
Bakht Zada Buneray
May 30, 2025 at 09:10 PM
لاہوری جماعت کی حقیقت
مولانا مفتی محمود
مرزائی صاحبان کی لاہوری جماعت، جس کے بانی محمد علی لاہوری قادیانی تھے، بکثرت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتی، بلکہ مسیح موعود، مہدی اور مجدد مانتی ہے۔ اس لئے اس پر ختم نبوت کی خلاف ورزی کے الزام میں کفر عائد نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا مختصر سا جواب تو یہ ہے کہ جس شخص کا جھوٹا دعویٰ نبوت ثابت ہوچکا ہو، اسے صرف نبی ماننا ہی نہیں سچا ماننا اور واجب الاطاعت سمجھنا بھی کھلا کفر ہے۔ چہ جائیکہ اسے مسیح موعود، مہدی اور مجدد اور محدث (صاحب الہام) قرار دیا جائے۔ کسی شخص کا دعویٰ نبوت جو دو حریف مذہب پیدا کرتا ہے، وہ اسے سچا ماننے والوں اور جھوٹا ماننے والوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جو جماعت اسے سچا قرار دیتی ہے وہ ایک مذہب کی پیرو قرار پاتی ہے اور جو جماعت اس کی تکذیب کرتی ہے وہ دوسرے مذہب میں شامل ہوتی ہے۔ لہٰذا جب مرزا غلام احمد قادیانی کا مدعی نبوت ہونا روز روشن کی طرح ثابت ہوچکا ہے تو اب اس کو پیشوا ماننے والی تمام جماعتیں ایک ہی مذہب میں داخل ہوں گی، خواہ وہ اسے نبی کا نام دیں یا مسیح موعود، مہدی معہود اور مجدد کا، لیکن اس مختصر جواب کے ساتھ لاہوری جماعت کی پوری حقیقت واضح کر دینا بھی مناسب ہوگا۔
واقعہ یہ ہے کہ عقیدہ و مذہب کے اعتبار سے ان دونوں جماعتوں میں عملاً کوئی فرق نہیں، بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں اور ان کے بعد ان کے خلیفہ اول حکیم نورالدین کے انتقال ہونے تک جماعت قادیان اور جماعت لاہور کوئی الگ جماعتیں نہ تھیں، اس پورے عرصہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کے تمام متبعین خواہ مرزا بشیر الدین ہوں یا محمد علی لاہوری پوری آزادی کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کو ''نبی'' اور ''رسول'' کہتے اور مانتے رہے۔ محمد علی لاہوری عرصہ دراز تک مشہور قادیانی رسالے ''ریویو آف ریلیجنز'' کے ایڈیٹر رہے اور اس عرصہ میں انہوں نے بے شمار مضامین میں نہ صرف مرزا قادیانی کے لئے ''نبی'' اور ''رسول'' کا لفظ استعمال کیا بلکہ ان کے لئے نبوت و رسالت کے تمام لوازم کے قائل رہے، ان کے ایسے مضامین کو جمع کیا جائے تو ایک پوری کتاب بن سکتی ہے۔ تاہم یہاں محض نمونے کے طور پر ان کی چند تحریریں پیش کی جاتی ہیں۔
١٣مئی١٩٠٤ء کو گورداسپور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک بیان دیا، جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ جو شخص مرزا قادیانی کی تکذیب کرے، وہ ''کذاب'' ہوتا ہے، چنانچہ ایسے شخص کو اگر مرزا قادیانی نے کذاب لکھا تو ٹھیک کہا۔ اس بیان میں وہ لکھتے ہیں:
''مکذب مدعی نبوت کذاب ہوتا ہے۔ مرزا قادیانی ملزم مدعی نبوت ہے، اس کے مرید اس کو دعویٰ میں سچا اور دشمن جھوٹا سمجھتے ہیں۔'' (حلفیہ شہادت بعدالت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور، مورخہ ١٣مئی ١٩٠٤ء منقول از ماہنامہ فرقان قادیان، ج:١، نمبر:١ ص:١٥، جنوری ١٩٤٢ئ)
''آنحضرت کے بعد خداوند تعالیٰ نے تمام نبوتوں اور رسالتوں کے دروازے بند کردیئے، مگر آپ کے متبعین کامل کے لئے جو آپ کے رنگ میں رنگیں ہوکر آپ کے اخلاق کاملہ سے نور حاصل کرتے ہیں۔ ان کے لئے یہ دروازہ بند نہیں ہوا۔'' (ریویو آف ریلیجنز، ج:٥، نمبر:٥، ص:٨٦، مئی ١٩٠٦ء بحوالہ تبدیلی عقائد از محمد اسماعیل قادیانی، ص:٢٢، مطبوعہ احمدیہ کتاب گھر قادیان)
''جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں دنیا کی اصلاح کے لئے مامور اور نبی کرکے بھیجا ہے وہ بھی شہرت پسند نہیں، بلکہ ایک عرصہ دراز تک جب تک اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا کہ وہ لوگوں سے بیعت توبہ لیں۔ آپ کو کسی سے کچھ سروکار نہ تھااور سالہا سال تک گوشہ خلوت سے باہر نہیں نکلے، یہی سنت قدیم سے انبیاء کی چلی آئی ہے۔'' (ریویو، ج:٥،نمبر:٤، ص:١٣٢)
''مخالف خواہ کوئی ہی معنی کرے، مگر ہم تو اسی پر قائم ہیں کہ خدا نبی پیدا کرسکتا ہے صدیق بناسکتا ہے اور شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کرسکتا ہے مگر چاہئے مانگنے والا....ہم نے جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) وہ صادق تھا، خدا کا برگزیدہ اور مقدس رسول تھا۔'' (تقریر محمد علی دراحمدیہ بلڈنگس مندرجہ الحکم ١٨ جولائی ١٩٠٨ء بحوالہ ماہنامہ فرقان قادیان، جنوری ١٩٤٢ء ج:١، نمبر:١، ص:١١)
یہ اقتباسات تو محض بطورِ نمونہ محمد علی لاہوری قادیانی بانی جماعت لاہور کی تحریروں سے پیش کئے گئے ہیں، لیکن یہ صرف انہی کا عقیدہ نہ تھا بلکہ پوری جماعت لاہور نے اپنے ایک حلفیہ بیان میں انہی عقائد کا اقرار کیا ہے۔
لاہوری جماعت کا حلفیہ بیان:
''پیغامِ صلح''جماعت لاہور کا مشہور اخبار ہے، اس کی ١٦اکتوبر ١٩١٣ء کی اشاعت میں پوری جماعت کی طرف سے یہ حلفیہ بیان شائع ہوا:
''معلوم ہوا ہے کہ بعض احباب کو کسی نے غلط فہمی میں ڈال دیا ہے کہ اخبار ہذا کے ساتھ تعلق رکھنے والے احباب یا ان میں سے کوئی ایک سیّدنا و ہادینا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود مہدی معہود کے مدارج عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت سے اخبار پیغامِ صلح کے ساتھ تعلق ہے، خدا تعالیٰ کو جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے، حاضر و ناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ: ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی پھیلانا محض بہتان ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود مہدی معہود کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں۔'' (پیغامِ صلح ١٦اکتوبر ١٩١٣ء ص:٢، بحوالہ ماہنامہ فرقان قادیان، جنوری ١٩٤٢ئ، ج:١، نمبر١، ص:١٤١٣)
اس حلفیہ بیان کے بعد لاہوری جماعت کے اصل عقائد سے ہر پردہ اٹھ جاتا ہے، لیکن جب مرزائیوںکے خلیفہ اول حکیم نورالدین کا انتقال ہوتا ہے اور خلافت کا مسئلہ اٹھتا ہے تو محمد علی لاہوری قادیانی مرزا بشیر الدین محمود قادیانی کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور انہیں خلیفہ تسلیم کرنے سے انکار کرکے قادیان سے لاہور چلے آتے ہیں اور یہاں اپنی الگ جماعت کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔ ١٤مارچ ١٩١٤ء کو مرزا بشیر الدین محمود خلیفہ دوم مقرر کئے گئے اور ٢٢مارچ ١٩١٤ء کو اس فیصلے سے اختلاف کرنے والی جماعت لاہور کا پہلا جلسہ ہوا۔ اس جلسے میں جو قرارداد منظور کی گئی وہ یہ تھی:
