
تحفظ ختم نبوت
May 24, 2025 at 02:04 PM
ایک بامقصد اور مصروف زندگی کی شام۔۔
اکابر علماء کے صحبت یافتہ،بزرگ عالم دین اور حاذق طبیب مولانا حکیم عبد القادر افغانی (رحمہ اللہ) بامقصد اور مصروف مستعار زندگی گزار کر اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ ۔
مرحوم عظیم یونیورسٹی جامعہ اشرفیہ لاہور کے قدیم فضلاء میں سے تھے۔1964ء میں جامعہ سے رسمی فراغت حاصل کی۔اس سے پہلے دارالعلوم دیوبند ثانی جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک اور چارسدہ (کے پی کے) میں جامع المعقول و المنقول مولانا حسن جان شہید رحمہ اللہ کے ہم درس ہو کر ان کے والد گرامی سے بھرپور اکتسابِ فیض کیا۔علاوہ ازیں عظیم روحانی شخصیت حضرت مولانا احمد علی لاہوری ،محدث جلیل مولانا ادریس کاندھلوی،مفسر قرآن شارح علوم نبویہ علامہ شمس الحق افغانی(انہی استاذ محترم سے محبت و عقیدت کی وجہ سے ،،افغانی ،،تخلص اپنے نام کا جز بنائے رکھا اور حکیم افغانی کے نام سے جانے جاتے تھے),شیخ التفسیر و الحدیث مولانا قاضی شمس الدین و دیگر اکابر رحمہم اللہ سے اپنی علمی پیاس بجھائی۔مصنف ،،سیرت مصطفیٰ،،مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کے معتمد خاص تھے۔تعلیم کی تکمیل کے بعد ضلع منڈی بہاؤ الدین کی مختلف مساجد میں امامت وخطابت کے فرائض سر انجام دیئے۔عوام الناس کی قرآن وسنت کی روشنی میں فکری و عملی رہنمائی کی اور توحید و سنت کے جام پلائے۔1972ء میں حکمت کی تحصیل کے لیے طب نظریہ مفرد اعضاء کے موجد و بانی دنیائے حکمت میں مشہور زمانہ حکیم صابر ملتانی رحمہ اللہ کی درسگاہ لاہور پہنچ گئے۔دوسال تک حکیم صابر ملتانی رحمہ اللہ سے خوب استفادہ کیا اور حکمت کورس کی تکمیل کی ۔اس کے بعد حکیم صابر ملتانی رحمہ اللہ نے آپ پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے حکمت کے میدان میں کام کرنے کی ہدایت کی۔استاذ کی تربیت نے اثر دکھایا اور منڈی بہاؤ الدین میں حکمت کے میدان میں خوب نام کمایا اور نباض شناس اور حاذق طبیب مشہور ہو گئے۔دیگر اضلاع میں بھی آپ کی نباض شناسی کے چرچے ہونے لگے اور علاج کے سلسلے میں بیرون اضلاع سے بھی مریض آنا شروع ہوگئے۔بعض ڈاکٹرز نے بھی مختلف امراض کے علاج کے لیے آپ کی طبی مہارت سے استفادہ کیا۔علماء اور دینی مدارس کے طلباء سے کمال شفقت سے پیش آتے اور مفت علاج کرتے۔یہی قابلِ تحسین سلسلہ ان کے تابع فرماں حکیم بیٹوں اور شاگردوں نے بھی جاری رکھا ہوا ہے۔تبلیغی جماعت کے ساتھ خصوصی تعلق تھا جس کی وجہ سے اکثر شب جمعہ کے لیے تبلیغی مرکز تشریف لے جاتے تھے۔علاوہ ازیں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت و دیگر مذہبی جماعتوں کی عمر بھر سرپرستی فرماتے رہے۔ان کے صاحبزادگان عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔سو سے زائد عمر پائی۔یکے بعد دیگرے چار نکاح کیے۔تین بیویاں بیاہ کر گھر لائے جبکہ ایک سے نکاح کر رکھا تھا لیکن رخصتی کی نوبت نہیں آئی۔پسماندگان میں ایک بیوہ،آٹھ بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑیں۔آٹھ بیٹوں میں چھ عالم جبکہ حکمت سب کو سکھائی جس کی وجہ سے وہ مسجد و مدرسے سے منسلک رہ کر اس باعزت شعبے کو اختیار کر کے خوشگوار زندگی بسر کر رہے ہیں۔کچھ عرصے سے علیل تھے اور تربیت یافتہ تابع فرماں اولاد سعادت سمجھتے ہوئے ہمہ تن خدمت میں مصروف رہی۔25ذی قعدہ مطابق 23مئی مبارک دن جمعہ کو وقت موعود آ پہنچا اور روح قفس عنصری سے جدا ہو کر علیین پہنچ گئی۔وفات کی خبر لمحہ بھر میں پھیل گئی۔لمبی عمر اور نیک عمل کی بدولت حدیث،،طوبی لمن طال عمرہ و حسن عملہ،،خوشخبری ہو اس آدمی کے لیے جس کی عمر لمبی اور اچھے عمل ہوں،،کا مصداق ٹھہرے اور جمعہ کے دن وفات کی وجہ سے حدیث،،ما من مسلم یموت لیلۃ الجمعۃ او یوم الجمعۃ الا وقاہ اللہ فتنۃ القبر،،کے مطابق عذاب قبر سے محفوظ ٹھہرے۔
قد قیل~
عاش سعیدا و مات سعیدا۔
نمازِ جنازہ ان کے فرزند ارجمند مولانا حکیم عبد الرشید صاحب کی اقتداء میں گوڑھا باغ منڈی بہاؤ الدین ادا کی گئی جس میں اہل مساجد و مدارس،مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے عہدیداران و دیگر طبقات کے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔اللھم اغفر لہ,وارحمہ وارزقہ عیشۃ راضیۃ ۔
نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گی یہ ساز ہستی ایک دن
منجانب۔محمد مسعود خوشابی استاذ الحدیث مدرسہ دارالقرآن والسنہ محلہ عارف آباد منڈی بہاؤ الدین۔
❤️
🤲
3