❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 11, 2025 at 06:25 PM
‏پریس ریلیز برائے اشاعت 12 جون، 2025 11 جون 2025 تحریکِ لبیک پاکستان لاہور: ( ) سربراہ تحریکِ لبیک پاکستان حافظ سعد حسین رضوی کی جانب سے وفاقی بجٹ برائے مالی سال 26-2025 کی کل پیش کردہ تجاویز کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ رپورٹس کے مطابق بجٹ میں سود اور قرض کی ادائیگی پر کل اخراجات کا تقریباً 46 فیصد حصہ خرچ ہوگا۔ قرض کی سروسنگ پر اس قدر بڑا بوجھ رکھنا دیگر شعبوں کے لیے بجٹ کی گنجائش کم کر دیتا ہے۔ جب آمدنی کا بڑا حصہ قرض کی ادائیگی میں خرچ ہو گا تو عوامی شعبہ جات، انفراسٹرکچر اور انسانی سرمایہ کاری کے لیے مناسب وسائل میسر نہیں رہیں گے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مالی ذمہ داریوں کے بوجھ کو کم کرنے اور سود کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے فوری اور موثر حکمتِ عملی نہ اپنانے سے مستقبل میں معاشی کمزوری بڑھ سکتی ہے، جس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑے گا۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو بڑھایا جائے گا اور ٹیکس بیس کو وسیع کیا جائے گا، مگر عملی طور پر نچلے اور درمیانی طبقہ پر مہنگائی اور یوٹیلیٹی بلز میں اضافے کی صورت میں براہِ راست منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ کچھ ٹیکس ریلیف بھی تجویز کیے گئے ہیں، تاہم IMF پروگرام کی وجہ سے سبسڈی میں ممکنہ کمی اور ٹیکس نیٹ میں شمولیت کے کم امکانات کے پیشِ نظر عام لوگوں کے اخراجات بڑھیں گے۔ وہ ریلیف جو چند ٹیکس سلیب میں دکھایا گیا ہے، عملی نفاذ اور انتظامی پیچیدگیوں کے باعث عام صارف تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا کرے گا۔ صنعت اور زراعت کے شعبوں میں سبسڈی نہ دے کر تاجر برادری کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے۔ درآمدات اور برآمدات جیسے اہم شعبہ جات کے لیے کوئی بہتر اقدامات نہ کرنا ملکی معیشت کو سخت نقصان پہنچائے گا۔ سربراہ تحریکِ لبیک پاکستان نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس نظام میں شمولیت کو آسان بنایا جائے، ٹیکس کلیکشن میں شفافیت لائی جائے، ٹیکس میں چھوٹ دینے کے لئے بروقت عمل اور فوری ریلیف فراہم کیا جائے تاکہ متوسط اور کم آمدنی والے طبقات پر غیر ضروری بوجھ نہ بڑھے۔ وفاقی کابینہ نے 10 فیصد تنخواہ اور 7 فیصد پنشن میں اضافہ منظور کیا ہے۔ تاہم موجودہ مہنگائی کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے یہ اضافہ وقتی ریلیف تو دے سکتا ہے مگر طویل مدتی اور حقیقی قوتِ خرید کو بحال کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ تنخواہوں و پنشن میں اضافہ افراط زر (جو فی الحال 4.7 فیصد پر آ کر مستحکم ہوئی ہے) اور اشیائے خوردونوش و یوٹیلیٹیز کی قیمتوں کے ارتقاء کا عین مطابق ازالہ کرے۔ اگر یہ اضافہ عوامی معیارِ زندگی بہتر نہ کر سکا تو مسائل جڑ سے حل نہیں ہوں گے۔ حکومت نے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہیں تقریباً 218,000 سے بڑھا کر 519,000 روپے ماہانہ کرنے کا بل منظور کیا ہے اور سینٹ چیئرمین و اسپیکر کی تنخواہ پانچ گنا بڑھا کر 1.3 ملین روپے ماہانہ کی منظوری دی ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عوام مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی دباؤ کا شکار ہیں۔ اسی دوران جب دفاع اور قرض کی سروسنگ پر بھاری اخراجات ہو رہے ہیں، تو حکمران طبقہ کی سہولیات اور عیاشیوں کے لیے اس طرح کا اضافہ اخلاقی اور معاشی نقطہ نظر سے ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریکِ لبیک پاکستان اس اقدام کی شدید مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ پارلیمانی اور وزارتی مراعات کو عارضی طور پر منجمد یا کم از کم عوامی معیارِ زندگی میں حقیقی بہتری کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے نافذ العمل کیا جائے۔ حکمرانوں کو تو عوام کے دکھ درد کو سمجھتے ہوئے مثال قائم کرنی چاہیے تھی۔ بجٹ میں سماجی تحفظ کے پروگرامز کے لیے مختص فنڈز موجود ہیں، مگر گزشتہ برسوں میں شفافیت اور درست اہلیت کے مسائل رہے ہیں جو حکومتی اہلیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان پروگرامز کا نفاذ ڈیجیٹل میکانزم کے ذریعے شفاف اور بروقت ہونا چاہیے تا کہ حقیقی مستحقین تک امداد پہنچے۔ مجموعی ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی ترقیاتی منصوبوں اور نئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے عمل کو سست کرے گی۔ نوجوان نسل اور دیہی علاقوں میں بے روزگاری کے بڑھتے رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری سرمایہ کاری ضروری ہے۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ دیہی ترقی، زرعی اصلاحات، چھوٹے کاروبار کی معاونت اور انفراسٹرکچر کے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر بحال کیے جائیں تا کہ مقامی معیشت کو تقویت ملے اور روزگار کے نئے ذرائع پیدا ہوں۔ بجٹ میں کیے گئے فیصلوں میں احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے آزاد اداروں کا کردار مضبوط ہونا چاہیے تا کہ عوام کو یقین ہو کہ قومی وسائل عوامی فلاح کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

Comments