Majlisulftawa

2.8K subscribers

About Majlisulftawa

فقہ حنفی کے مطابق روزمرہ زندگی میں پیش آمدہ شرعی مسائل و احکامات ، جدید فقہی مسائل اور مستند فتاویٰ جات کے لیے فالو کیجیے: ❑ *WhatsApp:* https://whatsapp.com/channel/0029Va84jYf3GJOomQ9jNX2k ❑ *Twitter:* https://twitter.com/Majlisulftawa ❑ *Facebook:* https://www.facebook.com/groups/Majlisulftawa ❑ *Telegram:* https://t.me/Majlisulftawa_bot ❑ *Instagram:* https://www.instagram.com/majlisulftawa ❑ *Threads:* https://www.threads.net/@majlisulftawa ❑ *YouTube:* https://youtube.com/Majlisulftawa

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

Majlisulftawa
6/14/2025, 4:38:09 AM

آج کی تاریخ اور پیغام 14 جون 2025 (ہفتہ) 17 ذی الحجہ 1446 ھ

Post image
Image
Majlisulftawa
6/13/2025, 9:59:15 AM

`#سلسلہ مسائل اذان و اقامت` *پوسٹ نمبر 1*

Post image
❤️ 2
Image
Majlisulftawa
6/13/2025, 9:46:17 AM

✨❄️ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄️✨ 🌻 *سرکاری استاذ کا اپنی جگہ کسی دوسرے کو استاذ رکھنے کا حکم* 📿 *سرکاری استاذ کا اپنی جگہ کسی دوسرے کو استاذ رکھنے کا حکم:* آجکل حکومت کی جانب سے سرکاری اسکولوں میں پڑھانے کے لیے مقرر کئی اساتذہ اپنی جگہ کسی اور کو استاذ رکھ لیتے ہیں، پھر جو انھیں حکومت کی جانب سے تنخواہ ملتی ہے تو وہ اس میں سے اس دوسرے استاذ کو بھی اس کی اجرت دے دیتے ہیں، واضح رہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر سرکاری استاذ کا اپنی جگہ کسی اور کو استاذ مقرر کرنا جائز نہیں، ایسی صورت میں اس سرکاری استاذ کے لیے حکومت کی طرف سے ملنے والی تنخواہ بھی حلال نہیں ہے، البتہ جس شخص کو اس سرکاری استاذ نے اپنی جگہ مقرر کیا ہے وہ اپنے کام کے عوض طے شدہ رقم اس سرکاری استاذ سے لے سکتا ہے جس کی ادائیگی وہ اپنے ذاتی مال سے کرے گا۔ ☀️ بدائع الصنائع: وللأجير أن ‌يعمل ‌بنفسه وأجرائه إذا لم يشترط عليه في العقد أن يعمل بيده؛ لأن العقد وقع على العمل، والإنسان قد ‌يعمل ‌بنفسه وقد يعمل بغيره، ولأن عمل أجرائه يقع له فيصير كأنه عمل بنفسه، إلا إذا شرط عليه عمله بنفسه؛ لأن العقد وقع على عمل من شخص معين، والتعيين مفيد؛ لأن العمال متفاوتون في العمل فيتعين فلا يجوز تسليمها من شخص آخر من غير رضا المستأجر، كمن استأجر جملا بعينه للحمل لا يجبر على أخذ غيره، ولو استأجر على الحمل ولم يعين جملا كان للمكاري أن يسلم إليه أي جمل شاء، كذا ههنا. ☀️ حاشية الشلبي على التبيين: ومنها أن في الخاص لو استعان بغيره لا يستحق الأجر؛ لأنه لم يسلم منافع نفسه. ☀️ التنوير مع شرحه: (وإذا شرط عمله بنفسه) بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك (لا يستعمل غيره إلا الظئر فلها استعمال غيرها) بشرط وغيره، خلاصة (وإن أطلق كان له) أي للأجير أن يستأجر غيره. ☀️ رد المحتار: (قوله: لا يستعمل غيره) ولو غلامه أو أجيره، قهستاني؛ لأن عليه العمل من محل معين فلا یقوم غيره مقامه كما إذا كان المعقود عليه المنفعة، بأن استأجر رجلا شهرا للخدمة لا يقوم غيره مقامه؛ لأنه استيفاء للمنفعة بلا عقد، زيلعي. قال في العناية: وفيه تأمل؛ لأنه إن خالفه إلى خير بأن استعمل من هو أصنع منه أو سلم دابة أقوى من ذلك ينبغي أن يجوز اهـ. وأجاب السائحاني بأن ما يختلف بالمستعمل فإن التقييد فيه مفيد، وما ذكر من هذا القبيل اهـ. وفي الخانية: لو دفع إلى غلامه أو تلميذه لا يجب الأجر اهـ. وظاهر هذا مع التعليل المار أنه ليس المراد بعدم الاستعمال حرمة الدفع مع صحة الإجارة واستحقاق المسمى أو مع فسادها واستحقاق أجر المثل، وأنه ليس للثاني على رب المتاع شيء لعدم العقد بينهما أصلا، وهل له على الدافع أجر المثل؟ محل تردد فليراجع. ✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم فاضل جامعہ دار العلوم کراچی محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی 16 ذو الحجہ 1446ھ/ 13 جون 2025

