دین و دنیا چینل
June 9, 2025 at 01:27 PM
*حـجـاز کـی آنـدھـی ⛰️*
*قـسـط نــمـبـر 88*
*جب فوج پر پتھر برسنے لگے تو پتھروں سے گرنے والے سواروں نے دروازوں کا راستہ بند کر دیا۔ بعض گھوڑے بھی گر پڑتے تھے اور بعض بِدک کر پیچھے کو دوڑتے تھے۔ اس طرح فوج کے باہر آنے میں اچھی خاصی رکاوٹ پیدا ہو گئی۔ فوجیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ دروازوں میں گرے ہوئے آدمیوں اور گھوڑوں کے اوپر سے گزر کر باہر نکلیں۔ اس حکم کی تعمیل میں فوجی اپنے گرے ہوئے ساتھیوں کو کچلتے مسلتے ہوئے باہر نکلے۔۔۔*
پتھر پھینکنے کی رفتار تیز نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ منجیق میں پتھر رکھنے اور پیچھے کھینچنے اور چھوڑنے میں کچھ وقت لگ جاتا تھا۔ پھر بھی یہ خاطر خواہ نقصان کر رہی تھیں۔ شہر کی فوج کے یہ سوار اور پیادے بلا شک و شبہ جانباز اور نڈر تھے۔ وہ باہر چلے آ رہے تھے۔
لیکن ان کے حملے میں جو جان ہونی چاہیے تھی وہ نہیں تھی۔ ایسی شدت پیدا ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ یزدگرد ، اُس کی ماں اور پوران دیوار پر کھڑے نظر آئے۔ فارس کا پرچم اُن کے ساتھ تھا۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے بھی شہنشاہِ فارس اور اُس کے پرچم کو دیکھا۔
’’اللّٰہ کی قسم!‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’اس جھنڈے کو دیوار کے باہر گرنا چاہیے۔‘‘ ____ اُنہوں نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا ____ ’’کیا کوئی تیر انداز وہاں تک تیر پہنچا سکتا ہے؟‘‘۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اپنے محافظوں کے ساتھ اس جگہ تک پہنچے جس کے بالمقابل یزدگرد دیوار پر کھڑا تھا۔ فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ وہاں تک تیر پہنچانا ممکن نہ تھا ، چند ایک تیر انداز مجاہدین آگے بڑھے اور انہوں نے تیر چلائے لیکن تیر ذرا نیچے دیوار پر لگتے تھے۔ تیر انداز اور آگے بڑھے تو فاصلہ اتنا کم ہو گیا کہ مجاہدین دیوار کے تیر اندازوں کی زَد میں آ گئے اوپر سے آیا ہوا تیر اپنا کام کر جاتا تھا۔
’’انہیں پیچھے ہٹا لو۔‘‘ _____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے حکم دیا ____ ’’ہم بلا جواز جانی نقصان کے بغیر یہ شہر لے لیں گے۔ ایک منجیق کا منہ اُدھر کر کے پتھر پھینکو۔‘‘ فورًاً ایک منجیق کو گھسیٹ کر وہاں تک لے گئے اور اس میں پتھر ڈال ہی رہے تھے کہ یزدگرد نے دیکھ لیا اور وہ فوراً نورین اور پوران کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا تھوڑی ہی دیر بعد وہ دیوار پر ایک اور جگہ نظر آیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ وہ اپنے حملہ آور دستوں کو اوپر سے للکار رہا تھا۔ لیکن اس کی للکار رائیگاں جا رہی تھی۔ جس کی ایک وجہ تو سنگباری تھی اور دوسری وجہ جو زیادہ تر مؤرخوں نے بتائی ہے وہ یہ ہے کہ یزدگرد کی تمام فوج پر جرنیل سے لے کر نیچے سپاہیوں تک یہ تأثر مکمل طور پر پختہ ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو شکست دی ہی نہیں جا سکتی ، لہٰذا فارس کی فوج پر مسلمانوں کی جو ہیبت طاری تھی وہ سنگباری نے اور زیادہ پختہ کر دی۔ جوش و خروش سے نعرے تو لگائے جا سکتے ہیں لیکن میدانِ جنگ میں نعرے محض بیکار ثابت ہوتے ہیں۔
