دین و دنیا چینل
June 9, 2025 at 01:26 PM
*حـجـاز کـی آنـدھـی ⛰️* *قـسـط نــمـبـر 87* *منجیقوں کو کس طرح بیکار کیا جائے؟* *’’اس کا ایک ہی طریقہ ہے۔‘‘ ____ شہر کے جرنیل نے کہا ___* *’’کچھ نفری باہر بھیجی جائے جو مسلمانوں پر اس جگہ شدید حملہ کرے جس جگہ کوئی ایک منجیق ہو۔ شدید حملے سے مسلمان منجیق کو گھسیٹ کر نہیں لے جا سکیں گے۔ اسے ہمارے آدمی گھسیٹ کر شہر میں لے آئیں گے۔ اسے دیکھ کر ہم اسی طرح کی منجیقیں بنا لیں گے۔‘‘* یزدگرد کو یہ تجویز بڑی اچھی لگی۔ اُس نے حکم دیا کہ اُس کے سامنے کچھ نفری کو باہر نکال کر حملہ کیا جائے۔ فوری طور پر نفری تیار کر لی گئی۔ انہیں ضروری ہدایات دی گئیں ۔ یزدگرد نے اُن کا حوصلہ مضبوط کرنے کیلئے اُُن کے جذبات کو بڑی جوشیلی تقریر سے اُبھارا۔ شہر کی ایک طرف دیوار میں دو دروازے تھے۔ بیک وقت دونوں دروازے کھلے اور اُن میں سے گھوڑ سوار تلواریں اور برچھیاں تانے اس طرح نکلے جیسے سیلابی دریا کا بند ٹوٹ جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اس حملے کی توقع نہیں تھی۔ ان گھوڑ سواروں کا رُخ اُس طرف تھا جہاں دو منجیقیں قریب قریب لگی ہوئی تھیں۔ مسلمان چونکہ محاصرہ کیے ہوئے تھے ، اس لیے گھوڑ سوار تیار نہیں تھے۔ ان کے گھوڑے الگ کھڑے تھے جن پر زینیں نہیں تھیں۔ پیادے ہر طرح تیار تھے۔ ان کے ساتھ قعقاع، عاصم ، طلیحہ اور ہاشم بن عتبہ جیسے جانباز بھی موجود تھے۔ انہوں نے گھوڑوں کی پرواہ نہ کی اور پیادوں کو ساتھ لے کر سواروں کا مقابلہ کرنے لگے۔ مجاہدین نے شہر کے گھوڑ سواروں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن گھیرا مکمل نہ ہو سکا۔ کیونکہ جو مجاہدین گھیرا مکمل کرنے کیلئے دیوار کے قریب چلے گئے تھے ، ان پر اوپر سے برچھیاں اور تیر آنے لگے ۔بعض مجاہدین زخمی ہو گئے۔ اس وجہ سے گھیرا توڑنا پڑا۔ آتش پرستوں کے گھوڑ سواروں کو یہ بھی دیکھنا تھا کہ انہیں واپس بھی جانا ہے۔ شہر کے یہ دونوں دروازے بند کر دیئے گئے تھے۔ پیادہ مجاہدین نے گھوڑ سواروں کا مقابلہ اس خوبی سے کیا کہ کئی ایک کو گرا لیا اور اس کوشش میں لگے رہے کہ کوئی بھی سوار واپس نہ جا سکے۔ کچھ دیر میدان گرم رہا۔ دوسری طرف سے بھی مجاہدین ادھر آنے لگے لیکن سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے اس خیال سے انہیں روک دیا کہ اندر سے مزید گھوڑ سوار آ گئے تو صورتِ حال بگڑ جائے گی۔ مجاہدین اتنے لمبے محاصرے کی وجہ سے تازہ دم تھے۔ انہوں نے یہ عرصہ آرام میں گزارا تھا۔ اس لیے گھوڑ سواروں پر وہ ایسے برسے کہ تقریباً نصف کو وہیں رکھا اور باقی شہر کی طرف بھاگ نکلے۔پیچھے سے تیر اندازوں نے اس طرح تیر چلائے کہ ان میں سے کئی تیروں کا نشانہ بن گئے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے پھر منجیقوں سے سنگباری شروع کر دی۔ شہر پر خوف و ہراس طاری ہو گیا جو مسلسل سنگباری سے بڑھتا گیا۔ اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ ہر تیسرے چوتھے روز شہر کے دروازے کھلتے اور گھوڑ سواروں کے ایک دو دستے باہر آتے ، گھمسان کا معرکہ لڑا جاتا اور جو سوار بچے رہتے وہ واپس چلے جاتے۔ ان حملوں میں زیادہ تر نقصان فارس کے گھوڑ سواروں کا ہوتا تھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کو محاصرے سے پسپا کرنے کا یہ طریقہ ان کیلئے بڑا نقصان دہ ثابت ہو رہا تھا۔ لیکن یزدگرد کا حکم تھا کہ یہ حملے جاری رکھے جائیں۔ یہ دراصل یزدگرد کا آخری اقدام تھا لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہا تھا کہ اِس کا اُسے کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اُس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ اتنے زیادہ نقصان سے اُس کی فوج کا حوصلہ ٹوٹ رہا ہے۔ بعض تاریخوں میں یہ روایت ملتی ہے کہ یزدگرد نے خواب میں اپنے باپ خسرو پرویز کو دیکھا اور خسرو پرویز نے اُسے کہا کہ اپنی فوج میں ایسے بہادر افسر ، عہدیدار اور سپاہی منتخب کرو جو اپنے وطن پر جانیں قربان کرنے سے دریغ نہ کریں۔ انہیں باہر نکال کر مسلمانوں پر حملہ کرواؤ اور یہ جانباز عہد کر کے باہر نکلیں کہ مسلمانوں کو کاٹ کر واپس آنا ہے یا واپس آنا ہی نہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ علمِ نجوم و جوتش کے ایک ماہر نے زائچہ تیار کر کے یزدگرد کو ایک خاص دن اور وقت بتایا تھا کہ اس دن مسلمانوں پر حملہ کیا جائے تو کامیابی ہو گی اور بُہر شیر بھی بچ جائے گا اور مدائن بھی۔ اس نجومی نے یزدگرد سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ بدی ترک کر دے اور کسی غیر عورت کے قریب بھی نہ جائے۔ یہی روایت صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ آتش پرستوں کا شاہی خاندان علمِ نجوم اور فالناموں میں یقین رکھتا تھا۔ رستم جو بہادری ، جارحیت اور جنرل شپ کی بے مثال علامت سمجھا جاتا تھا خود علمِ نجوم پڑھا ہوا تھا اور اس کے اپنے ہی بنائے ہوئے زائچوں نے اسے بُزدل بنا دیا تھا۔ اس کی پیش گوئی یہ تھی کہ سلطنتِ فارس ختم ہو جائے گی۔ ایک مؤرخ نے ذرا مختلف روایت لکھی ہے وہ یہ کہ پوران نے یزدگرد سے کہا تھا کہ مسلمانوں پر ایک ایسا ہلّہ بولا جائے کہ ان کے پاؤں اکھڑ جائیں اور اس سے اپنی فوج کا خون گرمایا جائے اور ان میں غیرت بیدار کی جائے ، اور پھر ان سے کہا جائے کہ جو سب سے زیادہ غیرت مند ہیں اور اپنے آپ کو بہادر سمجھتے ہیں وہ حملے کیلئے تیار ہو جائیں۔ ’’……اور یزدی!