Post image
❤️ 1
Image
Majlisulftawa
6/13/2025, 3:27:37 AM

آج کی تاریخ اور پیغام 12 جون 2025 (جمعرات) 15 ذی الحجہ 1446 ھ

Post image
❤️ 👍 3
Image
Majlisulftawa
6/12/2025, 9:25:23 AM

✨❄️ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄️✨ 🌻 *مشین سے بال کاٹنا حلق کے حکم میں ہے یا قصر کے؟* 📿 *مشین سے بال کاٹنا حلق کے حکم میں ہے یا قصر کے؟* سر کے بالوں پر مشین پھیرنا در اصل ’’قصر‘‘ ہی کے حکم میں ہے، اس پر حلق کی تعریف مکمل طور پر صادق نہیں آتی، اور قصر پر عمل کرنے کے لیے ضرروی ہے کہ کم از کم انگلی کے ایک پور کے برابر بال کاٹے جائیں۔ اس لیے ایک بار عمرہ کرنے کے بعد دوسرا عمرہ کرتے وقت اگر سر پر اتنے بال نہ ہوں جن پر قصر کیا جاسکے یعنی انگلی کے ایک پورے کے برابر بال نہ ہوں تو ایسی صورت میں حلق کرنا یعنی استرا / بلیڈ پھیرنا ہی ضروری اور متعین ہے، صرف مشین پھیرنا کافی نہیں ہے، لہٰذا اس صورت میں صرف مشین پھیرنے سے آدمی احرام سے نہیں نکلے گا۔ ☀️ البحر العميق في مناسك المعتمر والحاج إلى البيت العتيق: "وهذا إذا كان على رأسه شعر، فأما إذا لم يكن أجرى الموسى على رأسه، لما روي عن ابن عمر : «أن النبي ﷺ حلق رأسه في حجة الوداع قال: فكان الناس يحلقون في الحج ثم يعتمرون عند النفر فيقول: أمرر الموسى على رأسك» رواه الدارقطني والحاكم وصححه على شرط الشيخين. واختلفوا فقيل : إمرار الموسى واجب كما قال الكرماني؛ لأنه لما عجز عن الحلق والتقصير يجب عليه التشبه بالحالق أو المقصر كالمفطر في شهر رمضان، يجب عليه التشبه بالصائم وهو كلام صاحب الهداية في باب خيار الرؤية حيث قال: إن التشبه يقام مقام الحقيقة في موضع العجز كتحريك الشفتين يقام مقام القراءة في حق الأخرس في الصلاة وإجراء الموسى مقام الحلق في حق من لا شعر له في الحج اه . . . وفي «منسك ابن العجمي» ومن لم يكن على رأسه شعر بأن كان أصلع أو محلوقا فإنه يمر الموسى على رأسه وقت الحلق وروي ذلك عن ابن عمر وبه قال مسروف وسعيد بن عبيد، والنخعي وأبو حنيفة وأصحابه ومالك والشافعي وأحمد وأبو الثور، لكن اختلف العلماء في إمرار الموسى هل هو واجب أو مستحب؟ فقال غالب الحنفية: أنه واجب وهو ظاهر مذهب مالك، انتهى." (الباب الثاني عشر، ص: ١٧٨٥-١٧٨٦، ط: مؤسسة الريان) ☀️ غنية الناسك في بغية المناسك: فأقل الواجب في التقصير قدر الأنملة من جميع شعر ربع الرأس، كما صرح به في اللباب. لكن أصحابنا قال: يجب أن يزيد في تقصير الربع على قدر الأنملة؛ لأن أطراف الشعر غير متساوية عادة، فلو قصر قدر الأنملة من الربع لم يستوف قدر الأنملة من جميع شعر الربع، بل من بعضه، فوجب أن يزيد على قدر الأنملة حتى يستوفي في قدر الواجب بيقين، وكذا ينبغي أن يزيد في تقصير الكل على قدر الكل على قدر الأنملة يستوفي قدر الأنملة من كل شعرة برأسه، فيستوفي قدر المندوب بيقين. (بدائع) موضحا." (فصل في الحلق، ص: ٢٧٩، ط: المصباح) ☀️ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: وقد قال النبي ﷺ: «من تشبه بقوم فهو منهم»، فإن حلق رأسه بالنورة أجزأه، والموسى أفضل، أما الجواز فلحصول المقصود وهو إزالة الشعر. وأما أفضلية الحلق بالموسى فلقوله تعالى: محلقين رءوسكم. [الفتح: 27]، وإطلاق اسم الحلق يقع على الحلق بالموسى. (فصل: الحلق أو التقصير) ✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم فاضل جامعہ دار العلوم کراچی محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

