دین و دنیا چینل
June 6, 2025 at 07:35 AM
*حـجـاز کـی آنـدھـی ⛰️* *قـسـط نــمـبـر 85* *’’شہنشاہ نے بچہ واپس دے دیاہے۔‘‘ ____ کمانڈر نے کہا اور باہر نکل گیا۔* *’’ماؤں کی چھاتیوں سے بچے نوچنے والے بادشاہ کی بادشاہی زیادہ دن نہیں رہے گی۔‘‘ ____ یہ ایک آہ تھی یا ایک فریاد تھی جو اس عورت کے منہ سے نکلی ۔* *’’یہاں جتنے یہودی ہیں انہیں قید خانے میں پھینک دیا جائے۔‘‘ ____ یزد گرد نے حکم دیا۔* مدائن میں چند ایک ہی یہودی تھے جو تین چار مکانوں میں رہتے تھے ۔ ایک کشادہ مکان کے ایک حصے میں انہوں نے عبادت گاہ بنا رکھی تھی ۔ گذشتہ رات وہ سب اکٹھے بیٹھے اُس بوڑھے یہودی کے متعلق باتیں کر رہے تھے جو لڑکی اور ایک نوزائیدہ بچے کو دریا کے کنارے لے گیا تھا ۔ اُس بوڑھے کا نام شمعون جبریل اور اُس کے ساتھی کا نام ابو ازمیر تھا ۔ اس محفل میں سب سے زیادہ عمر والا ایک یہودی راہب تھا۔ ’’……لیکن شمعون مجھے کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔‘‘ ____ یہودی راہب کہہ رہا تھا ____ ’’آخر میں بھی کچھ جانتا ہوں، میں نے خبر دار کر دیا تھا کہ تم جو عمل کررہے ہو اس میں خطرہ یہ ہے کہ اُلٹ بھی جایا کرتا ہے ۔ تم ایک کنواری لڑکی اور ایک نوزائیدہ بچے کی جان لے رہے ہو ۔ اگر تمہاری اپنی جان چلی گئی تو میں حیران نہیں ہوں گا…… وہ میری بات سن کر اس طرح ہنس پڑا تھا جیسے میں کم عقل اور نادان ہوں یا بچہ ہوں۔‘‘ ’’ربی شمعون کے ساتھ میری بھی بات ہوئی تھی‘‘ _____ ایک اور یہودی بولا _____ ’’اُس نے کہا تھا کہ ہمارے پیغمبر موسیٰؑ نے دریائے نیل کا پانی روک دیا اور اپنے قبیلے کو اس سے گزار لائے تھے ۔ فرعون کا لشکر جو اُن کے تعاقب میں آرہا تھا ، نیل میں ڈوب گیا تھا۔ میں نے اپنے عمل کیلئے دجلہ کے کنارے کا انتخاب کیاہے ۔ یزدگرد کی فوج کشتیوں اور پُل کے ذریعے مدائن میں آجائے گی اور مسلمان ان کے تعاقب میں دجلہ پار کرنے لگیں گے تو ان کا سارا لشکر ڈوب جائے گا ۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچے گا۔‘‘ ’’اگر وہ یہ بات مجھ سے کرتا تو میں اُسے سمجھاتا۔‘‘ ____ راہب نے کہا ____ ’’وہ خدا کا حکم تھا کہ موسیٰ نکل آئے اور فرعون کا لشکر ڈوب جائے……یہاں کون موسیٰ ہے؟ فرعون کون ہے؟ ہم اگر مسلمانوں کے دشمن ہیں تو مسلمان فرعون تو نہیں ہو جاتے۔ فرعونوں والے اوصاف تو ان آتش پرستوں کے ہیں۔ ان کے بادشاہوں کا حکم ہے کہ جو کوئی دربار میں آئے ، پہلے سجدہ کرے۔ مسلمان خدا کے سوا کسی اور کے آگے سجدہ نہیں کرتے نہ ہی یہ بادشاہت کو مانتے ہیں…… ہم مسلمانوں کو تباہ و برباد کر کے اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن ہمارے چاہنے سے وہ قوت کمزور تو نہیں ہو جاتی جو مسلمانوں کو فتح پر فتح دیتی چلی آرہی ہے۔" ’’یہ قوت کیا ہے؟‘‘ ____ ایک یہودی نے پوچھا ____ ’’معلوم ہو جائے تو ہم اسے کمزور کر سکتے ہیں۔‘‘ ’’یہ عقیدے کی قوت ہے‘‘ ____معمر ربی نے کہا ____ ’’اور یہ یقین کی قوت ہے……خدا پر یقین، اپنی ذات پر یقین……اپنی ذات پر صرف اس شخص کو یقین ہوتا ہے جس کا کردار سحر کے ستارے کی طرح روشن اور شفاف ہوتا ہے ۔ اس یقین کو اور اس کردار کو مسلمان ایمان کہتے ہیں ۔ ہمارے پاس جوان لڑکیاں ہیں ۔ ان کے حسن میں ان کے انداز میں طلسماتی اثر ہے ۔ہماری ہر لڑکی بادشاہی کا تخت الٹ سکتی ہے مگر یہی لڑکی معمولی سے ایک مسلمان کا دل نہیں موہ سکتی کیونکہ مسلمانوں پر کوئی اور ہی طلسم طاری ہے۔‘‘ ’’کیا بات ہے ربی!‘‘ ____ ایک یہودی نے کہا ___ ’’کیا آپ مسلمانوں کی حمایت میں نہیں بول رہے؟‘‘ ’’مسلمانوں کے حق میں نہیں! ‘‘ ____ربی نے کہا ____ ’’میں ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں…… اور میرے دوستو! اور میں کچھ اور بھی محسوس کر رہا ہوں…… مسلمان جسمانی طاقت کے زور پر یہاں تک نہیں پہنچے ۔ سوچو ، غور کرو۔ ہم اسلام کو نہیں مانتے ، پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ مسلمانوں کے پاس بھی جادو ہے اور وہ ہمارے جادو سے زیادہ طاقتور اور تیز ہے ۔ ہم نے کیا کیا جتن نہیں کیے ۔ مسلمانوں کی پیش قدمی کو ہم نہیں روک سکے۔ شاید روک بھی نہیں سکیں گے ۔ ربی شمعون نے میری بات نہیں مانی ۔ مجھے خطرہ نظر آرہا ہے۔‘‘ ’’کیا آپ یزدگرد اور اس کی فوج سے مایوس ہو چکے ہیں؟‘‘ ’’کیا تم دیکھ نہیں رہے؟‘‘ ____ راہب نے کہا ____ ’’ہمیں یزدگرد کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ۔ ہمارا مقصد مسلمانوں کو شکست دلانا ہے ۔ میں کہہ رہا ہوں کہ شمعون نے بڑا ہی خطرناک راستہ اختیار کیا ہے۔‘‘ ’’کیا آپ انہیں روک نہیں سکتے؟‘‘ ’’روک سکتا ہوں‘‘ ____ بوڑھے راہب نے جواب دیا ____ ’’لیکن وہ اپنا عمل مکمل کرنے پرمجبور ہو گیا ہے۔ اُس نے شاہِ فارس کو یقین دلایا ہے کہ وہ جو جادو تیار کر رہا ہے یہ مسلمانوں کو تباہ کر دے گا ۔ یزدگرد بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔ اگر جادو نے کام نہ کیا تو یزدگرد شمعون کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔‘‘ اچانک سب یک زبان ہو گئے اور اس بوڑھے راہب سے کہا کہ ربی شمعون کوئی اناڑی نہیں اور اس نے خطرہ مول لیا ہے تو سوچ سمجھ کر لیا ہے ۔ ان یہودیوں کی محفل ابھی برخاست نہیں ہوئی تھی کہ دجلہ کے کنارے دلدلی علاقے میں شمعون جبریل اور اس کا ساتھی ابوازمیر مگر مچھوں کے پیٹ میں جا چکے تھے ۔ اُس نے جو خطرہ سوچ سمجھ کر مول لیا تھا وہ اپنا کا م کر گیا تھا۔ دوسرے دن ان یہودیوں کے گھروں کے دروازوں پر بیک وقت دستک ہوئی ۔ دروازے کھلے تو شاہی محافظ اندر چلے گئے ۔انہوں نے ہر گھر کے ہر فرد کو پکڑ لیا اور باہر لے آئے ۔ ان میں بڑی عمر کی عورتیں صرف دو ہی تھیں اور دو جواں سال لڑکیاں تھیں جن کا حسن بے مثال تھا ۔ وہ ان تمام یہودیوں کو قید خانے کی طرف لے گئے۔ ’’ہمارا جرم کیا ہے؟‘‘ ____ راستے میں یہودی محافظوں سے پوچھتے تھے ۔ اس سوال کے جواب میں انہیں دھکیلتے ہوئے لے جایا جا رہا تھا۔ ’’ٹھہر جاؤ۔‘‘ ____ محافظوں کے کمانڈر نے رکتے ہوئے کہا _____ ’’ہم لوگ شہنشاہِ فارس کے کام کی چیزیں بھی قید خانے میں لے جا رہے ہیں…… ان دونوں لڑکیوں کو محل میں بھیج دو۔ اگر شہنشاہ حکم دیں کہ انہیں قید خانے میں ڈال دو تو پھر انہیں اِدھر لے آنا۔‘‘ کمانڈر نے دو محافظوں سے کہا کہ وہ دونوں لڑکیوں کو محل میں لے جائیں اور شہنشاہ سے پوچھیں کہ ان کے متعلق کیا حکم ہے؟ محافظوں نے لڑکیوں کو الگ کیا تو انہوں نے کوئی نمایاں طور پر مزاحمت نہ کی البتہ اپنی زبان میں اپنے آدمیوں کے ساتھ کوئی بات کی ۔ ان آدمیوں میں جو سب سے زیادہ بوڑھا تھا اُس نے لڑکیوں سے کچھ کہا۔ کمانڈر نے انہیں ڈانٹ کر کہا کہ وہ ان آدمیوں سے الگ ہو جائیں ۔ یزدگرد بڑی ہی بے چینی اور اضطراب میں اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا ۔ اس کی ماں اور پوران اس کمرے موجود تھیں۔ ’’ان یہودیوں کو قید خانے میں بند کر دو گے تو کیا حاصل ہو گا؟‘‘ ____ پُوران نے کہا۔ ’’یہ یہودی فریب کار اور عیار ہیں۔‘‘ ____ یزد گرد نے رُک کر اور فرش پر زور سے پاؤں مار کر کہا ____ ’’اس بوڑھے نے ہمیں دھوکا دیا ہے ۔ میں انہیں قید خانے میں بھوکا اور پیاسا رکھ کر ماروں گا۔‘‘ ’’ایک بات کہوں یزدی!‘‘ _____ پوران نے کہا _____ ’’یہ دھوکہ اس بوڑھے یہودی نے ہمیں نہیں دیا ، یہ ہمارا اپنا قصور ہے کہ ہم اپنے آپ کو خود ہی دھوکہ دے رہے ہیں ۔ تم اپنے آپ کو دھوکہ دے کر مطمئن ہو سکتے ہو لیکن یزدی! حقیقت کو تم اپنی خواہشات اور اپنے خیالوں کے سانچے میں نہیں ڈھال سکتے…… ہوش میں آؤ یزدی!حقیقت کا سامنا کرو ۔ مسلمان بُہر شیر تک پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے اس شہر کا محاصرہ کرلیا ہے ۔ اگر ہم یہ شہر دے بیٹھے تو سمجھو مدائن بھی گیا اور پھر سب کچھ گیا۔‘‘ ’’اب میری بات سن یزدی بیٹا!‘‘ _____ یزدگرد کی ماں نورین نے کہا ____ ’’میں اب تک ایک ماں بنی رہی ہوں اور مجھے یہی غم کھاتا رہا کہ میرا بیٹا میری آغوش سے چھن کر موت کی آغوش میں نہ چلا جائے ۔ لیکن اب جب کہ مسلمان مدائن کے دروازے تک آپہنچے ہیں ، مجھ میں یہ جذبہ بیدار ہو گیا ہے کہ تجھ جیسے ایک سَو بیٹے ہوتے تو میں ان سب کو فارس کی عظمت پر قربان کردیتی…… دل کو مضبوط کر میرے بیٹے! یہ تیرے باپ کی سلطنت ہے اور تو ہی اس کا رکھوالا ہے ۔ یہ میرے خاوند کی سلطنت ہے ۔اس کی آن پر میں بھی لڑوں گی……اور اس جادو کے دھوکے سے نکل۔‘‘ ’’یہ ایک انسانی کمزوری ہے یزدی!‘‘ ____ پوران نے کہا ___ ’’حالات بعض اوقات ایسی کروٹ بدل لیتے ہیں کہ انسان بے بس ہو جاتا ہے اور وہ گھبرا کر جادو اور اس قسم کے ٹوٹکوں کا سہارا لینے لگتا ہے ۔ میں تسلیم کرتی ہوں کہ ہم لوگ علمِ نجوم اور جوتش وغیرہ کے زیادہ ہی قائل ہیں۔ رستم نے ہمارے اس عقیدے کو کچھ زیادہ ہی پختہ کر دیا تھا۔ وہ خود زائچے بناتا رہتا تھا ۔ سب سے پہلے اس نے کہا تھا کہ ستاروں کی گردش سلطنتِ فارس کے خلاف جا رہی ہے اور ستارے سلطنتِ فارس کے زوال کی خبر دیتے ہیں ۔ اس نے یہ حماقت کی کہ اس کی یہ پیشگوئی ساری فوج میں پھیل گئی ، جس سے فوج میں بددلی پیدا ہوئی ۔ اب تم نے پھر یہودیوں کے جادو کا سہارا لیا اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ اُس جادو نے جادوگر کی ہی جان لے لی۔