🇵🇸  𓂆 مسلم فورم 𓂆  🇵🇸
🇵🇸 𓂆 مسلم فورم 𓂆 🇵🇸
June 6, 2025 at 01:14 PM
مولانا سید کفایت علی کافیؒ — ایک درویش صفت مجاہد برصغیر کی روحانی، فکری اور سیاسی تاریخ کے اوراق پر بعض نام روشن ستاروں کی مانند ہیں، جن کی روشنی محض ان کے دور تک محدود نہ رہی، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے چراغِ راہ بنی۔ ان ہی ہستیوں میں ایک نام مولانا سید کفایت علی کافیؒ کا ہے — ایک ایسے عالمِ دین، ایک ایسے مردِ خدا، جس نے علم کے ساتھ عمل، اور فکر کے ساتھ جہاد کو یکجا کیا۔ مولانا سید کفایت علی کافیؒ کا تعلق ایک معروف علمی و دینی خانوادے سے تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر مرادآباد میں حاصل کی۔ فطرت میں وقار، طبع میں بردباری، اور قلب میں دینِ اسلام سے گہری وابستگی تھی۔ جلد ہی آپ کا شمار ان علماء میں ہونے لگا جن کی زبان پر تاثیر اور دل میں اخلاص ہوتا ہے۔ وہ صرف مسجد و محراب کے عالم نہ تھے، بلکہ ملت کے نبض شناس اور دین کے درد سے آشنا رہنما تھے۔ انہیں دین فقط درس و تدریس میں نہیں، بلکہ معاشرے کی نبض میں دھڑکتا محسوس ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب 1857ء کی جنگِ آزادی برپا ہوئی، تو مولانا کافیؒ نے قلم چھوڑ کر تلوار تھام لی — اور اسے بھی صرف اس لیے کہ دینِ محمدی ﷺ کی حرمت پامال نہ ہو۔ یہ وہ وقت تھا جب علماء پر زمین تنگ کر دی گئی تھی، مساجد و مدارس پر چھاپے مارے جا رہے تھے، اور جو بھی اسلامی تشخص کا علمبردار تھا، وہ سلطنتِ برطانیہ کی نظروں میں جرمِ بے گناہی کا مرتکب تھا۔ مولانا کافیؒ پر بھی یہی الزام تھا — کہ وہ عوام کو بیدار کرتے ہیں، کہ ان کی تقریر سے دلوں میں غیرت بیدار ہوتی ہے، کہ وہ قوم کو خوابِ غفلت سے جگاتے ہیں۔ چنانچہ انگریز حکام نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ روایات میں آتا ہے کہ ان کے جسم پر گرم استری پھیری گئی، زخموں میں نمک بھر دیا گیا، اور نفسیاتی طور پر توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ مگر یہ وہ شخص تھا جس نے عشقِ مصطفیٰ ﷺ کو اپنی متاعِ جان بنایا تھا — جس کا دل قرآن کی تلاوت اور درود کی خوشبو سے لبریز تھا۔ آخرکار، 22 رمضان المبارک کو، مرادآباد کے چوک میں ایک مجمعِ عام کے سامنے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ لیکن اس لمحے بھی، جب سانسوں کی ڈور کٹنے کو تھی، جب زندگی چند لمحوں کی مہمان تھی — مولانا کی زبان خاموش نہ تھی۔ وہ گویا یہ دنیا چھوڑ کر بھی ایک پیغام چھوڑنا چاہتے تھے، ایک اُمت کے نام وصیت: > کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا، پر رسول اللہ ﷺ کا دینِ حسن رہ جائے گا۔ نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں، حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا۔ یہ اشعار مولانا کافیؒ کی ساری زندگی کا نچوڑ تھے۔ ان کی سوچ، ان کی دعوت، ان کی جدوجہد — سب ان شعروں میں سمو گئی۔ ان کی شہادت ایک فرد کی موت نہ تھی، ایک فکر کی آبیاری تھی۔ بہت سے نوجوانوں نے ان کا خون دیکھا اور فیصلہ کیا کہ دین کے لیے جینا ہے، دین کے لیے مرنا ہے۔ علماء کے اس قافلے نے، جس میں کافیؒ جیسے بے شمار چراغ تھے، 1857ء کی نامراد بغاوت کو ایک دینی تحریک میں بدل دیا — جس نے آنے والی نسلوں کو اپنی شناخت، اپنی زبان، اپنے شعائر، اور سب سے بڑھ کر اپنے رسول ﷺ کی نسبت کے تحفظ کا شعور دیا۔ یا اللہ ! مولانا سید کفایت علی کافیؒ کی قربانی کو شرفِ قبولیت عطا فرما، ان کے درجات بلند فرما، اور ہمیں بھی دین کی سچی خدمت اور شہداء کے راستے پر چلنے کی توفیق بخش۔ ربنا اختم لنا بالحسنى، واجعلنا من عبادك الصالحين۔ آمین یا رب العالمین۔
Image from 🇵🇸  𓂆 مسلم فورم 𓂆  🇵🇸: مولانا سید کفایت علی کافیؒ — ایک درویش صفت مجاہد  برصغیر کی روحانی، فک...
❤️ 2

Comments