دین و دنیا چینل
June 10, 2025 at 11:26 AM
*حـجـاز کـی آنـدھـی ⛰️*
*قـسـط نــمـبـر 89*
*’’شرائط پیش کرنے کا وقت تو گزر گیا ہے۔‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’ہم نے شرائط پیش کی تھیں ۔ تمہارے شہنشاہ نے ہمارے ایلچیوں کا مذاق اُڑایا تھا۔ اس نے ہمارے ایک بہت ہی معزز اور قابل احترام ایلچی کے سر پر مٹی کا بھرا ٹوکرا رکھ دیا تھا۔ تمہارے رستم نے کہا تھا کہ خدا نے نہ چاہا تو بھی عرب کو تباہ و برباد کر دوں گا۔ جنگ کا فیصلہ تمہارے شہنشاہ نے کیا تھا۔ اب شہنشاہ کو جنگ کا نتیجہ قبول کرنا چاہیے۔‘‘*
’’میں حیران ہوں کہ آپ جیسا دانشمند سپہ سالار اتنی بڑی پیش کش ٹھکرا رہا ہے۔‘‘ ____ ایلچی نے کہا۔
’’محترم ایلچی!‘‘ _____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا _____ ’’میں اس سے بھی بڑی پیشکش قبول نہیں کر سکتا۔ ہمارے خلیفہ کا واضح حکم ہے کہ مدائن کو فتح کرنا ہے۔ میں اپنے خلیفہ کی حکم عدولی نہیں کر سکتا۔‘‘ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے ایلچی کو رخصت کر دیا۔
تمام مؤرخوں نے یزدگرد کی اس پیش کش کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ایلچی رخصت ہوا تو سعد ؓبن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے سالاروں کو بلا کر کہا کہ شہر پر سنگباری پہلے سے تیز کر دی جائے۔ سارے لشکر میں یہ بات پھیل گئی کہ شہنشاہِ فارس کی جنگ بندی کی پیشکش کی ہے اور اس کے عوض اس نے دجلہ تک کے علاقے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کو پیش کیے ہیں۔ جس وقت سعد رضی اللّٰہ عنہ یہ حکم دے رہے تھے کہ سنگباری تیز کر دی جائے، اس وقت لشکر سے نعرے گرجنے لگے۔
’’ہماری منزل مدائن ہے۔"
’’ہم مدائن سے بھی آگے جائیں گے۔‘‘
’’ہم اپنے شہیدوں کے خون کی پوری قیمت لیں گے۔‘‘
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے جب یہ نعرے سُنے جو بلند سے بلند تر ہوتے جا رہے تھے، ان کے چہرے پر رونق آ گئی۔ انہوں نے گھوڑا دوڑا دیا اور محاصرے میں گھومنے لگے۔
’’تم نے میری تائید کر دی ہے۔‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کئی جگہوں پر گھوڑا روک کر مجاہدین سے کہا _____ ’’میں نے شاہِ فارس کے ایلچی کو یہی جواب دے کر واپس بھیجا ہے کہ ہم اب اس کی کوئی شرط اور کوئی معاوضہ قبول نہیں کریں گے……
میرے رفیقو! میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں شہیدوں سے بے وفائی نہیں کروں گا۔ امیر المومنین رضی اللّٰہ عنہ کا بھی یہی حکم ہے کہ مدائن کو فتح کر لیا جائے۔"
مجاہدین کے نعروں نے سعد رضی اللّٰہ عنہ کو نیا حوصلہ دیا اور سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کا عزم سُن کر مجاہدین کے حوصلوں میں نئی روح پھونکی گئی۔ یہ قوتِ ارادی تھی بلکہ روحانی قوت کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ جس کے بھروسے پر مجاہدین یہ ارادے باندھ رہے تھے کہ وہ مدائن تک پہنچیں گے۔ وہ تو ابھی بُہر شیر کو بھی فتح نہیں کر سکے تھے۔
بعض مؤرخ لکھتے ہیں کہ محاصرہ نو مہینے جاری رہا اور بعض نے لکھا ہے کہ محاصرہ اٹھارہ مہینے جاری رہا تھا۔ بہرحال یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ محاصرے کا عرصہ ایک سال کے لگ بھگ تھا۔ اس ایک سال کے دوران امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کچھ کمک بھی بھیجی تھی ۔ زخمی مجاہدین ٹھیک ہو کر لڑنے کے قابل ہو گئے تھے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے جو جاسوس اور مخبر بنائے تھے وہ اپنا پورا کام کر رہے تھے۔ کچھ دنوں بعد ایک جاسوس نے آ کر بتایا کہ بُہر شیر اور مدائن میں کچھ خفیہ سی نقل و حرکت ہوتی رہتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ بُہر شیر سے فوج ہٹائی جا رہی ہو۔ دو تین دن اور گزرے تو سعد رضی اللّٰہ عنہ کو سالاروں نے بتایا کہ دیوار پر جو تیر انداز ہر وقت موجود رہتے ہیں ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