''صاحبزادہ قادیانی (مرزا بشیر الدین محمود) کے انتخاب کو اس حد تک ہم جائز سمجھتے ہیں کہ وہ غیر احمدیوں سے احمد کے نام پر بیعت لیں، یعنی اپنے سلسلہ احمدیہ میں ان کو داخل کرلیں، لیکن احمدیوں سے دوبارہ بیعت لینے کی ہم ضرورت نہیں سمجھتے۔ اس حیثیت میں ہم انہیں امیر تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن اس کے لئے بیعت کی ضرورت نہ ہوگی اور نہ ہی امیر اس بات کا مجاز ہوگا کہ جو حقوق واختیارات صدر انجمن احمدیہ کو حضرت مسیح موعود نے دیئے ہیں اور اس کو اپنا جانشین قرار دیا ہے، اس میں کسی قسم کی دست اندازی کرے۔'' (ضمیمہ پیغامِ صلح، ٢٤مارچ ١٩١٤ء بحوالہ فرقان قادیان، جنوری ١٩٤٢ئ، ج:١،نمبر١، ص:٧)
اس قرارداد سے واضح ہے کہ لاہوری جماعت کو اس وقت نہ جماعت قادیان کے عقائد پر اعتراض تھا اور نہ وہ مرزا بشیرالدین کو خلافت کے لئے نااہل قرار دیتے تھے، جھگڑا تھا تو اس بات پر تھا کہ تمام اختیارات انجمن احمدیہ کو دیئے جائیں نہ کہ خلیفہ کو، لیکن جب مرزا بشیرالدین محمود نے اس تجویز کو منظور نہ کیا تو محمد علی لاہوری نے لکھا:
''خلافت کا سلسلہ صرف چند روزہ ہوتا ہے تو کس طرح تسلیم کرلیا جائے کہ اگر ایک شخص کی بیعت کرلی تو اب آئندہ بھی کرتے جائو۔'' (پیغامِ صلح، ٢اپریل ١٩١٤ء منقول از فرقان جنوری ١٩٤٢ئ، ج:١،نمبر١، ص:٧، حوالہ ہالا)
یہ تھا قادیانی اور لاہوری جماعتوں کا اصل اختلاف جس کی بنا پر یہ دونوں پارٹیاں الگ ہوئیں، اس سیاسی اختلاف کی بنا پر جب قادیانی جماعت نے لاہوری جماعت پر عرصہ حیات تنگ کردیا تو لاہوری گروپ مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے پر مجبور ہوا، چنانچہ جب جماعت لاہور نے اپنا الگ مرکز قائم کیا تو کچھ اپنی علیحدگی کو خوبصورت بنانے کی تدبیر، کچھ قادیانی جماعت کے بغض اور کچھ مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی فکر کی وجہ سے اس جماعت نے اپنے سابقہ عقائد اور تحریروںسے رجوع اور توبہ کا اعلان کئے بغیر یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں بلکہ مسیح موعود، مہدی اور مجدد مانتے ہیں۔
قادیان اور لاہور کی جماعتوں میں کوئی فرق نہیں:
لیکن اگر لاہوری جماعت کے ان عقائد کو بھی دیکھا جائے، جن کا اعلان انہوں نے ١٩١٤ء کے بعد کیا ہے، تب بھی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان کا یہ موقف محض ایک لفظی ہیر پھیر ہے اور حقیقت کے اعتبار سے ان کے اور قادیانی جماعت کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، جس طرح وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے الہام کو حجت اور واجب الاتباع مانتے ہیں، اسی طرح یہ بھی اسے حجت اور واجب الاتباع سمجھتے ہیں۔ جس طرح وہ مرزا قادیانی کی تمام کفریات کی تصدیق کرتے ہیں، اسی طرح یہ بھی اسے واجب التصدیق قرار دیتے ہیںجس طرح وہ مرزا قادیانی کی تمام کتابوں کو اپنے لئے الہامی سند اور مذہبی اتھارٹی سمجھتے ہیں اسی طرح یہ بھی انہیں مذہبی ماخذ کی حیثیت دیتے ہیں جس طرح وہ مرزا قادیانی کے مخالفین کو کافر کہتے ہیں، اسی طرح یہ بھی مرزا قادیانی کو کافر اور جھوٹا قرار دینے والوں کے کفر کے قائل ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قادیانی جماعت مرزا قادیانی کے لئے لفظ نبی استعمال کرنے کو علی الاطلاق جائز سمجھتی ہے اور لاہوری جماعت مرزا قادیانی کے لئے اس لفظ کے استعمال کو صرف لغوی یا مجازی حیثیت میں جائز قرار دیتی ہے۔
اس حقیقت کی تشریح اس طرح ہوگی کہ لاہوری جماعت جن بنیادی عقیدوں میں اپنے آپ کو قادیانی جماعت سے ممتاز قرار دیتی ہے، وہ دو عقیدے ہیں:
١:...مرزا غلام احمد قادیانی کے لئے لفظ نبی کا استعمال۔
٢:... غیر احمدیوں کو کافر کہنا۔
