
NJ News Official
June 11, 2025 at 05:57 PM
اوچ شریف: ایک تاریخی شہر کی داستان
-----------------------
جنوبی پنجاب کے قلب میں، جہاں پانچ دریا مل کر ایک عظیم سنگم بناتے ہیں، ایک ایسا شہر واقع ہے جو کبھی ایک عظیم سلطنت کا درخشاں دارالحکومت تھا۔ اس شہر سے علم و حکمت کے چشمے پھوٹے جنہوں نے پورے برصغیر کو سیراب کیا، لیکن آج یہ شہر اپنی کھوئی ہوئی شان کے ساتھ محض ایک قصبے کی حیثیت رکھتا ہے۔
بہاول پور سے جنوب مغرب کی جانب 73 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ شہر کبھی سات بڑی بستیوں پر مشتمل تھا۔ 36 میل لمبائی اور 24 میل چوڑائی کے وسیع رقبے پر پھیلا یہ شہر اپنی عظمت کے دنوں میں تہذیبی و ثقافتی مرکز تھا۔ اس کی زوال پذیری کا آغاز 400 عیسوی میں ہوا جب وسطی ایشیا سے آنے والی ہن قوم نے اسے تاراج کیا۔ وقت کے بےرحم ہاتھوں نے اس شہر کو بارہا تباہ کیا اور بارہا آباد ہونے کا موقع دیا۔ اپنی تاریخی گہرائی اور تہذیبی اہمیت کے باعث اس شہر کا رشتہ ہڑپہ اور موہن جو ڈرو کی قدیم تہذیبوں سے جا ملتا ہے۔
صدیوں پرانی تاریخ رکھنے والے اس شہر نے کئی عروج و زوال دیکھے۔ مختلف ادوار میں اسے مختلف ناموں سے پکارا گیا: کبھی اسپیڈا، کبھی اساش، کبھی اوسا، کبھی دیو گڑھ، کبھی سکلاندا، کبھی سکندریہ، اور کبھی ہود یا چچ۔ ناموں کے اس طویل سفر کے بعد یہ شہر بالآخر اوچ شریف کہلایا۔ "شریف" کا لاحقہ اس کی روحانی عظمت اور تقدس کی علامت ہے۔
550 قبل مسیح میں آباد ہونے والا یہ شہر اپنی تاریخی، ثقافتی اور روحانی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ فاتحین، عالموں اور صوفیوں کی توجہ کا مرکز رہا۔ اس کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی اہمیت نے ہر دور میں عارفوں، سادھوؤں اور بعد از اسلام اولیاء کرام کو اپنی طرف کھینچا، جن کے آثار آج بھی یہاں موجود ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اوچ شریف دریائے ہاکڑا کے کنارے آباد ہوا۔ اس دریا کی باقیات آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ صحرائے چولستان میں واقع قدیم قلعوں کی باقیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہاں کبھی زرخیزی اور خوشحالی کا دور دورہ تھا۔
برصغیر میں اسلام کی آمد سے قبل یہ علاقہ ہندو سلطنت کا حصہ تھا، اور اوچ اس کے کلیدی شہروں میں سے ایک تھا۔ اس دور میں یہاں متعدد قلعے اور فصیلیں تعمیر ہوئیں۔ محمد بن قاسم اور سلطان محمود غزنوی کی آمد سے ہندو سلطنت زوال پذیر ہوئی، اور اوچ شریف کو ترقی اور عروج کے نئے مواقع ملے۔
اوچ شریف: اسلامی علوم کا گہوارہ
اوچ شریف میں اسلامی تعلیمات کی ابتدا 370 ہجری میں حضرت صفی الدین گاذرونی کی آمد سے ہوئی۔ وہ برصغیر میں آنے والے پہلے صوفی بزرگ تھے جنہوں نے صرف 17 سال کی عمر میں "جامعہ فیروزیہ" کی بنیاد رکھی، جو برصغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی تھی۔ اس ادارے نے اس وقت اسلامی تعلیمات کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا جب ہندوستان کا ماحول مسلمانوں کے لیے مکمل طور پر سازگار نہیں تھا۔