اگر جذبہ اور حوصلہ مضبوط نہ ہو تو میدانِ جنگ میں گھوڑے اور ہتھیار بھی بیکار ہو جاتے ہیں۔ آتش پرستوں کو اپنے بیشمار ہاتھیوں پر بھروسہ تھا۔وہ سمجھتے تھے کہ انسان ہاتھی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔بلکہ ہاتھی انسانوں کو کچل اور مسل ڈالتا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے ہاتھیوں کو بھی کاٹ کر دکھا دیا اور جو بچ گئے تھے انہیں بھگا بھی دیا تھا۔ فارس کی فوج پر یہی دہشت کافی تھی۔
یورپی مؤرخوں نے تعصب کے باوجود پوری تفصیل سے لکھا ہے کہ فارس کی فوج پر مسلمانوں کی جو دہشت اور ہیبت طاری ہو گئی تھی۔ اس نے اس فوج کے کہیں بھی قدم نہ جمنے دیئے۔ اس حملے کے متعلق جو ہم بیان کر رہے ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ شجاعت ، جنگی قیادت اور جنگی مہارت کے لحاظ سے جو فارسی افسر اور سپاہی شامل تھے ان کی جانبازی میں کوئی شک نہیں تھا۔
انہوں نے جو حملہ کیا وہ بھی کم شدید نہیں تھا۔ پھر بھی مسلمانوں کے آگے وہ ٹھہر نہ سکے۔ جب دونوں فوجیں معرکے میں الجھ گئیں تو سنگباری روک دی گئی۔ ایسی صورتِ حال بھی پیدا ہوئی جس میں مسلمانوں پر فارسیوں کا دباؤ اچھا خاصا بڑھ گیا تھا لیکن مسلمانوں میں لڑنے کا جو جذبہ تھا وہ اتنا شدید تھا کہ مسلمان صورت ِحال پر غالب آ جاتے تھے اور جب دو تین مرتبہ مسلمانوں نے فارسیوں کے دباؤ کو برداشت کر کے اپنا دباؤ ڈالا تو فارسیوں کا حوصلہ ٹوٹنے لگا۔ دونوں طرف کی فوجوں میں ایک فرق تھا وہ یہ کہ فارسی جوش اور جذبے سے لڑ رہے تھے اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے سالار عقل سے کام لے رہے تھے۔
مثلاً ایک جگہ مسلمان اس طرح پیچھے ہٹتے گئے جیسے پسپا ہو رہے ہوں۔ فارسی ان پر دباؤ ڈالتے آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔ انہیں اس وقت ہوش آیا جب وہ مجاہدین کے گھیرے میں آ چکے تھے۔ اس وقت انہیں پتہ چلا کہ یہ مسلمانوں کی ایک چال تھی اور مجاہدین نے انہیں اس طرح گھیرے میں لینا تھا۔ اب فارسی اپنی جانیں بچانے کیلئے لڑنے لگے لیکن جس پھندے میں وہ آ گئے تھے اس سے بچ نکلنا ان کیلئے ممکن نہ تھا۔ دوسرے فارسیوں نے جب یہ حال دیکھا تو وہ محتاط ہو گئے اور پیچھے دیکھنے لگے کہ ان کی پسپائی کا راستہ صاف ہے یا نہیں۔ دیوار پر یزدگرد کھڑا دیکھ رہا تھا۔ پہلے تو وہ اپنے حملہ آوروں کو للکار رہا تھا لیکن میدانِ جنگ کی نئی صورتِ حال دیکھ کر اس کی زبان بند ہو گئی۔ اس نے اپنی ماں اور پھر پُوران کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر مایوسی کا تاثر بڑا ہی گہرا تھا۔ اس نے میدانِ جنگ سے نظریں پھیر لیں اور آہستہ آہستہ چل پڑا۔