’’میں بھی یہی دیکھ رہا ہوں۔‘‘ _____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا _____ ’’میں اس انتظار میں ہوں کہ یہ تعداد مزید کم ہو جائے تو ہم دروازے توڑنے یا کمندیں پھینک کر دیوار پر چڑھنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
کچھ دن اور گزرے تو رات کے وقت مجاہدین میں کچھ شور و غل سا اُٹھا۔ سالار بھی جاگ اُٹھے اور سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کی بھی آنکھ کھل گئی اور وہ خیمے سے باہر آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ دجلہ کی طرف آسمان سرخ ہوا جا رہا تھا۔ اس طرف شہر کی چوڑائی اتنی زیادہ تھی کہ جا کر نہیں دیکھا جا سکتا تھا کہ اُدھر کیا ہو رہا ہے۔ سرخ روشنی سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ آگ لگی ہوئی ہے لیکن یہ معلوم کرنا ممکن نہیں تھا کہ یہ آگ کسی ایک مکان کو یا بہت سے مکانوں کو لگی ہے ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ آتش پرست شہر کو آگ لگا رہے ہیں اور آگ اسی صورت میں لگائی جاتی ہے جب شہر خالی کرنا ہوتا ہے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے کہنے پر دو گھوڑ سوار بھیجے گئے کہ وہ دریا کے کنارے اتنی دُور تک چلے جائیں جہاں سے انہیں شہر کا دریا کے کنارے والا حصہ نظر آ جائے اور وہ دیکھیں کہ آگ کہاں لگی ہوئی ہے۔
’’انہوں نے پل جلا ڈالا ہے۔‘‘ ____ گھوڑ سواروں نے آ کر اپنے سپہ سالار کو بتایا _____ ’’پورے کا پورا پُل جل رہا ہے۔‘‘
’’انہوں نے ہمارے لیے مدائن کا راستہ بند کر دیا ہے۔‘‘ ____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’صبح دیکھیں گے کہ بُہر شیر میں کیا رہ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں شہر خالی مل جائے۔‘‘ صبح طلوع ہوئی تو سب سے پہلے جو تبدیلی بُہر شیر میں نظر آئی وہ یہ تھی کہ دیوار پر ایک بھی آدمی نظر نہیں آ رہا تھا۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ کے حکم سے ایک جگہ دیوار پر کمند پھینکی گئی اور تین چار مجاہدین اوپر چلے گئے۔ ان کی حفاظت کیلئے نیچے بہت سے تیر انداز کمانوں میں تیر ڈالے ہوئے کھڑے کر دیئے گئے تھے تاکہ اوپر کوئی فارسی کمند اُتارنے یا کمند چڑھنے والوں پر تیر یا برچھی چلانے لگے تو اُن پر تیروں کی بوچھاڑیں پھینکی جائیں۔ مجاہدین اوپر چلے گئے اور دیوار سے شہر کو دیکھا۔ ’’شہر خالی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ____
ایک مجاہد نے بلند آوازسے کہا ____ ’’یہ دھوکا بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ _____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’نیچے اُتر کر دروازہ کھول دو۔‘‘
تھوڑی ہی دیر بعد دروازہ کُھل گیا ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے قعقاع کو حکم دیا کہ وہ اپنے قبیلے کو ساتھ لے کر سب سے پہلے شہر میں داخل ہو ۔ قعقاع غیر معمولی طور پر دلیر سپہ سالار تھے۔ انہوں نے اپنے قبیلے کو للکارا اور یہ لوگ شہر میں داخل ہو گئے اور سیلاب کی طرح سارے شہر میں پھیل گئے۔ انہوں نے شہر کے باقی دروازے بھی کھول دیئے اور تمام لشکر شہر میں داخل ہو گیا اور شہر میں پھیل گیا۔ مکانوں کے اندر جا کر دیکھا تو مکان خالی تھے ۔ ہر گھر میں وہی سامان پڑا تھا جو لوگ اُٹھا کر نہیں لے جا سکتے تھے۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ قیمتی اشیاء اور مال و دولت اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ سارے شہر میں صرف ایک بوڑھا آدمی ملا جو خود ہی باہر آ گیا تھا۔
