The Revolution
The Revolution
May 15, 2025 at 03:19 PM
*امن کی پیشکش یا جنگ کی تیاری؟ شہباز شریف کے بیانات کا سفارتی و تزویراتی تجزیہ* وزیرِاعظم شہباز شریف نے حالیہ دورۂ سیالکوٹ میں نہایت سخت اور واضح پیغام میں بھارت کو خبردار کیا کہ اگر آئندہ کسی بھی قسم کی جارحیت کی کوشش کی گئی تو پاکستان کا جواب "ناقابلِ تصور" ہوگا۔ انہوں نے آپریشن "بنیانُ المرسوس" کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اسے 1971ء کی جنگ کا جواب بھی کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، مگر امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "آئندہ جارحیت کی گئی تو اس کے نتائج سوچ سے باہر ہوں گے۔" یہ بیانات سفارتی اور عسکری دونوں سطحوں پر بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ آئیے ان بیانات کا تجزیہ کرتے ہیں: پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت ایک صفحے پر نظر آ رہی ہے اور دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ کسی بھی بھارتی حملے کی صورت میں نہ صرف فوری بلکہ موثر اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ آپریشن "بنیانُ المرسوس" کو 1971 کی شکست کا بدلہ قرار دینا ایک علامتی اور بیانیاتی پہلو رکھتا ہے، جس کے ذریعے ملکی عوام کا مورال بلند کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور ساتھ ہی بھارت کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ ماضی کی کمزوری اب نہیں رہی۔ سفارتی زبان میں شہباز شریف کا یہ اندازِ بیان غیر معمولی ہے۔ عام طور پر وزیراعظم اس قسم کے سخت الفاظ سے اجتناب کرتے ہیں، خاص طور پر جب مخاطب ایک ہمسایہ ایٹمی طاقت ہو۔ لیکن یہاں جس انداز میں مودی کو براہ راست للکارا گیا، وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان اب دفاعی پالیسی سے نکل کر جارحانہ سفارتی بیانیہ اختیار کر رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کی دھمکی پر "پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے" جیسا جملہ محض ایک خبردار کرنے والا بیان نہیں بلکہ ایک ریڈ لائن کا اعلان ہے۔ اس بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اب کشمیر، آبی تنازعات، اور دہشتگردی کے الزامات جیسے مسائل پر محض مذمتی بیانات تک محدود نہیں رہے گا بلکہ عملی دفاعی اقدامات اور شدید ردعمل کی حکمتِ عملی اپنا رہا ہے۔ مزید یہ کہ مودی حکومت پر بلوچستان اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی حمایت کا الزام لگا کر پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر بھارت کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ سفارتی چال ہے جو پاکستان اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر بھی استعمال کر سکتا ہے، خاص طور پر اگر بھارت کی طرف سے کوئی نئی کارروائی کی جاتی ہے۔ مختصراً، شہباز شریف کے بیانات صرف وقتی ردعمل نہیں، بلکہ ایک نئے اسٹریٹجک اور سفارتی بیانیے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اب دفاعی سطح پر بھی خوداعتمادی کی حالت میں ہے، اور سیاسی سطح پر بھی بھارت کی جارحیت کا پوری شدت سے جواب دینے کو تیار ہے — چاہے وہ بیانیاتی ہو یا عسکری۔ یہ رویہ اگر جاری رہا، تو جنوبی ایشیا کے پہلے سے کشیدہ حالات مزید سخت ہو سکتے ہیں۔ تاہم پاکستان نے ساتھ میں امن کی بات بھی کی ہے، جس سے ایک کھڑکی کھلی رکھی گئی ہے — تاکہ عالمی قوتیں دونوں ممالک کو مذاکرات کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ افتخار خٹک، پی ایچ ڈی https://www.facebook.com/share/p/1AN2xrpD9J/

Comments