Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
May 13, 2025 at 09:08 PM
"𝘽𝙞𝙧 𝘼𝙨𝙠 𝙃𝙞𝙠𝙖𝙮𝙚𝙨𝙞" 𝙃𝙖𝙣𝙞𝙖 𝙉𝙤𝙤𝙧 𝘼𝙨𝙖𝙙 "بیر اشک ہیکے ایسی" "میری محبت کی کہانی" قسط نمبر 16. تیسرا باب ــــ "إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّابِرینَ" (خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ "تمہارا گھر کافی اچھا لگا مجھے رحام ویل چوائس۔۔۔" ناشتے کی میز پر اسوہ بیگم نے رحام کو سراہا۔ ماسٹر چئیر پر روشان بیٹھا ہوا تھا ۔ دائیں جانب احمد اکبر اور اسوہ بیگم ، بائیں جانب رحام ۔ رحام بار بار بگڑے تیوروں سے روشان کو دیکھ رہی تھی جسکی وجہ اسے ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ "ہممم۔۔۔۔ آخر چوائس کس کی ہے!" احمد اکبر نے فخریہ نگاہوں سے رحام کی طرف دیکھا۔ "یہ گھر میں نے اپنی پسند سے بنوایا ہے انکل!" روشان نے چھری کانٹے کی مدد سے آملیٹ کا بائٹ بناتے ہوئے کہا تھا۔ "ہاں۔۔ تبھی کچھ خاص نہیں ہے ۔۔۔ کافی چیزیں مسنگ ہیں!" رحام نے کافی کا مگ لبوں سے لگاتے ہوئے کھلا طنز کیا ۔ "جو چیزیں تمہیں مسنگ لگ رہی ہیں ، خود منگوا لو، میں پیسے کماتا ہوں لیکن اپنے لیے۔ تم اپنے اخراجات خود اٹھاؤ ، انکل میرا نئی خیال کہ بے روزگار پولیس والے کو اپنی بیوی کے ناز و نخرے اٹھانے چاہیئے ، اور بیوی بھی وہ جو شہر کی مشہور ترین ٹیکسٹائل کمپنی کے سی ای او کی بیٹی ہو." روشان نے بلا تہمید ہمیشہ کی طرح صاف بات کی۔ "میری بیٹی کی اپنی بھی پہچان ہے روشان ۔۔۔ تم اسے میری بیٹی کے نام سے گنوا کر ہی اعلی درجے پر نہیں لا سکتے ۔ اس کے لیے ورڈ رحام ہی کافی ہے۔۔۔" احمد اکبر نے بات کو گھمایا تھا ۔ "اپنے پیسے اپنے پاس رکھو، قبر میں لے کر جانا ۔۔۔" رحام نیپکن سے لب تھپتھپا کر بولی۔ "ارے اب تو لڑنا بند کر دو تم لوگ۔۔۔۔ رحام ادھر آؤ مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔۔۔" اسوہ بیگم اپنی چئیر سے اٹھی تھیں اور اسے لیے ڈائننگ ہال سے نکل پڑی تھیں۔ "ہاں جی اے سی پی صاحب کیا چل رہا ہے؟" احمد اکبر نے روشان کا کاندھا تھپکا۔ "یہ تو آپ بتائیں ۔۔۔ کیا چل رہا ہے اور کیوں چل رہا ہے؟ کیوں پرائی دشمنیوں میں گھس رہے ہیں؟" روشان نے زومعنی بات کی تھی۔ احمد اکبر کے چہرے کا ایک رنگ آیا تھا اور ایک گیا تھا روشان نے بخوبی ان رنگوں کو دیکھا تھا ۔ "بکو مت۔۔۔ تمہاری زبان تو عورتوں سے بھی تیز چلتی ہے ۔۔" وہ اسے ڈپٹ کر بولے۔ "آپ کے گھر کی عورتوں کی صحبت کا اثر ہے ،کیا کر سکتے ہیں؟" روشان نے مسکرا کر کہا ۔ "عدل کو بھیج رہا ہوں ترکی ۔۔۔ کچھ ڈاکومنٹس امپروومنٹ کے لیے تمہاری ضرورت ہے۔۔۔ لے جانا اسے آج ۔۔۔" انہوں نے چائے کا کپ اٹھایا۔ "آئرہ نہیں جائے گی؟" روشان نے اپنا کپ اٹھاتے ہوئے پوچھا ۔ "نہیں اسکے ددھیال والوں نے منع کر دیا ہے۔۔۔ وہ کہیں نہیں جائے گی، خدیجہ بھی اپنے سسرال والوں کے آگے سر جھکا گئی ۔۔۔۔ سمجھ نہیں آتی مجھے اس کی بھی، جب شوہر ہی نہیں رہا تو ان لوگوں کو اہمیت دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟" انہوں نے زچ ہو کر کہا۔ "چلو اس خاندان میں کوئی تو عورت ہے جو شوہر کے عزت و احترام سے آشنا ہے، آپ کو تو فخر کرنا چاہیے کے اکبر فیملی سے کوئی عورت ایسی بھی ہے جو شوہر کا ادب کرتی ہے۔" روشان کے الفاظ احمد اکبر کا میٹر شاٹ کر رہے تھے۔ "تو پیدائشی ذلیل ہے بیٹا۔۔۔۔ تیری کوئی غلطی نہیں ۔۔" احمد اکبر غصہ کنٹرول کرتے ہوئے بولے۔ "پیدائشی ذلیل نہیں ہوں۔۔۔ پیدا ہونے کے بعد پہلی بار آپ نے اٹھایا تھا۔۔۔ امی بابا سے بھی پہلے ۔۔۔۔ یہ اسی پہلی آغوش کے اثرات ہیں۔۔۔" آنکھ ونک کرتے ہوئے بولا۔ "بھاڑ میں جاؤ." وہ غصے سے چلاتے اٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔ روشان چپ چاپ چائے پینے لگا۔ دوسری طرف لاؤنج میں رحام اور اسوہ بیگم بیٹھی ہوئی تھیں۔ رحام ڈیپ ریڈ کلر کے نائٹ سوٹ میں ملبوس گھنگھریالے بال کمر پر ڈالے پاؤں اوپر کیے بیٹھی ہوئی تھی۔ جبکہ سفید نفیس سی ریشمی ساڑھی میں ملبوس اسوہ بیگم ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھی ہوئی تھیں۔ "رحام تھوڑا تیار ہو لیتی۔۔۔ شادی کا پہلا دن ہے تمہارا!" اسوہ بیگم نے کہا ۔ "ممی۔۔۔ رہنے دیں ۔۔۔۔ان خرافات کے لیے کم از کم میرے پاس وقت نہیں ہے ۔۔" وہ منہ بنا کر بولی ۔ "بیٹا کم آن ۔۔۔۔ اب تمہیں کہوں گی کہ سب لڑکیاں کرتی ہیں تو تم چڑنے لگو گی ۔۔۔۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ پلیز یہ سب سے الگ تھلگ بننا اور رہنا چھوڑ دو ۔۔۔۔" "رحام اکبر بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔۔۔ روشان اکبر کی بیوی اور احمد اکبر کی بیٹی ہوں ۔۔۔ " وہ فخریہ کالر جھاڑ کر بولی۔ "روشان کی خوشی کے لیے تیار ہو لیتی؟" "اسے میں ہر حال میں اچھی لگتی ہوں، آپ فکر نا کریں!". "اوکے ایز یو وش ۔۔۔۔۔!" "پری کے ہاں کوئی نہیں گیا بریک فاسٹ لے کر؟" رحام نے پوچھا۔ "بھجوا دیا ہے بریک فاسٹ اور سفیر کو کال کر کے معذرت بھی کر لی تھی کہ ہم نہیں آ سکتے." "اور آپ کی تیسری صاحب زادی یہاں کیوں موجود نہیں؟" "وہ تیاری کر رہی ہے جانے کی!" انہوں نے بتایا۔ "میری بات نہیں مانی۔۔۔۔" رحام نے گہری سانس لی ۔ "رحام اسے اسکی مرضی سے جینے دو۔۔۔ وہ جی لے گی۔۔۔" "برباد ہو گی وہ دیکھ لیجیے گا۔ ۔ اس بیہیویر کے ساتھ کوئی کامیاب نہیں ہوتا ۔۔۔ " "اللّٰہ نا کرے ۔۔۔ پلیز ایسے مت کہو ۔۔۔۔۔" انہوں نے ٹوکا ۔ "واٹ ایور۔۔۔۔ اب آپ لوگ جائیں میں روشان کے ساتھ کچھ ٹائم اسپینڈ کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ ویسے بھی پھر آفس میں مصروف ہو جاؤ گی ۔۔۔۔ یہی وقت ہے ۔۔۔" وہ اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی ۔ اسوہ بیگم کا چہرہ خفت سے سرخ ہوا تھا۔ انکی بیٹی کس قدر غیر اخلاق تھی۔۔ ✓✓✓ "آئرہ ساری زندگی تمہاری دادی کہاں روپوش تھیں؟ کیا مر گئی تھیں تب جب تمہارے بابا گزرے ۔۔۔۔ حد ہے ویسے پھپھو آپ کیوں ان لوگوں کی باتوں میں آ رہی ہیں؟ اور آپ کو ضرورت کیا تھی۔۔۔۔ ان لوگوں سے فون کر کے پوچھنے کی؟؟؟" عدل کو تپ چڑھی۔ اس وقت وہ لان میں ایزی چئیر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسکے سامنے والی دونوں چئیرز پر آئرہ اور خدیجہ بیگم بیٹھی ہوئی تھیں ۔ "بیٹا وہ لوگ اسکے وارث ہیں۔۔۔ ہم انکی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔" "پھپھو پلیز ۔۔۔۔ کون سے وارث کیسے وارث ؟؟؟ اگر وہ وارث ہیں تو مانگیے ان سے اسکا پراپرٹی میں حصہ! مانگیں اپنا حصہ ۔۔۔۔ کیا وارث صرف پابندیاں لگانے کے لیے ہوتے ہیں؟" عدل نے کہا۔ "بیٹا ۔۔۔۔ میں بھی اسے ترکی نہیں بھیجنا چاہ رہی ۔۔۔۔ دراصل اسکی دادی چاہتی ہیں کہ ہم انکے گھر شفٹ ہو جائیں ۔۔۔۔ اور اسکے بغیر میں وہاں نہیں رہ پاؤں گی۔۔۔۔ میری طرف سے بھی اجازت نہیں ہے۔۔۔۔" خدیجہ بیگم بولیں۔ "ٹھیک ہے آئرہ یہی پڑی رہو ۔۔۔۔ آئی ڈونٹ کئیر ۔۔۔۔" وہ اٹھ کر چلی گئی۔ "کیوں بہانے بنا رہی ہیں؟ کیوں جھوٹ بول رہی ہیں؟" آئرہ آنکھوں میں آنسو لیے بولی۔ "میری جان میں مجبور ہوں۔۔۔۔" وہ اسے سینے سے لگا گئیں۔ ✓✓✓
❤️ ♥️ 👍 💜 🫀 17

Comments