Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️ WhatsApp Channel

Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️

19.8K subscribers

About Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️

ھم یہاں خوبصورت اقتباس پڑھیں گے شاعری کو محسوس کریں گے ،اور مسکراتے لبوں کیساتھ محبتوں کے گیت گنگنائیں گے، مایوس دلوں میں امید کا دیا جلائیں گے اور زندگی کو خوبصورتی کیساتھ جئیں گے 🦋 آپکو ھمارے چینل میں خوش آمدید ✨ https://whatsapp.com/channel/0029Va9OdgeJf05ZIT914Y06 Link for islamic channel 👇👇👇 https://whatsapp.com/channel/0029VadBj9EFy72IsFukAO1U

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
5/16/2025, 10:32:35 AM

الفاظ کی تلخیاں جب ادب کا دائرہ پار کرتی ہیں دلائل اور وضاحتیں ___ دم توڑ جاتی ہیں بااصول انسان جیتی ہوئی جنگ ہار جاتا ہے

❤️ 👍 😢 ❤‍🩹 💓 💯 🔥 🙏 55
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
5/13/2025, 9:08:21 PM

پارٹ ٹو / ایپی سوڈ 16 بیر اشک ہیکے ایسی ۔ "میران..." اس آواز پر وہ تین سالہ بچہ پلٹا تھا۔ یہ ایک بڑا سا بلیو اینڈ وائٹ تھیم کا کمرہ تھا۔ جہاں سب چیزیں کھلونوں کی بنی ہوئیں تھیں۔ ایک ساڑھے تین سالہ بچہ ائیر پلین شیپ بیڈ پر بیٹھا ٹیب میں کارٹون دیکھ رہا تھا۔ ساتھ ہی ایک کئیر ٹیکر بیٹھی اسکے بال بنا رہی تھی۔ بچے نے پلٹ کر دیکھا پھر اگنور کر گیا۔ ارحام کرابے دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا ٹھٹکا تھا۔ ڈارک بلیو سوٹ پینٹ پر لائٹ بلیو شرٹ پہنے ، بازو پر نیلا کوٹ ڈالے وہ اپنے بیٹے کی بے رخی پر حیران ہوا تھا۔ قدم قدم اٹھاتا وہ کمرے میں داخل ہوا ۔ کئیر ٹیکر کو اس نے باہر جانے کا اشارہ کیا تھا۔ وہ سر ہلاتی اٹھی پھر ارحام کو اشارہ کیا۔ "ایکسکیوزمی سر..." ارحام اسکے ساتھ کمرے سے باہر آیا۔ "بولیں۔۔۔" ارحام نظریں جھکائے اسکے سامنے کھڑا ہو کر بولا۔ "سر میران میم کو مس کر رہا ہے، میں نے کہا کہ سودہ میم کچھ ٹائم کے لیے آؤٹ آف سٹی گئی ہوئی ہیں۔۔۔ تو اس نے کہا کہ اسے مس بلجیک کے پاس جانا ہے۔۔۔۔" وہ سر جھکائے ادب سے کہہ رہی تھی۔ "بلجیک استنبول میں نہیں ہے؟" اس نے سوال کیا ۔ "نو سر وہ انکرہ میں ہے۔" "بلاؤ اسے۔۔۔" "سر میں نے کال کی ہے ۔۔۔ اسکا نمبر بند جا رہا ہے." "اوکے میں پتا لگاتا ہوں۔۔۔ تم جاؤ مجھے میران کے ساتھ وقت گزارنا ہے ۔۔۔" "اوکے سر"۔۔۔ وہ سر ہلاتی وہاں سے چلی گئی ۔ "میرا بیٹا کیا کر رہا ہے؟" ارحام اسکے برابر بیڈ پر آ بیٹھا تھا۔ وہ بلکل خاموش رہا۔ "آر یو اینگری؟" ارحام نے اسے بازوؤں میں اٹھا کر اوپر کیا اور خود بیڈ پر لیٹ گیا۔ میران کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ "میران ۔۔۔۔۔ واٹ ہیپنڈ مائے لائف!" اس نے اسے سینے پر لٹاتے ہوئے اسکے گرد بانہوں کا حصار بنایا ۔ "Where you were baba." (آپ کہاں تھے بابا) ۔ اسکی آواز ارحام کرابے کے کانوں میں پڑی۔ ارحام کے دل میں ٹیسیں اٹھیں تھیں۔ وہ پورے دس دن بعد اپنے بیٹے سے ملنے آیا تھا۔ "آئی ایم سوری میران ۔۔۔۔ آئی ایم سوری ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔" وہ اسے سینے میں بھینچ رہا تھا ۔ "وئیر از ماما؟" (ماما کہاں ہیں) اس نے سوال کیا اور ارحام نے لب سی لیے ۔ وہ کچھ نہیں بولا۔ "بابا ۔۔۔۔ وئیر از یور اینجل؟" وہ اب تھوڑا اونچا بولا تھا اور ارحام کو لگا تھا اسکا بیٹا اس پر طنز کر رہا ہے۔ پوچھ رہا ہے کہاں گئی تمہاری اینجل؟ آخر کیوں نہیں ہے وہ اب ہمارے درمیان؟. "Your mother isn't here right now, Miran, she'll be back soon." ارحام نے لب اسکے سر پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔ "When baba? When?" ایک اور ننھا سوال آیا تھا۔ جس کا جواب ارحام کرابے کے پاس بھی نہیں تھا۔ "I've brought something for you, Miran..." اس نے سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے اسے گود میں بٹھایا۔ اور اس سے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا۔ بالآخر وہ اسے کچھ دیر بعد باتوں میں الجھانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ اسے بھلا پھسلا سکتا تھا، اسے باتوں میں لا سکتا تھا پر خود کا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ خود کو بہلانا اسکے بس میں نہیں تھا۔ ✓✓✓ "ملازمہ جب کھانا دے کر گئی تھی تو کھانے میں کیا موت پڑ رہی تھی؟ صبح سے بھوکی کیوں بیٹھی ہوئی ہو؟" اسکے بازوؤں کو جکڑتے ہوئے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا ۔ "مم۔۔۔ مجھے۔۔۔ بھوک ۔۔۔ نہیں ہے..." وہ اسکی نظروں کی تپش کو محسوس کرتے ہوئے کپکپائی تھی۔ "کیوں؟ بھوک کیوں مر گئی ہے میری پری کی؟" سفیر نے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں تھاما۔ "سس۔۔۔ سفیر ۔۔۔۔" وہ ڈر کر پیچھے ہوتی دیوار سے جا لگی۔ "بولو سفیر کی جان!!!" وہ مسکرا کر بولا تھا ۔ "مم۔۔۔ مج۔۔۔ مجھے۔۔۔ میرے گھر۔۔۔ جانا۔۔۔ ہے۔۔۔ مومی ۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔ سے مل ۔۔۔ کر آ ۔۔۔ جاؤں ۔۔۔ گی." وہ ڈرتے ڈرتے بولی تھی۔ "مل لینا مومی ڈیڈی سے ۔۔۔ کچھ گھنٹے صبر کرو آٹھ بجے آئیں گے وہ میرج ہال میں۔۔۔ یو نو آج ہمارا ولیمہ ہے؟" سفیر اسکی چہرے پر آتی لٹوں کو کھینچ کھینچ کر پیچھے کرتے ہوئے اسکی سسکیاں نکلوا رہا تھا۔ "سسس۔۔۔سسی ۔۔۔وو۔۔۔ ولی۔۔۔ ولیمہ؟؟" وہ حیران ہوئی تھی۔ "ہاں ولیمہ ۔۔۔ جلدی سے کھانا کھاؤ پھر میں میک اپ آرٹسٹ کو اندر بھیجتا ہوں ۔۔۔۔ پھر وہ میری پری کے منہ سے سارے نشان مٹا دے گی۔۔۔۔ کسی کو پتا نہیں چلے گا پری کی ویڈنگ نائٹ پر اسکے ساتھ کیا ہوا؟ ہاں؟؟؟ جلدی کرو میری جان۔۔۔" سفیر یہ کہتا کھانے کی ٹرے اسکے سامنے رکھ گیا۔ وہ پلیٹ سے چمچ اٹھائے اسکے ڈر سے کھانے لگی ۔ سفیر اس پر ایک نظر ڈالتا باہر نکل گیا۔ پریشے کے چہرے کو آنسوؤں بھگونے لگے تھے۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسکے ساتھ زندگی میں یہ سب ہوگا۔۔۔۔ "میں کسی کو کچھ کہنے کے قابل نہیں رہی، میں نے اپنے لیے خود جہنم چن لی۔" وہ سسک کر خود سے بولی تھی۔ "میں ڈیڈی کو سب بتاؤں گی۔۔۔۔ آئیں گے ناں ڈیڈی ابھی ۔۔۔۔۔" اس نے اپنے آنسوؤں صاف کرتے ہوئے سوچا۔ ایک امید کا سرا ہاتھ آیا تھا۔ ✓✓

