
عصفورات بنات حبیبہؓ
June 9, 2025 at 06:41 AM
*حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام مثالی فیملی بنانے کا طریقہ بتاتے ہیں!!!*
کانپتے دل، لرزتے ہاتھ اور بند آنکھیں سے۔۔۔۔
ابراہیم علیہ السلام چھری آہستہ آہستہ نیچے لے جارہے ہیں، اسماعیل علیہ السلام ساکت لیٹے تیز دھار چھری کے خونی لمس کے منتظرہیں۔۔۔
گمان ہے کہ باپ کو اپنی ہی دھڑکن کی آواز کانوں تک آرہی ہو گی تو بیٹے کی آنکھوں میں اماں حاجرہ کی تڑپ اور باپ کی محبت ایک ریل کی صورت چل رہی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ہم اس منظر سے 'کٹ' کرتے ہیں۔۔۔۔ اور تھوڑے نئے زاویے سے پورے سین کو دیکھتے اور سوچتے ہیں۔
جب ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں قربانی دیکھ کر اسماعیل علیہ السلام سے یہ کہتے ہیں:
' بیٹے میں خواب میں دیکھتاہوں کہ تمہیں ذبح کر رہاہوں‘‘ تم سوچ کر بتاوؑ، تمہاری کیا رائے ہے؟'
تو اسماعیل علیہ السلام کے ذہن، ان کے قلب مبارک کو کس بات نے فورا جواب دینے کے لیے تیار کیا:
'اباجان، آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔'
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب منظر تبدیل کرتے ہوئے اس پورے ماجرے کو دیکھیں:
'اباجان مجھے اچھی طرح باندھ دیجئے تاکہ میں زیادہ تڑپ نہ سکوں، اور اپنے کپڑوں کو مجھ سے بچائیے، ایسا نہ ہو کہ ان پر میرے خون کے چھینٹیں پڑیں، تو میرا ثواب گھٹ جائے، اس کے علاوہ میری والدہ خون دیکھیں گی تو انہیں زیادہ غم ہوگا، اور اپنی چھری بھی تیز کر لیجئے اور اسے میری حلق پر ذرا جلدی جلدی پھیرئے گا، تاکہ آسانی سے میرا دم نکل سکے، کیوں کہ موت بڑی سخت چیز ہے اور جب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو انہیں میرا سلام کہیے گا، اور آپ میری قمیص والدہ کے پاس لے جانا چاہیں تو لے جائیں، شاید اس سے انہیں کچھ تسلی ہو' دل کو چیرنے والے یہ الفاظ اسماعیل علیہ السلام چھری پھرنے سے کچھ دیر پہلے کہتے ہیں۔۔۔۔
پھر جب چھری پھرنے والی ہوتی ہے تو اللہ کی رحمت کار فرما ہوتی ہے۔۔۔ایک مینڈھا حضرت اسماعیل کی جگہ لے لیتا ہے اور ابراہیم و حاجرہ علیہما السلام کے جگر کا ٹکڑا پھر سے ان کے خاندان کی رونق بڑھانے آن پہنچتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*قرآنی کوچنگ*
کہنے کو یہ صرف ایک قصہ ہے۔۔۔جس کے تین کردار ہیں، ان کا رویہ ہے، جس کو ہم ہر سال پڑھتے، پڑھاتے، درس دیتے، اور دلواتے ہیں۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ :
یہ تڑپ۔۔۔۔ یہ تسلیم و رضا۔۔۔۔۔یہ صبر جمیل کا بلند ترین مقام کیا ایک لمحے میں ان کے اندر ڈیولپ ہو گیا؟؟؟؟
باپ کی بات ماننے کا حیرت انگیز جذبہ کیا اسی وقت ان کے اندر سے ابھرا؟؟؟؟
اللہ کے ایک حکم پر اپنی جان وارنے کا ناقابل یقین رویہ، کیا ایک گھڑی کی پیداوار تھا؟؟؟
