دین و دنیا چینل
June 10, 2025 at 11:26 AM
*حـجـاز کـی آنـدھـی ⛰️* *قـسـط نــمـبـر 90* *’’۔۔۔۔۔۔ شہنشاہِ فارس نے اس دریا کو اپنی ڈھال بنا لیا ہے۔‘‘ _____ سعد رضی اللّٰہ عنہ مجاہدین سے مخاطب ہوئے ____ ’’میں نے دیکھا ہے کہ مدائن کی دیوار پر کھڑے کچھ آدمی ہماری طرف اشارے کر کر کے ہنس رہے تھے۔ وہ ہمارا مذاق اُڑا رہے تھے کہ ہم اب آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ہم پر فرض ہو گیا ہے کہ دُشمن کو اس مذاق کا جواب دیں۔ لیکن کشتیاں دُشمن کے قبضے میں ہیں۔ وہ جب بھی چاہے ہم پر حملہ کر سکتا ہے۔ ہم پار نہیں جا سکتے۔ لیکن ہم پار جائیں گے۔ تم نے میدانِ جنگ میں معجزے کر دکھائے ہیں۔ اب ایک معجزہ یہ رہ گیا ہے کہ یہ دریا پار کرنا ہے ۔۔۔"* ہم ایسے مقام پر آ پہنچے ہیں جہاں ہم گھیرے میں آ سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جن امرأ اور جاگیرداروں نے ہماری اطاعت قبول کر لی ہے وہ لوگوں کو جمع کر کے اطاعت سے دستبردار ہو جائیں اور ہم پر عقب سے حملہ کر دیں…… میں اب ایسی بات کہنے لگا ہوں کہ جسے شاید تم سُن کر بھی کہو کہ میں نے ایسی بات نہیں کہی۔‘‘ ’’اے امیرِ لشکر!‘‘ _____ مجاہدین میں سے کسی کی بڑی ہی بلند آواز اُبھری _____ ’’اس سے پہلے کہ تو وہ بات منہ سے نکالے، ایک بات مجھے کہہ لینے دے……ﷲ ہماری رہنمائی کا اور ہماری قسمت کا فیصلہ کر چکا ہے۔ ہم یہ دریا تَیر کر پار کریں گے۔‘‘ تاریخ میں اس مجاہد کا نام نہیں ملتا ۔ اس کے یہ الفاظ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں۔ تبصرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ اس وقت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے چہرے پر ، ہر سالار ، سردار اور ہر ایک مجاہد کے چہرے پر کچھ ایسا تاثر تھا ، جیسے وہ اس زمین سے اُٹھ کر عالمِ بالا میں پہنچ گئے ہوں یا عالمِ خواب و خیال میں جا پہنچے ہوں۔جہاں وہ دُنیاوی حقائق سے لا تعلق ہو گئے ہوں۔ مؤرخوں کے مطابق لشکر سے یہی ایک آواز بار بار اُٹھ رہی تھی ____ "ہم تَیر کر دریا پار کریں گے……ہم تَیر کر دریا پار کریں گے۔‘‘ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ حقیقت پسند سالار تھے۔ وہ خاموشی سے لشکر کے نعرے سُنتے رہے۔ پھر انہوں نے ہاتھ اُٹھا کر لشکر کو خاموش کیا۔ ’’ہمیں صرف دریا ہی عبور نہیں کرنا۔‘‘ ____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’ دریا کے سامنے والے کنارے پر دریا کی فوج موجود ہے اور شہر کی جو دیوار دریا کے ساتھ ہے اس پر تیر انداز اور برچھیاں پھینکنے والے بھی موجود ہیں۔ اگر تم دریا میں اُترے اور سامنے والے کنارے پر پہنچ بھی گئے تو تم پر تیروں کی بوچھاڑیں آئیں گی برچھیاں بھی آئیں گی۔ چاہتا میں بھی یہی ہوں کہ دریا عبور کیا جائے۔‘‘ ’’یہ تیرا حکم نہیں سپہ سالار!‘‘ ____ عاصم بن عمرو کے قبیلے کے ایک آدمی نے گرج کر کہا ____ ’’یہ ﷲ کا حکم ہے کہ دریا پار کرو۔ ہم ﷲ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔‘‘ ’’ہم ﷲ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔‘‘ ____ لشکر سے ایک شور اُٹھا ____ ’’ہم دریا پار کریں گے۔