‘‘ ’’مجھے کچھ بتاؤ۔‘‘ ____ یزدگرد نے ہارے ہوئے سے لہجے میں کہا ____ ’’کچھ سمجھاؤ ۔ میں کیا کروں؟ فوج بکھر گئی ہے۔‘‘ ’’بُہر شیر کو مضبوط کرو۔‘‘ ____ یزدگرد کی ماں نے کہا ______ ’’وہ تو ہم پہلے ہی کر رہے ہیں ۔میرا مطلب یہ ہے کہ اس شہر کو اتنا زیادہ مضبوط کرو کہ مسلمان اس کو محاصرے میں لیے بیٹھے ہی رہیں اور پھر تنگ آکر چلے جائیں۔‘‘ ’’اُن پر عقب سے حملہ کروایا جاسکتا ہے۔‘‘ ____ پوران نے کہا۔ ’’حملہ کون کرے گا؟ ‘‘____ یزدگرد نے پوچھا اور خود ہی جواب دیا ____ ’’باہر ہماری فوج موجود ہے ۔ لیکن وہ فوج نہیں۔ وہ بکھرے ہوئے ، ڈرے ہوئے اور پناہیں ڈھونڈتے ہوئے فوجی ہیں ۔ اُن کے ساتھ کوئی جرنیل نہیں۔‘‘ ’’کیا ہم لوگوں کو اکٹھا نہیں کر سکتے؟‘‘ ____ یزدگرد کی ماں نے پوچھا ____ ’’نہیں ماں نہیں!‘‘ ____ یزدگرد نے جھنجھلا کر کہا _____ ’’مجھے جاسوس باہر کے حالات بتا گئے ہیں ۔ مسلمانوں نے اس علاقے کے تمام لوگوں کو پکڑ کر اپنی حراست میں رکھ لیا تھا ۔ ہمارے ساتھ سب سے بڑا دھوکہ یہی ہوا کہ اس علاقے کے تمام امیر اور جاگیردار مسلمانوں سے مل گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں کی حراست سے رہا کرالیا ہے اور نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ہے بلکہ انہیں ہر طرح کی مدد اور امداد دے رہے ہیں ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے ان اُمراء نے مسلمانوں کی پیش قدمی کو اس طرح آسان بنا دیا ہے کہ اُن کے راستوں میں جو کھڈ اور ندی نالے آتے تھے اُن پر پُل بنا دیئے ہیں۔ ان لوگوں کو جاگیریں میرے آبا و اجداد نے دی تھیں ۔ آج انہی جاگیروں سے مسلمانوں کے ہاتھ مضبوط کیے جا رہے ہیں۔ اگر شہرزاد اور بسطام میرے ہاتھ چڑھ گئے تو میں انہیں زمین میں آدھا گاڑھ کر ان پر خونخوار کتے چھوڑ دوں گا۔ ’’ وہ بہت بعد کی بات ہے بیٹا!‘‘ ____ نورین نے کہا ____ ’’اس وقت مدائن کو بچانے کی بات کرو۔‘‘ ’’حقیقت کی بات کرو یزدی!‘‘ ____ پوران نے کہا ____ ’’حالات کو دیکھو……یہ تم نے اچھا کیا ہے کہ بُہرشیر کے ساحل سے تمام کشتیاں مدائن کے ساحل پر لے آنے کا حکم دے دیا تھا۔ صرف ایک پُل ہے۔ یہ پُل مسلمانوں کے کام نہیں آسکتا کیونکہ یہ مدائن کے وسط سے بُہر شیر کے وسط تک جاتا ہے ۔ اس پُل سے مسلمان صرف اسی صورت میں گزر سکتے ہیں کہ وہ بُہرشیر پر قبضہ کرلیں ۔ بُہرشیر میں مزید فوج بھیج دیتے ہیں۔‘‘ ’’تیر اور پھینکنے والی برچھیاں زیادہ بھیجو۔‘‘ _____ نورین نے کہا ____ ’’اتنی زیادہ کہ مسلمان شہرکی دیوار کے قریب آئیں تو ان پر تیروں اور برچھیوں کا مینہ برس پڑے۔‘‘ ’’میں نے سُنا ہے کہ مسلمانوں کے پاس منجیقیں بھی ہیں۔‘‘ ____ یزدگرد نے کہا ____ ’’یہ ایسا ہتھیار ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے ۔ نہ اس کا ہمارے پاس کوئی توڑ ہے۔‘‘ ’’ایک بات کہوں یزدی!‘‘ ____ پوران نے کہا ____ ’’ مسلمانوں کے پاس ایک اور ہتھیار بھی ہے جو ہمارے پاس نہیں۔‘‘ *=== ( ان شآءاللہ جاری ھے )* کاپی

Comments