یا اس کے پیچھے ایک لمبا پراسس، کوئی میتھڈالوجی تھی، جو ایسی اولاد کی تیاری میں کار فرما تھی؟؟؟؟
بہ قول ایک صاحب عقل و قلب شاعر کے؎
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
دل کا ایسا لطیف کنیکشن رب سے کیسے بن جاتا ہے؟؟؟
دل والدین کی ایسی محبت و الفت میں کیسے گرفتار ہو جاتا ہے؟؟؟
دل کے احوال کیسے انسان کو اتنی بڑی عملی قربانی کے لیے تیار کردیتے ہیں؟؟؟
کیا اس لیے کہ اسماعیل علیہ السلام ایک نبی تھے؟؟؟ یا ایسا پراسس پیچھے کارفرما تھا جو ہم جیسے انسان بھی اپنے اور اپنے بچوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پراسس کے آغاز خود ابراہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے۔۔۔۔
پہلی سیڑھی: فکری جستجو - یہ خود ان کی فکری جستو سے شروع ہوتا۔۔۔۔سورج، چاند، ستاروں کے مشاہدے۔۔۔اپنے ماحول پر سوالات سوچنےاور ایک نتیجے کے ذریعے اللہ سے انٹلکچویل کنیکشن بنانے پر عروج پاتا ہے۔۔ اللہ ہی سوچ و فکر کا محور و مرکز اور وہی ہر راہ، راستے اور کام کا کمپاس
دوسری سیڑھی: قلبی تعلق - پھر ان کے رب سے قلبی تعلق یا ایماشنل کنیکشن کے کیا کہنے!!! ان کا تعلق اتنا گہرا، شفاف، والہانہ تھا کہ ان کا دل 'قلب سلیم' کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس سے اللہ کی محبت کا جوشیلا چشمہ بہہ نکلتا ہے۔
تیسری سیڑھی: عملی – اور رب سے عملی تعلق یعنی پریکٹکل کنیکشن تو چوٹی کا تھا۔۔۔۔محبوب باپ چھوڑا۔۔۔۔وطن چھوڑا۔۔۔۔۔آگ میں کودے۔۔۔۔گھر والوں کو چھوڑا۔۔۔ ہر وہ قربانی جو انسان ایک تعلق کے لیے سوچ سکتا ہے –توحید و دین کے لیے- وہ، وہ کر گزرے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*فیملی سے تعلق و تربیت*
پھر حضرت اسماعیل جیسے جذبے کی پرورش برسوں کی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔بچوں کو ، ان کی شخصیت کی تفہیم، ان سے قلبی تعلق، ان کو مناسب وقت و ماحول دینا، فکری فریم ورک بنانا اور اس جیسے مسلسل گھلا دینے والے کام کی وجہ سے ایسے بچے اور ایسی فیملی تعمیر ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ماں کا باقوت کردار اور مسلسل عمل*
'اے ابراہیم آپ کہاں جارہے ہیں اور ہمیں ایسی وادی میں کیوں چھوڑ رہے ہیں جہاں کوئی انسان اور شے نہیں؟' حضرت ابراہیم علیہ السلام برابر چلے جا رہے ہیں، کوئی التفات ہی نہیں فرماتے بالآخر ہاجرہ نے پوچھا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ آپ نے کہا: 'ہاں!' اب حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے نہایت ایمان افروز جملہ کہا کہ: 'ٹھیک، تب تو اللہ ہمیں ضائع ہونے نہیں دے گا۔'
تپتے ہوئے صحرا میں ایک دودھ پیتے بچے کو اپنی ماں کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا جائے۔۔۔۔تو کیا کیفیت ہوتی ہو، کبھی سوچا؟؟؟؟