دیوار سے اس نے اندر کی طرف دیکھا تو اسے ایسا منظر نظر آیا جو اس کی برداشت سے باہر تھا۔ اس کے زخمی فوجی کھلے ہوئے دروازوں سے اندر آ رہے تھے۔ بعض اچھے بھلے سوار اور پیادے بھی باہر سے بھاگ کر اندر آ رہے تھے۔ پوران اور نورین بھی اس کے پاس آ گئیں۔ یزدگرد نے دونوں کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا دیوار سے اُتر گیا۔ فارس کی فوج کا جانی نقصان بے تحاشہ تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کا نقصان بہت ہی کم تھا۔ کسی بھی تاریخ میں مسلمانوں کے نقصان کے اعداد و شمار نہیں ملتے۔ صرف ایک مجاہد کا ذکر تقریباً ہر مؤرخ نے کیا ہے یہ تھا ’’زہرہ بن حویہ‘‘ جس کا پہلے کئی معرکوں میں ذکر آ چکا ہے ۔ زہرہ سالار تھا اور غیر معمولی طور پر بہادر اور نڈر تھا۔ اس کی شجاعت کے واقعات کچھ کم نہیں کہ یہاں پھر سُنائے جا سکیں۔
قارئین کی یاد دہانی کیلئے یہ بتانا ضروری ہے کہ جب فارسیوں کو شکست دے کر قادسیہ سے مجاہدین کے لشکر نے بھاگتے ہوئے فارسیوں کے تعاقب میں مدائن کی طرف پیش قدمی کی تھی، تو سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے زہرہ بن حویہ کو سالار بنا کر مجاہدین کے ایک دستے کے ساتھ بُہر شیر بھیجا تھا۔ اس کے ساتھ سالار ہاشم بن عتبہ بھی تھا ۔ بُہر شیر کے باہر زہرہ نے بڑا ہی سخت معرکہ لڑا تھا اور فارسیوں کی فوج بیشمار نقصان اُٹھا کر شہر میں چلی گئی تھی۔
علامہ شبلی نعمانی نے طبری اور بلاذری اور چند مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ بُہر شیر کے محاصرے میں زہرہ بن حویہ نے فارس کے کسی فوجی کی زرہ پہن رکھی تھی۔ قادسیہ کی چار روزہ جنگ میں اور اس سے پہلے کے معرکوں میں اس نے یہی زرہ استعمال کی تھی۔
اس زرہ نے تلواروں اور برچھیوں کے بے شمار وار روکے تھے۔ اس زرہ نے نہ جانے کتنے ہی تیر روکے تھے۔ زہرہ تو محفوظ رہے تھے لیکن زرہ کی کئی کڑیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ یزدگرد نے بُہر شیر کی فوج سے یہ حملہ کرایا جو اوپر بیان ہوا ہے، تو اس روز بھی زہرہ نے یہی ٹوٹی ہوئی کڑیوں والی زرہ پہن رکھی تھی۔ اس کے کسی ساتھی نے اسے یہ کہا کہ یہ زرہ بیکار ہو گئی ہے ، اسے بدل لو۔
’’فارسیوں کی کئی زرہیں موجود ہیں۔
’’ہاں ابنِ حویہ!‘‘ ____ اس کے ایک اور ساتھی نے کہا ____ ’’یہ زرہ تیر کو نہیں روک سکے گی۔‘‘
’’میں ایسا خوش نصیب کہاں!‘‘ _____ زہرہ بن حویہ نے خوشگوار لہجے میں کہا _____ ’’میرے نصیب اتنے اچھے نہیں کہ دُشمن کے تیر دوسروں کو چھوڑ کر میری طرف آئیں۔‘‘
یہ تھا شوقِ شہادت……
مسلمانوں کی اصل طاقت یہی تھی کہ ہر مجاہد ﷲ کی راہ میں جان دینے کو سعادت اور خوش نصیبی سمجھتا تھا۔ یہ اتفاق تھا یا ﷲ تعالیٰ نے زہرہ کی دُعا قبول کر لی تھی کہ فارسیوں کی طرف سے جو پہلا تیر آیا وہ زہرہ بن حویہ کے پہلو میں اُتر گیا۔ وہاں سے زرہ کی زیادہ کڑیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔
تیر جسم کے اندر خطرناک حد تک چلا گیا تھا۔
’’ابنِ حویہ، ٹھہر جا!‘‘ ____ اس کے ایک ساتھی نے کہا ___ ’’میں یہ تیر نکال دیتا ہوں ، پھر تم پیچھے چلے جانا۔‘‘
چار پانچ مجاہدین اُس کے پاس آ گئے۔ سب کہہ رہے تھے کہ تیر نکال دیتے ہیں۔
’’نہ میرے بھائیو!‘‘ ____ زہرہ نے کہا ____ ’’اسے نہ نکالنا۔ میں اسی وقت تک زندہ ہوں جب تک یہ میرے جسم میں ہے۔‘‘