❤️ 🆕 👍 🇵🇸 ♥️ 🌹 🔙 😮 40
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
5/16/2025, 10:39:04 AM

میری تصویر بناؤ تو سب رنگ بھرنا محبت کے مگر جب میری آنکھیں بناؤ تو آنسو رواں رکھنا💦

Post image
❤️ 😢 💔 👍 ❤‍🩹 😂 😮 🙏 93
Image
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
5/16/2025, 10:33:34 AM

تم سے محبت کرنے والا وہ ہے جس نے تم میں ننانوے عیب اور ایک خوبصورت خصلت دیکھی، 🧡🥀

❤️ 👍 💯 ♥️ 🍁 👌 💙 🙏 64
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
5/13/2025, 9:07:53 PM

پارٹ ٹو / ایپی سوڈ 15 بیر اشک ہیکے ایسی ۔ "میران..." اس آواز پر وہ تین سالہ بچہ پلٹا تھا۔ یہ ایک بڑا سا بلیو اینڈ وائٹ تھیم کا کمرہ تھا۔ جہاں سب چیزیں کھلونوں کی بنی ہوئیں تھیں۔ ایک ساڑھے تین سالہ بچہ ائیر پلین شیپ بیڈ پر بیٹھا ٹیب میں کارٹون دیکھ رہا تھا۔ ساتھ ہی ایک کئیر ٹیکر بیٹھی اسکے بال بنا رہی تھی۔ بچے نے پلٹ کر دیکھا پھر اگنور کر گیا۔ ارحام کرابے دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا ٹھٹکا تھا۔ ڈارک بلیو سوٹ پینٹ پر لائٹ بلیو شرٹ پہنے ، بازو پر نیلا کوٹ ڈالے وہ اپنے بیٹے کی بے رخی پر حیران ہوا تھا۔ قدم قدم اٹھاتا وہ کمرے میں داخل ہوا ۔ کئیر ٹیکر کو اس نے باہر جانے کا اشارہ کیا تھا۔ وہ سر ہلاتی اٹھی پھر ارحام کو اشارہ کیا۔ "ایکسکیوزمی سر..." ارحام اسکے ساتھ کمرے سے باہر آیا۔ "بولیں۔۔۔" ارحام نظریں جھکائے اسکے سامنے کھڑا ہو کر بولا۔ "سر میران میم کو مس کر رہا ہے، میں نے کہا کہ سودہ میم کچھ ٹائم کے لیے آؤٹ آف سٹی گئی ہوئی ہیں۔۔۔ تو اس نے کہا کہ اسے مس بلجیک کے پاس جانا ہے۔۔۔۔" وہ سر جھکائے ادب سے کہہ رہی تھی۔ "بلجیک استنبول میں نہیں ہے؟" اس نے سوال کیا ۔ "نو سر وہ انکرہ میں ہے۔" "بلاؤ اسے۔۔۔" "سر میں نے کال کی ہے ۔۔۔ اسکا نمبر بند جا رہا ہے." "اوکے میں پتا لگاتا ہوں۔۔۔ تم جاؤ مجھے میران کے ساتھ وقت گزارنا ہے ۔۔۔" "اوکے سر"۔۔۔ وہ سر ہلاتی وہاں سے چلی گئی ۔ "میرا بیٹا کیا کر رہا ہے؟" ارحام اسکے برابر بیڈ پر آ بیٹھا تھا۔ وہ بلکل خاموش رہا۔ "آر یو اینگری؟" ارحام نے اسے بازوؤں میں اٹھا کر اوپر کیا اور خود بیڈ پر لیٹ گیا۔ میران کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ "میران ۔۔۔۔۔ واٹ ہیپنڈ مائے لائف!" اس نے اسے سینے پر لٹاتے ہوئے اسکے گرد بانہوں کا حصار بنایا ۔ "Where you were baba." (آپ کہاں تھے بابا) ۔ اسکی آواز ارحام کرابے کے کانوں میں پڑی۔ ارحام کے دل میں ٹیسیں اٹھیں تھیں۔ وہ پورے دس دن بعد اپنے بیٹے سے ملنے آیا تھا۔ "آئی ایم سوری میران ۔۔۔۔ آئی ایم سوری ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔" وہ اسے سینے میں بھینچ رہا تھا ۔ "وئیر از ماما؟" (ماما کہاں ہیں) اس نے سوال کیا اور ارحام نے لب سی لیے ۔ وہ کچھ نہیں بولا۔ "بابا ۔۔۔۔ وئیر از یور اینجل؟" وہ اب تھوڑا اونچا بولا تھا اور ارحام کو لگا تھا اسکا بیٹا اس پر طنز کر رہا ہے۔ پوچھ رہا ہے کہاں گئی تمہاری اینجل؟ آخر کیوں نہیں ہے وہ اب ہمارے درمیان؟. "Your mother isn't here right now, Miran, she'll be back soon." ارحام نے لب اسکے سر پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔ "When baba? When?" ایک اور ننھا سوال آیا تھا۔ جس کا جواب ارحام کرابے کے پاس بھی نہیں تھا۔ "I've brought something for you, Miran..." اس نے سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے اسے گود میں بٹھایا۔ اور اس سے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا۔ بالآخر وہ اسے کچھ دیر بعد باتوں میں الجھانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ اسے بھلا پھسلا سکتا تھا، اسے باتوں میں لا سکتا تھا پر خود کا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ خود کو بہلانا اسکے بس میں نہیں تھا۔ ✓✓✓ "ملازمہ جب کھانا دے کر گئی تھی تو کھانے میں کیا موت پڑ رہی تھی؟ صبح سے بھوکی کیوں بیٹھی ہوئی ہو؟" اسکے بازوؤں کو جکڑتے ہوئے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا ۔ "مم۔۔۔ مجھے۔۔۔ بھوک ۔۔۔ نہیں ہے..." وہ اسکی نظروں کی تپش کو محسوس کرتے ہوئے کپکپائی تھی۔ "کیوں؟ بھوک کیوں مر گئی ہے میری پری کی؟" سفیر نے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں تھاما۔ "سس۔۔۔ سفیر ۔۔۔۔" وہ ڈر کر پیچھے ہوتی دیوار سے جا لگی۔ "بولو سفیر کی جان!!!" وہ مسکرا کر بولا تھا ۔ "مم۔۔۔ مج۔۔۔ مجھے۔۔۔ میرے گھر۔۔۔ جانا۔۔۔ ہے۔۔۔ مومی ۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔ سے مل ۔۔۔ کر آ ۔۔۔ جاؤں ۔۔۔ گی." وہ ڈرتے ڈرتے بولی تھی۔ "مل لینا مومی ڈیڈی سے ۔۔۔ کچھ گھنٹے صبر کرو آٹھ بجے آئیں گے وہ میرج ہال میں۔۔۔ یو نو آج ہمارا ولیمہ ہے؟" سفیر اسکی چہرے پر آتی لٹوں کو کھینچ کھینچ کر پیچھے کرتے ہوئے اسکی سسکیاں نکلوا رہا تھا۔ "سسس۔۔۔سسی ۔۔۔وو۔۔۔ ولی۔۔۔ ولیمہ؟؟" وہ حیران ہوئی تھی۔ "ہاں ولیمہ ۔۔۔ جلدی سے کھانا کھاؤ پھر میں میک اپ آرٹسٹ کو اندر بھیجتا ہوں ۔۔۔۔ پھر وہ میری پری کے منہ سے سارے نشان مٹا دے گی۔۔۔۔ کسی کو پتا نہیں چلے گا پری کی ویڈنگ نائٹ پر اسکے ساتھ کیا ہوا؟ ہاں؟؟؟ جلدی کرو میری جان۔۔۔" سفیر یہ کہتا کھانے کی ٹرے اسکے سامنے رکھ گیا۔ وہ پلیٹ سے چمچ اٹھائے اسکے ڈر سے کھانے لگی ۔ سفیر اس پر ایک نظر ڈالتا باہر نکل گیا۔ پریشے کے چہرے کو آنسوؤں بھگونے لگے تھے۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسکے ساتھ زندگی میں یہ سب ہوگا۔۔۔۔ "میں کسی کو کچھ کہنے کے قابل نہیں رہی، میں نے اپنے لیے خود جہنم چن لی۔" وہ سسک کر خود سے بولی تھی۔ "میں ڈیڈی کو سب بتاؤں گی۔۔۔۔ آئیں گے ناں ڈیڈی ابھی ۔۔۔۔۔" اس نے اپنے آنسوؤں صاف کرتے ہوئے سوچا۔ ایک امید کا سرا ہاتھ آیا تھا۔ ✓✓✓