لاہوری جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ مرزا قادیانی کونبی نہیں مانتی بلکہ صرف مجدد مانتی ہے اور غیر احمدیوں کو کافر کے بجائے صرف فاسق قرار دیتی ہے، اب ان دونوں باتوں کی حقیقت ملاحظہ فرمایئے:
نبی نہ ماننے کی حقیقت:
لاہوری جماعت اگرچہ اعلان تو یہی کرتی ہے کہ ہم مرزا قادیانی کو نبی نہیں مانتے، بلکہ ''مجدد'' مانتے ہیں، لیکن ''مجدد'' کا مطلب کیا ہے؟ بعینہ وہ جسے قادیانی جماعت ظلی اور بروزی نبی کہتی ہے، چنانچہ محمد علی لاہوری قادیانی اپنی کتاب ''النبوة فی الاسلام'' میں جو جماعت لاہور کی علیحدگی کے بہت بعد کی تصنیف ہے، لکھتے ہیں:
''انواعِ نبوت میں سے وہ نوع جو محدث کو ملتی ہے وہ چونکہ بباعث اتباع اور فنا فی الرسول کے ملتی ہے، جیسا توضیح المرام میں لکھا تھا کہ وہ نوعِ مبشرات ہے۔ اس لئے وہ تحدید ختم نبوت سے باہر ہے اور یہ حضرت مسیح موعود ہی نہیں کہتے بلکہ حدیثوں نے صاف طور پر ایک طرف محدثوں کا وعدہ دے کر اور دوسری طرف مبشرات کو باقی رکھ کر یہی اصول قرار دیا ہے، گویا نبوت تو ختم ہے، مگر ایک نوعِ نبوت باقی ہے اور وہ نوعِ مبشرات ہیں، وہ ان لوگوں کو ملتی ہے جو کامل طور پر اتباع حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتے ہیں اور فنافی الرسول کے مقام تک پہنچ جاتے ہیں۔ اب بعینہ اسی اصول کو ''چشمہ معرفت'' میں جو آپ (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) کی سب سے آخری کتاب ہے بیان کیا ہے:
''تمام نبوتیں اسی پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے، مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں، یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں، کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے، یعنی اس کا ظل ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہر ہے۔'' (دیکھو، ص:٣٢٤)
اب دیکھو کہ یہاں بھی نبوت کو تو ختم ہی کہا ہے، لیکن ایک قسم کی نبوت باقی بتائی ہے اور وہ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور اسی کتاب کے ص:١٨٢، پر یہ بھی صاف لکھ دیا ہے کہ: ''وہ نبوت جس کو ظلی نبوت یا نبوتِ محمدیہ قرار دیتے ہیں، وہ وہی مبشرات والی نبوت ہے۔'' (النبوة فی الاسلام، ص:١٥٠، مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ)
آگے مرزا غلام احمد قادیانی کی عبارتوں کی تشریح کرتے ہوئے اور انہیں درست قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' درحقیقت جو کچھ فرمایا ہے (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی نے جو کچھ کہا ہے) گو اس کے الفاظ میں تھوڑا تھوڑا تغیر ہو، مگر ماحصل سب کا ایک ہی ہے، یعنی یہ کہ اول فرمایا کہ صاحب خاتم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا، پھر فرمایا کہ صاحب خاتم ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس کی مہر سے ایک ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے، جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے، اب امتی ہونے کے معنی یہی ہیں کہ کامل اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے اور اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فناکر دیا جائے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے ایک قسم کی نبوت بھی مل سکتی ہے، وہ نبوت کیا ہے؟ اس کو آخر میں جاکر صاف حل کردیا ہے کہ وہ ایک ظلی نبوت ہے جس کے معنی ہیں فیض محمدی سے وحی پانا اور یہ بھی فرمایا کہ وہ قیامت تک باقی رہے گی۔'' (النبوة فی الاسلام، ص:١٥٣ از محمد علی لاہور قادیانی)