‘‘ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کا چہرہ جذبات کی شدت سے سرخ ہو گیا۔ انہوں نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اپنے لشکر کو دیکھا۔ ’’اس ایثار اور شُجاعت کا اجر تمہیں ﷲ دے گا۔‘‘ ____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا ____ ’’اب میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کون ہے وہ جو کچھ آدمی اپنے ساتھ لے کر دریا میں اُتر جائے اور اگر وہ دریا پار کر لے تو اس دشمن کو روکے رکھے جو سامنے والے کنارے پر موجود ہے۔" تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عاصم بن عمرو نے ہاتھ اوپر کیا اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر لشکر کے سامنے آ گیا۔ ’’میں گھوڑے پر سوار سب سے پہلے دریا میں اُتروں گا‘‘ ____ عاصم نے اعلان کیا۔ اُس کے اعلان کے ساتھ ہی چھ سو گھوڑ سوار لشکر میں سے نکل کر اُس کے سامنے جا رُکے۔ سب نے بیک زبان کہا کہ عاصم بن عمرو کے ساتھ ہم دریا میں اُتریں گے۔ دریا کی طرف جو دروازے تھے وہ کھول دیئے گئے۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ کے اشارے پر عاصم بن عمرو ان چھ سو سواروں کو شہر سے باہر دریا کے کنارے لے گیا۔ تاریخوں میں ایک واقعہ یہ بھی ملتا ہے کہ دریا کے کنارے کھڑے ہو کر عاصم نے ان چھ سو سواروں سے خطاب کیا۔ ’’میرے رفیقو!‘‘ ____ اُس نے کہا ____ ’’دریا کی حالت دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ دریا کے وسط میں جا کر پچھتانے لگو کہ یہ ہم نے کیا کیا کہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈال دیا۔ میں تمہیں یقینی موت کے خطرے میں جانے کا حکم نہیں دیتا۔ تم میں سے جو میرے ساتھ دریا میں کُودنا چاہتے ہیں وہ آگے آ جائیں اور جو آگے نہیں آئے گا اس پر کوئی گلہ نہیں۔‘‘ ان چھ سو سواروں میں سے صرف ساٹھ مجاہد آگے آئے اور جو آگے نہیں آئے تھے عاصم ان کے سامنے چلا گیا۔ ’’کیا تم اس تھوڑے سے پانی سے ڈر گئے ہو؟‘‘ ____ عاصم نے کہا اور قرآن کی ایک آیت پڑھی ____ *وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تَمُوۡتَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا* ’’اور کوئی شخص نہیں مر سکتا جب تک ﷲ کا حکم نہ ہو اس نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔‘‘ عاصم بن عمرو نے ان سواروں کے جواب کا انتظار نہ کیا۔ گھوڑا موڑا اور ﷲ اکبر کا نعرہ لگا کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ اس کے پیچھے ساٹھ سواروں نے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے۔ جب وہ چند ہی قدم آگے گئے تھے کہ ان سواروں نے بھی جو پیچھے رہ گئے تھے گھوڑے دریا میں اُتار دیئے۔ گھوڑوں نے ذرا سی ہچکچاہٹ یا ڈر محسوس نہیں کیا۔ وہ پوری طرح اپنے سواروں کے قابو میں رہے۔ ان کے پاؤں دریا کی تہہ سے اُٹھ گئے تھے کیونکہ وہاں پانی زیادہ گہرا تھا۔ وہ کنارے سے خاصا آگے نکل گئے۔ تاریخ کے اوراق پھڑ پھڑانے لگے۔