❤️ 👍 ♥️ 🥺 🩵 🫀 15
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
5/16/2025, 10:37:07 AM

کہیں طوفانوں سے گزر کر بھی جڑے رہنا آسان تھوڑی ہے 🩵🪻

❤️ 👍 😢 💯 ♥️ 💞 46
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
5/17/2025, 6:54:39 AM

"𝘽𝙞𝙧 𝘼𝙨𝙠 𝙃𝙞𝙠𝙖𝙮𝙚𝙨𝙞" 𝙃𝙖𝙣𝙞𝙖 𝙉𝙤𝙤𝙧 𝘼𝙨𝙖𝙙 "بیر اشک ہیکے ایسی" میری محبت کی کہانی قسط نمبر 18. تیسرا باب ۔ "اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِینَ" (خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے). ــــــــــــــــــــــــــــ "بی بی جی ۔۔۔ صاحب کا فون ہے۔۔" ملازمہ نے موبائل اسکی جانب بڑھایا تھا۔ "جج۔۔۔ جی۔۔۔" کنپکپاتی آواز میں موبائل کان سے لگا کر کہا۔ "دادی کی سرجری ہے۔۔۔ انسانوں والا حلیہ بنا کر ہسپتال پہنچو۔۔۔" سفیر نے حکم دیا ۔ "سفیر۔۔۔۔میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔ پلیززز۔۔۔ میں نہیں جاؤں گی کہیں۔۔" اس نے منت بھرے لہجے میں کہا۔ "پوچھا نہیں ہے بتایا ہے۔۔۔۔" وہ یہ کہتا فون بند کر گیا تھا ۔ ملازمہ فون لے کر وہاں سے چلی گئی۔ پریشے بیڈ پر اوندھے منہ گر پڑی تھی۔ اسے اب کہیں آنے جانے کی خواہش نہیں تھی۔ اندر باہر سے سب ختم ہو چکا تھا۔ صرف ایک ہفتے میں اس شخص نے اسے مار ڈالا تھا۔ اسکے دئیے گئے زخموں سے زیادہ ، دل دکھتا تھا جو سپنوں نے دکھایا تھا۔ اسکے والدین نے اسکے ولیمے میں شرکت نہیں کی تھی۔ انہوں نے معذرت کر لی تھی۔ کیونکہ اسوہ بیگم کی طبیعت خراب تھی۔ لیکن اگلے ہی دن انہوں نے رحام کے ولیمے میں شرکت کی تھی۔ وہ بے مول تھی۔ بے حد بے مول۔ کاش کے وہ انمول ہوتی ، رحام کی طرح انمول، عدل کی طرح انمول۔ عدل بھی نہیں آئی تھی۔ پورا ایک ہفتہ ہو چکا تھا اس نے اپنے گھر والوں کی آواز تک نہیں سنی تھی۔ اس وقت اسے سیریلز والی بہنیں یاد آئی تھیں ۔ جو ایک دوسرے پر جان چھڑکتی ہیں ۔۔۔ کاش ان بہنوں کے بیچ بھی سولڈ بونڈ ہوتا۔ کاش وہ بھی اچھی بہنیں ہوتیں۔ آنکھوں کے کنارے خشک کرتی وہ اٹھ بیٹھی تھی۔ اسے جینا تھا یا مرنا تھا۔ اب اسی ستمگر کے سنگ۔ کچھ دیر بعد لال رنگ کا ایک ڈریس زیب تن کیے وہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی ۔ بالوں کو کھول کر برش کیا تھا اور منہ ، گردن اور ہاتھوں سے زخموں کے نشان میک اپ کر کے چھپائے تھے۔ ڈیپ ریڈ لپ اسٹک سے ہونٹ کا زخم چھپایا جو سفیر کے دھکیلنے پر دروازے کی چوکھٹ پر لگنے سے ہوا تھا ۔ مکمل تیار ہو کر وہ کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ سفیر کا انتظار کر رہی تھی۔ "تم بخت والی ہو ۔۔۔ تمہارے نصیب آسمانوں کی بلندیوں تک جاتے ہیں۔۔۔ اور ہاں صبر والی بھی ہو ۔۔۔۔ صبر کا دامن نا چھوڑنا۔۔۔ تم راج کرو گی۔۔۔" ماضی ایک خیال ذہن میں آیا تھا ۔ قرآن پاک پڑھانے والی استانی نے بہت سال پہلے بچپن میں اسے یہ بات کہی تھی۔ "ہونہہ۔۔۔۔ پتا نہیں لوگ کیوں ہمارا دل رکھنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔۔۔ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سچ جاننے پر ہمیں دہرا دکھ ہوگا!" اس نے خود سے پوچھا تھا۔ دو آنسو چہرہ بھگو گئے۔ تبھی دروازے کا لاک گھوما تھا اور وہ اندر داخل ہوا تھا ۔ میکانکی انداز میں وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ "اوہ مائے ریڈ روز ۔۔۔۔۔ " سفیر نے اسے کلائی سے پکڑ کر اپنے سامنے کرتے ہوئے ستائشی نظروں سے دیکھا تھا۔ وہ سر جھکائے اسکے حصار میں کھڑی رہی ۔ سفیر کی کلون کی مہک اسکی سانسوں میں زہر بن کر گھل رہی تھی۔ "بہت حسین ہو تم ۔۔۔۔ میری پہلی بیوی سے بھی زیادہ۔۔۔" سفیر نے ہونٹ اسکے سر پر ثبت کر دیے۔ یہ لمس اور جملہ پریشے کو برچھے کی طرح لگا تھا۔ "پپ۔۔۔ پہلی ۔۔۔ بیوی؟؟" دور ہٹتے ہوئے سوال کیا۔ سفیر نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ "ہاں!" ۔ "کک۔۔۔ کون ہے؟" پریشے کو دلچسپی نہیں تھی مگر دل پھر بھی نا جانے کیوں ڈوب رہا تھا۔ "اریشہ باجوہ۔۔۔" بہت آرام سے وہ اسکے وجود کو شل کر گیا تھا۔ بے یقینی ہی بے یقینی تھی پریشے کی آنکھوں میں۔ "اریشہ؟؟؟ وو۔۔۔ وہ ۔۔۔ اریشہ ۔۔۔" وہ بے یقینی سے پیچھے پیچھے ہٹنے لگی۔ "ہاں پری۔۔۔ تمہاری سابقہ بیسٹ فرینڈ اور حالیہ دشمن اریشہ باجوہ۔۔۔ اور میری فرسٹ کزن اور پہلی بیوی۔۔۔" وہ اسکی حالت دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا اور وہ ؟ بے یقین تھی۔ "میں ماموں کو بتاؤں گی سفیر ۔۔۔۔۔ میں سب کو بتاؤں گی ۔۔۔ آپ نے مجھے دھوکا دیا ہے۔۔۔۔۔" وہ رو رہی تھی۔ "بے بی۔۔۔۔۔ میرے باپ کو کیا تمہارے باپ کو بھی پتا ہے کہ میں میرڈ ہوں۔۔۔۔ تم بلاوجہ کوئی تماشا مت کرنا۔۔۔۔۔ ویسے ہی سب تم سے الجھیں گے۔۔۔۔ اور مجھے اچھا تھوڑی لگتا ہے جب کوئی میری پری کو کچھ کہے۔۔۔۔" سفیر نے اسے زبردستی سینے سے لگا لیا۔ پریشے پتھر کا بت بنی ہوئی تھی۔ ✓✓✓ "عدل ۔۔۔" ننھی آواز پر وہ پلٹی تھی اور بچے کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ وہ قریباً چار سال کا بچہ تھا جو پھول اسکی جانب بڑھائے مسکرا رہا تھا۔ اسکے ہاتھ میں وائٹ ٹیولپ تھا۔ یہ منظر ایک اسکول کی نرسری کا تھا۔ یہ پلیئنگ ایریا تھا ۔ جہاں چھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے تھے۔ "Ohhh... Thank you little kharabe!". عدل نے جھک کر اسکا گال چوم لیا اور پھول اپنے بالوں میں لگا لیا۔ "شکریہ مت کہو۔" اسکے اگلے جملے پر عدل کو جھٹکا لگا تھا وہ اردو میں بولا تھا ۔ "کیا کہا تم نے؟؟؟" وہ حیران و پریشان کھڑی تھی۔ میران نے جملہ دہرایا۔ "تمہیں اردو آتی ہے ؟" "ہممم آتی ہے ۔۔۔۔" "اور ٹرکش؟" "ہاں وہ بھی آتی ہے۔۔۔۔ سینی سیو یورم عدل ۔۔۔۔" اس نے ٹرکش میں اسے آئی لو یو کہا تھا۔ "تمہیں کس نے سکھائی اردو؟" اب عدل اسکا ہاتھ تھامے آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ "میرے بابا کی ایک کزن ہیں انہوں نے سکھائی تھی ... ماما مجھے انکے گھر چھوڑ کر باہر جاتی تھیں وہ اور میں بہت فن کرتے تھے۔۔۔۔" وہ مزے سے بتا رہا تھا۔ "تم بہت سمجھدار ہو ۔۔۔ پیاری آنکھوں والے بلے۔۔۔۔" عدل نے جھک کر اسے پیار کیا۔ "تم بھی کیوٹ ہو بلی۔۔۔۔" وہ ہنسا عدل کھکھلا اٹھی تھی۔ ✓✓✓

