Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
May 17, 2025 at 06:54 AM
"𝘽𝙞𝙧 𝘼𝙨𝙠 𝙃𝙞𝙠𝙖𝙮𝙚𝙨𝙞" 𝙃𝙖𝙣𝙞𝙖 𝙉𝙤𝙤𝙧 𝘼𝙨𝙖𝙙 "بیر اشک ہیکے ایسی" میری محبت کی کہانی قسط نمبر 18. تیسرا باب ۔ "اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِینَ" (خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے). ــــــــــــــــــــــــــــ "بی بی جی ۔۔۔ صاحب کا فون ہے۔۔" ملازمہ نے موبائل اسکی جانب بڑھایا تھا۔ "جج۔۔۔ جی۔۔۔" کنپکپاتی آواز میں موبائل کان سے لگا کر کہا۔ "دادی کی سرجری ہے۔۔۔ انسانوں والا حلیہ بنا کر ہسپتال پہنچو۔۔۔" سفیر نے حکم دیا ۔ "سفیر۔۔۔۔میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔ پلیززز۔۔۔ میں نہیں جاؤں گی کہیں۔۔" اس نے منت بھرے لہجے میں کہا۔ "پوچھا نہیں ہے بتایا ہے۔۔۔۔" وہ یہ کہتا فون بند کر گیا تھا ۔ ملازمہ فون لے کر وہاں سے چلی گئی۔ پریشے بیڈ پر اوندھے منہ گر پڑی تھی۔ اسے اب کہیں آنے جانے کی خواہش نہیں تھی۔ اندر باہر سے سب ختم ہو چکا تھا۔ صرف ایک ہفتے میں اس شخص نے اسے مار ڈالا تھا۔ اسکے دئیے گئے زخموں سے زیادہ ، دل دکھتا تھا جو سپنوں نے دکھایا تھا۔ اسکے والدین نے اسکے ولیمے میں شرکت نہیں کی تھی۔ انہوں نے معذرت کر لی تھی۔ کیونکہ اسوہ بیگم کی طبیعت خراب تھی۔ لیکن اگلے ہی دن انہوں نے رحام کے ولیمے میں شرکت کی تھی۔ وہ بے مول تھی۔ بے حد بے مول۔ کاش کے وہ انمول ہوتی ، رحام کی طرح انمول، عدل کی طرح انمول۔ عدل بھی نہیں آئی تھی۔ پورا ایک ہفتہ ہو چکا تھا اس نے اپنے گھر والوں کی آواز تک نہیں سنی تھی۔ اس وقت اسے سیریلز والی بہنیں یاد آئی تھیں ۔ جو ایک دوسرے پر جان چھڑکتی ہیں ۔۔۔ کاش ان بہنوں کے بیچ بھی سولڈ بونڈ ہوتا۔ کاش وہ بھی اچھی بہنیں ہوتیں۔ آنکھوں کے کنارے خشک کرتی وہ اٹھ بیٹھی تھی۔ اسے جینا تھا یا مرنا تھا۔ اب اسی ستمگر کے سنگ۔ کچھ دیر بعد لال رنگ کا ایک ڈریس زیب تن کیے وہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی ۔ بالوں کو کھول کر برش کیا تھا اور منہ ، گردن اور ہاتھوں سے زخموں کے نشان میک اپ کر کے چھپائے تھے۔ ڈیپ ریڈ لپ اسٹک سے ہونٹ کا زخم چھپایا جو سفیر کے دھکیلنے پر دروازے کی چوکھٹ پر لگنے سے ہوا تھا ۔ مکمل تیار ہو کر وہ کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ سفیر کا انتظار کر رہی تھی۔ "تم بخت والی ہو ۔۔۔ تمہارے نصیب آسمانوں کی بلندیوں تک جاتے ہیں۔۔۔ اور ہاں صبر والی بھی ہو ۔۔۔۔ صبر کا دامن نا چھوڑنا۔۔۔ تم راج کرو گی۔۔۔" ماضی ایک خیال ذہن میں آیا تھا ۔ قرآن پاک پڑھانے والی استانی نے بہت سال پہلے بچپن میں اسے یہ بات کہی تھی۔ "ہونہہ۔۔۔۔ پتا نہیں لوگ کیوں ہمارا دل رکھنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔۔۔ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سچ جاننے پر ہمیں دہرا دکھ ہوگا!" اس نے خود سے پوچھا تھا۔ دو آنسو چہرہ بھگو گئے۔ تبھی دروازے کا لاک گھوما تھا اور وہ اندر داخل ہوا تھا ۔ میکانکی انداز میں وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ "اوہ مائے ریڈ روز ۔۔۔۔۔ " سفیر نے اسے کلائی سے پکڑ کر اپنے سامنے کرتے ہوئے ستائشی نظروں سے دیکھا تھا۔ وہ سر جھکائے اسکے حصار میں کھڑی رہی ۔ سفیر کی کلون کی مہک اسکی سانسوں میں زہر بن کر گھل رہی تھی۔ "بہت حسین ہو تم ۔۔۔۔ میری پہلی بیوی سے بھی زیادہ۔۔۔" سفیر نے ہونٹ اسکے سر پر ثبت کر دیے۔ یہ لمس اور جملہ پریشے کو برچھے کی طرح لگا تھا۔ "پپ۔۔۔ پہلی ۔۔۔ بیوی؟؟" دور ہٹتے ہوئے سوال کیا۔ سفیر نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ "ہاں!" ۔ "کک۔۔۔ کون ہے؟" پریشے کو دلچسپی نہیں تھی مگر دل پھر بھی نا جانے کیوں ڈوب رہا تھا۔ "اریشہ باجوہ۔۔۔" بہت آرام سے وہ اسکے وجود کو شل کر گیا تھا۔ بے یقینی ہی بے یقینی تھی پریشے کی آنکھوں میں۔ "اریشہ؟؟؟ وو۔۔۔ وہ ۔۔۔ اریشہ ۔۔۔" وہ بے یقینی سے پیچھے پیچھے ہٹنے لگی۔ "ہاں پری۔۔۔ تمہاری سابقہ بیسٹ فرینڈ اور حالیہ دشمن اریشہ باجوہ۔۔۔ اور میری فرسٹ کزن اور پہلی بیوی۔۔۔" وہ اسکی حالت دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا اور وہ ؟ بے یقین تھی۔ "میں ماموں کو بتاؤں گی سفیر ۔۔۔۔۔ میں سب کو بتاؤں گی ۔۔۔ آپ نے مجھے دھوکا دیا ہے۔۔۔۔۔" وہ رو رہی تھی۔ "بے بی۔۔۔۔۔ میرے باپ کو کیا تمہارے باپ کو بھی پتا ہے کہ میں میرڈ ہوں۔۔۔۔ تم بلاوجہ کوئی تماشا مت کرنا۔۔۔۔۔ ویسے ہی سب تم سے الجھیں گے۔۔۔۔ اور مجھے اچھا تھوڑی لگتا ہے جب کوئی میری پری کو کچھ کہے۔۔۔۔" سفیر نے اسے زبردستی سینے سے لگا لیا۔ پریشے پتھر کا بت بنی ہوئی تھی۔ ✓✓✓ "عدل ۔۔۔" ننھی آواز پر وہ پلٹی تھی اور بچے کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ وہ قریباً چار سال کا بچہ تھا جو پھول اسکی جانب بڑھائے مسکرا رہا تھا۔ اسکے ہاتھ میں وائٹ ٹیولپ تھا۔ یہ منظر ایک اسکول کی نرسری کا تھا۔ یہ پلیئنگ ایریا تھا ۔ جہاں چھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے تھے۔ "Ohhh... Thank you little kharabe!". عدل نے جھک کر اسکا گال چوم لیا اور پھول اپنے بالوں میں لگا لیا۔ "شکریہ مت کہو۔" اسکے اگلے جملے پر عدل کو جھٹکا لگا تھا وہ اردو میں بولا تھا ۔ "کیا کہا تم نے؟؟؟" وہ حیران و پریشان کھڑی تھی۔ میران نے جملہ دہرایا۔ "تمہیں اردو آتی ہے ؟" "ہممم آتی ہے ۔۔۔۔" "اور ٹرکش؟" "ہاں وہ بھی آتی ہے۔۔۔۔ سینی سیو یورم عدل ۔۔۔۔" اس نے ٹرکش میں اسے آئی لو یو کہا تھا۔ "تمہیں کس نے سکھائی اردو؟" اب عدل اسکا ہاتھ تھامے آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ "میرے بابا کی ایک کزن ہیں انہوں نے سکھائی تھی ... ماما مجھے انکے گھر چھوڑ کر باہر جاتی تھیں وہ اور میں بہت فن کرتے تھے۔۔۔۔" وہ مزے سے بتا رہا تھا۔ "تم بہت سمجھدار ہو ۔۔۔ پیاری آنکھوں والے بلے۔۔۔۔" عدل نے جھک کر اسے پیار کیا۔ "تم بھی کیوٹ ہو بلی۔۔۔۔" وہ ہنسا عدل کھکھلا اٹھی تھی۔ ✓✓✓
❤️ 🆕 👍 😢 🫀 👏 😊 🙏 56

Comments