❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 11, 2025 at 06:18 AM
کیا حجر اسود کو چومنا حج کا حصّہ نہیں ؟؟ حضرت انسان جب انکار کرنے پر آئیں تو حیی و قیوم اللہ کا انکار کر دیتے ہیں کہ جو خود اس کا اپنا خالق ہے ، یہ حجر اسود تو پھر ایک بےجان پتھر ہے ۔ 📌 میاں شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کے عمرے میں دیئے گئے پروٹوکول پر تنقید کرتے ہوئے ایک مجہول الحال اکاؤنٹ سے حجر اسود کے مقام و فضیلت کا انکار کیا گیا ۔ اور اسے حج کا حصّہ تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا ، اس کے استیلام [یعنی دوران طواف چومنا یا اشارہ کرنا ] کو محض مولویوں کی من گھڑت رسم قرار دیا گیا ۔ 📌اعتراض کا ایک پہلو سیاسی تھا کہ اعتراض تھا ۔۔۔شاہی پروٹوکول اور اس میں خاص افراد کا پروٹوکول عمومی مساوات کا گویا قتل ہے ۔۔۔ تو عرض ہے کہ اگر واقعی ایسا ہے تو سابقہ وزیر اعظم عمران خان بھی اسی پروٹوکول سے ساتھیوں سمیت بہروہ ور ہوئے تھے اور تب ان " صاحب" کو کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا ۔۔ یعنی اعتراض پروٹوکول پر نہیں بلکہ ان افراد پر ہے کہ جن سے ناپسندیدگی کا رشتہ ہے ۔ 📌۔۔ جہاں تک تعلق ہے کہ حجر اسود کا استیلام حج کا حصّہ نہ ہونے کے دعوے کا ، تو بنیادی طور پر یہ دعویٰ حجر اسود کا انکار نہیں بلکہ حدیث رسول کے بطور منبع قانون ہونے کا انکار ہے ۔ یہ موصوف اور اس قبیل کے لوگ کھلے منکرین حدیث ہوتے ہیں لیکن شوگر کوٹڈ باتیں کر کے لوگوں کے قلوب و اذہان کو اسلامی احکامات بارے تشکیک میں مبتلاء کرتے ہیں ۔ اور پھر یہی شک آگے جا کر کھلے انکار میں بدل جاتا ہے ۔ 📌۔۔ حجر اسود کے استلام کا حج کا حصہ ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے عرض ہے کہ حجر اسود کا استیلام بنیادی طور پر طواف کا حصہ ہے ، طواف چاہے نفلی کریں ، عمرے کا کریں یا حج کا ، جب جب آپ حجر اسود کے سامنے سے گزریں گے تب تب اسے چوما جائے گا اور ہجوم کے سبب اگر چومنا ممکن نہیں تو اس کی طرفدور سے اشارہ کیا جائے گا یہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا جیسا کہ احادیث میں ہے 👈 ۔۔ نافع رحمہ اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما نے حجراسود کا استلام کیا اورپھر اپنے ہاتھ کوچوما، اور فرمانے لگے میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1268 )۔ 👈 ۔۔ ابوطفیل رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے اورحجر اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کرکے چھڑی کوچومتے تھے۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1275 )۔ 👈 ۔۔ اور اگر کسی سبب چومنا ممکن نہیں تو اشارہ کیا جائے گا جیسا کہ اس حدیث میں ہے ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پرطواف کیا توجب بھی حجر اسود کے پاس آتے تواشارہ کرتے اوراللہ اکبر کہتے۔ صحیح بخاری ۔ اج کل حرم میں دوران طواف ہجوم اتنا ہوتا ہے کہ خواتین یا کمزور صحت والے کے لیے چومنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے تو وہ اشارے سے یہ عمل کر سکتے ہیں ۔ 📌۔۔ اب یہ جو دعوی کیا گیا ہے کہ "حجر اسود کو چومنا حج کا حصہ نہیں" ان احادیث کی رو سے ہی باطل ٹھہرتا ہے ۔ اب جب طواف حج کا حصہ ہے تو خود طواف کا طریقہ کار بھی عین اسی طرح حج کا حصہ ہوگا۔ کسی بھی مسلمان کے لیے حتمی دلیل رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے اگر قرآن کریم میں حج کا حکم دیا گیا تو حج کیسے کرنا ہے یہ معلوم کرنے کے لیے بھی مسلمان کو اللہ کے رسول کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور آپ کا عمل دیکھنا پڑے گا اب اگر کوئ شخص اللہ کے نبی کے عمل کا انکار کرتا ہے تو گویا وہ قرآن کے حکم کا انکار کرتا ہے ۔ اپنے انکار کو یار لوگوں نے مولویوں اور راویوں کے پردے میں چھپایا ہوتا ہے کہ: "جی ہم اللہ کے رسول کا انکار تو نہیں کرتے ،ہم تو ان مولویوں اور راویوں کا انکار کرتے ہیں" ۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کے نبی کے افعال ،اعمال ، طریقہ کار ، سنت ، عبادات کے احکامات اور قرآن کے احکامات کی تشریح اور توضیح ہم تک پھر کس ذریعے سے پہنچی ہے ؟ اور جب آپ راویوں کا انکار کرتے ہیں تو گویا آپ انکار کا وہ دروازہ کھولتے ہیں ، جو الحاد سے پہلے بند نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس کو جو بات سمجھ نہیں آئے گی یا جس کے نزدیک جو حدیث "اس کی ذاتی عقل" پر پوری نہیں اترتی وہ یہ کہہ کے انکار کر دے گا : "جی یہ راویوں کی باتیں ہیں ، مولویوں کی باتیں ہم ان کو ماننے کے پابند نہیں ہیں" 💥 " کیا حجر اسود کا استلام یا تعظیم بت پرستی ہے ؟ " گو اس سوال کا بہترین جواب سیدنا عمر دے چکے کہ جب آپ دوران طواف حجر اسود پر پہنچتے ہیں اور اس کا بوسہ لیتے ہیں تو فرماتے ہیں " إني أعلم أنک حجر، لا تضر و لا تنفع. ” بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔ تو نہ نفع دیتا ہے نہ نقصان۔ “ اور ہر کس و ناکس جانتا ہے عبادت کا مقصود ہی بندگی ہے اور بندگی اس کی ، کی جاتی ہے کہ جو نفع نقصان کا مالک ہوتا ہے اور دنیا میں کمزور سے کمزور عقیدے کا کوئی ایک مسلمان بھی ایسا نہیں ہوگا کہ جو تمام تر عقیدت کے باوجود حجر اسود کو نفع و نقصان کا مالک سمجھے ۔سب اس سے اگر محبت کرتے ہیں تو اس سبب محبت کرتے ہیں کہ اس پہ آقا علیہ السلام کے ہونٹ لگے تھے اور ان کی سنت جان کر اس کا استیلام و تعظیم کی جاتی ہے ۔ فہم و شعور کی یتیمی کا یہ عالم ہے کہ اگر بت پرستی کا الزام دینا ہے تو بذاتِ خود طواف اس سے زیادہ بڑی اور نمایاں عبادت ہے کہ جو ایک پتھر کے گھر کے گرد گھوم کر کی جاتی ہے ۔ خانہ کعبہ مکمل پتھر کا بنا اور اس کی تعظیم بھی کی جاتی ہے اس کے گرد چکر لگائے جاتے ہیں ۔ لیکن ہم پھر وہی بات کہیں گے کہ دراصل یہ تعظیم ان پتھروں کی نہیں بلکہ اللہ کے حکم کی ہے اور ان اس حکم کی جو رسول کی زبان اطہر سے ہم تک پہنچے ۔ اور یہ گھر یعنی بیت اللہ اگر قابل تعظیم ہے تو ان پتھروں کے سبب نہیں کہ جو اس کی دیواروں میں موجود ہیں بلکہ اللہ کی ذات کے حکم کے سبب ہے کہ جس نے اس کو معزز محترم اور مکرم گھر قرار دیا ۔ اسی طرح اس کی عبادت نہیں کی جاتی ، یہ عبادت کا مقام ہے ، عبادت اس اللہ کی کی جاتی ہے ۔ عین اسی طرح حجر اسود کی عبادت نہیں کی جاتی وہ عبادت کا ایک مقام ہے عبادت اللہ کی ہی کی جاتی ہے۔ ۔ Abubakr Quddusi

Comments