‘‘ ____ اس مؤرخ کے مطابق پُوران نے یزدگرد سے کہا ____ ’’مت بھولو کہ یہاں کے امرا ء اور نمائندے تمہیں اس لئے لائے تھے کہ تم سلطنتِ فارس کو عربوں سے بچاؤ گے۔ میں تمہاری خاطر تخت سے دستبردار ہو گئی تھی۔ خون کا آخری قطرہ بھی بہا دو۔ فوج کا آخری سپاہی بھی مروادو۔ دجلہ کے کنارے عربوں کے لاشوں کے انبار لگا دو…… ابھی بُہرشیر چلو۔‘‘ ان میں کوئی بھی روایت سچی ہو سکتی ہے لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یزدگرد نے دونوں یہودی لڑکیوں کو آزاد کر دیا اور اس حرم کو ذہن سے اُتار دیا تھا جس میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین لڑکی موجود تھی۔ شاہانہ عیش و عشرت کو اُس نے ترک کر دیا اور اپنی ماں نورین اور پوران کو لے کر بُہر شیر چلا گیا۔ اُس کے ساتھ ماں اور پُوران کے علاوہ مدائن کی فوج کے دو جرنیل اور چند ایک کم درجہ فوجی افسر بھی تھے۔ کسی بھی تاریخ میں ان دو جرنیلوں کے نام نہیں ملتے ۔ بُہر شیر پہنچتے ہی یزدگرد نے وہاں کی تمام فوج کو اکٹھا کیا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا۔ نورین اور پوران بھی گھوڑوں پر سوار تھیں۔ ’’سورج کے پجاریو!‘‘ ____ اس نے فوج سے خطاب کیا ____ ’’تم اُس سورج کی کرنیں ہو جو ہمارا معبود ہے۔ تم وہ کرنیں ہو جو دُشمن کو جلا کر راکھ کر دیتی ہیں۔ لیکن کیا ہو گیا ہے تمہاری غیرت کو……تم سے تو دُنیا ڈرتی تھی۔ آج تم خود ڈرے ہوئے مویشیوں کی طرح اس قلعے میں بند ہو گئے ہو۔ کیا تم اتنے بزدل ہو گئے ہو کہ تمہیں یہ بھی احساس نہیں رہا کہ تم اپنی کنواری بیٹیوں ، بہنوں کو مسلمانوں کے حوالے کر آئے ہو۔مسلمانوں نے تمہاری عورتوں کو لونڈیاں اور کنیزیں بنا لیا ہے…… اور اپنے کسانوں کا حال دیکھو جن کی کھیتیاں سونا اگلتی ہیں مگر آج ہمارے کسانوں کی کمائی کے مالک مسلمان ہیں……‘‘ یزدگرد ابھی بول ہی رہا تھا کہ پُوران اپنا گھوڑا یزدگرد کے پہلو میں لے گئی اور بازو لہرا کر بولی : ’’اگر تمہاری غیرت مر گئی ہے تو میں تمہاری بیٹیوں اور بہنوں کی عزت کی خاطر لڑوں گی۔ شہنشاہِ فارس کی ماں لڑے گی۔ ہم دونوں عورتوں کو اکٹھا کر کے فوج بنا لیں گی اور تم دیکھو گے کہ مسلمانوں کی لاشیں کس طرح تمہاری آنکھوں کے سامنے تڑپتی ہیں۔‘‘ فوج پر سناٹا طاری تھا۔ پُوران کی بات سُن کر فوج میں کچھ بے چینی سی پیدا ہو گئی۔ ’’کیا تمہاری غیرت گوارا کر لے گی کہ شہنشاہ کی ماں اور بہن میدان میں اُتریں؟‘‘ ____ پوران نے اور زیادہ جوشیلی آواز میں کہا ____ ’’یہ سوچ لو کہ مدائن بھی ہاتھ سے نکل گیا تو کہاں جاؤ گے؟ یہ سورج عتاب میں آ گیا تو جل کر راکھ ہو جاؤ گے۔ مرو گے بھی نہیں اور زندہ بھی نہیں رہو گے۔ کوڑھیوں کی طرح اس زمین پر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے اور بھیک مانگتے پھرو گے۔ تم جانتے ہو کہ کوڑھیوں کو کوئی بھیک بھی نہیں دیتا……‘‘ پوران نے اپنی جوشیلی تقریر ابھی ختم نہیں کی تھی کہ یزدگرد کی ماں نورین اپنا گھوڑا آگے لے آئی۔ ’’میں اپنے اس اکلوتے بیٹے کو سلطنتِ فارس کی آن پر قربان کر رہی ہوں۔‘‘ ____ نورین نے بڑے ہی جوشیلے انداز میں کہا ____ ’’تم عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار کر کے گھروں میں بیٹھ جاؤ۔ میں اور پُوران عورتوں کی فوج بنا کر لڑیں گی اور تم شہر کی دیوار پر کھڑے ہو کر دیکھنا……‘‘ ’’نہیں!‘‘ _____ اچانک فوج میں سے ایک آواز بلند ہوئی ____ ’’نہیں……ہم اتنے بے غیرت نہیں ہوئے۔ لڑنا ہمار کام ہے۔‘‘ ’’جو ہو گیا سو ہو گیا ۔‘‘ ____ ایک اور آواز آئی ____ ’’اب یہاں سے مسلمان ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔‘‘ ان دو آوازوں کے ساتھ ہی ساری فوج میں ہڑبونگ بپا ہو گئی۔ جوشیلے نعروں سے زمین و آسمان لرزنے لگے۔ فوج زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کیلئے تیار ہو گئی۔ نعروں جیسا شور و غل بہت ہی بلند تھا۔ اتنا بلند کہ گھوڑے بھی ہنہنانے لگے۔ اس وقت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ اپنے دو تین سالاروں کے ساتھ شہر کی دیوار سے کچھ دُور دُور گھوڑوں پر آہستہ آہستہ چلے جا رہے تھے۔ شہر سے اُٹھنے والا شور و غل اتنا بلند تھا کہ باہر بھی سُنائی دے رہا تھا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے گھوڑا روک لیا۔ سالار بھی رک گئے۔ ’’یہ شور سُن رہے ہو؟‘‘ _____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے سالاروں سے کہا _____ ’’یہ نعرے، ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘ ’’ان کے جرنیل اپنی فوج کو جوش دلا رہے ہوں گے۔‘‘ ____ ایک سالار نے کہا۔ ’’جوش تو وہ دلاتے ہی رہتے ہوں گے۔‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا____ ’’لیکن آج کا اتنا زیادہ ہنگامہ بتا رہا ہے کہ اُن کا شہنشاہ آیا ہو گا…… اور مجھے صاف پتا چل رہا ہے کہ یہ لوگ باہر آ کر ایک اور حملہ کریں گے اور یہ حملہ بہت ہی زور دار ہو گا۔ ہمیں اس کیلئے تیار ہو جانا چاہیے۔‘‘ ’’آنے دو۔‘‘ _____ ایک سالار نے کہا ____ ’’اب ہم منجیقیں ان پر استعمال کریں گے۔‘‘ شہر کے اندر کا شور و غل جس طرح اچانک سے اُٹھا تھا ، اسی طرح اچانک خاموش ہو گیا ۔ اب صرف یزدگرد بول رہا تھا۔ ’’مسلمانوں کو یہیں پر ختم کرنے کا طریقہ ایک ہی ہے‘‘ ____ یزدگرد کہہ رہا تھا ___ ’’طریقہ یہ ہے کہ باہر نکل کر ان پر اس قدر سخت حملہ کیا جائے جو ابھی تک نہیں کیا گیا۔ اس حملے کیلئے ایسے جانبازوں کی ضرورت ہے جنہیں اپنی جان کی پرواہ نہ ہو اور جن کے دلوں میں سلطنتِ فارس کی محبت ہو۔ میں کسی کو حکم نہیں دوں گا۔ مجھے رضا کار جانبازوں کی ضرورت ہے اور مجھے زیادہ سے زیادہ افسروں کی ضرورت ہے جو افسر اور سپاہی حملے میں شامل ہونا چاہتے ہیں وہ آگے آ جائیں ۔‘‘ فوج میں اس قدر جوش و خروش پیدا ہو چکا تھا کہ ساری فوج آگے آ گئی۔ اس فوج میں وہ سپاہی بھی شامل تھے جو دیوار کے اوپر موجود رہتے تھے۔ انہیں بھی یزدگرد کے حکم سے نیچے بلا لیا گیا تھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ساری کی ساری فوج سے حملہ نہیں کروانا تھا۔ طے یہ پایا گیا تھا کہ منتخب جانبازوں سے حملہ کروایا جائے۔ جرنیلوں سے کہا گیا کہ وہ وطن کی آن پر مر مٹنے والے جنونی سی قسم کے افسروں اور سپاہیوں کو منتخب کریں۔ چنانچہ ایک فوج تیار کر لی گئی جس میں ایسے کمانڈر شامل کیے گئے جو شجاعت اور جنگی مہارت میں شہرت یافتہ تھے۔ چونکہ رات ہو گئی تھی اس لیے حملہ اگلی صبح کو کرنا تھا۔ اگلی صبح سورج ابھی نکلا ہی تھا کہ شہر کے تمام دروازے بیک وقت کھلے اور اندر سے گھوڑ سوار فوج اور پیادے بھی رُکے ہوئے سیلاب کی طرح نکلنے لگے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے گزشتہ روز اندر کا شور و غل سُن کر یہ کہہ دیا تھا کہ یہ اگلے حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔ انہیں ایک سالار نے مشورہ دیا تھا کہ منجیقوں کو حملہ آوروں پر استعمال کیا جائے گا۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے یہ مشورہ قبول کر لیا تھا۔ رات ہی کو منجیقیں اس طرح رکھ دی گئی تھیں کہ ہر دروازے کے سامنے ایک ایک منجیق آ گئی تھی۔ باقی منجیقوں کا رُخ بھی اوپر کے بجائے کچھ نیچے کر دیا گیا تھا۔ جوں ہی شہر سے فوج نکلنے لگی اس پر سنگباری شروع ہو گئی۔ چونکہ منجیقیں چھوٹی تھیں اس لئے ان میں پتھر بھی چھوٹے استعمال ہوئے تھے۔ لیکن اتنے بھی چھوٹے نہیں کہ کچھ نقصان ہی نہ کریں۔ کم و بیش دس کلو وزنی پتھر پھینکا جاتا تھا ۔ بعض منجیقیں اس سے زیادہ وزنی پتھر بھی پھینک سکتی تھیں۔ اتنا وزنی پتھر جس آدمی کو بھی لگتا تھا وہ وہیں ڈھیر ہو جاتا تھا۔ گھوڑے بھی اتنے وزنی پتھر کی ضرب کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ منجیق سے نکلا ہوا پتھر توپ سے نکلے ہوئے گولے کی طرح جاتا تھا۔ جب فوج پر پتھر برسنے لگے تو پتھروں سے گرنے والے سواروں نے دروازوں کا راستہ بند کر دیا۔ بعض گھوڑے بھی گر پڑتے تھے اور بعض بِدک کر پیچھے کو دوڑتے تھے۔ اس طرح فوج کے باہر آنے میں اچھی خاصی رکاوٹ پیدا ہو گئی۔فوجیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ دروازوں میں گرے ہوئے آدمیوں اور گھوڑوں کے اوپر سے گزر کر باہر نکلیں۔ اس حکم کی تعمیل میں فوجی اپنے گرے ہوئے ساتھیوں کو کچلتے مسلتے ہوئے باہر نکلے ۔۔۔ *=== ( ان شآءاللہ جاری ہے )* کاپی
👍 1

Comments