
Bakht Zada Buneray
May 31, 2025 at 11:20 PM
لاہوری جماعت کی حقیقت!
گزشتہ سے پیوستہ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود
تکفیر کا مسئلہ:
لاہوری جماعت جس بنیاد پر اپنے آپ کو اہل قادیان سے ممتاز قرار دیتی ہے، وہ اصل میں تو نبوت ہی کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں پیچھے واضح ہوچکا کہ وہ صرف لفظی ہیر پھیر کا فرق ہے، ورنہ حقیقت کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں۔ دوسرا مسئلہ جس کے بارے میں جماعت لاہور کا دعویٰ ہے کہ وہ جماعت قادیان سے مختلف ہے، تکفیر کا مسئلہ ہے، یعنی لاہوریوں کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ غیر احمدیوں کو مسلمان قرار دیتی ہے، لیکن یہاں بھی بات اتنی سادہ نہیں، جتنی بیان کی جاتی ہے، اس مسئلہ پر امیر جماعت محمد علی لاہوری قادیانی نے ایک مستقل کتاب ''ردِ تکفیر اہل قبلہ'' کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب کو بغور پڑھنے کے بعد ان کا جو نقطۂ نظر واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود نہ ماننے والوں کی دو قسمیں ہیں:
١:... ''وہ لوگ جو مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے، مگر انہیں کافر اور کاذب بھی نہیں کہتے، ایسے لوگ ان کے نزدیک بلاشبہ کافر نہیں ہیں، بلکہ فاسق ہیں۔''
(ملخص النبوة فی الاسلام مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ، ص:٢١٥)
٢:...''وہ لوگ جو مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر یا کاذب کہتے ہیں، ان کے بارے میں ان کا مسلک بھی یہی ہے کہ وہ ''کافر'' ہیں۔
چنانچہ محمد علی قادیانی لکھتے ہیں:
''گویا آپ (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) کی تکفیر کرنے والے اور وہ منکر جو آپ کو کاذب یعنی جھوٹا بھی قرار دیتے ہیں، ایک قسم میں داخل ہیں اور ان کا حکم ایک ہے اور دوسرے منکروں کا حکم الگ ہے۔''
آگے پہلی قسم کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''حضرت مسیح موعود نے اب بھی اپنے انکار یا اپنے دعویٰ کے انکار کو وجۂ کفر قرار نہیں دیا، بلکہ وجۂ کفر صرف اسی بات کو قرار دیا ہے کہ مفتری کہہ کر اس نے مجھے کافر کہا۔ اس لئے اسی حدیث کے مطابق جو کافر کہنے والے پر کفر لوٹاتی ہے۔ اس صورت میں بھی کفر لوٹا۔''
مزید لکھتے ہیں :
''چونکہ کافر کہنے والا اور کاذب کہنے والا معنی یکساں ہیں یعنی مدعی (مرزا غلام احمد قادیانی) کی دونوں تکفیر کرتے ہیں، اس لئے دونوں اس حدیث کے ماتحت خود کفر کے نیچے آجاتے ہیں۔'' (ردِ تکفیر اہل قبلہ مصنفہ محمد علی لاہوری، ص:٤٢، مطبوعہ انجمن اشاعت اسلام ١٩٢٦ئ)
نیز لاہوری جماعت کے معروف مناظر اختر حسین گیلانی لکھتے ہیں:
''جو (مرزا قادیانی) کی تکذیب کرنے والے ہیں، ان کے متعلق ضرور فرمایا کہ ان پر فتویٰ کفر لوٹ کر پڑتا ہے، کیونکہ تکذیب کرنے والے حقیقتاً مفتری قرار دے کر کافر ٹھہراتے ہیں۔ '' (مباحثہ راولپنڈی، ص:٢٥١ مطبوعہ قادیان)