❤️ 😂 2
Majlisulftawa
5/14/2025, 10:50:24 AM

‼️ *انسانی نفسیات اور خیالات کی حقیقت!* انسانی نفسیات کا معاملہ بہت دلچسپ ہے، انسان کے خیالات بڑے عجیب ہیں، انھیں جو چاہو رنگ دے دو، جدھر چاہو موڑ دو، جتنا چاہو دراز کردو اور جب چاہو جھٹک دو! سوچ کو مثبت رکھو تو مثبت رہے گی، منفی رکھو تو منفی رہے گی، گویا کہ جو چاہو اسے رنگ دے دو! سوچ کو امید کے دیے سے روشن کردو تو یہ انسان کو چمکا دیتی ہے، اور اسے نا امیدی کے اندھیرے میں چھوڑ دو تو انسان کو بھٹکا دیتی ہے! انسانی سوچ کا دھارا جس سمت بہتا ہے انسان بھی اسی کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے! انسان اچھا سوچے تو اپنے بچے کے رونے کی آواز میں بھی خوشی اور اطمینان تلاش کرلیتا ہے اور اگر وہ نہ چاہے تو وہ اسے غصہ اور جھنجھلاہٹ کا ذریعہ بنا دیتا ہے! اسی سوچ کا اثر ہے کہ بہت سے لوگ بڑے سے بڑے نقصان میں بھی مطمئن رہتے ہیں لیکن بہت سے لوگ بہت کچھ پانے کے باوجود پریشان رہتے ہیں! کوئی یہ سوچ کر غمگین ہے کہ آنے والا وقت نجانے کیسا ہوگا؟ اور کوئی یہ سوچ کر مطمئن ہے کہ اب کونسا اپنے ذاتی کمال سے جی رہے ہیں؟ جو اللّٰہ اب مددگار ہے وہی مستقبل میں بھی مددگار ہوگا! کوئی انتقام لینے میں اپنے غصے کی ٹھنڈک تلاش کرلیتا ہے تو کوئی معاف کردینے میں سکون محسوس کرتا ہے! لختِ جگر فوت ہوجائے تو انسان سوچتا ہے کہ میرا سب کچھ لٹ گیا، اب جیوں تو کیسے جیوں؟ لیکن کچھ ہی وقت بعد وہ ایک نئی امید کے ساتھ زندگی جیتا نظر آتا ہے! انسان چاہے تو بہت کچھ کو کم محسوس کرکے اپنی زندگی اجیرن کردے یا چاہے تو کم پر قناعت کرکے مطمئن ہوجائے! عشق ومحبت کا اظہار کرنے والے، ساتھ جینے مرنے کے عہد وپیمان کرنے والے اور ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کی باتیں کرنے والے جب شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو چند ہی سالوں بعد یہ سب کچھ بھلا دیتے ہیں اور ان کے مابین نفرت کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے، پھر یہ ایک دوسرے پر اپنی جان قربان کرنے والے ایک دوسرے کی بات تک برداشت نہیں کرتے اور یوں جدائی اختیار کرلیتے ہیں! اولاد کو نصیحت کرنے والے والدین بُرے اور بد خواہ لگتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اولاد سمجھ جاتی ہے کہ واقعی والدین کی نصیحتیں درست تھیں! والدین کو جائز حق کا مطالبہ کرنے والی اولاد غلط لگتی ہے لیکن پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب والدین اپنے کو غلط قرار دے دیتے ہیں! نجانے کتنے ہی