
محبین دارالعلوم دیوبند✅ Muhibbeen Darul Uloom deoband
June 5, 2025 at 11:50 AM
*یوم عرفہ۔۔۔تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی*
*اللہ اللہ یہ عرفات کا لق و دق ویرانہ، جو نہ انسان کے بسنے کے لائق ہے نہ حیوان کے اور جہاں سال بھر انسانی آبادی تو الگ رہی، پرندہ بھی پر نہیں مارتا، دم کے دم میں آن کی آن میں کیا سے کیا ہوجاتا ہے، دن بھر کے لیے سینکڑوں نہیں، ہزاروں کا نہیں، لاکھوں کی آبادی کا ایک عظیم الشان شہر آباد ہوجاتا ہے، ان میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جوان بھی، بچے بھی اور عورتیں بھی، شہ زور پہلوان بھی اور لب مرگ کمزور و ناتواں بھی، گورے بھی کالے بھی، سانولے بھی پیلے بھی، مشرقی بھی مغربی بھی، جنوبی بھی شمالی بھی، عالم بھی عامی بھی، امیر بھی فقیر بھی، عابد بھی و زاہد بھی، فاسق و فاجر بھی اور یہ سارا مجمع کیوں آپ ہی آپ اکٹھا ہو رہا ہے؟ کوئی دلچسپ تماشہ ہونے والا ہے؟ کوئی بزم مشاعرہ ہے؟ کوئی ہنسنے ہنسانے والی نقل دکھائی جائے گی؟ کوئی گھوڑ دوڑ ہے؟ پولو ہے، ہاکی، فٹ بال کا میچ ہے؟ رستم دوران گاما پہلوان کی کشتی کا دنگل ہے؟ ہالی ووڈ کی کوئی نئی فلم آئی ہوئی ہے؟ کوئی مشہور ایکٹرس بےحجابی کے ساتھ اسٹیج پر نمودار ہونے والی ہے؟ تجارتی مصنوعات کی نمائش ہونے والی ہے؟ ڈربی سویپ ۔(sweep)۔ہے؟ گھوڑوں اور ہاتھیوں کا بازار لگنے والا ہے؟ کسی کانفرنس کسی کانگریس کا افتتاح ہے؟ کسی لیڈر کا لکچر ہو نے والا ہے؟ کسی درگاہ پر عرس ہورہا ہے؟ کسی دیوی دیوتا کی پوجا ہونے والی ہے؟ کوئی گنگا اشنان ہے؟ کوئی کمبھ میلا ہے؟ بجز ایک اللہ کی عبادت کے، بجز ایک اللہ کے حکم کی تعمیل کے، بجز ایک اللہ کے نام پر مرمٹنے کی تمنا کے اور کون سی شے ان ہزارہا بندوں کو، ان لاکھوں کلمہ گویوں کو یہاں اس تپتی ہوئی ریت میں گھسیٹ کر لائی ہیں؟ مجمع دنیا میں اور بہت سے ہوتے رہتے ہیں۔ میلے ٹھیلے خدا معلوم کتنے ہوتے رہتے ہیں، کھیل تماشوں میں ٹھٹ کے ٹھٹ ہر جگہ لگ جاتے ہیں لیکن اللہ کے نام پر جمع ہونے والوں کا لبیک لبیک کی رٹ لگا کر اللہ کا نام جپنے والوں کا، اور محض بن دیکھے مولا و مالک کے آگے رونے اور گڑگڑانے جھکنے اور گرنے والوں کا اتنا بڑا مجمع دریاؤں اور سمندروں کو پارکر کے پہاڑوں کو پھاند کرکے دنیا کے طول و عرض میں کہیں، اور وقت کے کسی حصہ میں کبھی ہوتا ہے؟ دعائیں، ان اللہ والوں کی نہ قبول ہوں گی تو اور کس کی ہوں گی؟ بےحساب رحمتوں اور بیشمار برکتوں کا نزول ان کے سروں پر نہ ہوگا تو کس پر ہوگا؟ مشہور ہے کہ آدم علیہ السلام کی توبہ اسی مقام پر اور آج ہی کے دن قبول ہوئی تھی، یہ روایت صحیح ہو یا نہ ہو لیکن بہرحال بنی آدم اپنے گناہوں کے بخشوانے کے لیے آج سے بہتر تاریخ اور یہاں سے بہتر زمین اور کونسی ڈھونڈ کر لائیں گے؟*