اسے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے سامنے لے جایا گیا۔ تقریباً تمام تاریخوں میں اس معمر آدمی کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کا نام کسی نے نہیں لکھا۔ ’’تم اس شہر میں کیوں رہ گئے ہو؟‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے اس سے پوچھا ____ ’’کیا تم بتا سکتے ہو کہ لوگ کہاں اور کیوں چلے گئے ہیں؟‘‘
’’یہی بتانے کیلئے باہر نکلا ہوں۔‘‘ ____ بوڑھے نے عربی زبان میں کہا ____’’ میں اگر یہاں رہ بھی گیا تو تمہارا کیا بگاڑ سکتا ہوں؟ سب نے کہا کہ تم بھی چلو ، یہاں رہ گئے تو مسلمان تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ میں نے کہا کہ میں اب زندہ رہ کر کروں گا بھی کیا……
اُس مکان کو چھوڑتے ہوئے بہت دُکھ ہو رہا تھا۔ جو مکان میرے باپ نے بنایا تھا اور جس میں اس نے پوری عمر گزاری تھی۔ میرے دو جوان بیٹے فارس کی فوج میں گئے تھے۔ دونوں مارے گئے ہیں۔ میری دو بیٹیاں نوجوان ہیں میں نے انہیں مدائن بھیج دیا ہے۔ یہ ایک رواج ہے کہ فاتح مفتوح شہر کی عورتوں کو اپنا مال سمجھ لیتے ہیں۔ میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں ، قتل کرنا چاہو تو کر دو۔‘‘
’’نہیں میرے بزرگ!‘‘ ____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا _____ ’’ہم نہتّوں پر، بوڑھوں پر، بچوں پر، اور عورتوں پر ہاتھ نہیں اُٹھایا کرتے۔ ہم لوٹ مار بھی نہیں کیا کرتے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ میرے آدمی گھروں میں داخل ہو کر خالی ہاتھ واپس آ رہے ہیں۔ جب تک میں نہیں کہوں گا وہ کسی گھر میں کسی بھی چیز کو ہاتھ نہیں لگائیں گے……
ہمیں بتاؤ کہ یہ شہر کس طرح خالی کیا گیا؟‘‘
’’دو روز پہلے مدائن سے حکم آیا تھا کہ رات کے وقت شہر خالی کر دیا جائے۔‘‘ _____ بوڑھے نے کہا _____ ’’لوگوں نے دو تین راتیں لگا کر شہر خالی کر دیا۔میں دیکھ رہا تھا کہ لوگ اپنا قیمتی سامان لے جا رہے تھے۔ لوگ چلے گئے تو فوج بھی چلی گئی۔ گزشتہ رات میں نے چھت پر جا کر دیکھا ، پل جل رہا تھا۔ یہ میرے بچپن کی یادگار تھا۔ میں آہستہ آہستہ چلتا دریا تک گیا۔ پل کو اُس سرے تک آگ لگی ہوئی تھی اور پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ دریا کے اس کنارے جو بیشمار چھوٹی بڑی کشتیاں بندھی رہتی تھیں ، وہ ہمارے فوجی مدائن کی طرف لے جا رہے تھے۔‘‘
’’کیا اب وہاں ایک بھی کشتی نہیں؟‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے پوچھا۔
’’ایک بھی نہیں‘‘ ____ بوڑھے نے جواب دیا ____ ’’دریا کے اس طرف کنارے پر تمہیں دُور دُور تک کوئی کشتی نہیں ملے گی ، تم سپہ سالار ہو ، تم سمجھ سکتے ہو کہ کشتیاں کیوں لے گئے ہیں اور پًل کو کیوں جلایا گیا ہے۔ دریا کی حالت دیکھ لو۔ چونکہ یہاں دریا تنگ ہے اس لئے پانی بہت گہرا ہے اور دریا کی کیفیت سیلابی ہے۔ کوئی نامور تیراک بھی دریا میں اُترنے کی جرأت نہیں کر سکتا……
لیکن میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ فتح تمہاری ہو گی۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے پوچھا۔
’’وہ اس طرح کہ تم لوٹ مار کرنے نہیں آئے‘‘ ____ بوڑھے نے کہا ____ ’’میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہمارے شہنشاہ نے تمہیں آدھی سلطنت کی پیش کش کی ہے جو تم نے قبول نہیں کی۔‘‘
’’لیکن میں اپنے لشکر کو پار کیسے لے جاؤں گا؟‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’نہ کوئی کشتی ہے نہ پُل ہے……کیا تم دریا پار کرنے کا کوئی اور ذریعہ بتا سکتے ہو؟‘‘
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ اس کی رہنمائی چاہتے تھے۔
انہوں نے بوڑھے سے یہ بھی پوچھا کہ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں سے دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہو اور گہرائی کم ہو ۔
بوڑھے کو ایسی جگہ کا علم نہیں تھا۔ اس نے اتنا ہی بتایا کہ بہت ہی دور دریا کے نیچے کی طرف دریا دو تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے لیکن وہ جگہ بہت دُور تھی۔ بوڑھے نے یہ بھی بتایا کہ وہ سارا علاقہ دلدلی ہے۔