جھگڑے، تنازعات اور اختلافات ایسے ہوتے ہیں جن میں ہم مرنے، مارنے، قطعِ تعلقی اور شدید نفرتوں کے فیصلے کرلیتے ہیں، پھر جب وقت گزر جاتا ہے تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ وہ باتیں معمولی اور غیر ضروری تھیں، وہ فیصلے احمقانہ تھے، بیکار میں ان میں وقت اور صلاحتیں ضائع کیں! آج کا اچھا کل غلط دکھائی دیتا ہے اور آج کا غلط کل اچھا دکھائی دیتا ہے! محبتیں نفرتوں میں بدل جاتی ہیں اور نفرتیں محبتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں! وقت گزر جانے کے بعد بد گمانیوں کی بھی حقیقت کھل جاتی ہیں کہ یہ سب بے بنیاد باتیں تھیں! یہ ہے سوچوں اور خیالات کے سو رنگ اور رنگ بھی ایسے جو آپ خود بھرتے ہیں! یہ سب کیا ہے؟؟ یہ کیسی نفسیات ہیں، یہ کیسے خیالات ہیں، یہ کیسی سوچیں ہیں جو یکساں نہیں رہتیں، جو بدل جاتی ہیں، جن کو قرار نہیں، جن میں جزم نہیں، جو حرفِ آخر نہیں! تو پھر کیسی مایوسی؟ کیسے جھگڑے؟ کیسی خود کشی؟ کیسی بیزاری؟ کیسی نفرت؟ کیسا قطع تعلق؟ کیسی انا؟ اس سے معلوم ہوا کہ: ▪️مایوسی، ناامیدی اور بیزاری محض سوچ کا ایک رخ ہوتی ہے جو کہ یقینی نہیں، بلکہ اس کی دوسری طرف امید کا دیا بھی روشن رہتا ہے! ▪️ مایوسی، نا امیدی اور بیزاری ایک اٹل حقیقت نہیں جس کی بنیاد پر کوئی غلط قدم اٹھایا جائے، بلکہ یہ ایک وقتی کیفیت ہے، جسے طول دینے اور برقرار رکھنے کی بجائے اس سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے! ▪️ محض اپنی ضد اور انا کی وجہ سے یا اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے دوسروں کی نصیحتوں کو نظر انداز کرنا درست رویہ نہیں، بلکہ اپنے ہر معاملے میں بہر صورت یہ امکان رہنے دیجیے کہ آپ کی ذاتی رائے غلط ہوسکتی ہے، س ہمدردی اور خیر خواہی رکھنے والوں کی نصیحت توجہ سے سنیے اور اس پر غور کیجیے! ▪️ وقتی جذبات سے مغلوب ہوکر بلا سوچے سمجھے کوئی فیصلہ کرنے سے اجتناب کیجیے کہ یہ کسی طور دانشمندی کا تقاضا نہیں! ▪️ جو باتیں غیر ضروری، غیر اہم اور فضول ہیں انھیں سینے سے لگانے، دل میں پالنے اور ان کی بنیاد پر کوئی غلط رائے قائم کرنے یا غلط فیصلہ کرنے سے بالکلیہ بچنا چاہیے۔ ▪️ مایوسی، بیزاری، غصہ اور وقتی جذبات کی مثال تو اُس ندی کی سی ہے جو چڑھ جاتی ہے اور پھر اتر جاتی ہے! یہ تو عارضی اُبال ہے جس میں پائیداری اور دوام نہیں ہوتا! اس لیے اس وقت صبر وتحمل سے کام لینے اور دانشمندی کے فیصلے کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے! ✍️۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