اس سے صاف واضح ہے کہ جو لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنے دعوئوں میں کاذب (جھوٹا) قرار دیتے ہیں یا انہیں کافر کہتے ہیں۔ ان کو لاہوری جماعت بھی کافر تسلیم کرتی ہے۔ صرف تکفیر کی وجہ کا فرق ہے، جو لوگ لاہوریوں کے نزدیک کفر کے فتوے سے مستثنیٰ ہیں اور صرف فاسق ہیں وہ صرف ایسے غیر احمدی ہیں جو مرزا قادیانی کو کاذب یا کافر نہیں کہتے، اب غور فرمایئے کہ عالم اسلام میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو مرزا غلام احمد قادیانی کی تکذیب نہیں کرتے؟ ظاہر ہے کہ جتنے مسلمان مرزا قادیانی کو نبی یا مسیح موعود نہیں مانتے وہ سب ان کی تکذیب ہی کرتے ہیں، لہٰذا وہ سب لاہوری جماعت کے نزدیک بھی فتوائے کفر کے تحت آجاتے ہیں، کیونکہ مرزا قادیانی کو مسیح موعود نہ ماننا اور ان کی تکذیب کرنا عملاً ایک ہی بات ہے خود مرزا قادیانی لکھتے ہیں:
''جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے۔'' (حقیقة الوحی، ص:١٦٣، روحانی خزائن، ج:٢٢، ص:١٦٧)
منیر انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں جج صاحبان نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مرزا قادیانی کو نہ ماننا اور ان کی تکذیب کرنا ایک ہی بات ہے۔ لہٰذا جو فتویٰ تکذیب کرنے والوں پر لگے گا وہ درحقیقت تمام غیر احمدیوں پر عائد ہوگا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
''نماز جنازہ کے متعلق احمدیوں نے ہمارے سامنے بالآخر یہ موقف اختیار کیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا ایک فتویٰ حال ہی میں دستیاب ہوا ہے، جس میں انہوں نے احمدیوں کو اجازت دی ہے کہ وہ ان مسلمانوں کی نماز جنازہ میں شریک ہوسکتے ہیں، جو مرزا قادیانی کے مکذب اور مکفر نہ ہوں۔ لیکن اس کے بعد بھی معاملہ وہیں کا وہیں رہتا ہے، کیونکہ اس فتویٰ کا ضروری مفہوم یہی ہے کہ اس مرحوم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی جو مرزا قادیانی کو نہ مانتا ہو، لہٰذا اس اعتبار سے یہ فتویٰ موجودہ طرزِ عمل ہی کی تائید و تصدیق کرتا ہے۔''
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت پنجاب ١٩٥٣ئ، ص:٢١٢)
اب غور فرمایئے کہ فتویٰ کفر کے اعتبار سے عملاً لاہوری اور قادیانی جماعتوں میں کیا فرق رہ گیا؟ قادیانی کہتے ہیں کہ تمام مسلمان غیر احمدی ہونے کی بنا پر کافر ہیں اور لاہوری جماعت والے کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کو کاذب کہنے کی وجہ سے کافر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی کو نہ ماننے کی وجہ سے کافر ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ فتوائے کفر کے لوٹ کر پڑنے کی وجہ سے کافر ہیں۔ اب اس اندرونی فلسفے کو وہ خود طے کریں کہ مسلمانوں کو کافر کہنے کی وجہ کیا ہے؟ لیکن عملی اعتبار سے مسلمانوں کے لئے اس کے سوا اور کیا فرق پڑا کہ:
ستم سے باز آکر بھی جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
بعض مرتبہ لاہوری جماعت کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہم مرزا قادیانی کی تکذیب کرنے والوں کو جو کافر قرار دیتے ہیں، اس سے مراد ایسا کفر نہیں جو دائرئہ اسلام سے خارج کردے بلکہ ایسا کفر ہے جو ''فسق'' کے معنی میں بھی استعمال ہوجاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ''کفر'' سے ان کی مراد فسق ہی ہے تو پھر جو غیر احمدی مرزا قادیانی کو کافر یا کاذب نہیں کہتے، ان کے لئے اس لفظ کفر کا استعمال کیوں درست نہیں؟ جبکہ وہ بھی لاہوریوں کے نزدیک ''فاسق'' ضرور ہیں۔ (دیکھئے النبوة فی الاسلام، ص:٢١٥، طبع دوم و مباحثہ راولپنڈی، ص:٢٤٧)
لاہوری جماعت کی وجوہِ کفر:
