
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
19.6K subscribers
About Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
ھم یہاں خوبصورت اقتباس پڑھیں گے شاعری کو محسوس کریں گے ،اور مسکراتے لبوں کیساتھ محبتوں کے گیت گنگنائیں گے، مایوس دلوں میں امید کا دیا جلائیں گے اور زندگی کو خوبصورتی کیساتھ جئیں گے 🦋 آپکو ھمارے چینل میں خوش آمدید ✨ https://whatsapp.com/channel/0029Va9OdgeJf05ZIT914Y06 Link for islamic channel 👇👇👇 https://whatsapp.com/channel/0029VadBj9EFy72IsFukAO1U
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

" Bir Ask Hekayesi " Hania Noor Asad بیر اشک ہیکے ایسی میری محبت کی کہانی ۔ قسط نمبر 29 پانچواں باب رنگ بدلے جہاں کیسے کیسے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ "یہ سب کیا ہے روشان؟" غیر متوقع طور پر کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھول کر اندر داخل ہونے والی اسوہ بیگم تھیں جبکہ روشان کو احمد اکبر کا انتظار تھا۔ "کیا سب کیا ہے ممی؟" روشان جو بیڈ پر نیم دراز تھا اٹھ کھڑا ہوا اور انکے برابر آ کھڑا ہوا۔ "تم نے سفیر کا چیپٹر کلوز کروا کر میرے شوہر کو ٹینس کر دیا میں خاموش رہی پر تم نے میری بیٹی کو گھر سے نکال دیا؟ میں کیسے خاموش رہوں۔" وہ اتنے زور سے چلائیں کے روشان نے حقارت سے انہیں دیکھا۔ "آپکی بیٹی ایک ہفتہ دوبئی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ گزار کر آئی ہے۔۔۔ سوری میں ایسی عورت کو برداشت نہیں کر سکتا." روشان نے کہا۔ "تم بکواس کر رہے ہو ۔۔۔۔ میری بیٹی کے بارے میں ایسے لفظ استعمال کیے تو زبان ہی کھینچ لوں گی تمہاری ۔۔۔۔" وہ اسکا گریبان پکڑ کر دہاڑی تھیں۔ "آپ کی بیٹی سے مجھے اب کوئی رشتہ نہیں رکھنا.۔۔ میں نے نا کبھی موقع دیا ہے نا کبھی معاف کیا ہے ۔۔۔ مجھے یہ خبر دیر سے ملی پر مل گئی۔۔۔ اب میں لمحہ بھر اس عورت کے ساتھ نہیں گزار سکتا۔۔۔۔ آپ بھی مہربانی کر کے تشریف لے جائیے یہاں سے۔" اس نے نرمی سے کہتے ہوئے سختی سے اسوہ اکبر کے ہاتھ جھٹک دئیے۔ "تم بہت بڑے بے غیرت اور احسان فراموش انسان ہو روشان اکبر!" وہ نخوت سے چلائیں۔ "احسان ؟ کونسا احسان ؟ میرے باپ کے پیسے پر آپ کا شوہر ناگ بن کر بیٹھا ہوا ہے یہ ہے آپ کا احسان ؟ یا آپ کی بیٹی مجھے دھوکا دے رہی ہے یہ ہے احسان؟ اگر احسانات انہیں کا نام ہے تو براہ مہربانی مجھ پر نا کریں اور میرا پیچھا چھوڑ دیں ۔۔۔ اگلی بار مت آئیے گا یہاں ممی ۔۔ ورنہ مجبوراً گارڈز کی ہیلپ لینی پڑے گی۔" وہ غصے سے کہتا ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔ اسکے چہرے پر غصے سے سرخی گھل چکی تھی۔ اسوہ اکبر وہاں سے چلی گئیں ۔۔ روشان واش بیسن کے سامنے کھڑا خود پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار رہا تھا۔ دماغ ابل رہا تھا جیسے۔ پچھلے ایک ہفتے میں اس نے کئیں فیصلے کیے تھے۔ وہ پریشے کو ترکی بھجوا چکا تھا۔ تمام تر حقائق اسکے گوش و گزار کرنے کے بعد ۔ پریشے کو یہ جان کر بلکل حیرت نہیں ہوئی تھی کہ وہ احمد اکبر اور اسوہ بیگم کی بیٹی نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ حقیقت اس پر اسی دن عیاں ہو گئی تھی جب اسکی شادی سفیر سے ہوئی تھی۔ پریشے سے روشان نے کوئی لمبی چوڑی گفتگو نہیں کی تھی۔ وہ کمرے میں گیا تھا اور اس سے پوچھا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ جس کے جواب میں پریشے نے کہا تھا کہ وہ یمان نوریز کے پاس جانا چاہتی ہے۔ روشان نے اگلے دن ہی اسے تمام تر کیسوں سے دستبردار کرتے ہوئے ترکی روانہ کر دیا تھا ۔ پریشے کے جاتے ہی اسے اپنے غیر ملکی دوست کی طرف سے رحام کی کچھ تصاویر ملی تھیں۔ جن میں وہ کسی شخص کے ساتھ شراب نوشی میں مصروف تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب روشان اکبر کی محبت ساتویں آسمان سے زمین کی آخری تہہ میں آ گری تھی۔ اسے نفرت محسوس ہوئی تھی خود سے ۔ دوسری مرتبہ ۔اسے پہلی مرتبہ اسے خود سے نفرت کچھ عرصے پہلے ہوئی تھی جب اس پر یہ حقیقت کھلی تھی کہ عدل اسکی سوتیلی بہن ہے۔ اس پل اسے خود سے بہت نفرت ہوئی تھی کیونکہ وہ لمحوں کو سہی پر عدل کے سحر میں کھویا تھا اور عدل نا جانے کیا کیا سوچتی رہی تھی ۔ دوسری بار اسے خود سے نفرت رحام کو جان لینے کے بعد ہوئی تھی۔ وہ عورت اس کو بری لگی تھی بہت بری ۔ تبھی اس نے ملازموں اور گارڈوں سے کہہ کر اس کا داخلہ ممنوع کروا دیا تھا۔ وہ کل رات آفس سے لوٹی تو اسے گارڈز نے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ اور آج صبح ہی صبح اسوہ بیگم پہنچ گئی تھیں۔ پچھلا ایک ہفتہ ایک فلم کی طرح روشان کے دماغ میں چل رہا تھا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنی گن کی ساری گولیاں "ساحر رندھاوا" کے سینے میں گھونپ دے ۔ جو رحام روشان اکبر سے محبت کا دعویدار تھا اور روشان کے دھمکانے پر بھی پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا۔ اسے کسی کا خوف نہیں تھا بس رحام چاہیے تھی اور رحام کسی صورت روشان کسی کو نہیں دے گا ۔ یہ تو طے تھا ۔ √√√ ائیر پورٹ پر کھڑی لڑکی بہت ڈری سہمی ہوئی تھی۔ آس پاس سے اور ہر شناخت سے ناآشنا وہ صرف "پریشے" تھی۔ اسے روشان نے بھیجا تھا ۔ سب کچھ روشان نے کروایا تھا۔ فلائٹ ، پیکنگ ، سفارش ، ہر چیز۔ اسے پتا بھی نہیں چلا تھا اور وہ ترکی پہنچ گئی تھی۔ سفید فلیپر پر پرپل لمبی قمیص پہنے ، اپنے گرد سفید دوپٹے کو اچھی طرح لپیٹے وہ کمر پر جھولتے بالوں کو کھولے ہوئے تھی۔ جو بال پہلے وہ کندھوں سے نیچے نہیں آنے دیتی تھی وہ اب کمر پر جھول رہے تھے۔ کچھ ہی دیر وہ ویٹنگ ایریا میں کھڑی تھی جب اسے اپنے عقب سے کسی کی آواز آئی تھی ."ایکسکیوزمی...." وہ اس آواز کو کروڑوں کے مجمع میں پہچان سکتی تھی۔ اک وہی تو آواز تھی جسے سننے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔ ٹھوکر لگنے کے بعد محبت اور بھی پختہ ہو گئی تھی ۔ وہ مڑی اور سامنے دیکھا۔ بلیک سوٹ پینٹ پر وائٹ شرٹ پہنے، بازو کہنیوں تک فولڈ کیے وہ Gucci کی ڈائمنڈ واچ والا ہاتھ بیگ تھامنے کے لیے آگے بڑھائے ہوئے تھا۔ اس کا قد کافی اونچا تھا۔ پریشے اسکے سینے تک آئی تھی۔ اسکی کرسٹل گرے آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ پریشے کو وہ نہیں دیکھ رہا تھا۔ پریشے اسے دیکھتی گئی۔ چہرے پر اس نے بلیک ماسک لگا رکھا تھا۔ صرف سحر زدہ آنکھیں ، بھورے بالوں سے جھلکتی پیشانی اور بڑے بڑے کونوں سے سرخ ہوتے کان نظر آ رہے تھے۔ پریشے اسے دیکھ نہیں گھور رہی تھی ، سب کچھ بھلا کر سب کچھ چھوڑ کر ۔ انقرہ کے ائیر پورٹ پر سرمئی شام پھیل رہی تھی ۔ پر پریشے کو سرمئی شام نہیں دلچسپ لگی تھی اسے سرمئی آنکھوں میں دیکھ کر سکون ملا تھا۔ کتنی خوبصورت آنکھیں تھیں ناں؟ جن میں حیا تھی۔ بھلا مرد کی حیادار جھکی ہوئی آنکھوں سے خوبصورت بھی کوئی آنکھیں ہو سکتی ہیں؟ وہ پاگل ہوئی تھی اسے دیکھ کر اسے نہیں پتا چلا تھا لمحے کیسے سرکے تھے۔ بالآخر یمان نوریز نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ سے بیگ لیا تب وہ ہوش میں آئی اور اسکی نظریں چہرے سے نیچے گردن تک آئیں ۔ یہاں بھی نظریں ٹہری تھیں اور پھر بے ساختہ اسکے ہاتھ یمان کی گردن کی جانب بڑھے تھے۔ "یہ۔۔۔۔ یہ میرا ہے۔۔۔ یہ کھو گیا ۔۔۔ تھا ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ میں نے ۔۔۔ بنوایا تھا۔۔۔۔" وہ اسکے گلے میں لٹکی " Y " والی چین دیکھ کر دبی دبی چلائی تھی ۔ یمان نے نرمی سے اس کے ہاتھ گریبان سے ہٹائے اور اس کا سلیو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ چلانے لگا۔ وہ بھی کسی معمول کی طرح چل پڑی ۔ ائیر پورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں گزرتے لوگ پریشے کے لیے معنی نہیں رکھتے تھے ۔ اگر معنی رکھتا تھا تو وہ شخص جو اسکی کلائی نہیں اسکی شرٹ کا بازو پکڑ کر اسے اپنے برابر برابر چلا رہا تھا ۔ وہ قدم رکھتی تو وہ قدم اٹھاتا کہ کہیں پریشے سے آگے قدم نا بڑھ جائے ۔ پانچ منٹ کے بعد وہ دونوں گاڑی میں آ بیٹھے تھے۔ پریشے فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی اور یمان نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی۔ وہ سامنے دیکھتا نارمل اسپیڈ میں گاڑی چلا رہا تھا۔ پریشے ذرا سا مڑی تھی اور پھر اسے دیکھنے لگی تھی ۔ اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی اسے بس اس شخص کو جی بھر کے دیکھنا تھا۔ یمان کب سے اسکی نظریں خود پر محسوس کر رہا تھا اور آج یمان نوریز پر انکشاف ہوا تھا کہ وہ شرماتا بھی ہے ۔ اسے شرم آتی ہے جب اسکی محبت اسے دیکھتی ہے اور ہاں اسکے کان آج سردی کی وجہ سے نہیں شرم کی وجہ سے کونوں سے سرخ ہو رہے ہیں ۔ وہ کب کا ماسک ہٹا دیتا پر اسے لگ رہا تھا اسکے گال سرخ ہو رہے ہونگے جو پریشے دیکھ لے گی ۔ طویل ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک مسجد کے آگے رکی تھی۔ شیشوں کی بنی ایک خوبصورت مسجد "المحمدیہ". یمان گاڑی سے اترا تھا اور پریشے کی طرف کا دروازہ کھولا تھا۔ پریشے نے ایک نظر اسے پھر مسجد کو دیکھا تھا۔ "م۔۔۔ مسج۔۔۔ جد کیوں؟" وہ حیرت سے کبھی اسے کبھی مسجد کو دیکھ رہی تھی۔ "نکاح کے لیے..." یمان نے بہت آہستگی سے دوسری آواز نکالی تھی۔ پہلے بھی سوائے ایکسکیوزمی کے کچھ نہیں بولا تھا۔ "نن۔۔۔ نہیں ۔۔۔ نکاح نہیں ۔۔۔ میں سفیر کے نکاح میں ہوں." وہ سہم کر پیچھے ہٹی تھی۔ "اترو گاڑی سے۔" یمان نے تھوڑا سا اونچا کہا مگر وہ مزید سمٹ کر بیٹھ گئی۔ اور نفی میں گردن ہلانے لگی ۔ "باہر نکلو گاڑی سے۔۔۔ دماغ نا گھماؤ میرا۔۔۔" یمان نے اسکی چادر کو مٹھی میں پکڑا۔ "تم زبردستی نہیں کر سکتے۔۔۔ میں روشان کو فون کر دوں گی ۔۔۔ دور ہٹو ۔۔۔ یہ سب غلط ہے ۔۔۔ میں نکاح میں ہوں کسی کے ." وہ پیچھے ہوتے ہوئے بول رہی تھی۔ یمان کا دل کر رہا تھا اس لڑکی کو دو تھپڑ جڑ دے۔ اسے وہ کس اینگل سے بیوقوف لگتا تھا جو نکاح پہ نکاح کرتا۔ "نہیں رہا وہ تمہارا نامرد شوہر." وہ غرایا تھا اور پریشے کی چھٹی حس نے اسے محتاط کیا تھا۔ "کک۔۔۔ کیا مطلب؟؟؟" وہ آنکھیں پھاڑ کر اسے گھورنے لگی۔ "جو سنا تم نے." سپاٹ لہجے میں جواب آیا ۔ "یہ۔۔ یمان ۔۔۔ پھر بھی مجھے عدت ۔۔۔ پوری کرنی ۔۔۔ ہوگی۔۔۔ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔" وہ رو پڑی تھی۔ اور یمان کا پارہ ہائی ہونے لگا تھا۔ "مجھے مت مجبور کرو کہ میں تمہیں نا چاہتے ہوئے بھی بنا نکاح کیے ہاتھ لگاؤں۔۔۔ سیدھی طرح اٹھ کر باہر آؤ نہیں تو میں لمحے نہیں لگاؤں گا تمہیں بانہوں میں اٹھا کر اندر لے جاتے ہوئے۔" یمان نے اس قدر سختی سے کہا تھا کہ پری لمحے بھر کو ساکت رہ گئی پر اگلے ہی لمحے وہ گاڑی سے اتر چکی تھی اور اب ٹسوے بہا رہی تھی۔ "چلو ۔۔۔" گاڑی لاک کر کے وہ اس کے سامنے آیا اور بولا۔ مگر وہ اب سڑک پر منجمد ہو چکی تھی۔ "مم۔۔ مجھے ۔۔۔ نہیں کرنی آپ سے شادی ۔۔۔ میں ایک درندے سے بچ کر دوسرے کے حوالے نہیں ہونا چاہتی ۔۔۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔" پریشے اب دوپٹے سے ناک رگڑ رگڑ کر لال کر رہی تھی۔ بال اڑ کر بکھر چکے تھے۔ "ڈائیلاگ بازی بعد کے لیے رکھ دو ۔۔۔ بیوی بن کے یہ سب کام آئے گا۔ فی الحال اندر چلو ۔۔۔ مسجد والے ویٹ کر رہے ہیں۔" یمان نے پھر اسی سختی سے کہا۔ "کیوں کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں؟ اگر غصہ نکالنے کے لیے بیوی بنا رہی ہیں تو نہیں بننا میں نے." وہ بری طرح چٹخ کر بولی تھی یہ بندہ کچھ زیادہ ہی رعب جما رہا تھا۔ "ان ڈایریکٹلی کتا کہہ رہی ہو مجھے؟" یمان نے پہلی بار سخت آنکھوں سے اسے گھورا تھا۔ "یہ۔۔۔ کب کہا میں نے؟" "کاٹ کھانے کو دوڑنے والا کون ہوتا ہے؟" یمان نے سوال کیا۔ "شش۔۔۔ شیر ۔۔۔ ہاں شیر ۔۔۔ آپ تو شیر ہیں ۔۔۔ میں یہ کہہ رہی تھی۔" وہ لمحوں کو بھی اسکی سخت آنکھیں خود پر برداشت نہیں کر پائی تھی اور لائن پر آئی تھی ۔ "تم اندر چلو گی یا اندر والوں کو باہر بلاؤں ؟" یمان نے اسکا جملہ اگنور کرتے ہوئے پوچھا۔ "آ رہی ہوں ۔۔۔ یمان میری سارے گناہوں کی سزا آپ کے حصے میں آئے گی۔" وہ آہستگی سے قدم آگے بڑھاتے ہوئے بولی۔ "تم سے بڑی بھی کوئی سزا ہے بھلا؟" یمان نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اسے گھور کر آگے چلنے لگی۔ مسجد کے دروازے سے ذرا پیچھے یمان رک گیا۔۔ پریشے بھی رک گئی ۔ اور اگلے ہی پل وہ مسجد کی راہداری میں پریشے کے سامنے زمین پر گھٹنا ٹکائے بیٹھ چکا تھا۔ پینٹ کی جیب سے اس نے ایک سرخ مخملی ڈبیا نکالی تھی اور کھول کر آگے بڑھائی تھی۔ "پریشے! کیا تم پریشے یمان نوریز بنو گی ؟" وہ اب بھی آنکھیں جھکائے ہوئے تھا۔ پریشے نے ڈبیا کو نہیں دیکھا تھا نا اسے کوئی دلچسپی تھی۔ وہ حیران تھی شدید حیران ۔۔۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یمان نوریز اسکے قدموں میں بیٹھا ہوا ہے۔ کیا یمان نوریز بھی کسی کے قدموں میں بیٹھ سکتا ہے؟ کیا پریشے نے کبھی ایسا سوچا تھا۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے اسے دیکھنے لگی۔ ماحول فسوں خیز تھا۔ سرد ہوائوں کے بیچ دھڑکنوں کا مدہم سا شور ۔ "میری ٹانگیں دکھ رہی ہیں پریشے ۔۔۔ یس کرو جلدی ۔" یمان نے اسے مخاطب کیا۔ پریشے ڈبیا کی طرف مڑی اور پھر اسکے ہونٹ خود بخود مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔ اس ہاتھ بڑھا کر بہت ہی آرام سے ڈبیا میں زرا سی اٹکی ہوئی ڈائمنڈ رنگ کو چپکے سے اٹھا کر مٹھی میں دبا لیا۔ اور چہرے پر ناراضگی سجا لی۔ "باکس میں رنگ نہیں ہے یمان!" اس نے بہت نروٹھے لہجے میں کہا اور یمان نے باکس کو اپنی جانب موڑا واقع ہی رنگ نہیں تھی۔ "ابھی یہیں تھی۔۔۔کہاں گئی؟" وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ دو تین منٹ تلاش کرتا رہا پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ "ہم نئی لے لیں گے." "کیا آپ تیسری بار میرے لیے ڈائمنڈ رنگ لیں گے؟" پریشے نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔ "تئیسویں بار بھی لے لوں گا۔۔۔۔ فی الحال آپکا اب پریشے یمان نوریز بننے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔۔۔ چلیے۔" وہ آگے بڑھا تھا پریشے بھی ساتھ بڑھ گئی تھی۔ "پری دوپٹہ سر پر رکھ لو." یمان کے کہنے پر اس نے دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھا تھا۔ کچھ ہی منٹوں کے بعد پریشے ، پریشے یمان نوریز بن چکی تھی۔ یمان نوریز خود کو آسمانوں پر اڑتا محسوس کر رہا تھا۔ سامنے بیٹھے کالر نے انہیں دعا دی تھی اور سروں پر زعفران کا تیل لگایا تھا۔ یہ کوئی ترک رسم تھی۔ پریشے خوش یا مطمئن نہیں ہو رہی تھی۔ ناجانے کیوں وہ مطمئن بھی تھی اور نہیں بھی۔ دل مطمئن دماغ غیر مطمئن یا دماغ مطمئن دل غیر مطمئن ۔ پریشے اٹھ کر باہر نکل آئی تھی۔ مسجد میں ایک خوبصورت لان بنا ہوا تھا۔ پھولوں سے سجا ایک خوبصورت سا منظر ۔ پریشے کی آنکھیں برس رہی تھی۔ "پریشے آر یو اوکے؟" یمان اسکے پیچھے آیا تھا۔ اس نے مڑ کر یمان کو دیکھا وہ ماسک اتار چکا تھا۔ ہلکی بئیرڈ والا چہرہ مسجد کی روشن لائٹس میں صاف ظاہر ہوا تھا۔ اسکے چہرے پر طمانیت تھی جو پریشے محسوس نہیں کر پا رہی تھی۔ "یمان ۔۔۔۔ میں سفیر کے نکاح۔۔۔" وہ بولی ہی تھی کہ یمان نے آگے بڑھ کر اسے بانہوں سے پکڑ لیا تھا۔ "کسی کا نکاح نہیں ہوا تھا تم سے، بھول جاؤ سب میری تھی اور میری ہوگئی ہو ۔۔ بس!" یمان اسکی آنکھوں میں جھانکا ۔ "یمان سب بہت غلط ہو رہا ہے۔۔۔ بہت غلط !۔" وہ چلائی تھی دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر ۔ یمان نے اسے دیکھا اور پھر سر جھٹک کر نرمی سے سینے میں بھینچ لیا۔ "وہ ساڑھے چار ماہ پہلے تمہیں طلاق دے چکا ہے پریشے ۔۔۔ اس نے یہ جانتے ہی کہ اسکی بیوی اسپکٹ کر رہی ہے تمہیں طلاق دے دی تھی اور یہ اسکی بیوی کی خواہش تھی۔۔۔ اسی لیے وہ تم سے دور رہنے لگا تھا اور تمہارے والے گھر میں بھی نہیں آتا تھا ۔ تم صرف ڈیڑھ ماہ اس کے نکاح میں رہی ہو ۔ اور اس ڈیڑھ ماہ کا حساب وہ دے چکا ہے ۔۔۔ پریشے پلیز سب کچھ بھلا دو ۔۔۔ مجھے میری پریشے واپس چاہیے." وہ اسکا سر سینے پر رکھے ہلکے ہلکے تھپک رہا تھا ۔ پریشے اسکی بات کے مکمل ہونے سے پہلے دور دور ہو رہی تھی پر بات مکمل ہوتے ہی اسکے گرد اپنے بازو لپیٹ چکی تھی۔ "ایک اور ظلم جو اسکی ذات پر ہوا اسے بے خبر رکھتے ہوئے." "آج رو لو جتنا رونا ہے۔۔۔ آئندہ نہیں رونے دوں گا یاد رکھنا." یمان نے لب اسکے سر پر رکھ دئیے تھے۔ "ی۔۔ یمان ۔۔۔ میں ۔۔۔ بہت ۔۔۔ بری ۔۔ ہوں۔۔ آپ کے قابل ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ " وہ ہچکیوں کے درمیان بمشکل بولی ۔ یمان نے اسے خود سے علیحدہ کیا اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھاما جو آنسوؤں سے تر تھا۔ "جیسی بھی ہو میری ہو. اور مجھے جان سے زیادہ پیاری ہو." وہ انگلیوں کے پوروں سے اسکے آنسو صاف کرتا باری باری اسکی آنکھوں پر لب رکھ گیا تھا۔ پھر جھکا اور اسکے دونوں گالوں کو باری باری چوم لیا۔ پریشے چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔ اب کے جھکا تو ٹھوڑی کو چوم لیا۔ اور پھر سیدھے کھڑے ہو کر ماتھے پر لب رکھ دئیے۔ اگلے ہی پل زور سے سینے سے لگایا اور پریشے کے رگ و پے میں سکون سرایت کر گیا۔ اتنا سکون جتنا کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور یمان ؟ اسے لگ رہا تھا وہ آج جی اٹھا ہے۔ "آپ پیار کرتے ہیں مجھ سے؟" سینے سے لگے لگے سوال کیا۔ "میری زندگی ہو تم." وہ جذبات سے چور لہجے میں فوراً بولا۔ "محبت کرتے تھے تو بتاتے کیوں نہیں تھے؟" پریشے نے اس کی وائٹ شرٹ سے اپنا بہتا ناگ رگڑا تھا۔ "اپنا ثواب جانے دیتا؟ پہلے ہی اتنا گناھگار بندہ ہوں." یمان اسکی حرکت پر مسکرایا۔ "میں سمجھی نہیں ۔" وہ بولی۔ "نکاح کے بعد اظہار محبت بھی ثواب ہے پری!" یمان نے اسکی سر پر چپت لگائی ۔ "مجھے لگا تھا آپ مجھے میری پہلی شادی کے بعد ایکسپٹ نہیں کریں گے۔ " وہ اب نظریں جھکائے اسکے سامنے کھڑی تھی۔ "تم تو ہو ہی صدا کے بیوقوف عورت." وہ ہنس پڑا تھا۔ آج تو دل بھی قہقہے لگا رہا تھا۔ پریشے مسکرا دی ۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا وہ۔ "چلیں پسندیدہ عورت ؟" اس نے ہاتھ پریشے کے سامنے بڑھایا۔ "ہممم۔۔۔" وہ مسکرا کر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ گئی۔ "اللّٰہ کے گھر میں کھڑے ہو کر محبت کا اظہار کیا ہے تم سے میں نے پریشے اور تمہیں اپنے نکاح میں لیا ہے ۔۔۔ میری ریکوسٹ ہے کہ مجھے کبھی مایوس مت کرنا اور اب ۔۔۔ مجھ سے دور مت جانا۔"اسے اسکی طرف کی سیٹ پر بٹھاتے ہوئے وہ گاڑی کے دروازے میں کھڑے ہو کر بولا تھا۔ پریشے کی آنکھیں تشکر کے مارے بہہ پڑی تھیں۔ اس نے بنا کچھ سوچے سمجھے آگے ہو کر یمان کی پیشانی چوم لی تھی۔ یمان اس کے لمس پر آنکھیں موند گیا۔ وہ اسکی تھی یہ احساس ہی سوہانِ روح تھا۔ گاڑی چلاتے ہوئے یمان نے پریشے کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ اب شرمانے کی باری پریشے کی تھی۔ "شرماؤ مت دیکھو مجھے ۔۔۔ جیسے پہلے دیکھ رہی تھی ۔ بے شرم لڑکی ۔۔۔ نا محرموں کو کوئی ایسے گھورتا ہے؟" یمان نے اسے مصنوعی غصہ کیا۔ "جب گھورنا ہوا تو گھور لوں گی ۔۔۔۔ فی الحال مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے ۔۔۔" وہ بات بدل گئی تھی۔ "پیٹ نہیں بھرا تمہارا ؟ اتنا سارا پیار کیا تو ہے ابھی میں نے!" یمان نے حیران ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے اسے دیکھا۔ "آپ کھڑوس اور نکچڑے ہیں یہ تو پتا تھا پر بے شرم بھی ہیں یہ نہیں پتا تھا۔ " وہ سرخ چہرہ ونڈ اسکرین کی جانب موڑ گئی تھی اور یمان نوریز کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔ √√√

