
🌱اَلدِّيْنُ اَلنَّصِيْحَةُ🌱
June 1, 2025 at 10:50 AM
*📌 المبادرة إلى الخيرات*
> *نیکیوں کی طرف پیش قدمی*
*🕌 خطيب المسجد الحرام:*
> معالي الشيخ الدكتور *صالح بن عبد الله بن حميد* حفظه الله تعالى
الغفلة رأس الخطايا، يقول الحسن رحمه الله:
"الحسنة نور في القلب، وقوة في البدن،
والسيئة ظلمة في القلب، ووهن في البدن،
وظلم المعصية يطفئ نور الطاعة".
غفلت گناہوں کی جڑ ہے۔
امام حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نیکی دل کا نور اور جسم کی طاقت ہے،
جبکہ گناہ دل کی تاریکی اور جسم کی کمزوری ہے،
اور معصیت کا ظلم اطاعت کے نور کو بجھا دیتا ہے۔"
فاجتهدوا - رحمكم الله - في المبادرة إلى الخيرات، والمسارعة في الطاعات، والمسابقة إلى الصالحات،
(وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ * أُوْلَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ)،
(وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ)،
(لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ)،
(فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ)،
فإن الآفات تعرض، والموانع تمنع، والموت يأتي بغتة،
والتسويف من مداخل الشيطان، والمبادرة أخلص للذمة،
وأحسم في الأمر، وأبعد عن المطل، وأرضى للرب، وأمحى للذنب.
پس اے اللہ کے بندو! نیکیوں کی طرف پیش قدمی میں کوشش کرو،
طاعات میں جلدی کرو،
نیک اعمال میں ایک دوسرے سے سبقت لو،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"(اور وہ سبقت لے جانے والے ہی سبقت لے جانے والے ہیں، یہی لوگ اللہ کے مقرب ہیں)"
"(پس نیکیوں میں سبقت کرنے والے آپس میں سبقت کریں)"
"(ایسے ہی لوگوں کے لیے عمل کرنے والے عمل کریں)"
"(نیکیوں کی طرف دوڑو)"
کیونکہ آفات اچانک آتی ہیں، رکاوٹیں راستہ روک لیتی ہیں،
اور موت بےخبری میں آ جاتی ہے۔
تسویف (کام مؤخر کرنا) شیطان کے راستوں میں سے ہے،
جبکہ پیش قدمی ذمہ داری سے سبکدوشی،
فیصلہ کن اقدام، وعدہ خلافی سے بچاؤ،
رب کو خوش کرنے اور گناہ مٹانے کا ذریعہ ہے۔
ولقد استوقف الصالحين قول الله عز وجل:
(إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ)،
وكان فيها خوف السلف، بكى عامر بن عبد الله حين حضرته الوفاة،
فقيل له: ما يبكيك، وقد كنت وكنت ؟
فقال: "إني أسمع الله يقول: (إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ)"،
ويقول أبو الدرداء رضي الله عنه:
"لأن أستيقن أن الله قد تقبل مني صلاة واحدة
أحب إلي من الدنيا وما فيها،
إن الله يقول: (إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ)"*
نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بہت متاثر کرتا تھا:
"(اللہ تعالیٰ تو صرف متقین کے اعمال قبول کرتا ہے)"
یہی بات سلف کے دل میں خوف پیدا کرتی تھی۔
عامر بن عبد اللہ رحمہ اللہ جب وفات کے قریب تھے تو رونے لگے،
لوگوں نے پوچھا: "آپ کیوں روتے ہیں، حالانکہ آپ نے تو یہ سب نیکیاں کیں؟"
انہوں نے فرمایا:
"میں اللہ کا یہ فرمان سنتا ہوں: (بیشک اللہ متقین سے قبول کرتا ہے)"
اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:
"مجھے اگر یقین ہو جائے کہ اللہ نے میری ایک نماز قبول کر لی ہے،
تو یہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہے،
کیونکہ اللہ فرماتا ہے: (بیشک اللہ متقین سے قبول کرتا ہے)"

❤️
1