*دنیا کی کوئی قوم، روئے زمین کا کوئی مذہب، اس خالص توحید و خالص خدا پرستی کے عظیم الشان مظاہرہ کا نمونہ پیش کرسکتا ہے؟ کسی نے کبھی پیش کیا، کوئی آج پیش کررہا ہے؟ کوئی آئندہ کبھی پیش کرے گا؟ بتوں کے بندے بے شمار، حرص و ہوا کے پرستار لاتعداد، سیر و تماشہ کے سودائی بےگنتی لیکن دنیا آئے، پارکوں اور سبزہ زاروں کی سیر کرنے والی دنیا آئے، بازاروں اور نمائش گاہوں کی گشت لگانے والی دنیا آئے، عجائب خانوں اور چڑیا خانوں میں وقت گزارنے والی، دنیا آئے اور بیسویں صدی عیسوی میں ایک بار ذرا اللہ کی فوج کے ان سپاہیوں کو، اپنے رب کے ان مستوں کو اور دیوانوں کو دیکھے کہ اس چلچاتی دھوپ میں، تپتی ہوئی ریت کے اوپر ننگے سر اور پسینہ میں شرابور، مٹی میں اٹے ہوئے اور خاک میں لتھڑے ہوئے کس کس طرح جھک جھک کر اور گر گر کر، رو رو کر، گڑ گڑا کر اپنے ان دیکھے مولا و مالک کے آگے مانگنے اور بھیک مانگنے کے لیے کن کن آرزؤں اور تمناؤں کے ساتھ ہجوم شوق و اشتیاق کے ساتھ، اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں! جو سوال ہوگا، پورا ہوگا، لیکن اتنا کرم تو دنیا کے کریم بھی کر دکھاتے ہیں، انھیں تو وہ ملے گا جو ان کے وہم و خیال میں بھی نہیں، یہ تو وہ پائیں گے جس کا سوال ان کے ذہن میں بھی نہیں۔نور کے بنے ہوئے فرشتے ظلوم و جہول انسان کی اس طاعت و اطاعت پر دنگ رہ جاتے ہیں ۔*
*۔″ان اللہ ینزل الی السماء الدنیا ویباھی بھم الملائکۃ یقول ھؤلاء عبادی جاؤنی شعثا غبرا یرجون رحمتی و یخافون عذابی ولم یرونی فکیف لو راونی″۔*
*انھیں دکھایا جاتا ہے اور جنھوں نے کبھی کہا تھا کہ انسان روئے ارض پر فتنہ و فساد ہی کرے گا، انھیں دکھا دکھا کر عرفات کی حاضری دینے والوں پر فخر کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دیکھو خاک کے پتلوں کا ذوق جبیں سائی دیکھو، آج جب اپنے کو اتنے حجاب میں رکھا ہے، اس وقت تو ان کی تمنائے دیدار اور دیوانگی کا یہ حال ہے پھر جس وقت حجابات اٹھ جائیں گے، اس وقت اس شمع رخ پر پروانے کس بے انداز مستی اور دیوانگی سے گریں گے۔*
*لکھو کھاکے مجمع میں لوگ سب ہی طرح کے ہیں، ہر مزاج، ہر مذاق، ہر مرتبہ کے نمونے موجود ہیں، ہزاروں ایسے ہیں، جو عرفات کی حاضری کو ایک طرح کی تفریحی تقریب سمجھے ہوئے ہیں اور چائے پینے پلانے کی دعوتوں میں مصروف ہیں، سینکڑوں ہزاروں ایسے ہیں جو سو سو کر اپنا وقت کاٹ رہے ہیں، کہیں کہیں دیگیں چڑھی ہوئی ہیں، اور اعلیٰ درجہ کی بریانی اور پلاؤ کا سامان ہورہا ہے، پھر بھی ہزاروں بندے اللہ کے ایسے بھی ہیں جو وقت کی قدر و قیمت کو پہچانے ہوئے اور مقام کی اہمیت کو پوری طرح جانے ہوئے، اس دوپہر کی ایک ایک گھڑی اور اس سہ پہر کا ایک ایک لمحہ اپنے رب کے آگے ہاتھ پھیلانے اور پیشانی رگڑنے، رونے اور گڑگڑانے استغفار و مناجات کرنے میں بسر کررہے ہیں، انھیں میں کیسے کیسے مخلص و متقی ہوں گے، قطب ہوں گے ابدال ہوں گے، اولیاء ہوں گے، کاملین ہوں گے، ان کی دعائیں کیا تنہا اپنے نفسوں کے لیے ہوں گی؟ ان کے رب کی رحمتوں کا نزول کیا صرف انھیں کے لیے ہوگا؟ اللہ اور اللہ والوں سے تنگ دلی کی بدگمانی! نعوذباللہ! آج تو وہ دن ہے کہ کسی کا کرم بےحساب اور رحمت بےپایاں اپنے سایہ دامن میں لینے کے لیے حیلہ ڈھونڈھتی ہے، اللہ والوں کی سفارش سے بڑھ کر اور کیا حیلہ ہوگا، ان مقبولوں کے طفیل میں خدا معلوم کتنے غیر مقبول آج مقبول بن جاتے ہیں اور کتنے مفلسوں اور تہی دستوں کا شمار آج سرمایہ داروں میں ہونے لگتا ہے، کریم جب دینے پر آئے اور کریم کے در کے بھکاری مانگنے میں کمی نہ کریں تو داد و دہش کی کیا کمی! ۔اہل و نااہل کس و ناکس حقدار اور بے حقے، کھرے اور کھوٹے سب ہی اپنی قسمتوں کے حصہ کے مطابق نعمتوں سے سرفراز اور دولتوں سے مالا مال ہورہے ہیں!۔*
*صوفیہ کے تذکروں میں آتا ہے کہ علی بن موفقؒ ایک بہت قدیم بزرگ گزرے ہیں، حج کے لیے حاضر ہوئے، نویں شب میں منیٰ میں خواب دیکھا کہ دو فرشتے باہم گفتگو کررہے ہیں۔ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اب کی کتنے حاجی آئے؟ جواب ملا کہ ۶ لاکھ، پھر پوچھا کہ حج مقبول کتنوں کا ہے؟ جواب ملا کہ ۶ کا، ۶ لاکھ میں کل ۶چھ! ۔ہول و دہشت سے آنکھ کھل گئی اور دل نے کہا کہ اپنا شمار ان چھ خوش نصیبوں میں تو بہرحال نہیں ہوسکتا، معلوم ہوتا ہے یہ ساری محنت و مشقت بے کار ہی گئی، دسویں شب میں عرفات سے واپسی کے بعد پھر اسی طرح خواب میں انھیں دو فرشتوں کو دیکھا، ایک نے پوچھا کہ حج مقبول کل چھ کا ہوا؟* *دوسرے نے جواب دیا کہ ان چھ کے طفیل میں پورے چھ لاکھ کے حج قبول ہوگئے!۔ العظمتہ للہ! ان نوازشوں اور سرفرازیوں کا کوئی ٹھکانہ ہے! ان رحمتوں اور بخششوں کی کوئی حد و انتہا ہے!۔*
*ان حکایتوں پر حیرت کیوں کیجئے، کیا روز مرہ آپ نہیں دیکھتے رہتے کہ غلہ کے انبار میں جو مٹی اور تنکے پڑجاتے ہیں، وہ بھی غلہ ہی کے حساب سے بکتے ہیں اور سونے میں گردوغبار کے جو ذرات شامل ہوجاتے ہیں، وہ بھی سونے ہی کے ساتھ تلنے لگتے ہیں!۔ کتا ایک نجس اور ناپاک جانور ہے، اصحاب کہف کے طفیل میں کہاں سے کہاں پہونچ گیا!۔ پھر انسان تو بہرحال انسان ہے اور جو عرفات میں حاضر ہوتا ہے وہ آخر اللہ اور رسول ﷺ کا نام لیوا تو ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر بدنصیب اور کون ہوگا، جو آج اور یہاں کی حاضری کے وقت بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کو بھلائے رکھے، کہ ۔″اعظم الناس ذنبا من وقف بعرفۃ فظن ان الله لم یغفرلہ″۔*
*سب سے بڑھ کر گناہ گار وہ ہے جو عرفات میں حاضر ہو اور پھر بھی یہ خیال رکھے کہ اللہ نے اسے نہیں بخشا۔*
*(سفر حجاز)*
❤️
👍
❤
💯
😂
🤲
14