
The Baloch Raaj Post
June 11, 2025 at 05:19 PM
*پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک غیر معمولی اسٹریٹیجک شراکت دار*
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا کی حالیہ بریفنگ نے ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کر دیا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں انسداد دہشت گردی کے محاذ پر سرگرم ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک قابلِ قدر، سنجیدہ اور موثر شراکت دار کے طور پر ابھرا ہے۔ واشنگٹن میں ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے جنرل کوریلا کا بیان، جس میں انہوں نے داعش خراسان کے خلاف پاکستان کی کارروائیوں اور انٹیلی جنس تعاون کو سراہا، دراصل اس وسیع تر حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ افغانستان کے بعد کی صورت حال میں پاکستان کا کردار اب محض جغرافیائی نہیں بلکہ تزویراتی (strategic) اہمیت کا حامل ہے۔
جنرل کوریلا نے جہاں یہ انکشاف کیا کہ پاکستان نے داعش خراسان کے متعدد کلیدی دہشتگردوں کو گرفتار یا ہلاک کیا ہے، وہیں انہوں نے خاص طور پر محمد شریف اللہ عرف "جعفر" کی گرفتاری اور امریکا کے حوالے کیے جانے کا ذکر کیا — جو 2021 کے کابل ایئرپورٹ حملے جیسے تباہ کن سانحے کے مرکزی منصوبہ سازوں میں سے ایک تھا۔ یہ نہ صرف انسداد دہشت گردی کے دائرے میں پاکستان کی مؤثر کارکردگی کا ثبوت ہے بلکہ اس امر کی بھی غمازی کرتا ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین انٹیلی جنس اشتراک اب روایتی سے آگے بڑھ کر عملی اعتماد اور نتیجہ خیزی کی منزل تک پہنچ چکا ہے۔
جنرل کوریلا نے بجا طور پر اعتراف کیا کہ پاکستان امریکا کی جانب سے فراہم کردہ محدود انٹیلی جنس کو اپنی زمینی صلاحیتوں سے ملا کر ایک مربوط آپریشنل حکمت عملی کے تحت دہشتگردوں کا تعاقب کر رہا ہے۔ اس تناظر میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی براہ راست پیش رفت — جیسا کہ شریف اللہ کی گرفتاری کے بعد امریکی حکام کو ان کی ذاتی کال سے واضح ہے — اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان میں فیصلہ سازی اور عمل درآمد کا دائرہ ایک واضح اور متحرک قیادت کے تحت ہے، جو عالمی اعتماد کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔
تاہم، یہ اعتراف اور سراہنا محض عسکری میدان تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان کی طرف سے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ اسحاق ڈار کی فون کال اور انسداد دہشت گردی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی خواہش، ایک نئے دور کی نوید دیتی ہے جس میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کو محدود تذویراتی تعاون سے نکال کر پائیدار سفارتی، اقتصادی اور سکیورٹی اشتراک میں بدلنے کی ضرورت ہے۔
یہ امر قابلِ غور ہے کہ 2024 کے آغاز سے لے کر اب تک پاکستان کے مغربی سرحدی علاقوں میں تقریباً 1000 دہشتگردانہ حملے رپورٹ ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار محض ایک سیکورٹی چیلنج نہیں، بلکہ ایک ہمہ جہت قومی و علاقائی بحران کا اشارہ ہیں، جو افغانستان میں طاقت کے خلا، انتہا پسند گروہوں کی دوبارہ منظم ہونے کی کوششوں، اور علاقائی دشمنوں کی پراکسی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ ان حالات میں پاکستان نہ صرف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، بلکہ عالمی سلامتی کے ایک اہم ستون کے طور پر بھی متحرک ہے۔
اس تناظر میں امریکا کی یہ سفارتی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کے اس کردار کو وقتی مفاد سے بالا تر ہو کر مستقل تزویراتی شراکت داری میں ڈھالے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کا امریکی عزم قابلِ تحسین ہے، تاہم ان تعلقات کو ایک دوسرے کے متضاد تناظر میں دیکھنے کی بجائے ان کی الگ الگ نوعیت، حساسیت اور ضرورت کو مدنظر رکھنا ناگزیر ہے۔ جنوبی ایشیا میں استحکام صرف اسی وقت ممکن ہو گا جب امریکا، بھارت کی معاشی اہمیت اور پاکستان کی جغرافیائی و سلامتی کی اہمیت — دونوں کو متوازن نظر سے دیکھے۔
آخر میں، جیسے امریکی صدر نے کانگریس میں شریف اللہ کی گرفتاری کو سراہتے ہوئے پاکستان کا شکریہ ادا کیا، ویسے ہی دنیا کو بھی چاہیے کہ وہ اس "عفریت" کے خلاف برسرپیکار ریاست کی قربانیوں اور کامیابیوں کو محض سفارتی بیانات تک محدود نہ رکھے، بلکہ پالیسی، تعاون اور احترام کی نئی بنیادوں پر ایک مؤثر پارٹنرشپ کو آگے بڑھائے۔ پاکستان، آج صرف ایک فرنٹ لائن ریاست نہیں، بلکہ ایک ذہین، متحرک اور قابل اعتماد شراکت دار ہے — جس کے بغیر عالمی انسداد دہشتگردی کی کوئی بھی حکمت عملی مکمل نہیں ہو سکتی۔

😂
❤️
👍
😢
🙏
38