❤️ 🆕 👍 😢 🫀 👏 😊 🙏 56
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
5/17/2025, 6:54:20 AM

"𝘽𝙞𝙧 𝘼𝙨𝙠 𝙃𝙞𝙠𝙖𝙮𝙚𝙨𝙞" 𝙃𝙖𝙣𝙞𝙖 𝙉𝙤𝙤𝙧 𝘼𝙨𝙖𝙙 "بیر اشک ہیکے ایسی" "میری محبت کی کہانی" قسط نمبر 17. تیسرا باب ــــ "إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّابِرینَ" (خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ .........۔کچھ وقت کے بعد۔ ........ سرد ہوائیں پورے استنبول کو تھرتھرانے پر مجبور کر رہی تھی۔ ایسے میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک عمارت بڑی شان سے کھڑی ہوئی تھی۔ اس عمارت کا نام "بلیو ویل" تھا۔ یہ عمارت سفید رنگ کی تھی جبکہ اسکی کھڑکیاں آسمانی رنگ کے کانچ کی تھیں۔ اس اونچی بلند و بالا عمارت کے انیسویں فلور کے ٹیرس پر ایک لڑکی کھڑی ہوئی تھی۔ اسکے ہاتھ میں کافی کا مگ تھا اور چہرے پر مسکراہٹ رقصاں تھی۔ وہ آج خوش تھی اسے ایک نرسری میں جاب ملی تھی۔ یہ جاب کرنے کا شوق اسے کچھ دن پہلے چڑھا تھا۔ اور اسے پندرہ دن بعد آخر ایک جاب مل گئی۔ وہ اپنی لو کوالیفیکیشن کی وجہ سے کسی کمپنی یا ادارے میں جاب نہیں کر سکتی تھی۔ اسلیے اس نے شوق پورا کرنے کے لیے ایک نرسری میں جاب اسٹارٹ کی تھی۔ یہ ایک اسکول تھا جہاں اسے چھوٹے بچوں کو پڑھانا تھا۔ اسے یہ جاب کافی دلچسپ لگی تھی۔ اسکے ساتھ اسکی روم میٹ مومنہ بھی وہاں جاب کرتی تھی۔ مومنہ اسکے ساتھ تقریباً پورا دن ہی ہوتی تھی۔ مومنہ کی موجودگی میں وہ آئرہ کو مس نہیں کرتی تھی۔ مومنہ ایک اچھی لڑکی تھی۔ "کیا ہو رہا ہے عدل؟" وہ خیالوں میں گم تھی جب اسے اپنے عقب سے مومنہ کی آواز سنائی دی۔ وہ پلٹی اور مسکرائی۔ "دو ہی دن میں میں بچوں سے کتنی اٹیچ ہو گئی ہوں ۔۔۔ ہیں ناں؟ اور وہ کرابے صاحب کا بیٹا؟ وہ میرے ساتھ کتنا فرینک ہو گیا ہے ۔۔۔۔" وہ کافی کا مگ لبوں سے لگا گئی۔ "کرابے صاحب؟ وہ کون ہیں؟" مومنہ نے حیرت سے پوچھا۔ "وہ میرے بابا کے بزنس پارٹنر ۔۔۔ ارحام کرابے ۔۔۔۔ بتایا تھا نا تمہیں ۔۔۔۔ جنکی وجہ سے میں ترکی آئی ہوں۔۔۔ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس ٹو استنبول آف گروپ کے اونر۔۔۔۔" عدل نے یاد دلایا۔ "اوہ ۔۔۔۔ تو تم کیسے جان گئی کہ وہ کیوٹ والا بچہ انکا ہے؟" وہ اب اپنا کافی کا مگ لیے اسکے ساتھ آ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ دونوں اردو میں بات کرتی تھی۔ مومنہ ایک پٹھان گھرانے کی پاکستانی لڑکی تھی۔ مگر عدل کو اکثر گمان ہوتا کہ وہ ترکش ہے۔ لیکن وہ اکثر اپنے گھر والوں سے بات کرتی رہتی تھی۔ پشتو بھی بولتی تھی۔ خیر عدل کو کیا؟ "ارے یار اس بچے کی کتنی شکل ملتی ہے ارحام کرابے سے میں تو سر نیم دیکھتے ہی پہچان گئی تھی کہ ہو نا ہو یہ کرابے فیملی سے ہے۔۔۔۔" اس نے ہنستے ہوئے بتایا ۔ "واؤ انٹیلی جینٹ ہو تم تو کافی!!!" وہ ہنس کے بولی۔ "کوئی شک بھی نہیں ہے۔" "ویسے میں نے ایک بات نوٹ کی ہے عدل۔۔۔۔" "کیا بات؟؟؟" "تم اپنے گھر پر کال کیوں نہیں کرتی؟" "میں ۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ ویسے ہی ۔۔۔" "ویسے ہی کیا؟ تمہیں بات کرنی چاہیے۔۔۔۔ تم مس نہیں کرتی ان لوگوں کو؟" "بلکل بھی نہیں کرتی ۔۔۔۔ انفیکٹ جب میں انکے پاس تھی تو ترکی کو مس کرتی تھی۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے مجھے ترکی سے بہت محبت ہے۔۔۔ پاکستان سے بھی زیادہ!" "ہممم۔۔۔۔ آئی نو۔۔۔۔ عدل تمہاری زندگی ایڈونچر فل ہے۔۔۔۔", "ٹریجڈی ۔۔۔۔ ہاہاہاہا ۔۔۔۔ لیکن مجھے یہ پسند ہے ۔۔۔۔" وہ دھیرے سے مسکرا دی۔ ہوا چلی تھی اور اسکے بال اڑ کر چہرے پر بکھرے تھے۔ مومنہ نے بغور اسے دیکھا تھا۔ بلاشبہ وہ بہت ہی خوبصورت تھی۔ اسکا چہرہ ہنستا اور آنکھیں زندگی سے بھرپور تھیں۔ "تم ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟" "ویسے ہی۔۔۔۔ سوچ رہی ہوں۔۔۔ جب میں پاکستان سے آئی تھی۔۔۔ تب میرے لیے سب کچھ ارینج کرنا کس قدر مشکل ہوا تھا ۔۔۔ لیکن تم ہر فکر سے آزاد ہو ۔۔۔۔" "میرے لیے رستے خود ہی نکل آتے ہیں مومنہ۔۔۔۔ مجھے نہیں پتا کیسے سب ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ میں کئیں سالوں سے ترکی آنے کے لیے بے چین تھی، ہر ممکن کوشش کر دیکھی پر بے سود۔۔پھر ایک دن میں نے انتہائی بے دلی سے ڈیڈ کے ایک بزنس پارٹنر کو کال کی ، اور اگلے ہی ہفتے میں آزاد تھی۔۔۔۔ یہاں پہنچ کر بھی سب کچھ انہیں نے مینج کر لیا اسٹڈیز۔۔۔۔ اپارٹمنٹ ۔۔۔۔ یوٹیلیٹیز۔۔۔۔ فیسیلیٹیز۔۔۔ سب کچھ۔۔۔۔ "وہ خوش ہو کر بتا رہی تھی۔ "تمہاری قسمت اچھی ہے بہت!!!" مومنہ نظریں چرا کر بولی تھی۔ "ایسا بھی نہیں اب۔۔۔ بہت سے معاملات میں میں بھی بہت ان لکی ہوں۔۔۔۔ مجھے محبت اور دوستی میں میرے اپنوں سے دھوکا ملا ۔۔۔۔ مجھے ساری زندگی عدم کیا جاتا رہا۔۔۔۔ میری بڑی بہن نے مجھ سمیت میرے سب گھر والوں سے سارے تعلق توڑ ڈالے۔۔۔۔ میں نے ارمانوں کی بہت سی کرچیاں نکال کر پھینکی ہیں اپنی آنکھوں سے۔۔۔۔" وہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔ "تم ان کے لیے دل برا مت کرو۔۔۔۔ وہ لوگ سزا بھگتیں گے ۔۔" مومنہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ "ایسا نہیں ہے۔میں کسی کو یاد ہی نہیں رکھتی۔۔۔ عدل منفرد ہے۔۔۔ سب سے الگ سب سے منفرد!" "اچھا جی؟ اگر کوئی پوچھے کے عدل منفرد کیوں ہے تو؟" "پوچھا جائے کے عدل منفرد کیوں ہے؟ تو کہنا وہ دل میں کھوٹ نہیں رکھتی ۔۔۔۔" وہ ہنس کر بولی تھی۔ "منفرد کا تو پتا نہیں پر عدل کیوٹ بہت ہے۔۔۔۔ آؤ چل کر ڈنر بنائیں۔۔۔ دیر ہو رہی ہے ۔۔۔" شام کے سائے دور دور پھیلنے لگے تھے وہ دونوں مسکراتی ہوئی اندر کی جانب بڑھ گئیں۔ ✓✓✓ یہ منظر ایک کلاس روم کا تھا، جہاں ایک پروفیسر کھڑا پڑھا رہا تھا۔ پروفیسر ہر اسٹوڈنٹ کو بغور دیکھ رہا تھا اور اس پر نظر رکھے ہوا تھا۔ وہ ایک نوجوان پروفیسر تھا ۔ لاپرواہ سا خوبصورت اور ہینڈسم ۔ آخری قطار میں ایک لڑکی سر جھکائے بیٹھی پورے وثوق سے رجسٹر پر کچھ کر رہی تھی ۔ دور سے دیکھنے پر یہی لگتا تھا کہ وہ پڑھ رہی ہے لیکن وہ رجسٹر پر لکیریں مارتے ہوئے اپنا وقت برباد کر رہی تھی۔ "کچھ اسٹوڈنٹس یہاں پڑھنے آتے ہیں اور کچھ یہاں آ کر وقت برباد کرتے ہیں ۔۔۔ جیسا کے پچھلی سیٹ پر بیٹھے کچھ لوگ!!!" پروفیسر نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ لڑکی نے رجسٹر سے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا اور گڑبڑائی۔ "یی۔ یس پروفیسر۔۔" وہ مارے عجلت کے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ کلاس کے کچھ بچے اسکی اس حرکت پر ہنسے تھے۔ "کیوں ہنس رہے ہو ؟" پروفیسر نے ایک لڑکے کو گھورا۔ "سر آئرہ جنید سمجھ گئیں کہ آپکا اشارہ انکی جانب ہے۔" وہ جھنپ کر کنپٹی مسلتے ہوئے بولا۔ "لیکن میرا اشارہ تو پچھلی ڈیکس پر بیٹھی رابعہ کی جانب تھا۔۔۔۔" پروفیسر نے ماتھے پر بکھرے بھورے بال پیچھے سیٹ کرتے ہوئے کہا۔ آئرہ اسی طرح سر جھکائے کھڑی ہوئی تھی۔ لائٹ گرین کلر کے قمیص شلوار پر سفید دوپٹہ کاندھوں پر پھیلائے بالوں کی ڈھیلی سی چٹیا بنائے وہ بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی ۔ وہ پہلے بہت اچھے سے تیار ہو کر آیا کرتی تھی مگر اب وہ کئیں بار ایک ڈریس ریپیٹ کرتی تھی۔ کیونکہ اب وہ ماموں کے نہیں اپنے ایک کمرے کے گھر میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتی تھی۔ اسکی والدہ ایک اسکول ٹیچر تھیں۔ گزارا مشکل سے ہو پاتا تھا۔ ماموں جو شہر کے بلین ائیر تھے وہ انکو ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تھا۔ روشان نے کئیں بار خدیجہ بیگم کی مدد کرنے کی کوشش کی مگر وہ انکار کر گئیں وہ اب مزید کسی کا احسان نہیں لینا چاہتیں تھیں ۔ "مس آئرہ آپ بیٹھ جائیے۔۔۔" پروفیسر نے مسکرا کر کہا۔ آئرہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔ وہ اسی طرح گم سم بیٹھی رہی اور وقت گزر گیا۔۔۔۔ کسی خیال میں کھوئے وہ کئیں دور نکلی ہوئی تھی جب اسکے سامنے کسی نے ڈیکس بجائی۔ "مس آئرہ۔۔۔۔۔" وہ اس اچانک افتاد پر بوکھلائی تھی اور ڈر کر سیدھی ہوئی۔ "جج۔۔۔۔ جی۔۔۔ جی پروفیسر براک۔۔۔۔" سامنے بیٹھا نوجوان پروفیسر کھکھلا کر ہنسا تھا۔ ✓✓✓