❤️ 👍 10
Majlisulftawa
5/15/2025, 2:02:18 AM

آج کی تاریخ اور پیغام 15 مئی 2025 (جمعرات) 17 ذوالقعدہ 1446 ھ

Post image
❤️ 3
Image
Majlisulftawa
5/14/2025, 10:46:31 AM

🌹 *بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم* 🌹 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ #سلسلہ_مسائل_فقہیہ *#قربانی_کے_احکام* ━━❰・ *پوسٹ نمبر 11* ・❱━━━ *قربانی واجب ہونے کے لیے کس وقت صاحب نصاب ہونا ضروری ہے؟* قربانی واجب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص قربانی کے تین دنوں (یعنی 10، 11 اور 12 ذوالحجہ میں صاحب نصاب ہو، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے ان تین دنوں سے پہلے صاحب نصاب تھا یا ان تین دنوں کے بعد صاحب نصاب بنا لیکن قربانی کے ان تین دنوں میں صاحب نصاب نہیں تھا تو ایسے شخص پر قربانی واجب نہیں۔ اور یہ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے تین دنوں میں 12 ذو الحجہ کے سورج غروب ہونے سے پہلے کسی بھی وقت صاحب نصاب بن جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی، ایسی صورت میں اگر قربانی کے ایام میں جانور ذبح کرنے کا موقع نہیں ملا تو قربانی کے ایام ختم ہونے کے بعد اب درمیانے درجے کے بکرے یا دنبے کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اگر جانور خریدنے کے باوجود بھی قربانی کے ایام میں قربانی نہ کر سکا تو اب اسی جانور کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اسی کے ضمن میں فقہاء کرام رحمھم اللہ نے یہ مسئلہ بھی لکھا ہے کہ اگر فقیر شخص نے پہلے دن اپنی طرف سے قربانی کردی پھر وہ قربانی کے آخری دن مالدار ہوگیا تو اب اس پر دوبارہ قربانی لازم ہوجائے گی اور پہلی قربانی نفلی شمار ہوگی۔ 📚حوالہ: ☆ الدرالمختار مع ردالمحتار زکریا 9/453 ☆ بدائع الصنائع زکریا 4/198 ☆ فتح القدیر 9/519 ☆ قربانی شریعت کے مطابق کیجیے۔ ص 68 مرتب:✍ *مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ* +92 307 9819544 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ▒▓█ *مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ* █▓ ━━━━━━━❪❂❫━━━━━━

Post image
❤️ 3
Image
Majlisulftawa
5/15/2025, 9:58:21 AM

🌹 *بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم* 🌹 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ #سلسلہ_مسائل_فقہیہ *#قربانی_کے_احکام* ━━❰・ *پوسٹ نمبر 12* ・❱━━━ *گھر کے سربراہ کی ذاتی قربانی اس کے صاحب نصاب اہل و عیال کی طرف سے کافی نہیں۔* آج کل بعض لوگ عوام میں قربانی کے حوالے سے ایک غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ یہ کہ گھر کا سربراہ اگر اپنی طرف سے قربانی کرلے اور اس قربانی میں صاحب نصاب اہل و عیال کی قربانی کی نیت کرلے یا نیت نہ بھی کرے تو اس سربراہ کی ذاتی قربانی کی وجہ سے اس کے اہل و عیال کے دیگر تمام افراد کی طرف سے قربانی ادا ہوجائے گی اور اس کیلئے مسند احمد کی ایک روایت کا سہارا لیا جاتا ہے ، تو یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ احناف اور متعدد ائمہ کرام رحمھم اللہ تعالی کے نزدیک ہر صاحب نصاب شخص پر قربانی واجب ہے اور ایک شخص کی قربانی دیگر صاحب نصاب افراد کی طرف سے کافی نہیں، لہذا اگر کسی گھر میں صرف سربراہ ہی صاحب نصاب ہو تو ایک قربانی کافی ہوگی اور اگر سربراہ کے علاوہ دیگر افراد بھی صاحب نصاب ہو تو ہر ایک پر اپنے حصے کی قربانی لازم ہوگی، اور مسند احمد کی روایت کا مذکورہ مطلب جو بعض لوگ لیتے ہیں جمہور محدثین کرام اور فقہاء عظام رحمھم اللہ تعالی کے مطلب کے خلاف ہے۔ 📚حوالہ: ☆ قربانی شریعت کے مطابق کیجیے۔ ص 98-91 ☆ عمدة القاری ، باب الاشتراک فی الھدی و البدن مرتب:✍ *مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ* +92 307 9819544 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ▒▓█ *مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ* █▓ ━━━━━━━❪❂❫━━━━━━

