
🇵🇸 𓂆 مسلم فورم 𓂆 🇵🇸
1.0K subscribers
About 🇵🇸 𓂆 مسلم فورم 𓂆 🇵🇸
📢 مسلم فورم – آپ کا اسلامی و تعلیمی WhatsApp چینل السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته 🔹 روزانہ قرآن و حدیث سے رہنمائی 🔹 دینی و اخلاقی تعلیمات 🔹 طلبہ و طالبات کے لیے تعلیمی مواد 🔹 مختصر اسلامی کلپس، دعائیں اور سوال و جواب 🔹 ہر عمر کے مسلمانوں کے لیے فائدہ مند معلومات 🤲 دین سیکھیں، دوسروں تک پہنچائیں، اور اپنی آخرت سنواریں۔ 🌐 ابھی جوائن کریں: 👉 𓂆 مسلم فورم 𓂆 https://whatsapp.com/channel/0029VadYVUE23n3hs4MgIh2H 📲 مسلم فورم - جہاں دین اور علم ساتھ چلتے ہیں!
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*دنیا کی تاریخ میں کس نے سب سے زیادہ قتل کئے ھیں ؟* *1- ھٹلر* آپ جانتے ھیں وہ کون تھا؟ وہ عیسائی تھا ، لیکن میڈیا نی کبھی اسکو عیسائی دھشت گرد نہیں کہا. *2. جوزف اسٹالن* اس نے بیس ملین (ایک ملین -دس لاکھ کے برابر) انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ، جسمیں سے ساڑھے چودہ ملین بھوک سے مرے . کیا وہ مسلم تھا؟ *3. ماوزے تنگ* اس نے چودہ سے بیس ملین انسانوں کو مارا . کیا وہ مسلم تھا؟ *4. مسولینی* چار لاکھ انسانوں کا قاتل ھے کیا وہ مسلم تھا؟ *5. اشوکا* اس نے کلنگا کی جنگ میں ایک لاکھ انسانوں کو مارا. کیا وہ مسلم تھا؟ *6-جارج بش* کی تجارتی پابندیوں کے نتیجے میں صرف عراق میں پانچ لاکھ بچے مرے. انکو میڈیا کبھی دہشت گرد نھیں کھتا . آجکل جھاد کا لفظ سن کر غیر مسلم تشویش میں مبتلا ھوجاتے ھیں ، جبکہ جہاد کا مطلب معصوموں کو مارنا نھیں، بلکہ برائی کے خلاف اور انصاف کے حصول کی کوشش کا نام جھاد ھے . *چند اور حقائق :* 1- پہلی جنگ عظیم میں 17 ملین لوگ مرے اور جنگ کا سبب غیر مسلم تھے . 2 -دوسری جنگ عظیم میں 50-55 ملین لوگ مارے گئے اور سبب؟ غیرمسلم . 3-ناگاساکی پر ایٹمی حملے میں 2 لاکھ لوگ مرے اور اسکا سبب؟ غیر مسلم 4. ویتنام کی جنگ میں 500000 اموات کا سبب بھی غیر مسلم . 5-بوسنیا کی جنگ میں بھی پانچ لاکھ موتیں ھوئیں سبب. غیرمسلم . 6-عراقی جنگ میں ابتک ایک کروڑ بیس لاکھ اموات کا سبب بھی غیر مسلم. 7-افغانستان. فلسطین اور برما میں خانہ جنگی کا سبب؟غیرمسلم 8-کمبوڈیا میں تقریبا 300000 موتوں کا سبب بھی غیر مسلم . *خلاصہ یہ کہ : کوئی بھی دھشت گرد مسلمان نہیں. اور کوئی مسلمان دھشت گرد نھیں . اور سب سے اھم بات یہ کہ بڑی تباہی پھیلانے والے کسی بھی ہتھیار کے موجد مسلمان نھیں . اور آج مبینہ دھشت گردوں کے ھاتھ میں جو ہتھیار ھیں وہ کسی "اسلامی فیکٹری " میں نھیں بنے . *ان حقائق کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا چاہئے.*

*جب حقیقت دیر سے آشکار ہو* انسان کی زندگی ایک سفر ہے — فکری، روحانی اور اخلاقی ارتقاء کا سفر۔ یہ سفر اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب انسان اپنی منزل کو پہچانے، اور راہ کو اُس منزل کے مطابق چنے۔ مگر جب نگاہ میں دھند چھا جائے، اور دل پر خواہشات کی گرد بیٹھ جائے، تو راہیں خلط ملط ہو جاتی ہیں، سمتیں گم ہو جاتی ہیں، اور انسان گمان میں رہتا ہے کہ وہ حق کی طرف گامزن ہے، حالانکہ وہ سراسر فریب کا مسافر ہوتا ہے۔ میں نے اپنے مشاہدے اور تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ حقیقت کا دیر سے ادراک انسان کی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ہوتا ہے۔ انسان جب سال ہا سال کسی غلط فکری یا عملی رخ پر لگا رہے، اور اُس کے یقین کا ستون اس قدر مستحکم ہو جائے کہ کسی اور سمت کا تصور بھی محال ہو، تو پھر جب اس پر اچانک حقیقت کا دروازہ کھلتا ہے، وہ اپنی زندگی کو برباد، اپنے وقت کو ضائع، اور اپنے سفر کو رائیگاں پاتا ہے۔ یہ ایسا لمحہ ہوتا ہے کہ دل کی گہرائیوں میں ایک کرب سا اتر جاتا ہے۔ انسان بے اختیار اپنے آپ سے کہتا ہے: "کاش مجھے پہلے سمجھ آتی، کاش میری آنکھ پہلے کھلتی، کاش میں اتنے برس دھوکے میں نہ رہتا!" اور یہ "کاش" ہی اُس کے لیے سب سے بڑی سزا بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم و بصیرت، اہلِ دل و نظر ہمیشہ دعا کرتے ہیں کہ "اے اللہ! ہمیں وہ شعور عطا فرما جو حق کو حق اور باطل کو باطل پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہمیں نفس و شیطان کے فریب سے محفوظ رکھ، اور ہمیں اُس وقت بیدار کر دے، جب ابھی وقت باقی ہو، راستہ کھلا ہو، اور واپسی ممکن ہو۔" اِس دعا میں ایک فقیرانہ التجا بھی ہے، اور ایک عارفانہ حکمت بھی — کیونکہ جو لوگ وقت پر جاگ جاتے ہیں، وہی اصل کامیاب ہیں۔ اور جو تاخیر سے بیدار ہوتے ہیں، اُن کے لیے آنکھ کھلنے کا لمحہ، آنکھ بند ہونے سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔ پس، اہلِ دانش پر لازم ہے کہ وہ اپنے قدموں کی سمت دیکھتے رہیں، اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہیں، اور اپنے دل کی آواز کو سننے کی کوشش کرتے رہیں۔ کیونکہ حق کی صدا ہمیشہ موجود ہوتی ہے — بس دل کو سننے کا سلیقہ آنا چاہیے۔ 𓂆 مسلم فورم 𓂆 https://whatsapp.com/channel/0029VadYVUE23n3hs4MgIh2H

سفیان ثوری رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: روزِ قیامت مومن کے نامہ اعمال میں سب سے زیادہ نیکیاں دنیا میں غم اور پریشانیوں سے دو چار ہونے کی وجہ سے پائی جائیں گی۔ حلية الأولياء

*🎀 شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں:* "کبھی کبھی مجھے ایسی خاص ضرورت آن پڑتی ہے جو صرف اللّٰہ رب العزت ہی پوری کر سکتا ہے، تو میں اس سے دعا کرتا ہوں۔ پھر میں یہ دیکھتا ہوں کہ اللّٰہ کے ساتھ مکالمے کا دروازہ میرے لیے کھل جاتا ہے، اور *اس کے ذریعے میں اس سے گفتگو کی حلاوت کو چکھتا ہوں، اور اسے جاننے کی خوشی جو میری دعا کی قبولیت کی ضرورت سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے، اور ایسے میں اپنی دعا کی قبولیت میں تاخیر ہونے کو ترجیح دیتا ہوں، اس ڈر سے کہ میری ضرورت پوری ہونے پر کہیں اللّٰہ سے میرا وہ رابطہ نہ ٹوٹ جائے۔"* مجموعہ الفتاویٰ ص 10/333

❁ *`قربانی کی استطاعت نا ہو تو`* ❁ روایت ہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے *`رسول اللہ ﷺ نے فرمایا`* مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس امت کے لیے اضحی کے دن کو عید قرار دوں۔ کسی آدمی نے آپ ﷺ سے عرض کیا، اللہ کے رسول ﷺ! مجھے بتائیں اگر میں دودھ دینے والی بکری، جو کہ مجھے کسی نے عطیہ کی ہے، کے سوا کوئی جانور نہ پاؤں تو کیا میں اسے ذبح کر دوں، فرمایا: نہیں، لیکن تم (عید کے روز) اپنے بال اور ناخن کٹاؤ، مونچھیں کتراؤ اور زیر ناف بال مونڈ لو، اللہ کے ہاں یہ تمہاری مکمل قربانی ہے۔ *`مشكوة المصابيح : 1479 (الشيخ زبير على زئي : إسناده حسن)`* 𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼 ♥️ 🟩ㅤ 📩 📤 ˡᶦᵏᵉ ᶠᵒˡˡᵒʷ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ *`جـــــزَاڪــــم الله خَـــــــــيْراً`*


