
Learn & Fun Hub
June 9, 2025 at 07:54 PM
*اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک*
*نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ*
I rose, sorrowful, from the school and the monastery
No life, no love, no insight, no inner sight.
شرح:
یہ شعر علامہ اقبال کے گہرے فکری اور روحانی اضطراب کا اظہار ہے۔ وہ ان دونوں اداروں یعنی: مدرسہ (تعلیمی ادارہ – School/Academy) اور خانقاہ (صوفی سلسلہ – Monastery/Sufi Lodge) سے مایوس ہو کر غمناک ہو جاتے ہیں۔
اقبال کے نزدیک مدرسے کا نظام علم کو محض معلومات تک محدود کر دیتا ہے۔ اس میں نہ زندگی کی حرارت ہے، نہ عملی بصیرت، نہ فکر کی گہرائی۔
اقبال کی نظر میں صوفی خانقاہوں میں بھی رسم و رواج، جمود اور عمل سے کنارہ کشی غالب آ چکی ہے۔ روحانیت محض الفاظ اور مجربات کا کھیل بن گئی ہے، نہ کہ حرکت، محبت، اور قربِ الٰہی کی جدوجہد۔
اقبال ان دونوں اداروں سے فکری اور روحانی پیاس بجھنے کے بجائے مزید پیاسا ہو کر نکلتے ہیں۔ انہیں وہاں زندگی (حرکت، جوش، عمل)، محبت (الٰہی عشق، انسانی تعلق)، معرفت (حقیقی عرفانِ الٰہی) اور نگاہ (باطنی بصیرت، روحانی شعور) کی کوئی روشنی نظر نہیں آتی۔
یہ شعر اقبال کی اس تحریکِ تجدیدِ فکر کا اظہار ہے جس میں وہ روایتی تعلیم و تصوف دونوں کو رد کرتے ہیں اگر وہ زندگی، حرکت، عشق، اور روحانی بصیرت سے خالی ہوں۔ وہ ایک زندہ، باعمل، اور بیدار مسلمان کی تلاش میں ہیں، جس کی تعلیم اور روحانیت دونوں قرآن کی انقلابی فکر سے جڑی ہوں۔
کتاب: بالِ جبریل
غزال: تری نگاہ فرومایہ ہاتھ ہے کوتاہ
#allamaiqbal #life #love #insights