
🇵🇸 𓂆 مسلم فورم 𓂆 🇵🇸
May 25, 2025 at 08:14 AM
*فطرت سے انحراف کا انجام*
تاریخِ انسانی میں بعض واقعات محض خبروں کی حیثیت نہیں رکھتے، بلکہ وہ پوری تہذیب کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والے لمحاتِ فکریہ بن جاتے ہیں۔ یہ واقعات ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں کہ ہم بطور انسان کہاں کھڑے ہیں، کہاں جا رہے ہیں، اور کہاں رک جانا چاہیے۔ احمد فاتح کا واقعہ بھی ایسا ہی ایک دردناک موڑ ہے، جہاں سائنسی ترقی، انسانی خواہش، اور فطری و الٰہی حدود کے درمیان ایک المناک تصادم نے جنم لیا۔
احمد فاتح ایک ایسا شخص تھا جس نے اپنی فطری صنفی شناخت سے انحراف کرتے ہوئے جدید سائنسی طریقوں کے ذریعے نسوانی تولیدی نظام اپنانے کا فیصلہ کیا۔ جزوی صنفی تبدیلی کے بعد، اس نے مصنوعی تلقیح کے ذریعہ ایک بچی، "مایا"، کو جنم دیا۔ تاہم، یہ تجربہ اُس کی جان لے بیٹھا۔ 23 مئی 2025 کو طبی پیچیدگیوں کے باعث اس کی موت واقع ہوئی۔ بظاہر یہ واقعہ سائنسی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر اس کے پیچھے کئی گہرے اخلاقی، دینی اور تہذیبی سوالات پوشیدہ ہیں۔
سائنس اپنی اصل میں فہمِ کائنات کا ایک ذریعہ ہے—ایک نعمت، جب تک وہ حدودِ فطرت و اخلاق کے اندر رہتی ہے۔ مگر جب یہ خود کو لامحدود سمجھنے لگے اور تخلیقِ خداوندی کی ساخت میں تصرف کا اختیار لینے لگے، تو یہی علم انسانیت کے لیے فتنہ بن جاتا ہے۔
قرآن مجید ہمیں یاد دلاتا ہے:
"وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا"
(الفرقان: 2)
"اور اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا۔"
یہ "تقدیر" محض تقدیری لکیر نہیں بلکہ ایک بامعنی نظامِ تخلیق ہے، جس میں مرد اور عورت کی ساخت، کردار، اور ذمہ داریاں واضح اور مکمل ہیں۔ اس توازن کو چیلنج کرنا، محض سائنسی تجربہ نہیں بلکہ ایک خطرناک جسارت ہے۔
اسلام صنفی تقسیم کو خالقِ کائنات کی حکمت کا حصہ سمجھتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
"وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ"
(النجم: 45)
"اور بیشک اس نے نر و مادہ کے جوڑے پیدا کیے۔"
اسلامی شریعت میں صنفی تبدیلی صرف اُن خاص صورتوں میں جائز سمجھی جاتی ہے جہاں انسان کی تخلیق میں ابہام ہو—یعنی خنثیٰ کی حالت۔ لیکن اگر کوئی مکمل مرد، صرف ذہنی یا نفسیاتی خواہشات کی بنیاد پر خود کو عورت ظاہر کرے، اور اس شناخت کو سائنسی مداخلت سے حقیقت کا جامہ پہنانے کی کوشش کرے، تو یہ فعل نہ صرف دینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ فطری نظام سے بغاوت بھی۔
احمد فاتح کے اقدام اور اس کے بعد کی موت نے عرب و اسلامی دنیا میں ایک گہرا ارتعاش پیدا کیا۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد نے اسے "فطرت سے بغاوت" کا نتیجہ قرار دیا۔ تنقید کرنے والے محض مذہبی طبقے نہیں تھے، بلکہ وہ عام افراد بھی تھے جنہیں محسوس ہوا کہ انسان کہیں ایسی راہ پر نکل پڑا ہے جس کے انجام کا اندازہ خود اسے بھی نہیں۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہمیں یاد دلاتا ہے:
"كلُّ مولودٍ يُولَدُ على الفطرةِ، فأبواه يُهوِّدانهِ، أو يُنصِّرانهِ، أو يُمجِّسانهِ"
(صحیح البخاری: 1385)
"ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔"
یہ "فطرت" ایک الٰہی سانچہ ہے، جس میں مداخلت خود انسان کے لیے ہلاکت کا دروازہ کھول دیتی ہے۔
اگرچہ احمد کی موت کو طبی پیچیدگیوں کا نتیجہ قرار دیا گیا، لیکن اس واقعے کا معنوی پہلو محض جسمانی نہیں، روحانی اور تہذیبی بھی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر قوت، ہر علم، ہر امکان ایک حد کا متقاضی ہے۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ اسی کشمکش کو یوں بیان کرتے ہیں:
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندۂ مومن پہ کھلتی نہیں یہ رمزِ حیات
کہہ گیا مولاے رومؒ ہو گیا عقل کا دیوانہ فن
یہ واقعہ ہمیں ایک تہذیبی سوال کی دہلیز پر لا کھڑا کرتا ہے: کیا محض "کر سکنا" کسی کام کو "کرنا چاہیے" کا جواز بن سکتا ہے؟ کیا سائنسی ترقی کی معراج وہ مقام ہے جہاں انسان خود خالق کے منصب پر قابض ہونے کی کوشش کرے؟
قرآن خبردار کرتا ہے:
"وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ"
(ص: 26)
"خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرنا، ورنہ وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔"
سائنس اگر فطرت اور وحی کی رہنمائی میں رہے تو وہ انسانیت کے لیے باعثِ خیر ہے۔ لیکن اگر اسے صرف خواہشات، انفرادی آزادی یا غیر محدود تجربہ پسندی کی بنیاد پر چلایا جائے، تو انجام وہی ہوتا ہے جو "احمد فاتح" کے حصے میں آیا—ایک افسوسناک انجام، جو ہمارے لیے درس بھی ہے اور انتباہ بھی۔

👍
❤️
3