*ایمان کا زندہ شعور* انسان اگر اپنے گرد و پیش کی چمک دمک، دنیا کے فریب اور معاشرتی رسوم سے ذرا اوپر اٹھے، اور اپنی اصل حقیقت پر غور کرے، تو اسے اپنے وجود کا جو سب سے پہلا تعارف حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ ایک بندہ ہے — اللہ کا بندہ۔ یہ بندگی اس وقت تک مکمل اور بامعنی نہیں ہو سکتی جب تک انسان کے دل میں یہ احساس بیدار نہ ہو جائے کہ اس کا رب ہر وقت اسے دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے، اور اس کے دل کے احوال سے واقف ہے۔ یہ احساس، یہ شعور، یہ یقین… دراصل ایمان کی وہ روح ہے جس کے بغیر ایمان ایک خالی سانچہ بن کر رہ جاتا ہے۔ عمل کا لمحہ اور رب کی نظر جب بندہ کوئی عمل کرے، کوئی خدمت انجام دے، کوئی نیکی کا قدم اٹھائے، تو اگر اس کے دل میں یہ بات جاگزیں ہو کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، تو وہ عمل پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ وہ دکھاوے سے خالی ہوتا ہے۔ اس میں نفس کی آمیزش، دنیا کی طلب، اور شہرت کی چاہت باقی نہیں رہتی۔ یہی وہ عمل ہے جو عرش پر پہنچتا ہے، اور جسے بارگاہِ الٰہی میں قبولیت نصیب ہوتی ہے۔ گفتگو کا لمحہ اور رب کی سماعت انسان کی زبان اس کے باطن کا آئینہ ہے۔ اگر انسان ہر لفظ بولنے سے قبل اس بات کو یاد رکھے کہ میرا رب سن رہا ہے، تو وہ اپنی زبان کو آلودہ نہیں کرے گا۔ وہ نہ جھوٹ بولے گا، نہ غیبت، نہ الزام، نہ زخم دینے والے جملے۔ بلکہ اس کی زبان سے وہی الفاظ نکلیں گے جو حق پر ہوں، جن میں خیر ہو، جن سے دل جڑیں، دل زخمی نہ ہوں۔ خاموشی کا لمحہ اور رب کی معرفت بعض اوقات انسان زبان سے کچھ نہیں کہتا، لیکن اس کا دل بے چین ہوتا ہے۔ اس کے اندر ایک اضطراب، ایک بے قراری، ایک خلش پل رہی ہوتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دنیا خاموشی کو لاشعوری سمجھتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس خاموشی کو بھی سنتا ہے، جانتا ہے، اور اس پر رحم فرماتا ہے۔ اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے۔ وہ تمہارے اشکوں کو دیکھتا ہے، تمہاری گھٹن کو سمجھتا ہے، اور تمہاری خاموشی میں چھپی صدا کو سنتا ہے۔ ایمان کی حفاظت کا راز اگر انسان اپنے ان تین لمحات — عمل، گفتگو، اور خاموشی — میں اللہ تعالیٰ کی معیت اور نظر کو محسوس کرے، تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے، اس کا عمل خالص ہو جاتا ہے، اور اس کی زندگی بندگی کی حقیقی جھلک بن جاتی ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے تقویٰ کہا جاتا ہے۔ اور یہی وہ سرمایہ ہے جو ہر فتنہ کے دور میں مؤمن کو سنبھالے رکھتا ہے۔ اے بندۂ مومن! دنیا دھوکہ دے سکتی ہے، نفس بہکا سکتا ہے، ماحول بدل سکتا ہے — لیکن اگر دل میں اللہ کے دیکھنے کا یقین زندہ ہو، تو کوئی گمراہی تجھے چھو نہیں سکتی۔ اے پروردگارِ عالم! تو بصیر ہے، خبیر ہے، علیم و حکیم ہے، تو ہمارے ظاہر کو بھی جانتا ہے، اور ہمارے باطن کو بھی، تو ہماری زبان سے نکلے ہر لفظ کا گواہ ہے، اور ہماری خاموشیوں کے پیچھے چھپے درد کا راز دار ہے۔ یا اللہ! ہمارے دلوں میں اپنا خوف، اپنا ذکر، اور اپنی محبت زندہ کر دے۔ ہمارے اعمال میں اخلاص عطا فرما، ہماری زبان کو سچ، حکمت اور نرمی سے آراستہ فرما، اور ہماری خاموشیوں کو بھی اپنی بارگاہ میں مقبول سجدے بنا دے۔ اے رب کریم! ہمیں ہر حال میں اپنے قریب کر دے۔ ہماری غفلتوں کو بخش دے، اور ہمیں ان بندوں میں شامل فرما جنہیں تو دیکھ کر مسکرا دیتا ہے، جنہیں تو سن کر معاف فرما دیتا ہے، اور جن کے دلوں کو اپنا قرب عطا فرما کر مطمئن کر دیتا ہے۔ آمین یا رب العالمین، وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد و علیٰ آلہ و اصحابہ أجمعین۔ 𓂆 مسلم فورم 𓂆 https://whatsapp.com/channel/0029VadYVUE23n3hs4MgIh2H

*فطرت سے انحراف کا انجام* تاریخِ انسانی میں بعض واقعات محض خبروں کی حیثیت نہیں رکھتے، بلکہ وہ پوری تہذیب کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والے لمحاتِ فکریہ بن جاتے ہیں۔ یہ واقعات ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں کہ ہم بطور انسان کہاں کھڑے ہیں، کہاں جا رہے ہیں، اور کہاں رک جانا چاہیے۔ احمد فاتح کا واقعہ بھی ایسا ہی ایک دردناک موڑ ہے، جہاں سائنسی ترقی، انسانی خواہش، اور فطری و الٰہی حدود کے درمیان ایک المناک تصادم نے جنم لیا۔ احمد فاتح ایک ایسا شخص تھا جس نے اپنی فطری صنفی شناخت سے انحراف کرتے ہوئے جدید سائنسی طریقوں کے ذریعے نسوانی تولیدی نظام اپنانے کا فیصلہ کیا۔ جزوی صنفی تبدیلی کے بعد، اس نے مصنوعی تلقیح کے ذریعہ ایک بچی، "مایا"، کو جنم دیا۔ تاہم، یہ تجربہ اُس کی جان لے بیٹھا۔ 23 مئی 2025 کو طبی پیچیدگیوں کے باعث اس کی موت واقع ہوئی۔ بظاہر یہ واقعہ سائنسی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر اس کے پیچھے کئی گہرے اخلاقی، دینی اور تہذیبی سوالات پوشیدہ ہیں۔ سائنس اپنی اصل میں فہمِ کائنات کا ایک ذریعہ ہے—ایک نعمت، جب تک وہ حدودِ فطرت و اخلاق کے اندر رہتی ہے۔ مگر جب یہ خود کو لامحدود سمجھنے لگے اور تخلیقِ خداوندی کی ساخت میں تصرف کا اختیار لینے لگے، تو یہی علم انسانیت کے لیے فتنہ بن جاتا ہے۔ قرآن مجید ہمیں یاد دلاتا ہے: "وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا" (الفرقان: 2) "اور اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا۔" یہ "تقدیر" محض تقدیری لکیر نہیں بلکہ ایک بامعنی نظامِ تخلیق ہے، جس میں مرد اور عورت کی ساخت، کردار، اور ذمہ داریاں واضح اور مکمل ہیں۔ اس توازن کو چیلنج کرنا، محض سائنسی تجربہ نہیں بلکہ ایک خطرناک جسارت ہے۔ اسلام صنفی تقسیم کو خالقِ کائنات کی حکمت کا حصہ سمجھتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: "وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ" (النجم: 45) "اور بیشک اس نے نر و مادہ کے جوڑے پیدا کیے۔" اسلامی شریعت میں صنفی تبدیلی صرف اُن خاص صورتوں میں جائز سمجھی جاتی ہے جہاں انسان کی تخلیق میں ابہام ہو—یعنی خنثیٰ کی حالت۔ لیکن اگر کوئی مکمل مرد، صرف ذہنی یا نفسیاتی خواہشات کی بنیاد پر خود کو عورت ظاہر کرے، اور اس شناخت کو سائنسی مداخلت سے حقیقت کا جامہ پہنانے کی کوشش کرے، تو یہ فعل نہ صرف دینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ فطری نظام سے بغاوت بھی۔ احمد فاتح کے اقدام اور اس کے بعد کی موت نے عرب و اسلامی دنیا میں ایک گہرا ارتعاش پیدا کیا۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد نے اسے "فطرت سے بغاوت" کا نتیجہ قرار دیا۔ تنقید کرنے والے محض مذہبی طبقے نہیں تھے، بلکہ وہ عام افراد بھی تھے جنہیں محسوس ہوا کہ انسان کہیں ایسی راہ پر نکل پڑا ہے جس کے انجام کا اندازہ خود اسے بھی نہیں۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہمیں یاد دلاتا ہے: "كلُّ مولودٍ يُولَدُ على الفطرةِ، فأبواه يُهوِّدانهِ، أو يُنصِّرانهِ، أو يُمجِّسانهِ" (صحیح البخاری: 1385) "ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔" یہ "فطرت" ایک الٰہی سانچہ ہے، جس میں مداخلت خود انسان کے لیے ہلاکت کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ اگرچہ احمد کی موت کو طبی پیچیدگیوں کا نتیجہ قرار دیا گیا، لیکن اس واقعے کا معنوی پہلو محض جسمانی نہیں، روحانی اور تہذیبی بھی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر قوت، ہر علم، ہر امکان ایک حد کا متقاضی ہے۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ اسی کشمکش کو یوں بیان کرتے ہیں: علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن بندۂ مومن پہ کھلتی نہیں یہ رمزِ حیات کہہ گیا مولاے رومؒ ہو گیا عقل کا دیوانہ فن یہ واقعہ ہمیں ایک تہذیبی سوال کی دہلیز پر لا کھڑا کرتا ہے: کیا محض "کر سکنا" کسی کام کو "کرنا چاہیے" کا جواز بن سکتا ہے؟ کیا سائنسی ترقی کی معراج وہ مقام ہے جہاں انسان خود خالق کے منصب پر قابض ہونے کی کوشش کرے؟ قرآن خبردار کرتا ہے: "وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ" (ص: 26) "خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرنا، ورنہ وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔" سائنس اگر فطرت اور وحی کی رہنمائی میں رہے تو وہ انسانیت کے لیے باعثِ خیر ہے۔ لیکن اگر اسے صرف خواہشات، انفرادی آزادی یا غیر محدود تجربہ پسندی کی بنیاد پر چلایا جائے، تو انجام وہی ہوتا ہے جو "احمد فاتح" کے حصے میں آیا—ایک افسوسناک انجام، جو ہمارے لیے درس بھی ہے اور انتباہ بھی۔


❁ *`سال کے افضل ترین دنوں کے فضلیت`* ❁ روایت ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے *`رسول اللہ ﷺ نے فرمایا`* ان (دس) دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں۔ لوگوں نے پوچھا اور جہاد میں بھی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں جہاد میں بھی نہیں سوا اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا (سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا)۔ *`صحيح البخاری : 969`* 𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼 ♥️ 🟩ㅤ 📩 📤 ˡᶦᵏᵉ ᶠᵒˡˡᵒʷ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ *`جـــــزَاڪــــم الله خَـــــــــيْراً`*