Post image
👍 1
Image
Majlisulftawa
5/13/2025, 9:52:40 AM

✨❄️ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄️✨ 🌻 *علماء کے مابین اختلاف کی صورت میں کیا کیا جائے؟* 📿 *اہلِ حق علماء کرام کے مابین اختلاف کی صورت میں کس کی بات پر عمل کیا جائے؟* جب کسی دینی مسئلے میں اہلِ حق مستند اہلِ علم کا اختلاف سامنے آئے تو ایسی صورت میں عوام الناس کو چاہیے کہ وہ اپنی آخرت کو سامنے رکھتے ہوئے ان علماء کرام میں سے جن کے علم وعمل، تقوٰی اور دین میں مہارت پر زیادہ اعتماد ہو اسی کی بات پر عمل کریں، لیکن دیگر اہل علم کو بُرا نہ کہیں اور نہ ہی ان کی توہین اور استہزا کریں۔ چنانچہ مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’بہت سے لوگ جو اس حقیقت سے واقف نہیں وہ مذاہبِ فقہاء اور علماءِ حق کے فتووں میں اختلاف کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، اُن کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ علماء میں اختلاف ہے تو ہم کدھر جائیں؟ حالاں کہ بات بالکل صاف ہے کہ جس طرح کسی بیمار کے معاملہ میں ڈاکٹروں طبیبوں کا اختلافِ رائے ہوتا ہے تو ہر شخص یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان میں سے فنّی اعتبار سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار کون ہے، بس اس کا علاج کرتے ہیں، دوسرے ڈاکٹروں کر بُرا نہیں کہتے، مقدمہ کے وکیلوں میں اختلاف ہوجاتا ہے، تو جس وکیل کو زیادہ قابل اور تجربہ کار جانتے ہیں اس کے کہنے پر عمل کرتے ہیں، دوسروں کی بدگوئی کرتے نہیں پھرتے، یہی اصول یہاں ہونا چاہیے، جب کسی مسئلہ میں علماء کے فتوے مختلف ہوجائیں تو مقدور بھر تحقیق کرنے کے بعد جس عالم کو علم اور تقویٰ میں دوسروں سے زیادہ اور افضل سمجھیں اس کی اتباع کریں اور دوسرے علماء کو بُرا بھلا کہتے نہ پھریں۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اعلام الموقعین‘‘ میں نقل کیا ہے کہ ماہر مفتی کا انتخاب اور درصورتِ اختلاف ان میں سے اس شخص کے فتوے کو ترجیح دینا جو اس کے نزدیک علم اور تقوی میں سب سے زیادہ ہو، یہ کام ہر صاحبِ معاملہ مسلمان کے ذمہ خود لازم ہے، اس کا کام یہ تو نہیں کہ علماء کے فتو وں میں کسی فتوے کو ترجیح دے لیکن یہ اسی کا کام ہے کہ مفتیوں اور علماء میں سے جس کو اپنے نزدیک علم اور دیانت کے اعتبار سے زیادہ افضل جانتا ہے اس کے فتوے پر عمل کرے، مگر دوسرے علماء اور مفتیوں کو برا کہتا نہ پھرے، ایسا عمل کرنے کے بعد اللہ کے نزدیک وہ بالکل بَری ہے، اگر حقیقتًا کوئی غلطی فتویٰ دینے والے سے ہو بھی گئی تو اس کا وہی ذمہ دار ہے۔‘‘ (معارف القرآن: 3/ 365،366 مکتبہ معارف القرآن کراچی) یقینًا اس تحریر میں عام مسلمانوں کے لیے ایک بہترین لائحہ عمل ہے جس پر عمل پیرا ہونے اور جس کو مد نظر رکھنے سے ایسے امور میں پریشانی سے بچا جاسکتا ہے۔ ✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم فاضل جامعہ دار العلوم کراچی محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی 15 ذو القعدہ 1446ھ/ 13 مئی 2025

❤️ 👍 4
Image
Link copied to clipboard!