دین و دنیا چینل
June 11, 2025 at 03:10 AM
*حـجـاز کـی آنـدھـی ⛰️* *قـسـط نــمـبـر 91* *دریا تَیر کر پار کرنے میں صرف ایک مجاہد ڈوب کر شہید ہوا۔ تاریخوں میں صرف یہ لکھا ہے کہ وہ قبیلہ طے کا مجاہد تھا۔ نام کسی نے بھی نہیں لکھا۔* *عمرو بن العلاء کی روایت ہے کہ اسے تیر لگا تھا جو فارسیوں نے چلائے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فارسیوں نے تھوڑی سی تیر اندازی بھی کی تھی ۔* *’’یزدگرد اور اس کا خاندان کہاں گیا ؟‘‘ ۔۔۔۔* تاریخِ اسلام کی معجزہ نما داستان کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم ذرا پیچھے اس مقام پر واپس جانا چاہتے ہیں جہاں اس داستان کے ایک ہیرو عاصم بن عمرو نے گھوڑا دریا میں ڈالا تھا۔ یہ سُنایا جا چکا ہے ہے کہ عاصم کے ساتھ ساٹھ (60) رضا کار تھے جنہوں نے دجلہ پار کرنے کیلئے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے تھے۔ ان کے پیچھے باقی پانچ سو چالیس جانباز سواروں نے بھی گھوڑے دریا میں اُتار دیئے تھے۔ اس وقت مدائن کی دیوار پر بہت سے فارسی کھڑے قہقہے لگا رہے تھے۔ انہیں توقع تھی کہ مسلمان اتنے زیادہ جوش میں آئے ہوئے دریا میں ڈوب جائیں گے یا دریا کا اتنا تندوتیز بہاؤ انہیں اپنے ساتھ ہی لے جائے گا۔ فارسیوں کی یہ توقع بے بنیاد نہیں تھی۔ مسلمان ایک معجزہ کر دکھانے کی کوشش کر رہے تھے جو بظاہر نا ممکن نظر آ رہا تھا۔ دیوار پر کھڑے فارسیوں کے اس ہجوم سے الگ تھلگ ایک آدمی کھڑا تھا جس نے اپنے سر پر اس طرح ایک کپڑا ڈال رکھا تھا کہ اس کا چہرہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ وہ دوسروں کی طرح ہنس نہیں رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم بھی نہیں تھا بلکہ چہرے پر سنجیدگی تھی اور سنجیدگی میں اُداسی اور مایوسی کی جھلک نمایاں تھی۔ ایک عورت جس کے چہرے پر نقاب تھا ، تیز تیز چلتی اس کے قریب آ رکی۔ ’’یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو یزدی!‘‘ ____ عورت نے اس سے پوچھا ____ ’’تم حوصلہ کیوں ہار بیٹھے ہو؟‘‘ ’’تم چلی کیوں نہیں جاتیں ماں!‘‘ ____ اس نے کہا ____ ’’سب جا چکے ہیں ۔ تم بھی یہاں سے فوراً چلی جاؤ۔‘‘ ’’تمہیں اکیلا چھوڑ کر کیسے چلی جاؤں بیٹا!‘‘ ____ اس نے عورت کی طرف دیکھا اور بولا کچھ بھی نہیں ۔ وہ یزدگرد تھا……شہنشاہِ فارس……اور یہ عورت اس کی ماں نورین تھی۔ یزدگرد شاہی لباس میں ملبوس نہیں تھا۔ لباس سے وہ بالکل ہی عام سا شہری لگ رہا تھا۔ اس نے چہرہ چھپا رکھا تھا۔ تمام مستند مؤرخوں نے لکھا ہے کہ بُہر شیر سے فارس کی فوج بھاگ کر مدائن چلی گئی تو یزدگرد کے ہاتھ سے امید کا دامن چھوٹ گیا۔ اُس پر اتنی زیادہ مایوسی طاری ہو گئی کہ وہ نوجوانی میں بوڑھا نظر آنے لگا تھا۔ اُس نے بُہر شیر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوتے ہی تمام تر شاہی خاندان کو مدائن سے نکال کر مدائن سے کچھ دُور ایک مقام حُلوان بھیج دیا اور خود محل میں ہی رُکا رہا۔ اُس کی خاطر اُس کی ماں بھی وہیں رک گئی۔ ’’……اور تم اتنے مایوس کیوں ہوئے جا رہے ہو یزدی!‘‘ ____ نورین نے بڑے پیار اور حوصلہ مندی سے یزدگرد سے کہا ____ ’’مسلمان ڈوبنے کیلئے دریا میں اُترے ہیں ۔کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ان کے گھوڑے اس طغیانی میں سے نکل آئیں گے؟‘‘ ’’اُن کے سوار انہیں طغیانی میں سے نکال لائیں گے۔‘‘ _____ یزدگرد نے کہا _____ ’’جذبہ سواروں میں ہوتا ہے گھوڑوں میں نہیں۔ بات سواروں کی کرو……کہاں ہیں ہمارے سوار؟ وہ پیچھے کو بھاگنا چاہتے تھے اس لیے ان کے گھوڑے پیچھے کو بھاگ آئے۔‘‘ ’’کیا ہمارے جرنیل دھوکے باز نہیں؟‘‘ _____ نورین نے دانت پیس کر کہا ____ ’’بُزدل، کمینے، عیاش اور بھاگنے میں سب سے آگے۔ خرزاد کو میں دوسروں سے بہتر سمجھتی تھی ۔وہ رستم کا بھائی ہے۔‘‘ ’’اور میں خرزاد پر صرف اسی لیے بھروسہ نہیں کرتا کہ وہ رستم کا بھائی ہے۔‘‘ یزدگرد نے کہا _____ ’’کیا تمہیں یاد نہیں ماں! رستم کو میں نے کس طرح دھکیل دھکیل کر قادسیہ بھیجا تھا؟ اس نے مہینوں کے حساب سے وقت ضائع کیا اور اس وقت سے عربوں نے فائدہ اُٹھایا۔‘‘ _____ یزدگرد چونک کر خاموش ہو گیا۔ اُس کی نظریں دریا پر لگی ہوئی تھیں۔ مسلمانوں کے گھوڑے دریا کے وسط تک آ گئے تھے۔ یزدگرد نے گھبرائی ہوئی سی آواز میں کہا _____ ’’وہ دیکھو ماں!تم کہتی ہو کہ وہ ڈوبنے کیلئے دریا میں اُترے ہیں۔کیا تم دیکھ نہیں رہی ہو کہ اتنے قہر اور غضب سے اُٹھنے والی طوفانی موجیں عربوں کے گھوڑوں تلے دب گئی ہیں؟ وہ دریا پار کر لیں گے۔ انہیں ڈوبنا ہوتا تو اب تک ڈوب چکے ہوتے۔‘‘ ’’خرزاد نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دریا میں ہی تباہ کر دے گا۔‘‘ _____ نورین نے کہا ______ ’’کہتا ہے کہ بُہر شیر کی شکست کو فتح میں بدل دے گا۔‘‘ یزدگرد طنزیہ سی ہنسی ہنس پڑا۔ جس وقت یزدگرد اپنی ماں کے ساتھ مدائن کی دیوار پر کھڑا مسلمانوں کے گھوڑوں کو دریا پار کرتا دیکھ رہا تھا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ ایک مشہور و معروف صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہا کے ساتھ دریا کے بُہر شیر والے کنارے کی طرف کھڑے تھے۔ *’’حسبنا ﷲ ونعم الوکیل ‘‘* _____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا _____ ’’اللّٰہ کی قسم! ﷲ اپنے ان نیک بندوں کو جو اس کی راہ میں جانیں قربان کرنے نکلے ہیں ، فتح و نصرت عطا کرے گا۔ مجھے یقین ہے اور یہ میرا عقیدہ ہے کہ ﷲ اپنے دین کو غالب کرے گا اور دُشمن کو لازمی طور سے شکست دے گا ۔بشرطیکہ مجاہدین کے لشکر میں کوئی ایسا گناہ یا زیادتی نہ ہو گئی ہو جو نیکیوں پر غالب آ جائے۔" ’’اللّٰہ کی قسم ابنِ ابی وقاص!‘‘ ____ سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ نے کہا _____ ’’جس طرح ﷲ نے ان کے لئے زمین کی دشواریاں ہموار کر دی تھیں ، اسی طرح ان کے لئے ﷲ اس دریا کو بھی پامال کر دے گا۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے، جس طرح یہ دریا میں اُترے ہیں اسی طرح زندہ و سلامت دریا کے اُس کنارے پر پہنچ جائیں گے۔‘‘ اُس وقت مجاہدین کے گھوڑے دریا کے وسط سے آگے نکل گئے تھے۔ موجوں کا طوفانی زیرو بم وسط میں ہی تھا۔ وہاں سے گھوڑے نکل گئے تو امید بندھ گئی کہ اب دریا پار کر لیں گے۔ سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہا کے متعلق کچھ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے سلمان رضی اللّٰہ عنہ فارس ایران کے رہنے والے تھے۔ اسلام قبول کیا تو مدینہ رسول اکرم ﷺکے حضور جا پہنچے اور حضور ﷺ کی رفاقت میں ہی زیادہ وقت گزارا۔ اہلِ قریش نے مکہ اور اردگرد کے دیگر قبائل سے مل کر جب مدینہ پر حملہ کیا ، اُس وقت سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ مدینہ میں ہی تھے ۔