں ۔۔۔" روشان نے اسکی کمر میں بازو ڈال کر اسے تھوڑا قریب کرتے ہوئے کہا۔ "کیوں؟ شرمانے پر ایوارڈ ملتا ہے کیا؟ اور تم مجھ سے ایسی امیدیں نا لگایا کرو روشان ۔۔۔ میں رحام ہوں ، میں باقیوں سے مختلف ہوں۔۔." رحام روشان کی شرٹ کے بٹن کے ساتھ کھیلتے ہوئے نظریں جھکائے کہہ رہی تھی۔ "باقیوں سے مختلف ہو تو یقیناً منہ دکھائی بھی نہیں لوں گی! ہے ناں؟" روشان نے آئبرو اٹھاتے ہوئے پوچھا ۔ "منہ دکھائی تو لوں گی، کیوں کہ میری منہ دکھائی بھی باقیوں سے مختلف ہو گی۔۔۔ جانتے ہو کیوں؟" رحام نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ "کیوں؟" "کیوں کہ مجھے منہ دکھائی دینے والا "کوئی" نہیں ۔۔۔۔ روشان اکبر ہے۔۔۔۔ سب سے الگ سب سے منفرد اور سب سے بڑھ کر رحام احمد کا پسندیدہ مرد!!!!" رحام کی باتیں سن کر روشان کو چکر آ رہے تھے۔ یقین ہی نہیں آ رہا تھا پہلو میں کھڑی لڑکی رحام ہے۔ "یہ نکاح کے بولوں کا اثر ہے یا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں عالی جاہ؟" روشان نے پوچھا۔ "کیا مطلب ۔۔۔۔؟؟؟" "تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔۔۔ کہیں سر پر چوٹ ووٹ تو نہیں آئی؟" روشان نے اسکا سر غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ "دفعہ ہو جاؤ ۔۔۔۔ تم محبت کے قابل ہی نہیں ہو۔۔۔۔ صحیح کہتے ہیں لوگ ، پولیس والوں کو عزت راس نہیں آتی ۔۔۔" رحام اسے دور دھکیلتے ہوئے پیچھے ہٹی تھی۔ "پولیس والے کی بیوی کے بارے میں بھی لوگ بڑی باتیں کرتے ہیں ویسے ۔۔۔۔۔" روشان نے کلائی سے گھڑی اتارتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر رکھی۔ "کیا؟؟؟" وہ لیٹی ہی تھی سونے کے لیے کہ پھر اٹھ بیٹھی۔ "یہی کہ پولیس والے نے کیا بندی پھنسا لی ۔۔۔ یہ اے سی پی تو بڑا چھپا رستم نکلا ۔۔۔۔" روشان نے ہاتھ کاندھوں تک اٹھاتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا۔ "تمہارے چیپ دوستوں کی چیپ باتیں۔۔۔۔ اب آواز نا آئے تمہاری ۔۔۔ریسٹ کرنے دو مجھے۔" وہ بلینکٹ سیدھا کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ "ہاں ۔۔۔ ہاں مری رہو۔۔۔" روشان یہ کہتا ڈریسنگ روم کا دروازہ بند کر گیا۔ رحام نے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پڑی اپنی ہیل اٹھا کر پھینکی تھی مگر وہ دروازہ بند کر چکا تھا۔ ہیل دروازے پر جا بجی۔ "تم باہر ہی آؤ گے روشان۔۔۔ اندر سے ہی اوپر نہیں پہنچو گے۔۔۔" وہ غصے میں چلائی تھی اور روشان کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔ ✓✓✓ یہ رات کا آخری پہر تھا۔ وہ وقت جب دور دور سے اذان کی سدائیں بلند ہوتی ہیں ۔ یہ منظر ایک بڑے بنگلے کی بالکونی کا تھا۔ جہاں نیچے فرش پر ایک ذی روح پڑی ہوئی تھی ۔ کڑکتی سردی اور سحر کا وقت ۔ وہ معصوم سی پری سرخ عروسی لباس میں ملبوس بالکونی ایک کونے میں پڑی ہوئی تھی۔ اسکے لب نیلے پڑ چکے تھے۔ سرخ چوڑیوں سے سجے ہاتھ بھی مارے ٹھنڈ کے سرخ ہو رہے تھے۔ آنکھیں متورم تھیں ۔ آس پاس زیورات بکھرے پڑے تھے۔ چوڑیاں بھی ٹوٹ کر بکھری پڑی تھیں امیدوں کی طرح۔ وہ چوکھٹ سے اپنا دکھتا سر ٹکائے اب آنکھیں موندیں بیٹھی تھی۔ رو رو کر وہ تھک چکی تھی۔ اب آنسو بھی وقفہ مانگ رہے تھے۔ تبھی شیشے کا دروازہ دھکیل کر کوئی بالکونی پر آیا تھا۔ اس نے بوجھل پلکیں اٹھائیں ۔۔۔ سامنے سفیر عالم کھڑا ہوا تھا۔ سفید قمیص شلوار میں ملبوس ہاتھ سینے پر باندھے وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ جا بجا چہرے پر پڑے سرخ اور نیلے نشان، بکھری حالت ، الجھے بال، لہنگے کے کئیں کئیں سے اڑے چیتھڑے ۔ ایک رات میں اس نے اس پھول کو مسل ڈالا تھا جو کل تک اپنے باپ کے باغ میں کھلا ہوا تھا۔ "اٹھیں مسز سفیر عالم، نئی زندگی کی پہلی صبح مبارک ہو!" ایک جھٹکے سے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے اپنے سامنے کھڑا کیا تھا۔ "چھوڑیں مجھے۔۔۔۔ میں پوری دنیا کو بتاؤں گی آپ نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔۔۔۔ آپ بہت گھٹیا انسان ہیں۔۔۔" وہ خود کو چھڑاتے ہوئے چلائی۔ "ریلیکس بے بی۔۔۔ ابھی تو کچھ کیا ہی نہیں ہے میری جان۔۔۔ یہ تو بس شروعات ہے۔۔۔۔ اور کیا بتاؤ گی سب کو؟ شوہر بیوی اپنی آپس کی باتیں کسی کو نہیں بتاتے میری جان۔۔۔" وہ اسکے چہرے کے قریب چہرہ کرتے ہوئے بولا۔ "دور ہٹیں مجھ سے۔۔۔۔ گھن آتی ہے مجھے آپ سے۔۔۔۔" وہ اسے دھکیلتے ہوئے بولی۔ "چٹاخ۔۔۔۔" ایک زناٹے دار تھپڑ سفیر نے اسکے منہ پر دے مارا۔ "میرے آگے زبان چلائی نا تو اسی لان میں زندہ دفنا دوں گا۔۔۔" سفیر نے اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے بالکونی سے نظر آتے لان کی طرف اشارہ کیا ۔ "سسی۔۔۔۔ چھوڑ۔۔۔ چھوڑیں۔۔۔" اسکی آنکھیں آنسوؤں سے بھریں۔ "میں۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔ کو بتاؤں گی۔۔۔۔ آپ نے جو چاہے کر لیں۔۔ آئیں گے نا ابھی ۔۔۔۔ میں سب بتاؤں گی۔۔۔" وہ آنسو بہاتے ہوئے بولی تھی۔ سفیر کا بلند و بانگ قہقہہ بلند ہوا تھا۔ پریشے کو اس قہقہے کو سن کر اپنی روح سرایت کرتی محسوس کی۔ "تمہارا باپ؟؟؟ وہ فون کر کے دادی سے معذرت کر چکے ہیں۔۔ دراصل وہ رحام کی طرف جائیں گے۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ باقی اس گھر میں ہم دونوں کے علاؤہ ہے بھی کوئی نہیں ۔۔۔۔ تو بے بی ۔۔۔۔ اپنے ننھے سے ذہن پر کسی قسم کا زور مت ڈالنا۔۔۔ سکون سے سفیر عالم کی پناہوں میں سکون حاصل کرو۔۔۔" پریشے کے پیر لرزے تھے۔۔۔۔ روح تک ایک مایوسی کی لہر دوڑی تھی۔ وہ اب اسے گھسیٹ کر کمرے میں لے جا رہا تھا ۔ ✓✓✓
❤️ 😢 🥺 👍 🫀 17

Comments