❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 11, 2025 at 11:15 AM
*بجٹ 2025ء — حکومتی بےحسی کی تازہ ترین روداد*
✍🏻 *محمد اسامہ پسروری*
ہر سال بجٹ محض ایک مالیاتی دستاویز نہیں ہوتا، بلکہ یہ اس سوچ، ترجیح، سمت اور نیت کا عکس ہوتا ہے جو حکومت وقت اپنے عوام کے لیے رکھتی ہے۔ بجٹ اصل میں ایک آئینہ ہوتا ہے جس میں حکومتی شعور، معاشی بصیرت، سماجی احساس، اور پالیسی سازی کی سنجیدگی جھلکتی ہے۔ مگر بجٹ 2025ء کو دیکھ کر جو عکس ابھرتا ہے، وہ افسوسناک حد تک منتشر، خودغرض، اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ یہ بجٹ درحقیقت ایک طبقے کے لیے تحفظ، اور باقی تمام طبقات کے لیے معاشی سزا ہے۔
بجٹ میں سب سے نمایاں بات حکومت کا وہ رویہ ہے جسے "معاشی طبقاتی امتیاز" کہا جا سکتا ہے۔ ایک طرف طاقتور طبقے کو ٹیکس چھوٹ، مراعات اور مالیاتی آسانیاں دی گئی ہیں، اور دوسری طرف محنت کش، تنخواہ دار، متوسط طبقہ اور غریب شہری کے لیے نئے ٹیکس، سبسڈی کا خاتمہ، قیمتوں میں اضافہ اور روزمرہ ضروریات کی اشیاء پر غیر محسوس بوجھ بڑھا دیا گیا ہے۔ *یہ صرف معاشی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی اور اخلاقی جرم ہے۔*
اس بجٹ میں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبے ایک بار پھر غیر اہم سمجھے گئے ہیں۔ تعلیم کے لیے مختص بجٹ افراطِ زر کے تناسب سے کم ہے، گویا قوم کے بچوں کے لیے نہ معیاری تعلیم کی امید باقی رہی اور نہ کسی روشن مستقبل کا وعدہ۔ صحت کے شعبے کی حالت بھی ایسی ہی ہے جہاں پبلک سیکٹر اسپتال مریضوں کے ہجوم سے تو بھرے ہیں، مگر بجٹ میں اُن کے لیے وسائل خالی رکھے گئے ہیں۔
حکومت کی اس مالیاتی دستاویز میں زراعت کو نظر انداز کرنا دراصل غذائی خودمختاری کو دانستہ ختم کرنے کی کوشش ہے۔ کسانوں کے لیے نہ رعایتی کھاد، نہ پانی کی بہتر اسکیمیں، نہ زرعی مشینری پر رعایت مگر بڑے فارم ہاؤسز اور ایکسپورٹ کارپوریٹس کے لیے آسانیاں برقرار ہیں۔ یہ بجٹ کسی زرعی ملک کا نہیں، بلکہ ایک درآمداتی ذہنیت رکھنے والے مافیائی نظام کا ترجمان لگتا ہے۔
عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ مشکل فیصلے کرنے کی گھڑی آپہنچی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مشکل فیصلے ہمیشہ غریب کے حصے میں ہی کیوں آتے ہیں؟ کیا اشرافیہ، بیوروکریسی، اور عسکری و سیاسی مراعات یافتہ طبقے کو ایک بار بھی قربانی کے دائرے میں لانے کی ہمت دکھائی گئی؟ پروٹوکول، سرکاری گاڑیاں، مفت سہولیات، درجنوں وزیروں اور مشیروں کا بوجھ، بیرونِ ملک علاج، شاہانہ تنخواہیں یہ سب بجٹ سے باہر کیوں رکھے جاتے ہیں؟
اس بجٹ میں سب سے زیادہ غیر ذمہ داری جس پہلو میں دکھائی دیتی ہے، وہ ہے عوامی اعتماد کی بےقدری۔ عوام پہلے ہی بےیقینی، معاشی دباؤ اور ذہنی تھکن کا شکار ہیں، ایسے میں ان کے لیے نہ کوئی اعتماد بحال کیا گیا، نہ کوئی معاشی تحفظ کا پیغام دیا گیا۔ صرف اعداد و شمار، خوش کن جملے، *اور بیوروکریسی کی زبان میں لکھی گئی تقریریں* یہ سب بجٹ کو زندہ حقیقت بنانے کے لیے ناکافی ہیں۔
اگر معیشت صرف حکومتی بیانیے اور اشرافیہ کی مسکراہٹ سے چلنی ہوتی، تو پاکستان آج ترقی یافتہ ہوتا۔ مگر سچ یہ ہے کہ معیشت زمینی حقیقتوں سے بندھی ہے، اور موجودہ بجٹ نے اُن حقیقتوں سے نظریں چرا کر یہ ثابت کیا ہے کہ یہ حکومت اقتدار تو چاہتی ہے، مگر ریاست چلانے کی صلاحیت، وژن اور خلوص سے محروم ہے۔
یہ بجٹ کوئی تکنیکی ناکامی نہیں، بلکہ فکری بددیانتی کا مظہر ہے۔ یہ صرف حسابی توازن کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی احساس زیاں ہے۔ اگر بجٹ کا مطلب محض قرض، ٹیکس، اور فائلوں کی ترتیب ہی ہے، تو پھر ریاست کا تصور باقی نہیں رہتا۔ ریاست وہی ہے جو کمزور کا سہارا بنے اور جب ریاست اس سے انکار کر دے، تو پھر یہ نظام محض طاقتوروں کی جاگیر بن جاتا ہے۔
بجٹ 2025ء اس جاگیرداری ذہنیت کا باضابطہ اعلان ہے۔