
محبین دارالعلوم دیوبند✅ Muhibbeen Darul Uloom deoband
June 9, 2025 at 07:55 AM
*نوحۂ انسانیت — دہلی کے مصطفیٰ آباد میں معصوم کلی کی عصمت دری پر ایک طالب علمِ دیوبند کی پکار*
*بقلم: ندیم اشرف*
*(طالب علم: دار العلوم دیوبند)*
*الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین، وعلی آلہ و صحبہ أجمعین۔ اما بعد:*
*آج میں جس درد کو الفاظ میں ڈھالنے جا رہا ہوں، وہ درد صرف ایک مظلوم خاندان کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر کا ہے؛ وہ آنسو صرف ایک ماں کی آنکھ کا نہیں، بلکہ ہر اس انسان کے دل کا ہے جس کے سینے میں ابھی تک دل دھڑکنے کی کوئی رمق باقی ہے۔*
*دہلی کی سرزمین — وہ سرزمین جو کبھی شاہانِ ہند کے عدل و انصاف کی گواہ رہی، آج اسی دہلی کے ایک علاقے مصطفیٰ آباد میں ایک ننھی سی معصوم کلی کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔*
*ریپ۔۔۔!*
*جی ہاں، اس ننھی جان کے ساتھ درندگی کی گئی، اس کی عصمت تار تار کر دی گئی۔*
*اس کے کمزور وجود کو جس وحشی نے نوچا، وہ بظاہر انسان کے جسم میں چھپا ایک خالص حیوان تھا، بلکہ حیوان سے بھی بدتر؛ کیوں کہ حیوان کی بھی کوئی فطری حدود ہوتی ہیں، مگر یہ ایسا درندہ تھا جس پر نہ عقل کا قابو تھا، نہ ضمیر کا، نہ قانون کا، نہ ربّ کا۔*
*افسوس صد افسوس!*
*کہ آج کی مہذب دنیا، آج کا روشن خیال میڈیا، آج کی فلاحی حکومتیں — سب اپنی اپنی عیش پرستی میں مگن ہیں، اور جب ایسے واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں تو محض مذمتی بیانات دے کر اپنے چہرے پر مصنوعی رحم کا غازہ مل لیتی ہیں۔*
*میں، بطور ایک ادنیٰ طالب علمِ دار العلوم دیوبند، آج اس مقام پر کھڑے ہو کر یہ سوال کر رہا ہوں:*
*اے حکومتِ ہند!*
*کیا تمہاری ذمہ داری نہیں کہ اس ملک کی بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرو؟*
*کیا تمہاری وزارتِ داخلہ کی آنکھیں بند ہیں؟*
*کیا تمہارے قانون کے رکھوالے صرف اقتدار کے گلیاروں میں چمکنے کے لیے ہیں؟*
*کیا تم صرف مذہب، ذات، قوم، برادری دیکھ کر انصاف کے ترازو کو جھکاؤ گے؟*
*اے ہندوستان کے قومی میڈیا!*
*کیا تمہارا ضمیر مر چکا ہے؟*
*کیا TRP کی دوڑ میں تمہاری انسانیت کا خون ہو چکا ہے؟*
*کیوں تم ایک معصوم مسلم بچی کے ریپ پر دن رات کی ہیڈ لائنز نہیں چلاتے؟*
*کیوں تمہارے اسٹوڈیوز میں آج سکوت چھایا ہوا ہے؟*
*کیا یہ بچی ہندوستان کی بیٹی نہیں تھی؟*
*میرے عزیز ساتھیو!*
*یہ محض ایک واقعہ نہیں، یہ پوری قوم کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔*
*اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہمارے گھروں کے دروازے بھی محفوظ نہ رہیں گے۔*
*اگر آج ہم صرف افسوس کر کے بیٹھ رہے تو کل ہمارے اپنوں کے جنازے بھی اٹھیں گے۔*
*ہمیں اٹھنا ہوگا، ہمیں بولنا ہوگا۔*
*ہمیں حکومت سے مطالبہ کرنا ہوگا:*
*اس درندے کو عبرتناک سزا دی جائے — پھانسی دی جائے۔*
*بچوں کے خلاف جرائم پر فوری، تیز رفتار عدالتی نظام نافذ کیا جائے۔*
*ہر محلے میں بچوں کے تحفظ کے لیے عملی اسکیم جاری کی جائے۔*
*پولیس کی جواب دہی طے کی جائے کہ اس نے ایسے درندوں پر پہلے کیا کاروائی کی؟*
*میڈیا کو مجبور کیا جائے کہ مظلوموں کو مساوی کوریج دے، صرف سیاسی مصلحتوں کے تحت خبروں کو دبائے نہیں۔*
*اور ہمیں اپنے سماج میں بھی اصلاح کرنی ہے:*
*اپنے گھروں میں بچیوں کو تحفظ دینا سکھائیں۔*
*اپنے بچوں کو برائی اور برے انسانوں سے بچنے کی تعلیم دیں۔*
*محلوں میں نگرانی کمیٹیاں قائم کریں۔*
*مساجد کے منبر سے زنا، ریپ، اور حرام کاری کے خلاف آواز بلند کریں۔*
*اور اے علمبردارانو!*
*آج اگر ہم صرف سوشل میڈیا پر چند لفظ لکھ کر خاموش ہو گئے، تو تاریخ ہمیں بزدل قوم کہے گی۔*
*تاریخ کہے گی کہ جب معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی ہو رہی تھی، اس وقت علم کے میناروں میں، دانشور اور عوام خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔*
*ہمیں اس روایت کو توڑنا ہوگا۔*
*ہمیں انصاف کی لڑائی میں صفِ اوّل میں کھڑے ہونا ہوگا۔*
*اے اللہ! اس معصوم بچی کے درجات بلند فرما۔ اس کے ظالم درندے کو دنیا و آخرت میں نشانِ عبرت بنا۔ ہمارے ملک کو ایسا محفوظ، پاکیزہ اور باحیاء بنا دے جہاں کوئی ماں اپنی بچی کو باہر بھیجتے وقت سہم نہ جائے۔*
*آمین یا رب العالمین۔*

😢
😭
🤲
❤️
👍
🥹
🇦🇫
👊
💯
😂
68