‘‘ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے اس بوڑھے کو اس حکم کے ساتھ پیچھے بھجوا دیا کہ اسے عزت و احترام کے ساتھ رکھا جائے اور اس کے ساتھ معزز مہمانوں جیسا سلوک کیا جائے۔ ٭
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے سالاروں کو بلوایا اور ان سب کو دیوار کے اوپر لے گئے جس طرف دریا تھا اور سامنے والا کنارے پر مدائن شہر تھا۔ وہاں سے انہوں نے مدائن کی شان و شوکت دیکھی۔
یہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ اب یہ سب سالار مدائن کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ ان سالاروں میں ایک سالار ضرار بن خطاب بھی تھے ۔ وہ بڑے انہماک سے مدائن کو دیکھ رہے تھے ۔
’’ﷲ اکبر‘‘ ____ ضرار بن خطاب نے نعرہ لگا کر کہا ____ ’’یہ کسریٰ کا سفید قلعہ ہے جس کا ﷲ اور رسول ﷺ نے تم سے وعدہ کیا تھا۔‘‘
’’اور یہی وہ جگہ ہے۔‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’جہاں کسریٰ پرویز نے رسول اللّٰہ ﷺ کا دعوتِ حق کا پیغام پھاڑ کر پھینک دیا تھا……
میرے رفیقو! سوچنا یہ ہے کہ ہم یہ دریا عبور کس طرح کریں گے؟
دریا کی کیفیت دیکھو ۔ میں ایسا سیلابی دریا پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ موجوں کو دیکھو ۔کیا کوئی اس میں اُترنے کی جرأت کر سکتا ہے؟‘‘
’’جرأت کرنی پڑے گی۔‘‘ ____ عاصم بن عمرو نے کہا ____ ’’فارسیوں نے دجلہ کو اپنی آڑ بنایا ہے۔ انہوں نے ٹھیک سوچا ہے کہ اس بپھرے ہوئے دریا کو کوئی فوج اُس صورت میں عبور نہیں کر سکتی کہ کشتیاں بھی نہ ہوں اور پُل بھی نہ ہو۔
میں کہتا ہوں کہ شہنشاہِ فارس کے اس خیال کو چکنا چور کر دیں کہ یہ دریا اُس کی سلطنت کو بچا لے گا۔‘‘
’’کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اس دریا کو ہم تیر کر پار کریں گے؟‘‘ _____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’ہم میں کوئی موسیٰ علیہ السلام نہیں جس کیلئے ﷲ تعالیٰ کے حکم سے نیل نے اپنی روانی روک کر راستہ دے دیا تھا۔‘‘
’’ہاں سپہ سالار!‘‘ ____ عاصم بن عمرو نے کہا ____ ’’ارادے نیک ہوں اور دل میں ﷲ کا نام ہو تو وہ معجزہ ہم جیسے انسان بھی کر کے دکھا سکتے ہیں۔‘‘ مؤرخ لکھتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ پر خاموشی طاری ہو گئی اور وہ گہری سوچ میں کھو گئے۔ چند لمحوں بعد وہ چل پڑے۔ دیوار سے اُترے اور اُس کمرے میں جا بیٹھے جہاں فارس کے جرنیل بیٹھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سرداروں کو بلایا جائے۔
قاصد چلا گیا تو سعد رضی اللّٰہ عنہ نے اُسے آواز دے کر روک لیا۔
’’تمام لشکر کو باہر میدان میں اکٹھا کیا جائے۔‘‘ ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے کہا۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ مجاہدین کا لشکر آ گیا۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ باہر نکلے۔ قبیلوں کے سردار اپنے اپنے قبیلے کے سامنے کھڑے تھے۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ گھوڑے پر سوار ہوئے اور لشکر کے سامنے جا رُکے۔
’’۔۔۔۔۔۔ شہنشاہِ فارس نے اس دریا کو اپنی ڈھال بنا لیا ہے۔‘‘ _____ سعد رضی اللّٰہ عنہ مجاہدین سے مخاطب ہوئے ____ ’’میں نے دیکھا ہے کہ مدائن کی دیوار پر کھڑے کچھ آدمی ہماری طرف اشارے کر کر کے ہنس رہے تھے۔ وہ ہمارا مذاق اُڑا رہے تھے کہ ہم اب آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ہم پر فرض ہو گیا ہے کہ دُشمن کو اس مذاق کا جواب دیں۔ لیکن کشتیاں دُشمن کے قبضے میں ہیں۔ وہ جب بھی چاہے ہم پر حملہ کر سکتا ہے۔ ہم پار نہیں جا سکتے۔ لیکن ہم پار جائیں گے۔ تم نے میدانِ جنگ میں معجزے کر دکھائے ہیں۔ اب ایک معجزہ یہ رہ گیا ہے کہ یہ دریا پار کرنا ہے ۔۔۔
*=== ( ان شآءاللہ جاری ہے )*
کاپی