"Bir Ask Hekayesi" Hania Noor Asad " بیر اشک ہیکے ایسی " میری محبت کی کہانی قسط نمبر 28 پانچواں باب "رنگ بدلے جہاں کیسے کیسے" ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کمرے میں گہرا سکوت چھایا ہوا تھا۔ دو لوگ آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے بول کوئی نہیں رہا تھا۔ خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھا جا رہا تھا۔ "مسٹر احمد اکبر اور مسز اسوہ اکبر کو بتانے سے کیوں منع کیا تم نے مریم؟" عدل نے اچانک سے سوال کیا۔ وہ دونوں زمین پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ اپنے اپنے سنگل بیڈ کی پائنتی سے ٹیک لگائے۔ "کیوں بتایا جائے کسی کو؟" مریم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔ وہ کافی ٹائم بعد بولی تھی۔ آواز رندھی ہوئی تھی۔ "They were siblings." عدل نے کندھے اچکائے اور بولی۔ مریم نے چہرہ موڑ لیا۔ جیسے گفتگو نا کرنا چاہتی ہو۔ "مریم ۔۔۔ تم اداس ہو؟" عدل نے سوال کیا اور مریم نے جواب نہیں دیا۔ یہ عدل اتنی پاگل کیوں تھی؟ کیوں ایسے سوال پوچھتی تھی؟ اسکے اندر کا مچیور انسان کیوں نہیں جاگتا تھا؟ کیوں بچی تھی وہ؟ وہ دونوں اسی طرح بیٹھی تھیں جب عدل کا فون بجا۔ اس نے موبائل اٹھایا اور نام پڑھا۔ نا جانے کیوں کچھ دھڑکنوں نے ترتیب آگے پیچھے کی تھی۔ "میں میران کو لے کر آیا ہوں ، رات کو لے جاؤں گا۔۔۔ آ کر اسے پارکنگ لاٹ سے لے جاؤ ." گھمبیر آواز اسپیکر پر گونجی تھی ۔ مریم نے سن کر بھی بات نہیں سنی تھی اور عدل بے ساختہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اگلے کچھ منٹوں میں وہ ارحام کرابے کو دور سے آتی ہوئی نظر آئی تھی۔ وائٹ ٹراؤزر پر وائٹ کی بٹنوں والی شرٹ پہنے ، بالوں کو اونچی پونی میں قید کیے وہ اپنے سائز سے بڑے سلیپرز پہنے بمشکل چل رہی تھی۔۔۔ اسکی نظریں ارحام کو ادھر اُدھر تلاش کر رہی تھیں۔ وہ اچھی لگتی تھی بہت زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں! ارحام کرابے نے سودہ آرگن کے بعد اگر کسی لڑکی کو آنکھیں بھر کر دیکھا تھا تو وہ عدل تھی۔ وہ نا ہی اس سے محبت کا دعویدار تھا نا ہی اس سے ارحام کا کوئی رشتہ تھا، پر وہ اسے بچانا چاہتا تھا ، اسے سنبھال کر رکھنا چاہتا تھا، اسے ہر نظر سے بچا کر اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ "میں نے اپنا ہم سفر چننے میں غلطی کی تھی۔۔۔ شاید تبھی میں خسارے میں ہوں." بے ساختہ اسکے ذہن میں یہ خیال آیا تھا اور اگلے ہی پل وہ حیران ہوا تھا خود پر۔ یہ ارحام کرابے کو کیا ہو رہا تھا ؟ "عدل۔۔۔۔۔۔" میران عدل کو دیکھ چکا تھا ۔ ارحام سے ہاتھ چھڑا کر وہ عدل کی جانب دوڑا ۔ عدل بھی اسکی آواز سن کر خوشی سے اس کی جانب لپکی ، مگر اگلے ہی پل اسکا سلیپر پیر میں بری طرح اٹکا اور وہ دھڑام سے زمین پر جا گری ۔ یہ سب اتنا جلدی ہوا کہ ارحام کو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا وہ اپنی جگہ فریز کھڑا رہا ۔ "عدل۔۔۔۔ اووو۔۔۔۔ بلڈ.." میران آگے بھاگا اور عدل کی ہتھیلی پر ننھی ننھی خون کی بوندیں دیکھ کر پریشان ہوا۔ "اٹس اوکے بے بی ۔۔۔ " عدل نے وائٹ شرٹ سے اپنی ہتھیلیاں لاپرواہی سے رگڑیں اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ (اف یہ لاپرواہ عدل، کب بڑی ہوگی). ارحام کرابے نے اسکی یہ حرکت بخوبی دیکھی تھی ۔ ایک مسکراہٹ خود ہی لبوں پر امڈ آئی تھی۔۔اس سے پہلے وہ اسے چھپاتا عدل کی نظریں اسکے چہرے پر ٹکی تھیں۔ "ہنس لیں ۔۔۔ گر تو کوئی بھی سکتا ہے۔۔۔ جب آپ گریں گے تب میں بھی ہنسوں گی۔" اسے افسوس ہوا تھا۔ "میں دیکھ کر چلتا ہوں اور اپنے سائز سے بڑے جوتے نہیں پہنتا۔" وہ بلکل شستہ اردو میں تو نہیں بولا تھا پر یمان اور براک جیسی اردو بول لیتا تھا۔ ترکش کی جھلک والی اردو۔ "یہ براک کے سلیپرز ہیں ۔۔۔" وہ اپنے پیروں کو دیکھ کر بڑبڑائی۔ "اپنے کہاں ہیں آپ کے؟" ارحام نے پوچھا۔ "وہ فیونرل پر گم ہو گئے تھے." اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ ارحام نے اپنا ہاتھ بالوں میں پھیرتے ہوئے ہنس کر اسے دیکھا۔ "فیونرل؟... کیا تم کہہ رہی ہو کسی مہمان نے تمہاری چپل چرا لی؟" "ہممم۔۔۔۔ مہمان نہیں ۔۔۔ مطلب کسی نے ۔۔۔ " وہ تذبذب کا شکار ہوئی۔ آخر وہ کیوں باتوں کو نہیں سمجھتا؟ "یعنی تم مجھ پر الزام لگا رہی ہو!۔۔۔ گڈ.." ارحام نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔ "نہیں ۔۔۔ میں نے یہ تو نہیں کہا." وہ فوراً نفی میں سر ہلا گئی۔ "تب تو صرف وہاں میں ہی آیا تھا اور میرے ملازم ۔۔۔ ملازم تو میرے قابلِ بھروسہ ہیں ۔۔۔۔ یعنی پھر میں۔۔۔۔؟" ارحام نے بات اُدھوری چھوڑ دی۔ "میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔۔۔ آپ جائیں یہاں سے ۔۔۔ مجھے اور میران کو بہت کام ہیں۔۔۔ فارغ نہیں ہوتے ہم۔۔۔ ہے ناں میران ؟" عدل نے میران سے تائید چاہی۔ "یس۔۔۔۔" وہ بھی زور زور سے گردن ہلاتے ہوئے بولا تھا ۔ "آئی نو کیا کام ہیں۔۔۔ رنگوں کو بری طرح مکس کر کے الٹی سیدھی پینٹنگز بنانا، وہ ٹیڑھے میڑھے منہ والے بدنما کارٹون دیکھنا۔۔۔ نوڈلز اور پوپ کارن پر ہاتھ صاف کرنا اور الٹے سیدھے جوکس جن پر بندہ مسکرائے بھی ناں ۔۔۔ ان پر قہقہے لگانا۔۔۔ گڈ جاب۔۔۔ چار اور بیس سال کی عمر ہی دونوں بچے پاگل ہو گئے ہیں ! اوہ گاڈ." ارحام یہ کہتا جانے کے لیے مڑ گیا۔ عدل نے میران کا ہاتھ پکڑا اور اپنے اپارٹمنٹ کی جانب جلدی جلدی قدم بڑھائے ۔ اسے دروازے سے اندر کرنے کے بعد اپنے سلیپرز اتار کر جاگرز پہنے اور مریم کو آواز لگائی ۔ "مریم۔۔۔۔ میران کو اندر لے جاؤ میں آ رہی ہوں.۔۔۔ میران ویٹ ۔۔۔ میں ابھی آئی ۔" یہ کہہ کر وہ دروازہ لاک کر کے باہر کی جانب بھاگی ۔ پارکنگ لاٹ سے ارحام کرابے کی گاڑی جا چکی تھی ۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا ۔ اسے گاڑی سوسائٹی گیٹ سے نکلتی دکھائی دی ۔ وہ سرپٹ دوڑی ۔۔۔ گاڑی کے پیچھے تیز تیز ۔۔۔ بڑے بڑے ڈگ بھرتی۔ "مسٹر کرابے ۔۔۔۔ سٹااااپ۔۔۔" بمشکل چالیس سیکنڈ دوڑنے کے بعد وہ چلائی تھی۔ ارحام نے اسکی آواز سنی اور بیک ویو مرر کی طرف نظریں اٹھائیں۔ سڑک کے بیچ و بیچ وہ کھڑی ہانپ رہی تھی۔ "کتنی بڑی اڈیٹ ہے یہ۔۔۔۔" ارحام نے گاڑی کو سائیڈ پر کر کے بریک لگا دی۔ اب وہ مدہم قدموں سے چلتی اسکی جانب آ رہی تھی۔ اسکا چہرہ دوڑنے کے باعث سرخ ہو چکا تھا۔ "اسٹوپڈ ۔۔۔" ارحام نے گہری سانس لی اور سیٹ بیلٹ کھول کر گاڑی سے نکلا۔ عدل نے اسے آتے دیکھا تو قدم روک لیے۔ استہزایہ ارحام نے اسکے پیچھے خالی سڑک کو دیکھا۔ اس لڑکی کا کیا بھروسہ تھا۔۔۔ کیا پتا اپنے ساتھ میران کو بھی دوڑا رہی ہوتی؟ ۔ "تم پاگل ہو کیا؟ کوئی کام تھا تو کال کر لیتی یا اسی وقت روک لیتی یہ کون سا..." ارحام اس سے دو قدم دور کھڑا بول ہی رہا تھا جب وہ اپنے وجود کو بے جان کرتی سارا وزن اس پر ڈال گئی تھی ۔ ارحام کی دونوں کہنیوں کو پکڑے وہ گردن جھکائے گہرے سانس لے رہی تھی۔ اپنا سارا ویٹ اسکی کہنیوں پر ڈالے وہ پرسکون ہو رہی تھی۔ ارحام خاموش ہو گیا۔ اسے لگ رہا تھا ابھی اس کے بازو کہنیوں سے جدا ہو جائیں گے۔ وہ دیکھنے میں ہی چھوٹی تھی ۔ ویٹ کافی تھا اسکا۔ یہ ارحام کو آج پتا لگا تھا۔ اسکے چہرے پر پسینہ تھا۔تھوڑا سا دوڑنے کے بعد ہی حالت خراب ہو گئی تھی۔ ارحام نے کچھ دیر اس کی پیشانی پر نمایاں ہوتی پسینے کی بوندیں دیکھیں۔۔۔ پھر اپنا ایک ہاتھ چھڑا کر جیب سے رومال نکالتے ہوئے اس کا ماتھا اور پھر چہرہ صاف کیا۔ عدل نے چہرہ اٹھایا تھا اور ارحام نے نظریں۔ آنکھیں آنکھوں سے ملی تھیں، الفاظ خاموش ہو چکے تھے۔ سرمئی شام استنبول پر چھا رہی تھی اور کچھ تھا جو سڑک کنارے کھڑے دو لوگوں کے آس پاس حصار بنا رہا تھا، ایک دائرہ ، ایک حدود ، بے معنی سے نظروں کو معنی ملنے کو تھے۔ ہوا کے جھونکے نے نظروں کے سحر کو توڑ ڈالا۔ وہ لڑکی اس سے دور ہو کر کھڑی ہوگئی اور وہ بھی دو قدم پیچھے ہٹا۔ پھر دو قدم اور پھر مڑ گیا۔ "گاڑی میں آ کر بات کرو، لوگ دیکھ رہی ہیں۔" مڑتے ہوئے اس نے کہا تھا اور وہ میکانکی انداز میں اس کے حکم کی تعمیل کرتے اسکے پیچھے چل دی۔ اب سناٹے نے گاڑی میں اپنا کردار نمایاں کیا تھا۔ فرنٹ سیٹ اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے دونوں انسان خاموشی سے باہر نظر آتی سرمئی سڑک اور سرمئی شام کو دیکھ رہے تھے۔ "کیوں آئی تم میرے پیچھے؟ جبکہ میرا بیٹا تم سے ملنے آیا تھا۔" گاڑی میں ارحام کی بھاری آواز آئی تھی اور عدل کی دھڑکنوں نے پھر سر پٹخنا شروع کر دیا تھا۔ "م۔۔۔ مج۔۔ مجھے ۔۔۔ نہیں معلوم... مجھے خود بھی نہیں پتا ۔۔۔ میں کیوں آئی تھی؟" اس نے سچ کا ساتھ دیتے ہوئے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا تھا اور ارحام نے اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی تھی۔ کوٹ پہلے ہی وہ اتارے ہوئے تھا۔ اگلے ہی پل وہ سفید شرٹ کے کف لپیٹ رہا تھا۔ وہ کیا کر رہا تھا ؟ کیوں عدل کو اسکا ہر انداز دل پر لگ رہا تھا؟ وہ شخص کیوں ایک نئے احساس سے آشنا کروا رہا تھا۔ "عدل اکبر ۔۔۔ میں نے جو تمہیں پرپوز کیا اور تم سے ہسپتال میں کہا۔۔۔ اس سب کو بھول جاؤ ۔۔۔ نا میں نے کبھی تمہیں اپنانے کا سوچا ہے اور نا کبھی سوچوں گا ۔۔ میں اکثر باتیں کہہ جاتا ہوں جنکا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔۔۔ ان باتوں کو بھی انہیں باتوں میں سمجھو ۔۔۔ اور اگر کوئی فضول خیالات دل میں پیدا ہو رہے ہیں تو انہیں نکال باہر پھینکو ۔۔۔ تمہاری زندگی میں اور بھی بہت مسائل ہیں ۔۔۔" وہ اسٹیرنگ پر ہاتھ جمائے گاڑی اسٹارٹ کرنے والا تھا۔ عدل کی نظریں اسکے ہاتھوں پر تھیں۔ گورے ہاتھ، بہت گورے ہاتھ ، جن کے سامنے عدل کو اپنے گورے ہاتھ سانولے لگے تھے۔ مضبوط گورے ہاتھ جن پر لال اور نیلی ابھری ہوئی نسیں اور اسکے علاؤہ لڑکیوں کے ناخنوں جیسی گلابی مائل ناخن ، جو بہت تھوڑے ایک لائن کی جتنے بڑھے ہوئے تھے۔ یعنی گلابی ناخن کے آگے سفید باؤنڈری ۔ اسکے ہاتھ بھی کتنے پیارے تھے ناں یا بلیک اسٹیرنگ پر رکھے پیارے لگ رہے تھے؟ عدل فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔ "عدل سن رہی ہو؟" ارحام نے اسے حرکت نا کرتے دیکھ کر کہا۔ عدل نے سر اٹھا کر اسکے چہرے کو دیکھا۔ "ہممم۔۔۔ نہیں سن رہی ۔۔" وہ نفی میں گردن ہلا گئی۔ ارحام نے ایک آئبرو اٹھا کر اسے گھورا۔ "کیوں نہیں سن رہی؟" "آپ کی ایکس وائف سے آپکی لو میرج ہوئی تھی؟" عدل ایک اور غیر متوقع حرکت کر بیٹھی تھی ۔ ارحام لمحے بھر کو حیران ہوا پھر نارمل ۔ بھئی سامنے عدل تھی ، کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی۔ "جی بلکل ۔۔۔" اس نے فرمابرداری سے سر ہلا کر کہا۔ عدل کے چہرے کی جوت بجھ سی گئی۔ پر اگلا سوال تیار تھا۔ "ان میں آپ کو کیا اچھا لگتا تھا؟" ارحام نے سوچا بھی نہیں تھا اور نا لمحوں کا وقفہ کیا تھا۔ جواب دیا تھا وہ بھی صاف گوئی سے۔ "وہ ساری ساری کی ساری میری تھی۔ اور مجھے میری چیزیں پوری کی پوری پسند ہیں، ہر گناہ، ہر غلطی، ہر برائی، ہر کمی ، ہر عیب کے ساتھ!" عدل نے اس کی نیلی آنکھوں میں جذبات دیکھے تھے۔ وہ اپنی بیوی کے ذکر پر جذباتی ہوا تھا۔ عدل کو ناجانے کیوں ایک الجھن سی ہوئی تھی۔ دل میں ہوک سی اٹھی تھی وہ اگلے ہی پل بے چین ہو کر گاڑی کا دروازہ کھول گئی۔ "میں چلتی ہوں." یہ کہہ کر وہ رکی نہیں تھی۔ ارحام کرابے نے بھی نہیں روکا تھا وہ بیک ویو مرر سے پھر اڈے دیکھ رہا تھا جو کچھ دیر پہلے دوڑ کر آئی تھی وہ اب مردار قدموں کی چال چلتے ہوئے واپس جا رہی تھی ۔ ارحام نے سر جھٹک کر گاڑی آگے بڑھا دی۔ √√√

مخلص شخص میسر ہو تو۔۔ دنیا ٹھکرانے میں کیا حرج ہے ۔۔ 🥰


*"بہت کمال کی پوسٹ لے کر آرہا تھا گائیززززززز🥹❤️* *راستے میں شاپر ہی پھٹ گیا یاڑڑڑڑڑڑڑڑ 😕❤️"*

https://chat.whatsapp.com/CcVStfjHXOr1TNhV5KnSe2 آن لائن پر اعتماد شاپنگ کرنے کیلئے میرا گروپ جوائن کیجئیے!!!! اس شدید گرمی میں گھر بیٹھ کر مزے سے میرے گروپ سے شاپنگ کریں اور میرے پکے پکے کسٹمر بن جائیں خود بھی جوائن کریں اور لنک کو آگے شئیر بھی کریں ۔۔۔😋 Thank you 🌷

گرتے ہوئے پھول ایک نرم یاد دہانی ہیں کہ ہر خوبصورت چیز عارضی ہے۔🌷


*مسکراہٹ ، تبسم ، ہنسی ، قہقہے ، __۔ *سب کے سب کھو گئے ہم بڑے ہو گئے۔ 🍂🌲

لوگوں کو اپنی زندگی میں " شمولیت " کا حق دیا کریں ۔ "مداخلت" کا نہیں ...❤️ 😌

"Bir Ask Hekayesi" Hania Noor Asad "بیر اشک ہیکے ایسی" میری محبت کی کہانی قسط نمبر 27 پانچواں باب "رنگ بدلے جہاں کیسے کیسے" ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ "بلجیک تمہیں واپس جانا چاہیے ، عدل اکیلی ہے وہاں۔" سیرہ کرابے ڈائننگ ٹیبل کے پاس کھڑی بولی تھیں۔ بلجیک ساتھ ہی کھڑی دوسری ملازماؤں کے ساتھ کھانے کے برتن اٹھا رہی تھی۔ "سیرہ میم وہ فلیٹ سے جا چکی ہے، کیا آپ کو کرابے نے نہیں بتایا؟" بلجیک تھوڑی سی حیران ہوئی۔ "نہیں۔۔۔ کرابے میرا فون نہیں اٹھا رہا۔" وہ اپنے گولڈن بالوں کی پونی کی ایک لٹ کو انگلی سے گھماتے ہوئے بولیں۔ "میم ۔۔۔ وہ عدل کی آنٹی کی ڈیتھ ہو گئی ہے ۔۔۔ کرابے وہیں پر ہیں۔" بلجیک نے بتایا۔ "کون آنٹی ؟" "اسکے فادر کی بہن تھیں۔۔محترمہ خدیجہ ۔" "اوہ۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ تم جاؤ میڈیسینز کمرے میں بھجوا دینا۔" وہ یہ کہتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئیں۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر انہوں نے خود کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔ وہ خوبصورت تھیں، جوان تھیں، مگر کینسر کی مریضہ ۔۔۔ جنکے پاس زندگی بہت کم تھی۔ کچھ دیر بعد ملازمہ انہیں میڈیسینز دے کر چلی گئی۔ میڈیسینز لینے کے بعد وہ ڈریسنگ روم کی جانب بڑھیں اور ساتھ ایک نمبر اپنے موبائل پر ڈائل کیا۔ "پروفیسر پندرہ منٹ میں انقرہ کے لیے نکل رہی ہوں میں ۔۔۔ بتاؤ کیا سامان چاہیے؟" یہ کہہ کر دوسری طرف کی بات سننے لگی۔ "ٹھیک ہے ۔۔۔ اور ہاں زہر نے اثر دکھایا وہ عورت مر گئی۔۔۔" فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ سیرہ نے کہا اور ڈریسنگ ٹیبل سے ڈیپ ریڈ کلر کی لپ اسٹک اٹھا کر لبوں پر لگانا شروع کر دی ۔ وہ بہت گہری لپ اسٹک لگاتی تھی۔ "اوکے ۔۔۔۔ مل کر بات کرتے ہیں۔۔۔ ٹھیک ہے دیکھ لوں گی۔" یہ کہتے ہوئے اس نے فون رکھا اور انٹرکام تک آئی ۔ "بلجیک اوپر آؤ ۔" اب وہ تیار ہونے لگی تھی۔ بلیک چست جینز کے اوپر سلک کی سلیو لیس شرٹ اور بلیک ہائی ہیلز پہنے بالوں کی اونچی پونی بنائے وہ تھوڑی ان کمفرٹیبل سی ہوئی تھی۔ کیونکہ لمبے بالوں والی وگ سے تھوڑا سا گنجا سر نظر آیا تھا ۔ وہ گنجی تھی۔ سارے بال جھڑے ہوئے تھے ۔ وہ ہائی ڈرگز کے سہارے پر تھی۔ ورنہ اسکا جسم انکا ساتھ چھوڑے ہوئے تھا۔ اس نے وگ کو ٹھیک کیا تبھی بلجیک اندر آئی ۔ "ملازموں کو کواٹر میں بھیجو ہم بیسمنٹ میں جائیں گے۔۔۔ زرا دیکھیں تو ہماری پیاری سی سودہ آرگن کیا کر رہی ہیں؟" وہ دل جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولی اور بلجیک اثبات میں سر ہلا کر کمرے سے نکل گئی۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ "اسے نہیں معلوم اسکا شوہر کہاں گیا؟ انسپکٹر مجھے اسی پر شک ہے ۔۔۔ اسی عورت نے غائب کروایا ہے میرے بیٹے کو۔" نگہت بیگم کا رو رو کر برا حال ہو چکا تھا۔ وہ پچھلے ایک ہفتے سے سفیر کے لیے تڑپ رہی تھیں اور پریشے کے گھر پر ہی تھیں۔ زبیر صاحب اور سفیر کی دادی کا بھی یہی حال تھا۔ جبکہ احمد اکبر اور اسوہ اکبر بھی کئیں چکر لگا چکے تھے۔ روشان کے بھی دن رات سفیر کو ڈھونڈنے میں ہی صرف تھے۔ ابھی انسپکٹر طلال نگہت بیگم سے سوالات و جوابات کرنے آئے تھے جب انہوں نے دہائیاں دیتے ہوئے سارا الزام پریشے پر لگا دیا تھا جو پچھلے ایک ہفتے سے بلکل لاپرواہ بنی بیٹھی تھی ۔ اسے سفیر کے جانے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑا ہو جیسے۔ پر فرق اسے ہی تو پڑا تھا۔ وہ خوش تھی بہت خوش ، اور ہر وقت اپنے کمرے میں ہی رہتی تھی۔ اسکی طرف سے جو بھی گھر پر جو بھی یہاں سے جائے اسے کوئی پرواہ ہی نہیں تھی۔ وہ کھا رہی تھی پی رہی تھی پہن رہی تھی سو رہی تھی۔ انجوائے کر رہی تھی آزادی کو۔ ابھی بھی اسے باہر سے نگہت بیگم کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی سن رہی تھی۔ باہر اسکے والدین بھی موجود تھے۔ "اسی نے غائب کروایا ہے میرے بچے کو ۔۔۔۔ اسکے علاؤہ کوئی نا خوش نہیں تھا میرے بیٹے سے۔"نگہت بیگم کی آواز آئی ۔ "کیا آپ کی بہو کی اور آپ کے بیٹے کی آپس میں نہیں بنتی تھی؟" انسپکٹر طلال نے پوچھا۔ "لو میرج تھی ۔۔۔۔ بہت محبت کرتا تھا وہ اس سے ۔۔۔" کافی دیر بعد یہ آواز آئی تھی اور آواز سفیر کی نہیں پریشے کی ماں کی تھی ۔ پریشے بے یقینی سے کچھ دیر کمرے کے دروازے کو دیکھتی رہی پھر مسکرا کر کروٹ موڑ گئی۔ "میرے پاس فون ہوتا تو یمان کو کال کر لیتی۔۔۔۔ اب مجھے بس ایک فون کی ضرورت ہے۔" وہ پر سوچ لہجے میں خود سے بولی۔ "کوئی بات نہیں ۔۔۔۔اب تو سب ٹھیک ہونے والا ہے ۔۔۔ بہت جلد یمان اور میں ایک ساتھ ہوں گے ۔۔۔ ایک اچھی اور خوبصورت زندگی گزاریں گے ۔۔۔ جہاں دور دور تک کوئی سفیر نہیں ہو گا ." وہ مسکرا کر خود کو تسلی دی گئی۔ اسے پچھلے دنوں میں صرف اور صرف اپنے والدین کے رویے پر دکھ ہوا تھا انہوں نے اس سے سلام دعا تک نہیں کی تھی۔ دونوں نے اسے نظر انداز کر دیا تھا اور وہ جو سوچتی تھی کہ کہیں اگر ڈیڈ نظر آئے تو جا کر انکے سینے سے لگ جائے گی اور ان سے ساری شکایتیں کرے گی۔ پر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ ڈیڈ کی آنکھیں ہی بدل گئی تھیں اور مومی؟ وہ تو جیسے اسے جانتی ہی نہیں تھیں۔ صرف روشان نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور تسلی دی تھی۔ "فکر مت کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا ." اسکے بعد پریشے کو روشان بھی نہیں دکھا تھا۔ پتا نہیں کہاں چلا گیا تھا ۔ وہ ابھی سوچوں میں گم تھی جب ادھ کھلے دروازے کے باہر سے آواز آئی ۔ "کہاں جا رہے ہو طلال؟" یہ روشان اکبر کی آواز تھی۔ "پریشے سفیر سے سوالات کرنے ہیں اے سی پی صاحب ۔" "کیسے سوالات؟" روشان نے پوچھا۔ "سر ابھی تک سفیر کی بیوی سے کوئی سوالات نہیں کیے گئے اور گھر کے افراد کو ان پر شک ہے۔" "گھر کے افراد کون ؟" "زبیر صاحب ، نگہت صاحبہ ، مسٹر اینڈ مسز اکبر اور سفیر صاحب کی دادی کو بھی۔۔۔" انسپکٹر طلال نے بتایا روشان نے گہری سانس لی ۔ "ٹھیک ہوا۔۔۔۔تم باہر جاؤ میں اپنی بہن سے خود بات کروں گا۔۔۔۔ جب تک میں ہوں اندر کوئی نہیں آئے گا۔۔۔" ساتھ ہی روشان کے بھاری قدموں کی آواز آئی تھی ۔ پریشے اٹھ بیٹھی تھی دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ غیر معمولی طور پر اس سے ابھی تک کسی نے کوئی سوال جواب نہیں کیے تھے ۔ اب اسے ڈر لگ رہا تھا ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ جاری ہے۔

عجیب سے حالات پیدا ہو رہےہیں...اپنو ں کو اپنوں سے خطرہ ہے...!!!