Majlisulftawa
May 14, 2025 at 10:50 AM
‼️ *انسانی نفسیات اور خیالات کی حقیقت!* انسانی نفسیات کا معاملہ بہت دلچسپ ہے، انسان کے خیالات بڑے عجیب ہیں، انھیں جو چاہو رنگ دے دو، جدھر چاہو موڑ دو، جتنا چاہو دراز کردو اور جب چاہو جھٹک دو! سوچ کو مثبت رکھو تو مثبت رہے گی، منفی رکھو تو منفی رہے گی، گویا کہ جو چاہو اسے رنگ دے دو! سوچ کو امید کے دیے سے روشن کردو تو یہ انسان کو چمکا دیتی ہے، اور اسے نا امیدی کے اندھیرے میں چھوڑ دو تو انسان کو بھٹکا دیتی ہے! انسانی سوچ کا دھارا جس سمت بہتا ہے انسان بھی اسی کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے! انسان اچھا سوچے تو اپنے بچے کے رونے کی آواز میں بھی خوشی اور اطمینان تلاش کرلیتا ہے اور اگر وہ نہ چاہے تو وہ اسے غصہ اور جھنجھلاہٹ کا ذریعہ بنا دیتا ہے! اسی سوچ کا اثر ہے کہ بہت سے لوگ بڑے سے بڑے نقصان میں بھی مطمئن رہتے ہیں لیکن بہت سے لوگ بہت کچھ پانے کے باوجود پریشان رہتے ہیں! کوئی یہ سوچ کر غمگین ہے کہ آنے والا وقت نجانے کیسا ہوگا؟ اور کوئی یہ سوچ کر مطمئن ہے کہ اب کونسا اپنے ذاتی کمال سے جی رہے ہیں؟ جو اللّٰہ اب مددگار ہے وہی مستقبل میں بھی مددگار ہوگا! کوئی انتقام لینے میں اپنے غصے کی ٹھنڈک تلاش کرلیتا ہے تو کوئی معاف کردینے میں سکون محسوس کرتا ہے! لختِ جگر فوت ہوجائے تو انسان سوچتا ہے کہ میرا سب کچھ لٹ گیا، اب جیوں تو کیسے جیوں؟ لیکن کچھ ہی وقت بعد وہ ایک نئی امید کے ساتھ زندگی جیتا نظر آتا ہے! انسان چاہے تو بہت کچھ کو کم محسوس کرکے اپنی زندگی اجیرن کردے یا چاہے تو کم پر قناعت کرکے مطمئن ہوجائے! عشق ومحبت کا اظہار کرنے والے، ساتھ جینے مرنے کے عہد وپیمان کرنے والے اور ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کی باتیں کرنے والے جب شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو چند ہی سالوں بعد یہ سب کچھ بھلا دیتے ہیں اور ان کے مابین نفرت کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے، پھر یہ ایک دوسرے پر اپنی جان قربان کرنے والے ایک دوسرے کی بات تک برداشت نہیں کرتے اور یوں جدائی اختیار کرلیتے ہیں! اولاد کو نصیحت کرنے والے والدین بُرے اور بد خواہ لگتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اولاد سمجھ جاتی ہے کہ واقعی والدین کی نصیحتیں درست تھیں! والدین کو جائز حق کا مطالبہ کرنے والی اولاد غلط لگتی ہے لیکن پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب والدین اپنے کو غلط قرار دے دیتے ہیں! نجانے کتنے ہی جھگڑے، تنازعات اور اختلافات ایسے ہوتے ہیں جن میں ہم مرنے، مارنے، قطعِ تعلقی اور شدید نفرتوں کے فیصلے کرلیتے ہیں، پھر جب وقت گزر جاتا ہے تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ وہ باتیں معمولی اور غیر ضروری تھیں، وہ فیصلے احمقانہ تھے، بیکار میں ان میں وقت اور صلاحتیں ضائع کیں! آج کا اچھا کل غلط دکھائی دیتا ہے اور آج کا غلط کل اچھا دکھائی دیتا ہے! محبتیں نفرتوں میں بدل جاتی ہیں اور نفرتیں محبتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں! وقت گزر جانے کے بعد بد گمانیوں کی بھی حقیقت کھل جاتی ہیں کہ یہ سب بے بنیاد باتیں تھیں! یہ ہے سوچوں اور خیالات کے سو رنگ اور رنگ بھی ایسے جو آپ خود بھرتے ہیں! یہ سب کیا ہے؟؟ یہ کیسی نفسیات ہیں، یہ کیسے خیالات ہیں، یہ کیسی سوچیں ہیں جو یکساں نہیں رہتیں، جو بدل جاتی ہیں، جن کو قرار نہیں، جن میں جزم نہیں، جو حرفِ آخر نہیں! تو پھر کیسی مایوسی؟ کیسے جھگڑے؟ کیسی خود کشی؟ کیسی بیزاری؟ کیسی نفرت؟ کیسا قطع تعلق؟ کیسی انا؟ اس سے معلوم ہوا کہ: ▪️مایوسی، ناامیدی اور بیزاری محض سوچ کا ایک رخ ہوتی ہے جو کہ یقینی نہیں، بلکہ اس کی دوسری طرف امید کا دیا بھی روشن رہتا ہے! ▪️ مایوسی، نا امیدی اور بیزاری ایک اٹل حقیقت نہیں جس کی بنیاد پر کوئی غلط قدم اٹھایا جائے، بلکہ یہ ایک وقتی کیفیت ہے، جسے طول دینے اور برقرار رکھنے کی بجائے اس سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے! ▪️ محض اپنی ضد اور انا کی وجہ سے یا اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے دوسروں کی نصیحتوں کو نظر انداز کرنا درست رویہ نہیں، بلکہ اپنے ہر معاملے میں بہر صورت یہ امکان رہنے دیجیے کہ آپ کی ذاتی رائے غلط ہوسکتی ہے، س ہمدردی اور خیر خواہی رکھنے والوں کی نصیحت توجہ سے سنیے اور اس پر غور کیجیے! ▪️ وقتی جذبات سے مغلوب ہوکر بلا سوچے سمجھے کوئی فیصلہ کرنے سے اجتناب کیجیے کہ یہ کسی طور دانشمندی کا تقاضا نہیں! ▪️ جو باتیں غیر ضروری، غیر اہم اور فضول ہیں انھیں سینے سے لگانے، دل میں پالنے اور ان کی بنیاد پر کوئی غلط رائے قائم کرنے یا غلط فیصلہ کرنے سے بالکلیہ بچنا چاہیے۔ ▪️ مایوسی، بیزاری، غصہ اور وقتی جذبات کی مثال تو اُس ندی کی سی ہے جو چڑھ جاتی ہے اور پھر اتر جاتی ہے! یہ تو عارضی اُبال ہے جس میں پائیداری اور دوام نہیں ہوتا! اس لیے اس وقت صبر وتحمل سے کام لینے اور دانشمندی کے فیصلے کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے! ✍️۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
❤️ 👍 10

Comments