سلطان ناصر الدین قباچہ (607 ہجری تا 625 ہجری) کے دور میں اس جامعہ نے عروج دیکھا۔ مشہور مورخ قاضی منہاج سراج اس کے صدر مدرس تھے، اور اس وقت یہاں اڑھائی ہزار طلبہ زیر تعلیم تھے۔ اس دور میں اوچ شریف کو سلطنت کا دارالحکومت بنایا گیا، اور یہ شہر خوشحالی کی بلندیوں پر جا پہنچا۔ منگولوں کے حملوں کے باوجود اس نے اپنی اہمیت برقرار رکھی۔ تاہم، التمش کے حملے نے اس شہر کو شدید نقصان پہنچایا۔ جامعہ فیروزیہ سمیت کئی مدرسوں اور کتب خانوں کو تباہ کر دیا گیا۔ التمش نے دہلی کو اپنا دارالحکومت بنایا، اور اوچ شریف اپنی کھوئی ہوئی حیثیت دوبارہ حاصل نہ کر سکا۔
اوچ شریف کا نام اور اس کی کہانی
ایک روایت کے مطابق، جب راجہ دیو سنگھ اس علاقے کا حکمران تھا، حضرت سید جلال الدین سرخپوش نے اس سے یہ شہر حاصل کیا۔ راجہ کی خوبصورت بیٹی اوچاں رانی نے اسلام قبول کیا، اور حضرت سید جلال نے اس شہر کا نام اس کے نام پر اوچ رکھ دیا۔
اوچ شریف ہمیشہ صوفیائے کرام اور بزرگان دین کی سرزمین رہا۔ حضرت صفی الدین گاذرونی، حضرت سید جلال الدین سرخپوش، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت، حضرت صدر الدین راجن قتال، اور دیگر عظیم ہستیوں کے مزارات یہاں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں تاریخی نوادرات اور تبرکات بھی اس شہر کے تقدس کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔
ہمایوں کے دور میں اوچ مرزا کامران کے زیر انتظام تھا۔ مغلیہ سلطنت کے ساتھ الحاق کے بعد یہ اس کا حصہ بن گیا۔ مرزا کامران کے دور میں کئی مزارات کی تعمیر و مرمت ہوئی۔ بہاولپور میں عباسیہ سلطنت کے قیام کے بعد اوچ اس کا حصہ بنا۔ سکھوں کے دور میں اس شہر پر دو بار حملے ہوئے، جن سے اسے کافی نقصان پہنچا۔
1817 کے سیلاب نے اوچ کے قدیم آثار کو بری طرح متاثر کیا، اور کئی نشانیاں بہہ گئیں۔ تاہم، چند باقیات آج بھی موجود ہیں، جو اپنی تاریخی اہمیت کی گواہی دیتی ہیں۔
اوچ کے تاریخی مقبرے
اوچ شریف کے تین مشہور مقبرے اس کی تاریخی اہمیت کی علامت ہیں۔ پہلا مقبرہ حضرت بی بی جیوندی کا ہے، جو مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی پوتی اور ایک صوفی خاتون تھیں۔ یہ مقبرہ 15ویں صدی میں خراسان کے حکمران محمد دلشاد نے تعمیر کروایا۔ دوسرا مقبرہ حضرت بہاء الحلیم کا ہے، جو مخدوم جہانیاں کے استاد تھے۔ تیسرا مقبرہ ان مقبروں کے معمار استاد نوریا کا ہے، جن کی فنکارانہ مہارت نے انہیں عظیم الشان بنایا۔ یہ مقبرے آج اپنی خستہ حالی کے باعث زوال پذیر ہیں۔
اوچ کی تہذیبی میراث
اوچ شریف آریائی دور میں آباد ہوا۔ آریائی قوم کی آمد کے ساتھ ذات پات کا نظام بھی اس خطے میں متعارف ہوا، جو اس کی تعمیرات میں جھلکتا ہے۔ آج بھی اوچ میں آریائی اثرات دیکھے جا سکتے ہیں، لیکن اس ورثے کے تحفظ کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
1998 میں یونیسکو نے اوچ کے چار مقامات کو اپنی واچ لسٹ میں شامل کیا۔ بی بی جیوندی کا مقبرہ، جو ملتانی فن تعمیر کا شاہکار ہے، 2000 میں دنیا کی 100 قدیم عمارات میں سرفہرست تھا۔ امریکی قونصلیٹ اور دیگر شخصیات نے اس کے تحفظ کے لیے عطیات دیے، لیکن ان کا مناسب استعمال نہ ہو سکا۔
*تیز ترین خبروں تبصروں اور دنیا بھر کی معلومات کے لیے ہمارے واٹس ایپ چینل کو فالو کیجئے...*
*https://whatsapp.com/channel/0029Vah5UFD6xCSQGfEIAy3P*