❤️ 👍 4⃣ 🇵🇰 😗 🥹 🫀 🫶 27
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
5/13/2025, 9:08:10 PM

"𝘽𝙞𝙧 𝘼𝙨𝙠 𝙃𝙞𝙠𝙖𝙮𝙚𝙨𝙞" 𝙃𝙖𝙣𝙞𝙖 𝙉𝙤𝙤𝙧 𝘼𝙨𝙖𝙙 "بیر اشک ہیکے ایسی" "میری محبت کی کہانی" قسط نمبر 16. تیسرا باب ــــ "إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّابِرینَ" (خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ "تمہارا گھر کافی اچھا لگا مجھے رحام ویل چوائس۔۔۔" ناشتے کی میز پر اسوہ بیگم نے رحام کو سراہا۔ ماسٹر چئیر پر روشان بیٹھا ہوا تھا ۔ دائیں جانب احمد اکبر اور اسوہ بیگم ، بائیں جانب رحام ۔ رحام بار بار بگڑے تیوروں سے روشان کو دیکھ رہی تھی جسکی وجہ اسے ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ "ہممم۔۔۔۔ آخر چوائس کس کی ہے!" احمد اکبر نے فخریہ نگاہوں سے رحام کی طرف دیکھا۔ "یہ گھر میں نے اپنی پسند سے بنوایا ہے انکل!" روشان نے چھری کانٹے کی مدد سے آملیٹ کا بائٹ بناتے ہوئے کہا تھا۔ "ہاں۔۔ تبھی کچھ خاص نہیں ہے ۔۔۔ کافی چیزیں مسنگ ہیں!" رحام نے کافی کا مگ لبوں سے لگاتے ہوئے کھلا طنز کیا ۔ "جو چیزیں تمہیں مسنگ لگ رہی ہیں ، خود منگوا لو، میں پیسے کماتا ہوں لیکن اپنے لیے۔ تم اپنے اخراجات خود اٹھاؤ ، انکل میرا نئی خیال کہ بے روزگار پولیس والے کو اپنی بیوی کے ناز و نخرے اٹھانے چاہیئے ، اور بیوی بھی وہ جو شہر کی مشہور ترین ٹیکسٹائل کمپنی کے سی ای او کی بیٹی ہو." روشان نے بلا تہمید ہمیشہ کی طرح صاف بات کی۔ "میری بیٹی کی اپنی بھی پہچان ہے روشان ۔۔۔ تم اسے میری بیٹی کے نام سے گنوا کر ہی اعلی درجے پر نہیں لا سکتے ۔ اس کے لیے ورڈ رحام ہی کافی ہے۔۔۔" احمد اکبر نے بات کو گھمایا تھا ۔ "اپنے پیسے اپنے پاس رکھو، قبر میں لے کر جانا ۔۔۔" رحام نیپکن سے لب تھپتھپا کر بولی۔ "ارے اب تو لڑنا بند کر دو تم لوگ۔۔۔۔ رحام ادھر آؤ مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔۔۔" اسوہ بیگم اپنی چئیر سے اٹھی تھیں اور اسے لیے ڈائننگ ہال سے نکل پڑی تھیں۔ "ہاں جی اے سی پی صاحب کیا چل رہا ہے؟" احمد اکبر نے روشان کا کاندھا تھپکا۔ "یہ تو آپ بتائیں ۔۔۔ کیا چل رہا ہے اور کیوں چل رہا ہے؟ کیوں پرائی دشمنیوں میں گھس رہے ہیں؟" روشان نے زومعنی بات کی تھی۔ احمد اکبر کے چہرے کا ایک رنگ آیا تھا اور ایک گیا تھا روشان نے بخوبی ان رنگوں کو دیکھا تھا ۔ "بکو مت۔۔۔ تمہاری زبان تو عورتوں سے بھی تیز چلتی ہے ۔۔" وہ اسے ڈپٹ کر بولے۔ "آپ کے گھر کی عورتوں کی صحبت کا اثر ہے ،کیا کر سکتے ہیں؟" روشان نے مسکرا کر کہا ۔ "عدل کو بھیج رہا ہوں ترکی ۔۔۔ کچھ ڈاکومنٹس امپروومنٹ کے لیے تمہاری ضرورت ہے۔۔۔ لے جانا اسے آج ۔۔۔" انہوں نے چائے کا کپ اٹھایا۔ "آئرہ نہیں جائے گی؟" روشان نے اپنا کپ اٹھاتے ہوئے پوچھا ۔ "نہیں اسکے ددھیال والوں نے منع کر دیا ہے۔۔۔ وہ کہیں نہیں جائے گی، خدیجہ بھی اپنے سسرال والوں کے آگے سر جھکا گئی ۔۔۔۔ سمجھ نہیں آتی مجھے اس کی بھی، جب شوہر ہی نہیں رہا تو ان لوگوں کو اہمیت دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟" انہوں نے زچ ہو کر کہا۔ "چلو اس خاندان میں کوئی تو عورت ہے جو شوہر کے عزت و احترام سے آشنا ہے، آپ کو تو فخر کرنا چاہیے کے اکبر فیملی سے کوئی عورت ایسی بھی ہے جو شوہر کا ادب کرتی ہے۔" روشان کے الفاظ احمد اکبر کا میٹر شاٹ کر رہے تھے۔ "تو پیدائشی ذلیل ہے بیٹا۔۔۔۔ تیری کوئی غلطی نہیں ۔۔" احمد اکبر غصہ کنٹرول کرتے ہوئے بولے۔ "پیدائشی ذلیل نہیں ہوں۔۔۔ پیدا ہونے کے بعد پہلی بار آپ نے اٹھایا تھا۔۔۔ امی بابا سے بھی پہلے ۔۔۔۔ یہ اسی پہلی آغوش کے اثرات ہیں۔۔۔" آنکھ ونک کرتے ہوئے بولا۔ "بھاڑ میں جاؤ." وہ غصے سے چلاتے اٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔ روشان چپ چاپ چائے پینے لگا۔ دوسری طرف لاؤنج میں رحام اور اسوہ بیگم بیٹھی ہوئی تھیں۔ رحام ڈیپ ریڈ کلر کے نائٹ سوٹ میں ملبوس گھنگھریالے بال کمر پر ڈالے پاؤں اوپر کیے بیٹھی ہوئی تھی۔ جبکہ سفید نفیس سی ریشمی ساڑھی میں ملبوس اسوہ بیگم ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھی ہوئی تھیں۔ "رحام تھوڑا تیار ہو لیتی۔۔۔ شادی کا پہلا دن ہے تمہارا!" اسوہ بیگم نے کہا ۔ "ممی۔۔۔ رہنے دیں ۔۔۔۔ان خرافات کے لیے کم از کم میرے پاس وقت نہیں ہے ۔۔" وہ منہ بنا کر بولی ۔ "بیٹا کم آن ۔۔۔۔ اب تمہیں کہوں گی کہ سب لڑکیاں کرتی ہیں تو تم چڑنے لگو گی ۔۔۔۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ پلیز یہ سب سے الگ تھلگ بننا اور رہنا چھوڑ دو ۔۔۔۔" "رحام اکبر بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔۔۔ روشان اکبر کی بیوی اور احمد اکبر کی بیٹی ہوں ۔۔۔ " وہ فخریہ کالر جھاڑ کر بولی۔ "روشان کی خوشی کے لیے تیار ہو لیتی؟" "اسے میں ہر حال میں اچھی لگتی ہوں، آپ فکر نا کریں!". "اوکے ایز یو وش ۔۔۔۔۔!" "پری کے ہاں کوئی نہیں گیا بریک فاسٹ لے کر؟" رحام نے پوچھا۔ "بھجوا دیا ہے بریک فاسٹ اور سفیر کو کال کر کے معذرت بھی کر لی تھی کہ ہم نہیں آ سکتے." "اور آپ کی تیسری صاحب زادی یہاں کیوں موجود نہیں؟" "وہ تیاری کر رہی ہے جانے کی!" انہوں نے بتایا۔ "میری بات نہیں مانی۔۔۔۔" رحام نے گہری سانس لی ۔ "رحام اسے اسکی مرضی سے جینے دو۔۔۔ وہ جی لے گی۔۔۔" "برباد ہو گی وہ دیکھ لیجیے گا۔ ۔ اس بیہیویر کے ساتھ کوئی کامیاب نہیں ہوتا ۔۔۔ " "اللّٰہ نا کرے ۔۔۔ پلیز ایسے مت کہو ۔۔۔۔۔" انہوں نے ٹوکا ۔ "واٹ ایور۔۔۔۔ اب آپ لوگ جائیں میں روشان کے ساتھ کچھ ٹائم اسپینڈ کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ ویسے بھی پھر آفس میں مصروف ہو جاؤ گی ۔۔۔۔ یہی وقت ہے ۔۔۔" وہ اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی ۔ اسوہ بیگم کا چہرہ خفت سے سرخ ہوا تھا۔ انکی بیٹی کس قدر غیر اخلاق تھی۔۔ ✓✓✓ "آئرہ ساری زندگی تمہاری دادی کہاں روپوش تھیں؟ کیا مر گئی تھیں تب جب تمہارے بابا گزرے ۔۔۔۔ حد ہے ویسے پھپھو آپ کیوں ان لوگوں کی باتوں میں آ رہی ہیں؟ اور آپ کو ضرورت کیا تھی۔۔۔۔ ان لوگوں سے فون کر کے پوچھنے کی؟؟؟" عدل کو تپ چڑھی۔ اس وقت وہ لان میں ایزی چئیر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسکے سامنے والی دونوں چئیرز پر آئرہ اور خدیجہ بیگم بیٹھی ہوئی تھیں ۔ "بیٹا وہ لوگ اسکے وارث ہیں۔۔۔ ہم انکی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔" "پھپھو پلیز ۔۔۔۔ کون سے وارث کیسے وارث ؟؟؟ اگر وہ وارث ہیں تو مانگیے ان سے اسکا پراپرٹی میں حصہ! مانگیں اپنا حصہ ۔۔۔۔ کیا وارث صرف پابندیاں لگانے کے لیے ہوتے ہیں؟" عدل نے کہا۔ "بیٹا ۔۔۔۔ میں بھی اسے ترکی نہیں بھیجنا چاہ رہی ۔۔۔۔ دراصل اسکی دادی چاہتی ہیں کہ ہم انکے گھر شفٹ ہو جائیں ۔۔۔۔ اور اسکے بغیر میں وہاں نہیں رہ پاؤں گی۔۔۔۔ میری طرف سے بھی اجازت نہیں ہے۔۔۔۔" خدیجہ بیگم بولیں۔ "ٹھیک ہے آئرہ یہی پڑی رہو ۔۔۔۔ آئی ڈونٹ کئیر ۔۔۔۔" وہ اٹھ کر چلی گئی۔ "کیوں بہانے بنا رہی ہیں؟ کیوں جھوٹ بول رہی ہیں؟" آئرہ آنکھوں میں آنسو لیے بولی۔ "میری جان میں مجبور ہوں۔۔۔۔" وہ اسے سینے سے لگا گئیں۔ ✓✓✓

