Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
May 31, 2025 at 01:27 PM
"Bir Ask Hekayesi" Hania Noor Asad "بیر اشک ہیکے ایسی" میری محبت کی کہانی ۔ قسط نمبر 24. چوتھا باب ۔ "لا علمی کے بعد بے یقینی" ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ صبح صادق کے وقت پورے گھر میں پہلی لائٹ اس نے اٹھ کر جلائی تھی۔ یہ ساتویں صبح تھی جب اس گھر میں فجر کی ساتویں نماز پڑھی جا رہی تھی۔ وہ وضو کر کے کمرے سے دور باہر راہداری میں آ گئی تھی اور یہیں کی بتی روشن کی تھی۔ وہ چہرہ جھکائے نماز پڑھنے میں مصروف ہو گئی تھی۔ گورے چہرے اور کورین نقوش والی لڑکی کی آنکھیں نم تھیں وہ نماز پڑھتے ہوئے آنسو پونچھتی نہیں تھی۔ انہیں بہنے دیتی تھی۔ نماز پڑھ کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ "یا اللّٰہ سفیر کے دل میں میرے لیے محبت ڈال دے۔" یہ فقرہ لبوں سے نکلا تھا اور منہ پر ہاتھ پھیر کر وہ جاہِ نماز اٹھا گئی تھی۔ اسکا دل اتنے زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا۔ کل رات سفیر پورے دس دن بعد گھر آیا تھا۔ اس نے یہ دس دن اریشہ باجوہ کے ساتھ گزارے تھے اور پریشے نے یہ دس دن دہکتے کوئلوں پر ۔ وہ کل رات آیا تھا اور ویسا ہی تھا جیسا شادی کے بعد سے اب تک تھا پر پریشے بے ساختہ اس سے جا لگی تھی ۔ سفیر نے اسے جھٹکا نہیں تھا۔ اسکا سر سہلا گیا تھا اور پھر ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔ پریشے لاونج میں آ بیٹھی تھی۔ یہ درمینہ بی کے آنے کا وقت تھا وہ روز صبح اسی وقت آتی تھیں ۔ درمینہ بی سے اس نے قرآن پاک منگوایا تھا۔ سفیر کے گھر قرآن پاک یا جاہِ نماز نامی کوئی شے موجود نہیں تھی۔ جاہِ نماز بھی درمینہ بی نے دی تھی۔ پریشے اپنے سیاہ دوپٹہ کو کھول کر کاندھوں پر ڈال گئی ۔ باب کٹ والے بال اب کندھوں سے نیچے جھول رہے تھے۔ بال بڑے ہو گئے تھے۔ کافی عرصے سے ہیئر کٹ بھی نہیں لیا تھا۔ ناخن بھی لمبے تھے۔ پر چہرہ ویسا ہی تھا۔ بس کچھ پرانے نیل پڑے ہوئے تھے جو اب مدہم ہو رہے تھے۔ "پری بی بی۔۔۔" اسے عقب سے درمینہ بی کی آواز آئی وہ پلٹی سامنے وہ جزدان حریر میں قرآن پاک تھامے کھڑی تھیں۔ پریشے نے قرآن پاک انکے ہاتھ سے تھاما اور چوم کر آنکھوں سے لگایا ۔ "شکریہ بی!" وہ مسکرائی اور انکے عقب میں دیکھا۔ پریشے کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں انکے عقب میں ایک نوجوان کھڑا تھا۔ "دد۔۔۔ در۔۔۔ مینہ ۔۔۔ بی ۔۔ یہ کون ہے؟" وہ اپنی یاداشت کو وہم سمجھتے ہوئے بولی تھی۔ "یہ میرا بھانجا ہے عمر ۔۔۔" وہ بول کر آگے بڑھ گئیں ۔ درمینہ بی کی بات پر وہ مزید شاکڈ ہوئی ۔ مگر اگلے ہی پل وہ شاک سے نکل آئی ۔ سفیر کی آواز لاونج میں گونجی تھی۔ "کون ہے یہ یہاں کیوں لائی ہیں؟" سفیر درمینہ بی سے پوچھ رہا تھا ۔ "صاحب سلامت چھٹی پر ہے اسکی جگہ آیا ہے ۔۔۔ میرا بھانجا ہے عمر ۔۔۔" اس نے اپنے مالی شوہر کا ذکر کیا۔ سفیر کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔ مگر وہ پریشے کی طرح چالاک نہیں تھا۔ "یہاں کیوں کھڑی ہو تم ۔۔۔۔۔؟؟؟ اندر دفعہ ہو..." سفیر نے پری کو ہاتھ سے پکڑ کر اندر کی جانب دھکیلا وہ کمرے میں چلی گئی ۔ "باہر جاؤ ۔۔۔۔ لان کی حد تک ہی نظر آنا مجھے ۔۔۔۔" وہ عمر سے کہتا ڈائننگ روم کی طرف چلا گیا۔ اندر کمرے میں پریشے بیڈ پر آ بیٹھی تھی قرآن پاک سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا ۔ وہ چھوٹے سائز کا ایک خوبصورت قرآن مجید تھا۔ جسے پریشے نے احتیاط سے رکھا تھا اور خود بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا گئی تھی۔ "آنکھوں کا دھوکا؟ نہیں ۔۔۔۔ مجھے عمر براک نوریز جیسا کیوں لگا؟ اور لگا بھی پہلی نظر میں دوسری بار تو نہیں لگا۔۔۔ اور براک کی آئیز ۔۔۔۔ اوفوہ ۔۔۔۔ عمر کی آنکھیں کالی ہیں ،قد اونچا ہے براک سے ۔۔۔ بال بھی لمبے ہیں۔۔۔ یہ کیوں مجھے وہم ہونے لگے ہیں۔۔۔" وہ اپنا سر جھٹک گئی۔ وہ کورین تھی ۔ کورینز ( کوریا کے رہنے والے ) چائینیز ( چائنہ کے رہنے والے)اور جیپنیز ( جاپان کے رہنے والے) کافی ہوشیار ہوتے ہیں۔ وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ وہ کورین ہے اور یہ انسانی فطرت میں ہے کہ انسان جہاں رہتا ہے اسی ماحول کے مطابق ڈھل جاتا اور وہ بھی پاکستانی ماحول میں ڈھلی ہوئی تھی ۔ اسے دیکھ کر کورینز کا گمان ہوتا تھا پر اسکا ایکسنٹ اینڈ ایٹیٹیوڈ شک میں مبتلا کرتا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھول کے سفیر اندر داخل ہوا تھا۔ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ "کیا لائی ہے درمینہ تمہارے لئے ؟" سفیر نے کھوجتی نگاہوں سے اسے دیکھا ۔ "قرآن پاک ۔" وہ دھیرے سے بولی۔ سفیر سر ہلا کر مسکرایا۔ "اب جادو ٹونے کرنے کا ارادہ ہے بیگم؟" "استغفرُللہ ۔۔۔۔ نعوذ باللہ یہ کلام پاک ہے ۔۔۔ آپ اس پر شک کر رہے ہیں ۔۔۔۔" "واٹ ایور ۔۔۔ اور وہ جو مالی آیا ہے اسے آدھے گھنٹے میں فارغ کرو یہاں سے ۔۔۔ یاٹ صاف کرواؤں اور لان صاف کروا دو پھر بھیج دینا اسے ۔۔۔۔۔ مجھے اب یہاں نظر نا آئے وہ!"یہ کہتا وہ ڈریسنگ روم کی جانب بڑھا۔ وہ آج جلدی جا رہا تھا۔ پتا نہیں کہاں؟ پریشے کے دل نے بے ساختہ خواہش کی پوچھنے کی وہ اٹھی اور ڈریسنگ مرر کے سامنے اسکے پیچھے جا کھڑی ہوئی ۔ "سفیر آپ کہاں جارہے ہیں ؟" اس نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔ وہ گہرا مسکرایا ۔ "کیا تم چلنا چاہو گی؟" "جا کہاں رہے ہیں؟" "میں نے کیا پوچھا ہے؟" "اگر آپ چاہیں تو۔۔۔" "نہیں میں نہیں چاہتا۔" "اوکے،نہیں جاتی ۔" "اسرار کرو کہ بتائیں سفیر کہاں جا رہے ہیں؟" "رہنے دیں۔۔۔ جہاں مرضی جائیں ۔۔۔ مجھے کون سا آپ بتا دیں گے۔" "پرامس ، آج بتاؤں گا۔" "بتائیے ۔۔۔۔" "اپنی بیوی اور بیٹے کے پاس۔۔۔" وہ پلٹ کر بولا تھا اور پریشے ٹھٹھکی تھی۔"بیٹا؟" "ہمممم۔۔۔۔۔ دس دن پہلے پیدا ہوا ہے میرا بیٹا!! پکچر دیکھنا پسند کرو گی؟" یہ کہہ کر سفیر نے جیب سے موبائل نکال کر اسکے سامنے کیا۔ زبیر صاحب اور نگہت بیگم موبائل اسکرین پر نظر آئے تھے۔ نگہت بیگم کے ہاتھوں میں ننھا سا بستر میں لپٹا بچہ تھا۔ سفیر نے تصویر آگے کی ۔ اگلی تصویر میں ہسپتال کے بیڈ پر لیٹی اریشہ باجوہ کے ہاتھ میں وہ بچہ تھا اور سفیر سیلفی لے رہا تھا۔ پریشے کا دل بند ہونے لگا تھا۔ وہ پیچھے ہوتے گئی بے ساختہ ، خود بخود، لاشعوری طور پر ۔ وہ دیوار سے جا لگی ۔ سفیر نے ایک ترحم آمیز نگاہ اس پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا۔ ساری امیدیں بے امید ہوئی تھیں۔ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوا دل ایک بار پھر ذرہ ذرہ ہوا تھا۔ عورت بہت کوشش کرتی ہے گھر بنانے اور گھر بچانے کی ۔ مگر مرد کبھی اس کوشش کو نہیں دیکھتا ۔ وہ صرف عورت کی بے بسی کا تماشا دیکھتا ہے۔ "عورت اور مرد کے رشتے کی مثال ایسے ہیں ، جیسے ایک چڑیا (عورت)محنت سے ایک گھر بناتی ہے ۔ اپنے بچوں کو پالتی ہے، گھونسلے کو تنکوں سے سجاتی ہے، اولاد کے سنگ چہچہاتی ہے اور برا ہوا کا جھونکا ( برا وقت) سب کچھ اڑا لے جاتا ہے۔ ✓✓✓ ہسپتال کی راہداری میں تین لوگ آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ دو وہ لوگ جو کل ہی کراچی سے استنبول آئے تھے اور سامنے کھڑا وہ شخص جسے ارحام کرابے کہتے ہیں۔ ائرہ اور اسکی امی دونوں ہی براک کے مشورے اور مدد سے یہاں پہنچی تھیں۔ انہوں نے کال کرنے والے کی امداد نہیں لیں تھیں۔ انہوں نے براک نوریز کی امداد لی تھیں ۔ مومنہ سے ملنے کے بعد عدل مومنہ کو گھر بھیج کر خود کسی کام کا کہہ کر نکلی تھی۔ اور کچھ ہی دیر بعد آدھی رات کو اس کا بے جان وجود ایک سڑک سے ملا تھا۔ اور جسے ملا تھا اسے اس وقت احساس ہوا تھا کہ وہ جان کتنی قیمتی ہے جسے وہ کسی گنتی میں نہیں لاتا۔ براک نے ائرہ اور خدیجہ بیگم کو منع کر رکھا تھا کہ وہ کسی کو نا بتائیں وہ کس کے ریفرینس سے ترکی آئی ہیں ۔ کہیں کسی گفتگو میں براک کا ذکر نا کریں اور ابھی تک کسی نے پوچھا بھی نہیں تھا۔ عدل کے بارے میں بھی براک نے فون کر کے بتایا تھا اور براک کو بلجیک کے ذریعے فوری خبر ملی تھی۔ براک خود ابھی تک ان دونوں سے نہیں ملا تھا۔ پتا نہیں ترکی میں تھا بھی کہ نہیں ۔ جس وقت ائرہ اور خدیجہ بیگم ہسپتال پہنچی ارحام کرابے راہداری میں موجود تھا۔ اس نے انہیں عدل کے پروفیسر کی حیثیت سے رسمی سا تعارف کروایا تھا انہوں نے بھی زیادہ سوال نہیں کیے ۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے آ کر ارحام کرابے کو مخاطب کیا تھا۔ "کرابے ! آپکی پیشنٹ آپ کو اندر بلا رہی ہیں ۔۔۔ ہوش میں آئے انہیں دس منٹ ہو چکے ہیں۔" ارحام نے سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا۔ ائرہ اور خدیجہ بیگم نے سکھ کا سانس لیا۔ وہ دونوں فی الحال براک کے فلیٹ میں مقیم تھیں۔ انکا زیادہ دن سٹے کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے رہائش کا بندوست نہیں کیا تھا ۔ ارحام کرابے نے کمرے میں داخل ہوتے ہی لاغر سی آنکھیں موندی عدل کو دیکھا تھا۔ جسکی رنگت پیلی پڑ گئی تھی۔ "کیسی ہو؟" بھاری آواز میں سوال کیا گیا۔ عدل نے آنکھیں کھولیں چند قدم کے فاصلے پر وہ کھڑا تھا۔ "سیرہ کرابے کو بلائیں." وہ اس پر نظریں ٹکائے بولی تھی۔ "وہ نہیں آ سکتی." ارحام نے کہا۔ "کیوں؟ میں بیٹی ہوں نا انکی ؟ بلائیے انہیں ۔۔۔۔ مجھے ملنا ہے ان سے." "عدل وہ بیمار ہے ۔ شی از کینسر پیشنٹ ۔۔۔" ارحام نے نچلا لب دانتوں کے نیچے دباتے ہوئے کہا۔ "اوہ۔۔۔۔۔ واؤ ۔۔۔۔ نیو ٹوسٹ۔۔۔۔ ارحام کرابے پتا ہے کیا؟ مجھے لگتا ہے یہ میری زندگی نہیں ہے یہ کوئی ناول ہے یہ کوئی کہانی ہے ۔۔۔۔ جس میں عدل صرف محبت کی تلاش میں ہے ۔ عدل کو بس کسی سے سچے جذبے اور اہمیت کی ضرورت ہے اور عدل کی اس کہانی کی رائٹر عدل خود ہے جو اپنی کہانی کا نام رکھتی ہے.... "میری محبت کی کہانی" جسے آپ ترک ۔۔۔ "بیر اشک ہیکے ایسی" کہتے ہیں۔۔۔۔ ہے ناں مزے کی بات؟؟؟ اور سب سے حیرت انگیز بات یہ وہ والی محبت کی کہانی نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔۔۔ یہ ساری محبتوں کی کہانی ہے جو انسان کی زندگی میں ممکن ہیں۔۔۔ ماں کی محبت، باپ کی محبت،بہن کی محبت، بھائی کی محبت، ساری محبتیں۔" وہ بولتی چلی گئی اور وہ غیر معمولی طور پر سنتا چلا گیا۔ "سر پر چوٹ آئی ہے شاید...." وہ آئبرو کو انگلی سے ٹریس کرتے ہوئے بولا۔ عدل نے اسے گھورا۔ "خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی میں نے ۔۔۔۔ گاڑی سے ٹکرائی ہوں۔۔۔۔ افسوس ہو رہا ہے ۔۔۔ کاش یہ نا کرتی ۔۔۔ کم از کم آپ کا احسان تو نا چڑھتا ۔۔۔۔ جب میں ہوش میں آئی اور میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ مجھے یہاں کون لایا ہے تب اس نے کہا۔"مسٹر ارحام کرابے" بائے گاڈ کرابے میرا دماغ گھوم گیا۔۔۔۔ شدت سے زندہ ہونے پر افسوس ہوا۔" وہ واقع ہی ہوش میں نہیں لگتی تھی۔ "خودکشی کیوں کرنے کی کوشش کی؟" ارحام سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ "میری مرضی ۔۔۔۔" "تم سے اسی حرکت کی امید تھی مجھے۔۔۔۔" "میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔" "کچھ نہیں ۔۔۔ تم نے بہت غلط کیا۔" "میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ یہی کرتا ارحام کرابے ۔۔۔۔" "نہیں۔۔۔ کوئی بھی نہیں کرتا۔۔۔ تم جتنا بے وقوف کوئی ہو ہی نہیں سکتا." "آپ کے نزدیک مجھے کیا کرنا چاہیے تھا ؟" "ان لوگوں کو تکلیف پہنچانی چاہیے جنھوں نے تمہیں پہنچائی ہے۔" "پھر تو آپ بھی کاروائی میں شامل ہوتے ہیں۔" "عدل صاحبہ دوست اور دشمن میں فرق کرنا سیکھیں !" "بولی لگانے والا ہی نہیں بلکہ خریدنے والا بھی قصور وار ہوتا ہے." "تمہیں خریدا نہیں ہے ، فروخت ہونے سے بچایا ہے! چاہتا تو اپنے پاس رکھ سکتا تھا اور اب بھی رکھ سکتا ہوں.... تم قانونی طور پر میرے حوالے ہو! پر میں صرف وہی کروں گا جو میرا دل دماغ کہے گا۔" "تو آپ کے دل و دماغ میں سب سے پہلے پرپوز کرنے کا آئیڈیا ہی کیوں آیا؟" "تمہارا پابند نہیں ہوں کہ ہر سوال کا جواب دوں... جب شاڈی کرنی ہوئی مجھ سے تو بتا دینا." "اور یہ وقت کبھی نہیں آئے گا مسٹر کرابے!!" "دیکھتے ہیں." ارحام یہ کہتا اٹھا اور پھر مڑا۔ "تمہاری دوست آئرہ آئی ہے۔" عدل نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ پھر مسکرا دی۔ "ٹوسٹ ایڈ کر رہے؟ مجھے کیوں اتنے شاک دے رہا ہے ترکی؟ خیر مجھے میران سے ملنا ہے... کیا مل سکتی ہوں." "آئرہ کو اندر بھیج رہا ہوں۔۔۔۔ میران کو شام کو لے آؤں گا۔" وہ یہ کہتا آگے بڑھ گیا۔ "مسٹر کرابے ۔۔۔۔۔" عدل نے اسے پکارا ۔ وہ مڑا ۔ "کچھ نہیں..." وہ نفی میں گردن ہلا گئی۔ ✓✓✓ وہ ابھی تک وہیں بیٹھی رو رہی تھی۔ آنسو ابھی بھی رخساروں سے بہہ رہے تھے۔ تبھی ایک جھٹکے سے کوئی ڈریسنگ روم میں داخل ہو کر دروازہ بند کر گیا تھا۔ وہ فوراً اٹھ کر کھڑی ہوئی وہ عمر تھا۔ پریشے کے آنسو تھمے۔ وہ اب سہمی تھی۔ "پریشے ڈرو مت ۔۔۔ میں براک ہوں!" وہ آہستگی سے بولا۔ "براک؟؟؟" اس نے جیسے بے یقینی سے دیکھا۔ لینس اور وگ نے اسے پورا ہی بدل ڈالا تھا ۔ "چے تالیہ سے بھیس بدلنا سیکھا ہے۔۔۔ شاک تو ہونا بنتا تھا تمہارا۔۔۔۔" اس نے منہ میں بڑبڑانے والے انداز میں کہا۔ "چے تالیہ ؟؟؟" ایک اور سوالیہ نظر پریشے کی اٹھی۔ "اوفوہ۔۔۔ ناول تمہارے ملک کی رائٹر لکھتی ہے اور پڑھے ہوئے سارے میں نے ہیں۔۔۔ میں حالم والی شہزادی تاشہ کی بات کر رہا۔۔۔ خیر وقت کم ہے ۔۔۔۔ میری بات دھیان سے سنو۔۔۔۔ مجھے یمان بے نے بھیجا ہے کہ۔۔۔۔۔" "جاری ہے" √√√
🆕 ❤️ 👍 💔 😥 29

Comments