یہیں سے حضرت اسماعیل کے اللہ اور اپنے والدین سے نا قابل یقین اور محبت سے لبریز تعلق کی بنیاد بنی۔۔۔۔
کوئی پوچھے کہ ؎
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
تو کہہ دینا ان کی محبت، اخلاص اور عاجزی کی کیفیات اس میتھڈالوجی کا نتیجہ ہے جس کا آغاز ابراہیم علیہ السلام نے اور تکمیل حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*مثالی ہوم میکر*
ہاجرہ علیہا السلام کا پراسس دراصل ایک عظیم ماں اور یکتا ہوم بلڈر بننے سے شروع ہوتاہے:
*1۔ پہلی سیڑھی* - اپنے محبوب رب سے اور اپنے محبوب شوہر سے بے لوث، خالص اور محبت واطاعت گزاری والا فکری کنیکشن، قلبی کنیکشن اور عملی (یعنی فکر و جذبات کو رویے میں تبدیل کرنے والا) کنیکشن
*2۔ دوسری سیڑھی* - دل کے نازک گوشوں سے اللہ سے مانگنے کے ساتھ بغیر مایوس ہوئے، روئے پیٹے،شکوہ کیے۔۔۔۔ صبر جمیل وعزم صمیم کے ساتھ مشکل وقت و حالات میں صفاء و مروی کے درمیان کوشش کرتے رہنا اور بس کرتے رہنا
*3۔ تیسری سیڑھی* - ایک وژنری چیف آپریٹنگ آفیسر – جو کسی بھی ادارے کا عملا ہیڈ اور سی ای او یعنی حقیقی سربراہ کا دست راست ہوتا ہے –کا مائنڈ سیٹ بنانا جیسے وہ زم زم نکل آنے پر اپنے گھر کے ادارے، بچے اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے پانی کی وجہ سے مسلسل آتے قافلوں سے گفتگو کر کے پانی کے حقوق اپنے پاس رکھتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*قربانی کا حوصلہ و عزم*
بڑے رتبے، بڑی جدو جہد مانگتے ہیں۔اللہ سے تعلق ہو یا اپنے اردگرد کسی فرد سے، بڑے کاموں کے لیے اقدرت آپ سے چھوٹِی چھوٹی قربانیاں مانگتی ہے۔۔۔۔اور پھر اس کے نتائج بے مثال ہوتے ہیں۔
بے مثال خاندان بنانے کے لیے میاں و بیوی قربانی کا کتنا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں، یہ بہت اہم نکتہ ہے۔۔۔۔خصوصا جب کسی ایک فریق کو ضرورت ہے دوسرے کی قربانی کی، لیکن وہ اپنے نفس کا بندہ بن کر کسی بھی قسم کی قربانی سے صاف انکار کر دے۔۔۔۔کسی بھی پرانی بات، جذباتی دھچکے، رنجش کی وجہ سے۔
قربانی، وہ بھی شعوری اور مطلوب وقت پر، بے مثال تعلقات و خاندان کو بنانے کا سبب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اسماعیل جیسی اولاد کے لیے ہم خود ان سیڑھیوں پر چڑھنے کی کتنی کوشش کرتے ہیں؟
اسماعیل علیہ السلام جیسے افراد کی تیاری کا سفر ۔۔۔۔۔حضرت ابراہیم اور حضرت ہاجرہ علیہما السلام کے پراسس کے بناء ممکن نہیں۔۔۔۔
تو کون ہے اس پراسس اور میتھڈ کو اپنانے والا یا اپنانے والی؟؟؟؟
➖♻️➖
🔲 *بچوں کی تربیت کے حوالے سے والدین اور اساتذہ کیلئے منفرد سلسلہ*
🔲 * گروپ کے پیغام کو اپنے احباب اورمقامی گروپس شئیر ضرور کریں ممکن ہے آپکی تھوڑی سی کوشش کسی کی زندگی کو بدلنے کا ذریعہ* *بن جائے*
*🔲 واٹس ایپ چینل کھولنے کے بعد فالو Follow کو ضرور کلک کریں*
➖♻️➖
❤️
👍
8