مذکورہ بالا تشریحات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت کے درمیان بنیادی عقائد کے اعتبار سے کوئی عملی فرق نہیں۔ فرق اگر ہے تو وہ الفاظ و اصطلاحات اور فلسفیانہ تعبیروں کا فرق ہے اور ان کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ یہ فرق لاہوری جماعت نے ضرورتاً اور مصلحتاً پیدا کیا ہے، اسی لئے ١٩١٤ء کے تنازعہ خلافت سے پہلے اس کا کوئی نشان نہیں ملتا، اب منقح طور پر ان کے کفر کی وجوہ درج ذیل ہیں:
١:... ''قرآن و حدیث، اجماع امت مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد اور ذاتی حالات کی روشنی میں یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ہرگز وہ مسیح نہیں جس کا قربِ قیامت میں وعدہ کیا گیا ہے اور ان کو مسیح موعود ماننا قرآنِ کریم، متواتر احادیث اور اجماع امت کی تکذیب ہے، لاہوری مرزائی چونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود مانتے ہیں، اس لئے کافر اور دائرہ اسلام سے اسی طرح خارج ہیں جس طرح قادیانی مرزائی۔ ''
٢:... ''مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوائے نبوت قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوچکا ہے، لہٰذا اس کو کافر کہنے کے بجائے اپنا دینی پیشوا قرار دینے والا مسلمان نہیں ہوسکتا۔''
٣:...''پیچھے بتایا جاچکا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی سینکڑوں کفریات کے باوجود لاہوری جماعت اس بات کی قائل ہے کہ (معاذ اللہ) وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز تھااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اس منعکس ہوگئی تھی اور اس اعتبار سے اسے نبی کہنا درست ہے، یہ عقیدئہ دائرہ اسلام میں کسی طرح نہیں کھپ سکتا۔''
٤:...''دعوائے نبوت کے علاوہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تصانیف بے شمار کفریات سے لبریز ہیں لاہوری جماعت مرزا قادیانی کی تمام تحریروں کو حجت اور واجب الاطاعت قرار دے کر ان تمام کفریات کی تصدیق کرتی ہے۔'' محمد علی لاہوری قادیانی لکھتے ہیں:
''اور مسیح موعود کی تحریروں کا انکار درحقیقت مخفی رنگ میں خود مسیح موعود کا انکار ہے۔'' (النبوة فی الاسلام، ص:١١١، طبع دوم لاہور)
یہاں یہ واضح رہنا بھی ضروری ہے کہ اسلام میں ''مجدد'' کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ جب اسلام کی تعلیمات سے روگردانی عام ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ پھر سے لوگوں کو اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان مجددین کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، نہ ان کی کسی بات کو شرعی حجت سمجھا جاتا ہے، نہ وہ اپنے مجدد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ لوگوں کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ انہیں ضرور مجدد مان کر ان کے ہاتھ پر بیعت کریں، بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ لوگ انہیں مجدد کی حیثیت سے پہچان بھی جائیں، چنانچہ چودہ سو سالہ تاریخ میں مجددین کے ناموں میں بھی اختلاف رہا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص انہیں مجدد تسلیم نہ کرے تو شرعاً وہ گناہگار بھی نہیں ہوتا، نہ وہ اپنے تجدیدی کارنامے الہام کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں اور نہ ان کے الہام کی تصدیق شرعاً واجب ہوتی ہے۔
اس کے بالکل برعکس لاہوری جماعت مرزا قادیانی کے لئے ان تمام باتوں کی قائل ہے، لہٰذا اس کا یہ دعویٰ کہ: ''ہم مرزا قادیانی کو صرف مجدد مانتے ہیں'' مغالطے کے سوا کچھ نہیں۔٭٭
👍
1