طبری اور بلاذری وغیرہ نے لکھا ہے کہ زہرہ نے پہلو میں تیر لیے ہوئے ایک جگہ فارسیوں کے ایک دستے پر حملہ کیا۔ اس دستے کے ساتھ فارس کا ایک نامور جرنیل شہربراز تھا۔ زہرہ نے اُس کا پرچم دیکھ لیا تھا۔ اُس نے چند ایک مجاہدین کے ساتھ شہربراز کے گرد محافظوں کا جو حصار تھا وہ توڑا اور اسے تلوار سے مار ڈالا۔ زہرہ بن حویہ کو یقینًا یہ احساس تھا کہ وہ اپنی زندگی کا آخری معرکہ لڑ رہا ہے۔ اس فارسی جرنیل کا پرچم گرنے سے اور اس کے مارے جانے سے ان فارسی جانبازوں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ شہر کے دروازوں کی طرف بھاگنے لگے۔
کچھ دیر بعد زہرہ بن حویہ پہلو میں تیر لیے ہوئے شہید ہو گئے۔ یزدگرد کا حملہ بھی ناکام ہو چکا تھا۔ اُس نے جس جانباز اور منتخب فوج کو باہر نکالا تھا اُس کی بہت تھوڑی سی نفری واپس شہر میں جا سکی تھی ۔باقی سب باہر مرے پڑے تھے یا زخمی تھے، جو مجاہدین کی منت سماجت کر رہے تھے کہ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں اور ان کی مرہم پٹی کر دیں۔ بُہر شیر کو مسلمانوں سے بچانا ناممکن ہو گیا تھا۔
دوسرے ہی دن شہر کا ایک دروازہ کھلا۔ پانچ چھ گھوڑ سوار باہر آئے۔ سب سے آگے والے گھوڑ سوار کی پوشاک بتاتی تھی کہ اس کا تعلق شاہی خاندان کے ساتھ ہے یا وہ کوئی بڑا افسر ہے۔ اس کے ایک پہلو کے ساتھ والے سوار نے سفید جھنڈا اُٹھا رکھا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ صلح اور سمجھوتے کا پیغام لائے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک ترجمان بھی تھا جو عرب اور عجم کی زبانیں جانتا تھا۔ گھوڑ سوار کچھ اور آگے آ کر رُک گئے۔ترجمان ذرا آگے آ گیا :-
’’شہنشاہِ فارس یزدگرد کے ایلچی آئے ہیں۔‘‘ ____ ترجمان نے عربی زبان میں بلند آواز سے کہا _____ ’’یہ عربی سپہ سالار سے ملنا چاہتے ہیں ۔امن اور دوستی کا پیغام لائے ہیں۔‘‘
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کا بھتیجا ہاشم بن عتبہ قریب ہی کھڑا تھا۔ وہ ان کی طرف بڑھا۔
’’ہم شہنشاہ کے ایلچی کا استقبال دل و جان سے کرتے ہیں۔‘‘ ____ ہاشم بن عتبہ نے کہا ____ ’’میرے ساتھ آئیں۔‘‘
ہاشم بھی گھوڑے پر سوار تھا۔ وہ انہیں سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے خیمے میں لے گیا۔
سعد رضی اللّٰہ عنہ وہاں نہیں تھے۔ وہ اپنے لشکر کے ساتھ تھے اور محاصرے کا جائزہ لے رہے تھے۔ انہیں اطلاع دی گئی تھی کہ شاہِ فارس کا ایلچی آیا ہے۔وہ فوراً اپنے خیمے میں پہنچے۔ ایلچی اور ترجمان فرش پر بچھی ہوئی چٹائیوں پر بیٹھے تھے۔ ایلچی کا جسم خاصا فربہ تھا۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کو دیکھ کر ایلچی احتراماً اُٹھنے لگا۔ لیکن موٹاپے کی وجہ سے اسے اُٹھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔
’’میری تعظیم میں اُٹھنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے ایلچی کے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر بٹھاتے ہوئے کہا _____ ’’تمہارے جرنیل میدانِ جنگ میں بھی کرسیاں تخت اور قالین لے آتے ہیں۔‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے ایلچی کو اُٹھنے نہ دیا۔ اس سے ہاتھ ملایا اور اس سے ذرا دُور ہٹ کر بیٹھ گئے اور کہا _____ ’’آپ کے رستم کا تخت ہمارے پاس ہے، جس پر بیٹھ کر وہ جنگ کے میدان میں اپنی فوج کو لڑایا کرتا تھا۔ اس کے قالین اور تکیے بھی ہمارے پاس ہیں اور اس کی شاہانہ کرسیاں بھی ہمارے پاس ہیں۔اس کے دربار کا سارا ہی ساز و سامان ہمارے قبضے میں ہے لیکن ہم ان چٹائیوں پر بیٹھا کرتے ہیں……تمہیں زحمت تو ہو گی لیکن ہم اپنے طور طریقے نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
’’آپ نے جس احترام سے میرا استقبال کیا ہے، اس سے مجھے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ میں زمین پر بیٹھا ہوں یا نرم و ملائم مخمل کے گدوں پر۔‘‘ ____ ایلچی نے کہا _____ ’’سب سے پہلے شہنشاہِ فارس یزدگرد کا سلام قبول کریں۔ پھر شہنشاہ کی ایک پیشکش پر غور کریں۔ آپ یقینًا اس پیش کش کو قبول کریں گے۔ یہ ہمارے شہنشاہ کی فیاضی ہے کہ وہ اپنی آدھی سلطنت آپ کو دے رہا ہے۔‘‘
’’اپنے شہنشاہ کا پورا پیغام سُناؤ۔‘‘ ____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا _____ ’’شہنشاہِ فارس کا فیصلہ یہ ہے۔‘‘ ____ ایلچی نے کہا ____ ’’کہ ہماری سلطنت کا جو علاقہ آپ نے لے لیا ہے وہ آپ کا اور دجلہ سے اُس طرف کا علاقہ فارس کا۔‘‘
’’یعنی شہنشاہ دجلہ کو عرب اور عجم کے درمیان حدّ فاصل بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ ____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’بالکل یہی!‘‘ ____ ایلچی نے کہا ____ ’’شہنشاہ نے فیصلہ کر دیا ہے۔ صرف آپ کی رضا مندی درکار ہے۔ بُہر شیر آپ کا ہو گا اور مدائن ہمارا۔ شہنشاہ نہیں چاہتے کہ مزید خون بہایا جائے۔‘‘
’’ہم تمہارے شہنشاہ کے چاہنے یا نہ چاہنے کے پابند نہیں۔‘‘ _____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’اب شہنشاہ کو ہمارے فیصلوں کی پابندی کرنی پڑے گی۔ اگر تمہارا شہنشاہ یہ پیش کش اس روز کرتا جس روز ہم بُہر شیر پہنچے تھے تو اس پر غور کیا جا سکتا تھا۔ تم نے بُہر شیر کو بچانے کے کیا کیا جتن نہیں کیے۔ دو تین دن پہلے تمہارے شہنشاہ نے کتنا سخت حملہ کروایا تھا۔ یہ اس کا آخری وار تھا جو بیکار گیا۔ اب شہنشاہ مدائن کو بچانے کیلئے آدھی سلطنت پیش کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں محترم ایلچی!شہنشاہ سے کہنا کہ ہمیں یہ پیش کش قبول نہیں۔‘‘
فارس کے ایلچی نے بہت کوششیں کیں ، بہت باتیں کیں، زر و جواہرات کی پیش کش بھی کی، لیکن سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔
’’پھر آپ اپنی شرائط بتائیں۔‘‘ ____ ایلچی نے کہا ____ ’’شہنشاہ یہیں پر جنگ بندی چاہتے ہیں۔‘‘
’’شرائط پیش کرنے کا وقت تو گزر گیا ہے۔‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’ہم نے شرائط پیش کی تھیں۔ تمہارے شہنشاہ نے ہمارے ایلچیوں کا مذاق اُڑایا تھا۔ اس نے ہمارے ایک بہت ہی معزز اور قابل احترام ایلچی کے سر پر مٹی کا بھرا ٹوکرا رکھ دیا تھا۔ تمہارے رستم نے کہا تھا کہ خدا نے نہ چاہا تو بھی عرب کو تباہ و برباد کر دوں گا۔ جنگ کا فیصلہ تمہارے شہنشاہ نے کیا تھا۔ اب شہنشاہ کو جنگ کا نتیجہ قبول کرنا چاہیے۔‘‘
*=== ( ان شآءاللہ جاری ہے )*
کاپی
👍
🤲
2