
The Baloch Raaj Post
June 11, 2025 at 01:48 PM
*ریاست، بی این پی جڑواں این پی بمقابلہ بی وائی سی*
*"ایڈوکیٹ ماہین بلوچ"*
ریاست کے لیے یہ امر نہایت تشویش ناک اور اضطراب انگیز تھا کہ جب بھی بلوچستان کے کسی جبراً لاپتہ کیے گئے نوجوان کی تشدد زدہ لاش ملتی، یا کسی بلوچ نوجوان کو ریاستی اداروں کے ہاتھوں غائب کیا جاتا، تو بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) اپنی قیادت — ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اور صبغت اللہ شاہ جی بلوچ — کی بے خوف، باحوصلہ اور انسان دوست قیادت میں گلیوں، کوچوں اور میدانوں میں اتر آتی۔ وہ نہ صرف ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرتے بلکہ ہزاروں افراد کو منظم کر کے، ریاستی دہشتگردی کے خلاف متحدہ عوامی مزاحمت کو حقیقت کا روپ دیتے۔
اس مزاحمت نے محض احتجاج تک خود کو محدود نہیں رکھا، بلکہ ریاستی اداروں کے اس بیانیے کو چیلنج کیا، جس کے تحت جبری گمشدگیاں معمول کا عمل تھیں۔ بی وائی سی نے دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ (offensive) پوزیشن اختیار کی، اور ریاستی اداروں کو پہلی بار اپنی پالیسیوں کے دفاع پر مجبور کر دیا۔
بلوچستان میں جس سیاسی خلا نے برسوں سے عوام کو بے سمت کیے رکھا تھا، اسے بی وائی سی کی قیادت نے اپنی خلوص پر مبنی جدوجہد سے نہ صرف پر کیا بلکہ ایک مربوط اور بامعنی بیانیہ بھی تشکیل دیا۔ انسانی حقوق کی پامالیوں اور ریاستی جبر کے خلاف بی وائی سی کی آواز نہ صرف بلوچستان میں گونجی بلکہ عالمی سطح پر بھی سنی گئی۔ بی وائی سی کا تصور اب محض ایک کمیٹی نہیں رہا، بلکہ ہر باشعور بلوچ کے دل و دماغ میں ایک نجات دہندہ تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
بی وائی سی کی قیادت کی انتھک محنت اور ثابت قدمی نے بلوچ قوم میں شعور، سیاسی بیداری اور جرات کو جنم دیا۔ یہ وہ تبدیلی تھی جس سے ریاستی حلقے نہ صرف پریشان تھے بلکہ مضطرب بھی۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی قربانیوں کو بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کے ذریعے بلوچ مسئلہ کو نئی جہت ملی۔
ایسے وقت میں جب بی وائی سی کی مزاحمت نے اپنی قوت کا لوہا منوا لیا تھا، سردار اختر مینگل دبئی سے واپس آ کر اچانک منظر نامے پر نمودار ہوئے اور وڈھ کے پولیس تھانے میں ایک غیر ضروری ایف آئی آر کے خلاف دھرنا دے کر خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس سیاسی حرکت کو عوامی سطح پر کوئی پذیرائی نہ ملی۔ خود ان کے بھائی میر جاوید مینگل نے اس اقدام کو بے معنی قرار دے کر اس کی قلعی کھول دی۔
ادھر، جب جعفر ایکسپریس کے سانحے نے ریاستی بیانیے کو مزید خونی کر دیا اور جبری گمشدگیوں کا تسلسل اور ماورائے عدالت قتل روزمرہ کی خبر بن گئے، تو بی وائی سی نے حسبِ روایت مزاحمت کا علم بلند کیا۔ قیادت کو گرفتار کیا گیا، تو عوام نے خود کو اس کاز کے سپاہی ثابت کیا اور سڑکوں پر نکل آئے۔ ایسے میں اچانک سردار اختر مینگل نے "بلوچ ناموس لانگ مارچ" کا اعلان کر کے بی وائی سی کی قیادت کی رہائی کا نعرہ بلند کیا اور کوئٹہ میں دھرنا دے دیا — مگر یہ دھرنا محض ایک سیاسی چال ثابت ہوا۔
ایک جانب ریاست بی وائی سی کی مقبولیت سے خائف تھی، تو دوسری جانب بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی جیسی جماعتیں بھی بی وائی سی کے بڑھتے اثر سے نالاں تھیں۔ ان جماعتوں کی جلسہ گاہیں ویران جبکہ بی وائی سی کے احتجاجی میدان عوام سے لبریز تھے۔ ریاست نے بی وائی سی کی طاقت توڑنے اور بلوچ عوام کی بیداری کو زائل کرنے کے لیے انہی فرسودہ سیاسی گروہوں کو بطور مہرہ استعمال کیا۔
سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت نے کوئٹہ دھرنے میں وہی کردار ادا کیا جو ریاست نے ان سے متوقع رکھا تھا۔ یہ دھرنا محض وقت حاصل کرنے کی ایک ریاستی حکمت عملی تھی، تاکہ بی وائی سی کو کمزور کیا جا سکے۔ جب ریاست کو اپنا ہدف حاصل ہو گیا اور عوامی جذبات سرد پڑ گئے، تو بی این پی مینگل نے ایک مصنوعی فتح کا اعلان کر کے دھرنا ختم کیا اور چند بے جان جلسوں کے بعد دوبارہ ریاستی آکسیجن پر منتقل ہو کر خاموشی سے دبئی سدھار گئے۔
یہی وہ لمحہ تھا جب بلوچ عوام کے شبہات یقین میں بدل گئے — کہ سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت محض ایک ریاستی اسائنمنٹ پر بلوچستان آئے تھے۔ ان کا مقصد بی وائی سی کی قیادت کو مشکلات میں ڈالنا اور ریاستی ایجنڈے کی تکمیل تھا۔ جب یہ مقصد حاصل ہو گیا، تو بلوچ قوم کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر سردار صاحب واپس اپنے آسودہ مقام پر چلے گئے۔
یہ المیہ محض ایک جماعت یا قیادت کا نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کی جدوجہد کو زک پہنچانے کی کہانی ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ جب کوئی تحریک عوام کے دل سے نکلتی ہے، تو وقتی سازشیں اس کی رفتار کم تو کر سکتی ہیں، مگر اسے روک نہیں سکتیں۔

👍
❤️
😂
😢
🙏
42