اردو تحـــــــاریــــــر💌 📚📝
June 10, 2025 at 06:39 AM
. *امام بخاری اور امیر بخارا کا واقعہ* . https://whatsapp.com/channel/0029Va7OLGd1Hspvf0pbwx3K .جب امام بخاری ملک شام و عراق وغیرہ سے ہو کر نیشاپور تشریف لانے لگے تو نیشاپور کے مشہور محدث محمد بن یحییٰ ذہلی نے متعلقین سے کہا کہ میں امام بخاری کے استقبال کے لیے جا رہا ہوں، جس کا جی چاہے استقبال کرے۔ اس اعلان کے بعد نیشاپور سے دو دو تین تین میل دور تک جا کر لوگوں نے امام بخاری کا استقبال کیا، اور جب بعد میں امام بخاری نے درسِ حدیث کا سلسلہ شروع فرمایا تو کئی ہزار طلبہ نے امام بخاری کے درس میں شرکت کی۔ مگر چند ہی دن کے بعد کسی نے خلقِ قرآن کا ایک اختلافی مسئلہ اٹھا کر امام بخاری پر الزام لگا دیا اور بہت جلد ان کا حلقہ درس ختم ہو گیا۔ صرف امام مسلم ہی ان کے ساتھ رہے۔ آخر امام بخاری مایوس ہوکر اپنے وطن بخارا کے لیے روانہ ہو گئے۔ جب امام بخاری کے نیشاپور سے روانہ ہونے کی اطلاع اہلِ بخارا کو ملی تو بڑی شان و شوکت کے ساتھ لوگوں نے امام بخاری کا استقبال کیا، اور بخارا میں درسِ حدیث کا سلسلہ امام بخاری نے شروع فرمایا، ہزاروں طلبہ ان کے درس میں شرکت کرنے لگے۔ مگر حاسدین کو یہ گوارا نہ ہو سکا، انہوں نے یہ ترکیب نکالی کہ امیر بخارا خالد بن احمد الذھلی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ امام بخاری سے کہیں کہ وہ امیر کے صاحبزادوں کو بخاری شریف اور تاریخ کبیر کا درس دیں۔ امیر بخارا کی سمجھ میں بات آئی تو امیر نے کہا کہ آپ دربارِ شاہی میں تشریف لا کر مجھے اور میرے صاحبزادوں کو بخاری اور تاریخ کبیر کا درس دیں۔ مگر امام صاحب نے اس قاصد کی زبانی کہلوایا: "میں علمِ دین کو سلاطین کے دروازوں پر لے جا کر ذلیل نہیں کروں گا، جسے پڑھنا ہو میرے پاس آ کر پڑھے۔" امیر بخارا نے دوبارہ کہلوایا کہ اگر آپ نہیں آ سکتے ہیں تو صاحبزادوں کے لیے مخصوص کوئی وقت عنایت فرما دیں اور فرمادیں کہ ان کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہ ہو۔ اس پر امام بخاری نے جواب دیا کہ: "احادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری امت کے لیے یکساں ہیں، ان کی سماعت سے میں کسی کو محروم نہیں کر سکتا۔ اگر میرا یہ جواب ناگوار معلوم ہو تو آپ میرے درس روکنے کا حکم دے دیں، تاکہ میں خدا کے دربار میں عذر پیش کر سکوں۔" اس پر امیر بخارا سخت ناراض ہوا اور حاسدوں نے امیر کے اشارے پر امام بخاری کو بددین اور بدعتی ہونے کا الزام لگایا۔ پھر حاکم نے بخارا سے نکل جانے کا حکم دیا، تو امام بخاری نے نہایت کبیدہ خاطر ہو کر ان مخالفین کے لیے بددعا کی: "اے اللہ! جس طرح اس امیر نے مجھے ذلیل کیا ہے، اسی طرح تو اسے بھی اپنی ذات، اپنی اولاد اور اپنے اہل و عیال کی بے عزتی و ذلت دکھا دے۔" (فتح الباری: ۱۳، مقدمہ ابن بیماری پاکستانی سوفلہ) چنانچہ ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ خلیفۂ مسلمین نے اس امیر کی کسی غلطی پر سخت ناراض ہو کر اسے معزول کر دیا، اور اس کا منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرا کے پورے شہرِ بخارا میں اس کی تذلیل کروائی، اور اسے جیل میں ڈال دیا گیا، اور انتہائی ذلت و رسوائی سے چند دن کے بعد مر گیا۔ اور اس امیر کے معاونین مختلف بلاؤں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو گئے۔ آج تمام امت دیکھ رہی ہے کہ بخارا، سمرقند وغیرہ جو علمائے دین کے مراکز رہے ہیں، وہاں پر علمائے دین کی ناقدری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے وہاں سے علم و علما کو اٹھا لیا، حتیٰ کہ صدیوں تک وہاں کوئی کلمہ پڑھنے والا نہیں رہا۔ اللَّهُمَّ اخْلِصْنَا مِنْ غَضَبِكَ وَسَخَطِكَ "اے اللہ! ہمیں اپنے غضب اور اپنے اولیاء کی ناراستگی سے محفوظ فرما۔"
🤲 ❤️ 👍 😢 🙏 🇵🇸 24

Comments