زمین و آسمان دم بخود ہو گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سورج رُک گیا ہو اور ان مجاہدین کا یہ اقدام جو بظاہر خود کشی کی کوشش معلوم ہوتا تھا دیکھنے کیلئے آگے جانے کے بجائے کچھ پیچھے آ گیا ہو۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ اور ان کے ساتھ سالار اور دوسرے مجاہدین بُہر شیر کی دیوار پر کھڑے دیکھ رہے تھے۔ سامنے مدائن کی دیوار پر اور دریا کے کنارے فارسی کھڑے دیکھ رہے تھے۔ سب کی سانسیں رک گئی تھیں۔ ’’وہ دیکھو‘‘ ____ سامنے والے کنارے سے کسی فارسی کی بلند آواز آئی ____ ’’وہ دیکھو ، عربی پاگل ہو گئے ہیں۔‘‘ وہ پاگل پن ہی تو تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اجتماعی پاگل پن …… چھ سو گھوڑ سوار تیز و تند اور بپھرے ہوئے دریا میں جا رہے تھے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ شمال میں آذر بائیجان تھا جو برفانی ملک تھا۔ اس ملک کی برف پگھل پگھل کر دجلہ کو شوریدہ سر اور کف آگیں رکھتی تھی۔ دریا ہر وقت طغیانی کی کیفیت میں رہتا تھا۔ پانی یخ بھی ہوتا تھا۔ اُدھر سامنے والے کنارے پر بعض فارسی قہقہے لگا رہے تھے کہ مسلمان مرنے کیلئے دریا میں اُترے ہیں اور اب جنگ ختم ہو جائے گی اور بعض فارسی حیران اور ششدر کھڑے آنکھیں اور منہ کھولے دیکھ رہے تھے۔ کہ یہ اُن ہی جیسے انسان ہیں اور یہ کس طرح اپنے سپہ سالاروں کے حکم سے ڈوبنے کیلئے دریا میں اُتر آئے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی تاریخِ طبری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ گھوڑے دریا میں بھی ترتیب سے تیرتے جا رہے تھے۔ سیلابی موجیں گھوڑوں کو اوپر اُٹھاتیں اور نیچے اُتارتی تھیں۔سوار بے خوف و خطر گھوڑوں پر بیٹھے انہیں قابو میں کیے ہوئے تھے۔یوں لگتا تھا جیسے دریا انہیں ہلارے دے رہا ہو ، لیکن دیکھنے والوں کیلئے یہ اجتماعی خودکشی کا اقدام تھا۔ فارس کی فوج کا جو دستہ سامنے والے کنارے پر تیار کھڑا تھا۔اس کے ساتھ ایک جرنیل تھ ۔مدائن کا دفاع اسی جرنیل کی ذمہ داری تھی۔ اس کا نام ’’خرزاد‘‘ تھا۔ تمام تاریخوں میں اس کا نام یہی لکھا ہے۔ یہ نہیں بتایا جا سکتا تھا کہ اس کا یہ نام کیوں رکھا گیا تھا۔ خرزاد کے معنی ہیں’’گدھے کا بچہ‘‘۔ وہ گدھے کا بچہ تھا یا نہیں ، اس کا دماغ گدھوں جیسا معلوم ہوتا تھا۔ کیونکہ اس نے مسلمان گھوڑ سواروں کو جو دریا کے وسط میں پہنچ چکے تھے اور ابھی ڈوبا ایک بھی نہیں تھا، روکنے کا بڑا ہی احمقانہ حکم دیا۔ ان مجاہدین کو روکنے اور ڈبونے کا آسان طریقہ یہ تھا کہ کنارے سے ان پر تیروں کا مینہ بر سا دیا جاتا۔ لیکن اس نے اپنا ہی طریقہ اختیار کیا۔ ’’آفتاب کے بیٹو! ‘‘ _____ خرزاد نے اپنے دستے کو حکم دیا _____ ’’عربی یہ نہ کہیں کہ عجمی بزدل ہیں۔ تم بھی گھوڑے دریا میں ڈال دو اور ان عربوں کو دریا میں کاٹ کر ڈبو دو۔‘‘ سینکڑوں فارسی گھوڑ سواروں نے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے اور تلواریں اور برچھیاں تان لیں۔ اب سیلابی دریا میں معرکہ لڑا جانا تھا۔ لیکن مسلمانوں کے سالار عاصم بن عمرو نے اپنا دماغ حاضر رکھا۔ عاصم صرف بہادر اور دلیر ہی نہیں تھا اس میں جنگی فہم و فراست کی بھی کمی نہیں تھی۔ ’’تیر اندازو!‘‘ _____ عاصم نے اپنے تیر انداز سواروں کو حکم دیا _____ ’’انہیں تیروں سے روکو ۔ تیر ان کے گھوڑوں کی آنکھوں میں لگیں۔‘‘ یہ افسانہ یا من گھڑت قصہ نہیں۔ یہ واقعہ اُس تاریخ کے دامن میں بھی محفوظ ہے جو یورپی مؤرخوں نے بھی لکھی ہے۔ حالانکہ اس تاریخ میں تعصب بھی پایا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دجلہ کی غصیلی موجیں مجاہدین کے گھوڑوں کو اُٹھا اُٹھا کر پٹخ رہی تھیں اور سوار اپنے آپ کو بڑی ہی مشکل سے سنبھال رہے تھے۔اس حالت میں کہ مجاہدین اپنے آپ کو اور گھوڑوں کو قابو میں رکھنے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے، کمانوں میں تیر ڈال کر فارسی سواروں کے گھوڑوں کی آنکھوں کا نشانہ بھی لے رہے تھے۔ کئی ایک تیر فارسیوں کے گھوڑوں کی آنکھوں میں اُتر گئے اور باقی خطا گئے یا فارسی سواروں کے جسموں میں اُتر گئے۔ فاصلہ زیادہ نہیں تھا ، اس لئے تیر اندازوں کے تیر گھوڑوں کو لگتے یا سواروں کے جسموں میں دُور تک اُترتے جاتے تھے۔ فارسیوں کے گھوڑے تیرنا بھول گئے۔ انہوں نے اپنے آپ کو دریا کے حوالے کر دیا۔ سوار تیر کھا کھا کر دریا برد ہونے لگے۔ خرزاد کا دفاعی اقدام بُری طرح تباہ ہوا۔ مجاہدین کے گھوڑے دجلہ کو چیرتے ، موجوں کے قہر و عتاب کو روندتے آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔کنارا ابھی دُور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ فارسی جرنیل خرزاد کا یہ اقدام احمقانہ تھا۔ اس نے کنارے سے ہی مجاہدین پر تیر برسانے کے بجائے اپنے سواروں کو دریا میں اُتار دیا۔ معلوم نہیں خرزاد احمق تھا یا نہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ ﷲ تبارک و تعالیٰ جب چاہتا ہے کہ یہ کام ہو جائے تو ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ وہ کام ہو جاتا ہے۔ ﷲ نے دیکھا کہ اس کے نام اور اس کے رسول ﷺکی آن پر ان مجاہدین نے جانوں کی بازی لگا دی ہے تو ﷲ نے ان کے دُشمن جرنیل کو عقل کا اندھا کر دیا۔ جس وقت خرزاد نے اپنے سواروں کو دریا میں اُتارا، اُس وقت مجاہدین کے ایک اور قبیلے کے سردار قعقاع بن عمرو نے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے حکم کے بغیر ہی اپنے قبیلے کے سواروں کو للکارا۔ ’’اللّٰہ کی قسم!‘‘ ____ اس نے کہا _____ ’’مدائن پر چڑھائی اکیلے عاصم بن عمرو کی ذمہ داری نہیں، وہ دیکھو ، فارسی سوار گھوڑے دریا میں اُتار رہے ہیں۔‘‘ قعقاع نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ اس کے پیچھے چھ سو گھوڑ سوار دریا میں اُتر گئے۔ﷲ اکبر کے نعروں میں دریا کا شور دب گیا۔ ان کے پیچھے لشکرکے تمام گھوڑ سواروں نے گھوڑے دریا میں اُتار دیئے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے پیادہ مجاہدین کو اپنے ساتھ رکھا۔ بعض پیادے بھی جوش میں آ کر دریا میں کودنے کو تیار ہو گئے تھے لیکن سعد رضی اللّٰہ عنہ نے انہیں روک دیا۔ دریا میں ہزاروں گھوڑے تیرتے جا رہے تھے۔ محمد حسنین ہیکل نے مختلف مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ دریا کا پانی گھوڑوں اور انسانوں کے سروں میں چھپ گیا تھا ۔ فارس کی فوج جو دوسرے کنارے پر مقابلے کیلئے تیار کھڑی تھی ، صرف یہی دیکھ کر بد دل ہو گئی تھی کہ اس کا جو سوار دستہ دریا میں اُترا تھا ، وہ مسلمانوں کے تیروں سے ڈوب مرا ہے۔ اب دیکھا کہ مسلمانوں کا سارا لشکر دریا کو چیرتا آ رہا ہے تو فوج میں شور اُٹھا : ’’دیواں آمدند، دیواں آمدند (دیو آ گئے دیو آ گئے) ‘‘یہ آوازیں بھی سُنائی دیں۔’’ ہم جنات سے نہیں لڑ سکتے۔ بھاگو لوگو ، بھاگو ، جنات کا مقابلہ کیسے کرو گے۔‘‘ عاصم بن عمرو کنارے پر جا پہنچے۔ وہاں انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔ اپنے جرنیل خرزاد سمیت فارس کی فوج بھاگ گئی تھی۔ کچھ لوگ وہاں کھڑے تھے۔ عاصم نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں نہیں بھاگے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ان کشتیوں کے ملّاح اور ماہی گیر ہیں۔ عاصم نے انہیں حکم دیا کہ وہ کشتیاں بُہرشیر والے کنارے پر لے جائیں اور مجاہدین کے لشکر کو لے آئیں۔ پیادہ مجاہدین نے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ کشتیوں میں دریا پار کیا۔ منجیقیں اور دیگر سامان بھی کشتیوں میں ہی لے جایا گیا۔ اب مدائن کو محاصرے میں لینا تھا۔ لیکن شہر کے لوگوں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے جاسوسوں نے بتایا کہ مدائن خالی پڑا ہے۔ شہنشاہِ فارس یزدگرد اپنے خاندان کو ساتھ لے کر چلا گیا ہے اور فوج کا ایک سپاہی بھی شہر میں موجود نہیں۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ شہر میں داخل ہوئے تو اتنے خوبصورت اور اتنے امیر شہر پر ہُو کا عالم طاری تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ رُک گئے اور ہر سُو دیکھا پھر انہوں نے بلند آواز سے قرآن کی یہ آیت پڑھی : *کَمۡ تَرَکُوۡا مِنۡ جَنّٰتٍ وَّعُیُوۡنٍ ۞ وَّزُرُوۡعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیۡمٍ ۞ وَّنَعۡمَۃٍ کَانُوۡا فِیۡہَا فٰکِہِیۡنَ ۞ کَذٰلِکَ ۟ وَاَوۡرَثۡنٰہَا قَوۡمًا اٰخَرِیۡنَ ۞ فَمَا بَکَتۡ عَلَیۡہِمُ السَّمَآءُ وَالۡاَرۡضُ وَمَاکَانُوۡا مُنۡظَرِیۡنَ۞* ’’وہ بہت سے باغ ، چشمے، کھیت، پاکیزہ مقام، اور نعمتیں چھوڑ گئے جن میں وہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے اور اس طرح ہم نے ایک دوسری قوم کو ان کا وارث بنایا ۔ پس نہ ان پر آسمان رویا اور نہ انہیں ڈھیل دی۔‘‘ (الدُّخان:۲۵تا۲۹ ) دریا تَیر کر پار کرنے میں صرف ایک مجاہد ڈوب کر شہید ہوا۔ تاریخوں میں صرف یہ لکھا ہے کہ وہ قبیلہ طے کا مجاہد تھا۔ نام کسی نے بھی نہیں لکھا۔ عمرو بن العلاء کی روایت ہے کہ اسے تیر لگا تھا جو فارسیوں نے چلائے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فارسیوں نے تھوڑی سی تیر اندازی بھی کی تھی۔ ’’یزدگرد اور اس کا خاندان کہاں گیا ؟‘‘ ۔۔۔۔۔۔ *==== ( ان شآءاللہ جاری ہے )* کاپی
👍 4

Comments