دارالافتاء،دیوبند
June 11, 2025 at 09:16 AM
*" وقف قانون کو الیکشن کا موضوع نہیں بنائیں گے "*
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے اس بیان سے اختلاف کرتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں ایک بڑے قومی انگریزی میڈیا ہاؤز دی۔ہندو کو انٹرویو دیتے ہوئے محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے ایک عجیب و غریب نکتہ بیان کیا جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے اس بابت ہم اپنی رائے واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔
دی ہندو نے محترم مولانا صاحب سے واضح طور پر بہار الیکشن کی صراحت کرکے سوال کیا کہ آئندہ دنوں میں جن ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں ان انتخابات پر اس وقف قانون کا کیا اثر پڑے گا ؟
جس کے جواب میں حیرت انگیز طور پر حضرت مولانا نے فرمایا کہ وہ وقف معاملے کو الیکشن کا موضوع نہیں بنائیں گے انہوں نے فرمایا کہ :
" آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم نہ کسی جماعت کی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کی مخالفت۔ ہم اس معاملے کو انتخابی سیاست کا مسئلہ نہیں بنائیں گے۔ جہاں تک کسی جماعت کا اس وقف بل کی حمایت کرنا ہے، تو یہ افسوسناک ہے کہ ہمارے کئی سیاسی رہنما اپنے ضمیر کی آواز نہیں سنتے۔
میں حیرت زدہ ہوں کہ حضرت مولانا جوکہ صدرِ بورڈ بھی ہیں وہ بہار الیکشن کے تناظر میں ایسا موقف کیسے اختیار کر سکتے ہیں ؟ حضرت ! آپ بہت محترم ہیں لیکن آپ کی یہ بات ناقابلِ اتفاق ہے، کیا بورڈ یا کسی بھی ملی جماعت کو خود کوئی الیکشن لڑنا ہے ؟ بلکہ الیکشن کے تناظر میں ناانصافی کرنے والوں پر دباؤ ڈالنا ہے جوکہ اس پوری جمہوری دنیا میں قوموں کی پالیسی ہوتی ہے، جب پارلیمنٹ سے آپ کے خلاف کوئی ظالمانہ قانون بن کر آرہا ہے تو اس کے جواب میں آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں؟ پھر تو آپ شعوری طور پر اس مسئلے سے نمٹنے کی قیادت کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں یا نہیں اسی پر سوال اٹھتا ہے ! جبکہ الیکشن ہی سب سے زیادہ مناسب اور موزوں موقع ہوتا ہے جب ان سیاستدانوں کو مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ دہی پر سبق سکھایا جاسکے۔
اور پھر خاص طور پر بہار میں نتیش کمار کو اور آندھرا پردیش میں چندرابابونائیڈو کو الیکشن کےدوران یہ سبق سکھانے کی ضرورت ہے جن کی مودی نوازی اور چھپی ہوئی ہندوتوادی ذہنیت نے وقف قانون کو مسلمانوں پر مسلّط کرایا ہے۔
یہ بھی زمینی حقیقت ہی ہےکہ پرسنل لا بورڈ کے جلسوں سے وقف قانون کے خلاف کوئی اثر مرتب ہی نہیں ہورہا ہے بلکہ وہ اتنے کمزور انداز میں جاری ہیں کہ حکمران جماعت پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور اس نے وقف قانون کو نافذ کرنے کی تیاری بھی کرلی ہے ۔ بورڈ کو اپنے احتجاجی رخ کو آئینی جارحیت کی طرف موڑنا ہوگا ورنہ گزرتے دنوں کےبعد اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔
کم از کم بہار میں تو نتیش کمار کے خلاف وقف قانون کو ایشو بناکر امارت شرعیہ اور اس کے امیر محترم فیصل رحمانی صاحب نے ایک زبردست مہم چھیڑ رکھی ہے اور زمینی سطح پر ماحول بنادیا ہے اور یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے *بھاجپائی ریاستوں میں سے صرف بہار واحد ریاست ہے جہاں پر وقف قانون کے معاملے پر مودی کے معاونین کو مسلمانوں نے گھیر رکھا ہے اور تمام عصبیتوں سے پرے دیکھیں تو زمین سے جڑا ہر شخص جانتا ہے کہ اس بل کو پاس کرانے والوں کے خلاف فیصل رحمانی صاحب کی ٹیم نے بہار میں مورچہ سنبھال رکھا ہے اور ان کے الیکشن پر دباؤ بنارہے ہیں، یہ بالکل زمینی صورتحال ہے، ماحول گرم ہے اور مودی۔شاہ کے مددگاروں کی نیندیں خراب ہوچکی ہیں کیونکہ وقف قانون کے خلاف بہار میں امارت شرعیہ کی یہ مہم نتیش کمار کو الیکشن میں صاف طور پر نقصان پہنچاتے ہوئے نظر آرہی ہے، لیکن اب اگر پرسنل لا بورڈ کے صدر صاحب کھلے عام واضح طور پر بہار کے الیکشن کے تناظر میں یہ کہیں گے کہ ہم وقف قانون کو الیکشن کا ایشو بناکر کسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت نہیں کریں گے تو بتائیے کہ اس کا راست نقصان بہار میں امارت شرعیہ کی کوششوں کو نہیں پہنچے گا کیا ؟* اور اس کا فائدہ کس کو ہوگا؟
ہم مسلمانوں کو الیکشن میں ہی تو یہ لوگ بیوقوف بناتے ہیں جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور پھر بعد میں ہمارے حقوق اور شعائر پر وار کرتے ہیں اگر ہم الیکشن میں انہیں سبق نہیں سکھاتے ہیں توپھر ہمارے پاس اور کونسا موقع ہے؟ جبکہ جمہوریت میں تو انتخابات میں ہی زندہ قومیں اپنی زندگی کا ثبوت دیتی ہیں دیتی آئی ہیں ۔
*اگر بہار میں یہ کوشش کامیاب ہوجاتی اور الیکشن میں نتیش کمار کو نقصان پہنچ جاتا تو سوچیے کہ دیگر پارٹیوں میں کیسا خوف پھیل جاتا ؟* لیکن اب چونکہ اس بابت صاف صاف پرسنل لا بورڈ کے صدر صاحب کی جانب سے ایسا بیان سامنے آچکا ہے تو ظاہر ہےکہ یہ مہم بہار میں متاثر ہوجائےگی۔
اگر پرسنل لا بورڈ کی یہ پالیسی ہےکہ وہ وقف قانون پاس کرانے والی پارٹیوں کے خلاف انتخابی سیاست کے وقت سبق سکھانے کی مہم چلانے کے خلاف ہے تو اسے اپنی اس پالیسی پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مولانا خالد صاحب کی شخصیت کا احترام ہے لیکن ملی معاملات میں ان کی پالیسیوں سے اختلاف رائے رکھتے ہیں کیونکہ زمینی بنیادوں پر ایسی پالیسیوں کو ملت کے حق میں نہیں سمجھتے ہیں ۔
وقف قانون کو مسلمانوں کی جانب سے الیکشن کا گرماگرم موضوع بنانا چاہیے ورنہ تین طلاق کے قانون پر مسلمانوں کو یہ سیکولر ہندو پارٹیاں بیوقوف بنا کر چلی گئی تھیں اب وقف قانون کے بعد یہ یونیفارم سول کوڈ پر بھی ایسے ہی کریں گی، بہار میں امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے جس شخصیت نے وقف قانون کے خلاف سب سے بڑا زمینی ماحول کھڑا کیا ہے وہ ایک زمینی حقیقت ہے ویسا احتجاجی ماحول زمینی سطح پر دیگر کسی ریاست میں نہیں ہے اس حقیقت کو قبول کرکے مسلمانوں کے مشن پر کام کرنے والوں کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا چاہیے ۔ وقف قانون کو الیکشن کا موضوع نہ بنانے والی یہ بات بہت غلط ہے اس سے وقف قانون کو پاس کرانے والے مودی کے مددگار مطمئن ہوں گے ۔
👍
❤️
🙏
5