Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
June 1, 2025 at 11:32 AM
"Bir ask Hekayesi" Hania Noor Asad "بیر اشک ہیکے ایسی" میری محبت کی کہانی ۔ قسط نمبر 25 چوتھا باب "لا علمی کے بعد بے یقینی" ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ براک نے گہری سانس لے کر بات اُدھوری چھوڑ دی۔ سامنے کھڑی لڑکی دھڑام سے اس کے پیروں میں آ گری تھی۔ "مجھے بچا لوں براک پلیز مجھے یہاں سے لے جاؤ ۔۔۔ مجھ پر رحم کھاؤ ۔۔۔۔ وہ مجھے مارتا ہے مجھ پر تشدد کرتا ہے۔۔۔وہ کہتا ہے کہ مجھے جان سے مار ڈالے گا۔۔۔اس نے مجھے ذہنی طور پر مفلوج کر دیا ہے ۔۔۔ اسکی دی گئی اذیتوں نے مجھے مار ڈالا ہے۔۔۔براک پلیز یمان کو کہو نا مجھے یہاں سے لے جائے ۔۔ یہ درندہ مجھے مار ڈالے گا ۔۔۔۔ میرا یمان کے سوا کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔" وہ براک کے قدموں میں پڑی سسک رہی تھی اور براک کو اسکی سسکیاں کہیں نا کہیں سکون دے رہی تھیں ۔ بولا تو نہیں تھا پر اسکا بھائی بھی تو اسی طرح تڑپا تھا ناں اسکے لیے؟ اس لڑکی نے خود اپنے لیے جہنم کا چناؤ کیا تھا اب بھگت چکی تھی۔ "اٹھو پریشے ۔۔۔۔ وقت نہیں ہے رونے دھونے کا۔" وہ اسے کاندھوں سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولا۔ وہ سسکتے ہوئے اٹھی ۔ "میری بات غور سے سنو ۔۔۔۔ سفیر آج رات غائب ہو جائے گا۔۔ اور تفتیش کے دوران کوئی بھی تم سے کچھ بھی پوچھے تم نے لاعلمی کا اظہار کرنا ہے تمہیں کچھ نہیں پتا!" براک اسے سمجھا رہا تھا ۔ "کہاں ۔۔۔ کک۔۔۔ کہاں ؟؟ کہاں جائے گا وہ؟" پریشے کی آنکھوں میں خوف سا لہرایا۔ "جہاں یمان بے ( بے یعنی صاحب، ترکش زبان کا لفظ) بھیج دیں اسے." براک نے کندھے اچکائے۔ "یمان اسے کیوں بلا رہا ہے؟" "پریشے تمہیں اس شخص سے چھٹکارا چاہیے کے نہیں ؟" براک نے پوچھا۔ پریشے خاموش ہو گئی۔ "تم جاؤ یہاں سے۔۔۔ تمہارا یوں بند کمرے میں مجھ سے ملنا ٹھیک نہیں ہے." پریشے کھسک کر دیوار سے جا لگی ۔ براک کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر کمرے سے نکل گیا۔ "میں یہیں ہوں، ڈرنا مت..." براک نے مڑ کر کہا۔ "سفیر کے جانے کے بعد میں کیا کروں گی؟" اس نے سوال کیا۔ "مجھ سے شادی کر لینا۔۔۔ " طنزیہ لہجے میں براک نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ "بد تمیزی نہیں کرو ٹھیک ٹھیک جواب دو." وہ آنکھیں دکھا کر بولی ۔ "میں سیریس ہی ہوں ۔۔ اگر تم ہو تو بتاؤ ۔۔۔" اس سے پہلے وہ آگے بولتا پری نے آگے بڑھ کر اسکے منہ پر تھپڑ جڑ دیا ۔ " سب بتاؤں گی میں یمان کو." وہ غصے سے بولی ۔ "سوری یار ۔۔۔۔ اتنے زور کا مار دیا۔۔۔" وہ منہ بناتا کمرے سے نکل گیا۔ پریشے واپس وہیں بیٹھ گئی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ √√√ گھر میں مکمل طور پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ وہ ہیل کی ٹک ٹک کرتی گلاس ڈور دھکیل کر لاونج میں داخل ہوئی تھی ۔ اندر بھی مکمل خاموشی تھی ۔ صوفے پر اس نے ہینڈ بیگ اچھالا اور آ بیٹھی ۔ ہیلز میں مقید پیروں کو سامنے ٹیبل پر رکھا تھا۔ "جیا ۔۔۔۔۔ جیااااااا۔۔۔۔۔۔۔ زندہ ہو؟" وہ بلند آواز میں چلاتے ہوئے ملازمہ کو پکار رہی تھی۔ "ججی۔۔۔ ج۔۔۔ جی ۔۔۔ میم۔" وہ تھوک نگلتے ہوئے بمشکل ڈرتے ڈرتے بولی تھی۔ رحام کا چہرہ غصے سے سرخ سا پڑ رہا تھا۔ اس نے تیز نظروں سے ملازمہ کو دیکھا۔ "میرے آنے پر باہر آنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی؟" وہ بالوں کو جوڑے میں باندھنے والے انداز میں گھما کر بولی۔ وہ اس وقت گرے پینٹ کوٹ میں ملبوس تھی۔ "سس ۔۔۔ سوری میم ۔۔۔ پتا نہیں لگا۔۔۔" ملازمہ نے معزرت کی۔ "روشان کہاں ہے؟" اس نے اگلا سوال کیا۔ "میم وہ ۔۔۔ روم میں۔۔۔ سو رہے ۔۔ ہیں۔۔۔ ابھی آئے ہیں ۔۔۔ رات کو نہیں تھے گھر پر ۔" ملازمہ کو موقع ملا تھا چرب زبانی کرنے کا، کیسے ہاتھ سے جانے دیتی؟. "رات کو کہاں تھا؟" رحام نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔ ملازمہ نے نفی میں گردن ہلائی۔ "آئی ڈونٹ نو." "گیٹ لاسٹ ۔۔۔۔" دوسری ملازمہ اسے جوس پیش کرنے لگی ۔ پہلی کو اس نے جانے کو کہا وہ چلی گئی۔ "شوگر فری جوس پیتی ہوں میں۔۔۔۔" رحام نے کانچ کا بھرا گلاس بغیر گھونٹ بھرے فلور پر دے مارا ۔ "میم۔۔۔۔ شوگر فری تھا ." ملازمہ منمنائی تھی۔ رحام اٹھی اور اسے گھورا ۔ "منہ بند ۔۔۔" غصے سے اسکا جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا ۔ اب اسکے قدم کمرے کی جانب تھے۔ جہاں روشان اپنی شامت سے بے خبر خواب و خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا ۔۔ "دھڑااااام ۔۔۔۔" ایک زور دار آواز کے ساتھ اس نے دروازہ کھولا تھا پر بیڈ لیٹا لمبا چوڑا شخص اسی طرح آڑھا ترچھا پڑا رہا۔ "روشان ۔۔۔۔۔" بلند آواز میں اس نے آواز دی۔ مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ بلیک شارٹ میں ملبوس وہ شرٹ لیس اوندھے منہ پڑا ساری دنیا سے بے خبر سو رہا تھا ۔ "روشان۔۔۔۔۔۔۔" اب کی بار وہ پوری قوت سے چلائی تھی۔ روشان جو اسکی گاڑی کی آواز پر ہی اٹھ گیا تھا اسی طرح بے سدھ پڑا رہا۔ اسے ایکٹنگ کرنا آتی تھی جو وہ بخوبی کر رہا تھا ۔ "روشان ۔۔۔۔ مر گئے ہو کیا؟" رحام نے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر اپنے ناخن چبھو کر غصے سے سے کہا تھا۔ اب کی بار وہ زرا سا کسمسایا۔ "روشان ۔۔۔۔۔" اس نے کہا اور اب اسکی برداشت سے باہر ہو گیا تھا۔ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس نے روشان کا بازو ناخنوں میں دبوچا اور پوری قوت سے دانت گاڑھ دیئے ۔ "جنگلی عورت۔۔۔۔۔" ایک جھٹکے سے اٹھتے ہوئے روشان نے اپنا بازو چھڑایا تھا۔ "میں تمہارا قتل کر دوں گی اے سی پی روشان اکبر ۔۔۔۔۔" رحام نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ "شکل دیکھی ہے اپنی؟" روشان نے اپنے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جہاں سے ننھی ننھی خون کی بوندیں نمایاں ہو رہی تھیں۔ "تمہاری شکل سے بہت خوبصورت ہے میری شکل ۔۔۔۔ تمہارا میں وہ حال کروں گی جو ساری عمر یاد رکھو گے۔۔۔ گھٹیا انسان ۔۔۔ تم کیا سمجھتے ہوئے مجھے دھوکا دو گے اور میں بے خبر رہوں گی؟ تمہارے نزدیک میری کوئی امپورٹنس ہیں بھی کہ نہیں ؟؟؟" وہ اب بولنا شروع ہو چکی تھی اور روشان کے کانوں سے دھوئیں نکلنے لگے تھے۔ اور اس نے اپنے پیر پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف اسکی امپورٹنس والی بات پر "نہیں" بول دیا تھا۔ "امید بھی یہی ہے تم سے گھٹیا انسان ۔۔۔۔" وہ مزید غصہ ہوتے اپنے بالوں کو زور سے مٹھیوں میں جکڑ گئی تھی۔ روشان نے اسکی جانب دیکھا اور اگلے ہی لمحے اسکی جان پر بن آئی ۔ وہ جو تھی جیسی تھی جو بھی کرتی تھی ۔ وہ محبت تھی روشان اکبر کی، روشان اکبر کے لیے رحام اکبر سے بڑھ کر نا کوئی تھا نا کوئی ہو سکتا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور اسے بانہوں میں بھر کر سینے میں بھینچ لیا۔ "ویلکم بیک میری جان! میں نے بہت مس کیا تمہیں۔۔۔ اور یہ بات ہماری تمام تر لڑائیوں اور اختلافات سے ہٹ کر ہے." وہ لب اسکے ماتھے پر پیوست کر گیا۔ رحام کو لگا اسکے دہکتے جسم پر کسی نے پانی کا پہلا قطرہ ڈال دیا ہے۔ وہ خاموشی سے اس سے لگی رہی۔ "تمہارا غصہ جائز ہے رحام۔۔۔ میں جانتا ہوں تم غصہ ہو اور وجہ بھی جانتا ہوں ۔۔۔ میری غلطی ہے میں تمہیں ائیر پورٹ سے پک کرنے نہیں آیا ۔۔۔ پر میرے پاس وجہ تھی۔۔۔ میں ابھی آدھے گھنٹے پہلے ڈیوٹی سے واپس آیا ہوں۔۔۔ میرے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ میں لنچ کرتا اور آتے ساتھ چینج کر کے میں بیڈ پر گرا ہوں۔۔۔ پچھلے تین دن سے نہیں سویا ۔۔۔۔ اور اس سے پہلے بھی نیند نہیں آتی تھی۔۔۔ تم جو پاس نہیں ہوتی نا تو کچھ بھی اپنی جگہ پر نہیں رہتا ۔۔۔ تمہارا یہ اے سی پی ہزبینڈ ایک نکما اور کاہل انسان بن جاتا ہے۔۔۔ اس لیے پلیز مجھ سے دور نا جایا کرو." وہ آہستہ آہستہ اسکے کان میں سرگوشیاں کر رہا تھا اور رحام کا غصہ جھاگ بن رہا تھا۔ "تم نے بریک فاسٹ کیا؟" رحام نے اس کا ہاتھ تھاما جو وہ رحام کے بالوں میں سہلا رہا تھا وہ اسکا دوسرا ہاتھ بھی اپنے دوسرے ہاتھ میں تھام گئی۔ "اونہہ۔۔۔ میرے پاس وقت کی کمی تھی رحام۔" روشان نے اپنی خوبصورت بیوی کے سارے نقوش آنکھوں کے ذریعے دل میں اتارے تھے۔ وہ اسے جب دیکھنے لگے تو دیوانہ وار دیکھتا رہتا تھا۔ "روشان میں نے بھی بریک فاسٹ نہیں کیا۔۔۔ ہم باہر چلیں کیا؟" رحام نے پوچھا ۔ "رحام ۔۔۔۔ میں بہت تھک گیا ہوں ۔۔۔ پلیز ہم گھر پر کر لیتے ہیں۔۔ میں خود بناؤں گا تمہارے لیے ۔۔۔ جو تم کہو گی!" روشان نے پیار سے کہا۔ رحام مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا گئی۔ √√√
❤️ 🆕 👍 🥱 33

Comments