❤️ ♥️ 👍 💜 🫀 17
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
5/13/2025, 9:07:42 PM

"𝘽𝙞𝙧 𝘼𝙨𝙠 𝙃𝙞𝙠𝙖𝙮𝙚𝙨𝙞" 𝙃𝙖𝙣𝙞𝙖 𝙉𝙤𝙤𝙧 𝘼𝙨𝙖𝙙 "بیر اشک ہیکے ایسی" "میری محبت کی کہانی" "قسط نمبر 15" تیسرا باب ـــــــــــ"ارحام" (خون کے رشتے) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ وہ گاڑی پارک کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہوا تھا۔ یہ ایک خوبصورت گھر تھا ۔ ایک عالی شان بنگلہ ۔ احمد اکبر کے گھر جیسا ۔ شاندار اور لگژری ، جہاں دنیا کی ہر چیز میسر تھی۔ رحام پہلے ہی اوپر چلی گئی تھی۔ وہ تقریباً پچیس منٹ بعد کمرے میں داخل ہوا ۔ سامنے رحام ڈریسنگ مرر کے آگے بیٹھی ہاتھوں پر نائٹ کریم لگا رہی تھی۔ وہ نائٹ سوٹ میں ملبوس تھی۔ "رحام ۔۔۔۔ تمہیں میرا ویٹ کرنا تھا۔۔۔۔ تم نے چینج کیوں کر لیا؟" روشان نے کوٹ اتار کر بیڈ پر پھینکا تھا۔ وہ بلیک ڈنر سوٹ میں ملبوس تھا۔ "رحام احمد اور انتظار ؟؟؟ طبیعت خراب ہے آپکی شاید اے سی پی صاحب ۔۔۔۔" رحام نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے آئینے سے ہی اسے دیکھا۔ "رحام اب اپنی عادتوں کو بدل لو ۔۔۔۔ پہلے برداشت کر لیتا تھا کیوں کہ کوئی حق نہیں تھا تم۔پر میرا ۔۔۔ لیکن اب ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔" روشان نے انگلی اٹھا کر وارن کیا تھا۔ "نہیں تو کیا کر لو گے؟؟" رحام ایک دم سے اٹھ کر اسکے روبرو آ کھڑی ہوئی تھی۔ "ہاتھ پیر توڑ کر گھر بٹھا دوں گا ۔۔۔ یو نو۔۔۔ یہ میرا پیشہ ہے ۔۔۔ ہڈیاں توڑنا اور لوگوں کو سدھارنا۔۔۔۔" روشان نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھڑلے سے کہا۔ "تمیز سے بات کرو، بیوی ہوں تمہاری ۔۔۔۔"گھنگھریالے کھلے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے غصہ کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔ "بیوی ہو۔۔۔۔ ماں نہیں ۔۔۔" روشان نے اسمرک پاس کی ۔ "بہت گھٹیا انسان ہو ویسے تم ..." وہ اسکا گریبان پکڑ کر بولی۔ "اور تم اس گھٹیا انسان کی پہلی بیوی ۔۔۔۔ رائٹ ؟" وہ اسے تپانے کے موڈ میں تھا۔ "پہلی اور آخری ۔۔۔" رحام نے طنزیہ مسکراہٹ اچھالی۔ روشان نے اپنے گریبان سے اسکے ہاتھ ہٹا کر ہاتھوں میں پکڑے اور آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گہری سانس لے کر بولا۔ "لو یو سو مچ مائے بیوٹی فل ڈائن۔۔۔" یہ کہتے ہوئے اس نے رحام کے ماتھے پر لب ثبت کر دیے۔ رحام مسکرائی اور اگلے ہی پل اس نے ایڑھیوں پر اوپر اٹھتے ہوئے روشان کا عمل دہرایا۔ "Love you more, wild ghost". روشان حیران ہوا تھا۔ اسے بلکل بھی آئیڈیا نہیں تھا کے رحام یہ رد عمل دے گی۔ "مجھے لگا تم شرماؤ گی۔۔۔۔ تمہارا فیس بلش کرے گا۔۔۔۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔۔۔ مجھے شرم آ گئی لیکن تمہیں نہیں ۔۔۔" روشان نے اسکی کمر میں بازو ڈال کر اسے تھوڑا قریب کرتے ہوئے کہا۔ "کیوں؟ شرمانے پر ایوارڈ ملتا ہے کیا؟ اور تم مجھ سے ایسی امیدیں نا لگایا کرو روشان ۔۔۔ میں رحام ہوں ، میں باقیوں سے مختلف ہوں۔۔." رحام روشان کی شرٹ کے بٹن کے ساتھ کھیلتے ہوئے نظریں جھکائے کہہ رہی تھی۔ "باقیوں سے مختلف ہو تو یقیناً منہ دکھائی بھی نہیں لوں گی! ہے ناں؟" روشان نے آئبرو اٹھاتے ہوئے پوچھا ۔ "منہ دکھائی تو لوں گی، کیوں کہ میری منہ دکھائی بھی باقیوں سے مختلف ہو گی۔۔۔ جانتے ہو کیوں؟" رحام نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ "کیوں؟" "کیوں کہ مجھے منہ دکھائی دینے والا "کوئی" نہیں ۔۔۔۔ روشان اکبر ہے۔۔۔۔ سب سے الگ سب سے منفرد اور سب سے بڑھ کر رحام احمد کا پسندیدہ مرد!!!!" رحام کی باتیں سن کر روشان کو چکر آ رہے تھے۔ یقین ہی نہیں آ رہا تھا پہلو میں کھڑی لڑکی رحام ہے۔ "یہ نکاح کے بولوں کا اثر ہے یا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں عالی جاہ؟" روشان نے پوچھا۔ "کیا مطلب ۔۔۔۔؟؟؟" "تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔۔۔ کہیں سر پر چوٹ ووٹ تو نہیں آئی؟" روشان نے اسکا سر غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ "دفعہ ہو جاؤ ۔۔۔۔ تم محبت کے قابل ہی نہیں ہو۔۔۔۔ صحیح کہتے ہیں لوگ ، پولیس والوں کو عزت راس نہیں آتی ۔۔۔" رحام اسے دور دھکیلتے ہوئے پیچھے ہٹی تھی۔ "پولیس والے کی بیوی کے بارے میں بھی لوگ بڑی باتیں کرتے ہیں ویسے ۔۔۔۔۔" روشان نے کلائی سے گھڑی اتارتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر رکھی۔ "کیا؟؟؟" وہ لیٹی ہی تھی سونے کے لیے کہ پھر اٹھ بیٹھی۔ "یہی کہ پولیس والے نے کیا بندی پھنسا لی ۔۔۔ یہ اے سی پی تو بڑا چھپا رستم نکلا ۔۔۔۔" روشان نے ہاتھ کاندھوں تک اٹھاتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا۔ "تمہارے چیپ دوستوں کی چیپ باتیں۔۔۔۔ اب آواز نا آئے تمہاری ۔۔۔ریسٹ کرنے دو مجھے۔" وہ بلینکٹ سیدھا کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ "ہاں ۔۔۔ ہاں مری رہو۔۔۔" روشان یہ کہتا ڈریسنگ روم کا دروازہ بند کر گیا۔ رحام نے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پڑی اپنی ہیل اٹھا کر پھینکی تھی مگر وہ دروازہ بند کر چکا تھا۔ ہیل دروازے پر جا بجی۔ "تم باہر ہی آؤ گے روشان۔۔۔ اندر سے ہی اوپر نہیں پہنچو گے۔۔۔" وہ غصے میں چلائی تھی اور روشان کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔ ✓✓✓ یہ رات کا آخری پہر تھا۔ وہ وقت جب دور دور سے اذان کی سدائیں بلند ہوتی ہیں ۔ یہ منظر ایک بڑے بنگلے کی بالکونی کا تھا۔ جہاں نیچے فرش پر ایک ذی روح پڑی ہوئی تھی ۔ کڑکتی سردی اور سحر کا وقت ۔ وہ معصوم سی پری سرخ عروسی لباس میں ملبوس بالکونی ایک کونے میں پڑی ہوئی تھی۔ اسکے لب نیلے پڑ چکے تھے۔ سرخ چوڑیوں سے سجے ہاتھ بھی مارے ٹھنڈ کے سرخ ہو رہے تھے۔ آنکھیں متورم تھیں ۔ آس پاس زیورات بکھرے پڑے تھے۔ چوڑیاں بھی ٹوٹ کر بکھری پڑی تھیں امیدوں کی طرح۔ وہ چوکھٹ سے اپنا دکھتا سر ٹکائے اب آنکھیں موندیں بیٹھی تھی۔ رو رو کر وہ تھک چکی تھی۔ اب آنسو بھی وقفہ مانگ رہے تھے۔ تبھی شیشے کا دروازہ دھکیل کر کوئی بالکونی پر آیا تھا۔ اس نے بوجھل پلکیں اٹھائیں ۔۔۔ سامنے سفیر عالم کھڑا ہوا تھا۔ سفید قمیص شلوار میں ملبوس ہاتھ سینے پر باندھے وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ جا بجا چہرے پر پڑے سرخ اور نیلے نشان، بکھری حالت ، الجھے بال، لہنگے کے کئیں کئیں سے اڑے چیتھڑے ۔ ایک رات میں اس نے اس پھول کو مسل ڈالا تھا جو کل تک اپنے باپ کے باغ میں کھلا ہوا تھا۔ "اٹھیں مسز سفیر عالم، نئی زندگی کی پہلی صبح مبارک ہو!" ایک جھٹکے سے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے اپنے سامنے کھڑا کیا تھا۔ "چھوڑیں مجھے۔۔۔۔ میں پوری دنیا کو بتاؤں گی آپ نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔۔۔۔ آپ بہت گھٹیا انسان ہیں۔۔۔" وہ خود کو چھڑاتے ہوئے چلائی۔ "ریلیکس بے بی۔۔۔ ابھی تو کچھ کیا ہی نہیں ہے میری جان۔۔۔ یہ تو بس شروعات ہے۔۔۔۔ اور کیا بتاؤ گی سب کو؟ شوہر بیوی اپنی آپس کی باتیں کسی کو نہیں بتاتے میری جان۔۔۔" وہ اسکے چہرے کے قریب چہرہ کرتے ہوئے بولا۔ "دور ہٹیں مجھ سے۔۔۔۔ گھن آتی ہے مجھے آپ سے۔۔۔۔" وہ اسے دھکیلتے ہوئے بولی۔ "چٹاخ۔۔۔۔" ایک زناٹے دار تھپڑ سفیر نے اسکے منہ پر دے مارا۔ "میرے آگے زبان چلائی نا تو اسی لان میں زندہ دفنا دوں گا۔۔۔" سفیر نے اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے بالکونی سے نظر آتے لان کی طرف اشارہ کیا ۔ "سسی۔۔۔۔ چھوڑ۔۔۔ چھوڑیں۔۔۔" اسکی آنکھیں آنسوؤں سے بھریں۔ "میں۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔ کو بتاؤں گی۔۔۔۔ آپ نے جو چاہے کر لیں۔۔ آئیں گے نا ابھی ۔۔۔۔ میں سب بتاؤں گی۔۔۔" وہ آنسو بہاتے ہوئے بولی تھی۔ سفیر کا بلند و بانگ قہقہہ بلند ہوا تھا۔ پریشے کو اس قہقہے کو سن کر اپنی روح سرایت کرتی محسوس کی۔ "تمہارا باپ؟؟؟ وہ فون کر کے دادی سے معذرت کر چکے ہیں۔۔ دراصل وہ رحام کی طرف جائیں گے۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ باقی اس گھر میں ہم دونوں کے علاؤہ ہے بھی کوئی نہیں ۔۔۔۔ تو بے بی ۔۔۔۔ اپنے ننھے سے ذہن پر کسی قسم کا زور مت ڈالنا۔۔۔ سکون سے سفیر عالم کی پناہوں میں سکون حاصل کرو۔۔۔" پریشے کے پیر لرزے تھے۔۔۔۔ روح تک ایک مایوسی کی لہر دوڑی تھی۔ وہ اب اسے گھسیٹ کر کمرے میں لے جا رہا تھا ۔ ✓✓✓

❤️ 😢 🥺 👍 🫀 17
Link copied to clipboard!