محمد علی لاہوری قادیانی کی ان عبارتوں کو اہل قادیان اور اہل ربوہ کے ان عقائد سے ملاکر دیکھئے جو پیچھے بیان ہوچکے ہیں، کیا کہیں کوئی فرق نظر آتا ہے؟ لیکن آگے فرق ظاہر کرنے کے لئے لفظوں کا یہ کھیل بھی ملاحظہ فرمائیں:
''حضرت مسیح موعود نے اپنی پہلی اور پچھلی تحریروں میں ایک ہی اصول باندھا ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ باب نبوت تو مسدود ہے مگر ایک نوع کی نبوت مل سکتی ہے، یوں نہیں کہیں گے کہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے بلکہ یہ کہیں گے کہ نبوت کا دروازہ بند ہے، مگر ایک نوع کی نبوت باقی رہ گئی ہے اور قیامت تک رہے گی، یوں نہیں کہیں گے کہ ایک شخص اب بھی نبی ہوسکتا ہے، یوں کہیں گے کہ ایک نوع کی نبوت اب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوسکتی ہے، اس کا نام ایک جگہ مبشرات، ایک جگہ جزوی نبوت، ایک جگہ محدثیت، ایک جگہ کثرتِ مکالمہ رکھا ہے مگر نام کوئی بھی رکھا ہو، اس کا بڑا نشان یہ قرار دیا ہے کہ وہ ایک انسانِ کامل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے مل سکتی ہے، وہ فنا فی الرسول (فنا فی الرسول سے نبوت مل جاتی ہے تو شاید فنافی اللہ سے خدائی بھی مل جاتی ہوگی) سے حاصل ہوتی ہے، وہ نبوت محمدیہۖ کی مستفاض ہے، وہ چراغ نبویۖ کی روشنی ہے، وہ اصلی کوئی چیز نہیں، ظل ہے۔'' (النبوة فی الاسلام، ص:١٥٨ مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ)
کیایہ لفظوں کے معمولی ہیر پھیر سے ظل و بروز کا بعینہ وہی فلسفہ نہیں ہے جو مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت کے الفاظ میں پیچھے بیان کیا جاچکا ہے؟ اگر ہے اور یقینا ہے تو حقیقت کے لحاظ سے قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت میں فرق کیا رہ گیا؟ اور یہ صرف محمد علی لاہوری قادیانی ہی کا نہیں، پوری لاہوری جماعت کا عقیدہ ہے۔ چنانچہ قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت کے درمیان جو مباحثہ راولپنڈی میں ہوا اور جسے دونوں جماعتوں نے مشترک خرچ پر شائع کیا، اس میں لاہوری جماعت کے نمائندے نے صراحتاً کہا کہ:
''حضرت (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اظلال میں ایک کامل ظل ہیں، پس ان کی بیوی اس لئے ام المومنین ہے اور یہ بھی ظلی طور پر مرتبہ ہے۔''
(مباحثہ راولپنڈی، ص:١٩٦)
نیز اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ:
''حضرت مسیح موعود نبی نہیں، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ان میں منعکس ہے۔'' (مباحثہ راولپنڈی، ص:١٩٦)
یہ سب وہ عقائد ہیں جنہیں لاہوری جماعت اب بھی تسلیم کرتی ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے مسئلہ میں قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت میں صرف لفظی ہیر پھیر کا اختلاف ہے۔ لاہوری جماعت اگرچہ مرزا قادیانی کا لقب مسیح موعود اور مجدد رکھتی ہے، لیکن ان الفاظ سے اس کی مراد بعینہ وہ ہے جو قادیانی جماعت ظلی، بروزی یا غیر تشریعی یا امتی نبی کے الفاظ سے مراد لیتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ لاہوری جماعت کا مسلک یہ ہے کہ: مسیح موعود، مجدد اور مہدی کا یہ مقام جسے مرزا قادیانی نے ہزارہا مرتبہ لفظ ''نبی'' سے تعبیر کیا اور جس کے لئے وہ خود ١٩١٤ء تک بلاتکلف یہی لفظ استعمال کرتے رہے، خلافت کا نزاع پیدا ہونے کے بعد اس کے لئے ''نبوت'' کا لفظ صرف لفظ مجازی یا لغوی قرار پاگیا، جسے مرزا قادیانی کی عبارتوں کی تشریح کے لئے اب بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن عام تحریروں میں اس کا استعمال مصلحتاً ترک کردیا گیا ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم نے بالکل صحیح بات کہی تھی کہ:
''تحریک احمدیت دو جماعتوں میں منقسم ہے جو قادیانی اور لاہوری جماعتوں کے نام سے موسوم ہیں۔ اول الذکر جماعت بانی احمدیت کو نبی تسلیم کرتی ہے۔ آخر الذکر نے اعتقاداً یا مصلحتاً قادیانیت کی شدت کو کم کرکے پیش کرنا مناسب سمجھا۔'' (حرفِ اقبال، ص:٤٩ المنار اکادمی مطبوعہ ١٩٤٠ئ)
یہاں یہ حقیقت بھی واضح کردینا مناسب ہے کہ لاہوری صاحبان نے جو تاویل کی ہے کہ مرزا قادیانی نے ہر جگہ اپنے لئے لفظ ''نبی'' مجازی یا لغوی طور پر استعمال کیا ہے حقیقی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا (اگرچہ مرزا قادیانی کی بے شمار تحریریں اس دعویٰ کی بھی تردید کرتی ہیں) اس تاویل کے لئے انہوں نے ''حقیقی نبوت'' کی ایک مخصوص اصطلاح گھڑی ہے جو شرعی اصطلاح سے بالکل الگ ہے، اس حقیقی نبی کے لئے انہوں نے بہت سی شرائط عائد کی ہیں، جن میں سے چند یہ بھی ہیں:
١:... ''حقیقی نبی صرف وہ ہوگا، جس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے ہوں، نزول جبرئیل علیہ السلام کے بغیر کوئی حقیقی نبی نہیں ہوسکتا۔'' (ملخص النبوة فی الاسلام از محمد علی لاہوری، ص:٢٨)
٢:... ''حقیقی نبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ سابقہ شریعت کو منسوخ یا اس میں ترمیم کرسکے۔'' (ملخص النبوة فی الاسلام مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ، ص:٦٠)
٣:... ''وحی نبوت عبادات میں پڑھی جاتی ہے۔'' (النبوة فی الاسلام مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ، ص:٥٦)
٤:... ''ہر حقیقی نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ کتاب لائے۔'' (ملخص النبوة فی الاسلام، مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ، ص:٥٦)
حقیقی نبوت کے لئے اس طرح کی بارہ شرائط عائد کرنے کے بعد انہوں نے ثابت کیا ہے کہ چونکہ یہ شرائط مرزا قادیانی کی نبوت میں نہیں پائی جاتیں۔ اس لئے ان پر حقیقی معنی میں لفظ نبی کا اطلاق درست نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ شریعت کی معروف اصطلاح میں نبی کے لئے نہ کتاب لانا ضروری ہے، نہ یہ ضروری ہے کہ اس کی وحی عبادتوں میں ضرور پڑھی جائے، نہ یہ لازمی ہے کہ نبی اپنے سے پہلی شریعت کو ہمیشہ منسوخ ہی کردے اور نہ نبوت کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ اس میں وحی لانے والے ہمیشہ جبرئیل علیہ السلام ہی ہوں۔ لہٰذا ''حقیقی نبوت'' صرف اسی نبوت کو قرار دینا جس میں یہ ساری شرائط موجود ہوں، محض ایک ایسا حیلہ ہے جس کے ذریعے کبھی مرزا قادیانی کو نبی قرار دینا اور کبھی ان کی نبوت سے انکار کرنا آسان ہوجائے کیونکہ یہ شرائط عائد کرکے تو بہت سے انبیائے بنی اسرائیل کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ''حقیقی نبی'' نہیں تھے، کیونکہ نہ ان پر کتاب اتری نہ ان کی وحی کی تلاوت کی گئی اور نہ وہ کوئی نئی شریعت لے کر آئے لیکن وہ انبیاء تھے۔ (جاری ہے)
❤️
1