حملہ اوروں کی آمد کا قبل از وقت پتہ چل گیا۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس نفری کے لحاظ سے جنگی طاقت خاصی کم تھی۔ حملہ آوروں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس بے حد خطرناک صورتِ حال میں سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ کام آئے۔ انہوں نے رسولِ کریم ﷺ کو مشورہ دیا کہ مدینہ کے اردگرد خندق کھودی جائے جو اتنی چوڑی اور اتنی گہری ہو کہ طاقتور گھوڑا بھی اسے پھلانگ نہ سکے۔ اُس وقت تک مسلمان خندق کے تصور سے نا آشنا تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ کا مشورہ قبول فرما کر اہلِ مدینہ سے فرمایا کہ سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ کی نگرانی میں خندق کھودی جائے۔ مسلمانوں میں بے پناہ جوش و خروش اور جذبہ تھا۔ انہوں نے بہت ہی تھوڑے وقت میں شہر کے اردگرد خندق کھود ڈالی، اور پھر دیکھا کہ اسے گھوڑا پھلانگ سکتا ہے یا نہیں۔گھوڑے کیلئے یہ کام ممکن نہیں تھا۔ اہلِ مکہ جوش و خروش سے آگے آئے اور خندق کے باہر رک گئے۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ خندق کو پھلانگ سکیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ اُس وقت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اس حملے کے قائد وہی تھے ۔ اہلِ مکہ نے مدینہ کو ایک مہینہ تک محاصرے میں رکھا آخر مایوس ہو کر واپس چلے گئے ۔اس خندق کی وجہ سے اس خندق کو جنگِ خندق کہا جاتا ہے۔ اب سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ تھے اور پورے وثوق سے کہہ رہے تھے کہ مجاہدین دریا پار کر لیں گے۔ پچھلے باب میں بیان ہو چکا ہے کہ مجاہدین نے دریا پار کر لیا تھا۔ یزدگرد دیوار سے اُتر گیا۔ نورین اس کے ساتھ تھی۔ نیچے کہیں دو گھوڑے کھڑے تھے۔ یزدگرد اور اس کی ماں ان گھوڑوں پر سوار ہوئے اور محل میں جانے کے بجائے شہر کے ایک چھوٹے سے دروازے سے نکل گئے۔ وہ مدائن سے دُور چلے گئے۔ یزدگرد نے ایک بار بھی مُڑ کر مدائن کو نہ دیکھا۔ اس کی ماں بار بار پیچھے دیکھتی تھی۔ اس کے آنسو رُکتے ہی نہیں تھے۔ اس خاندان پر کڑی آزمائش کا وقت تو وہ تھا جب یزدگرد کو اطلاع ملی تھی کہ بُہر شیر میں بھی مسلمان داخل ہو گئے ہیں ۔یزدگرد نے دیوار پر کھڑے ہو کر اپنی بچی کھچی فوج کو کشتیوں سے اور پل سے مدائن کی طرف بھاگتے دیکھا تھا۔ وہ اپنے محل میں گیا اپنی ماں ، سوتیلی بہن پوران اور شاہی خاندان کے سر کردہ افراد کو بلالیا۔ اس کے علاوہ اس نے دو جرنیلوں کو بھی بلایا۔ ایک مہران تھا اور دوسرا فیروزان۔ ان سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ بُہر شیر سے اپنی فوج بھاگ آئی ہے اور وہاں مسلمان قابض ہو گئے ہیں۔ یہ وہ محل تھا جہاں مسرت و شادمانی محوِ رقص رہتی تھی۔ جہاں شہنشاہ ہوتا وہاں انتہائی حسین اور دلکش کنیزیں شہنشاہ کے آگے پیچھے حاضری میں موجود رہتی تھیں۔ ان کے ناز و انداز اور طور طریقوں سے محفل میں کچھ اور ہی رونق پیدا ہو جاتی تھی۔ شراب کی صراحیاں اور پیالے تو اس محل کا لازمی حصہ سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اُس روز تمام افراد پر سناٹا طاری تھا۔ کسی کنیز کو اس کمرے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جس میں یزدگرد نے ان سب کو بلایا تھا۔ شراب کی صراحیاں بھی ہٹا لی گئی تھیں۔ ان سب کے انداز بتاتے تھے کہ وہ ایک دوسرے سے نظریں ملانے سے بھی گھبرا رہے ہیں۔ ’’خدائے آفتاب کی لعنت ہو تم جرنیلوں پر!‘‘ ____ یزدگرد نے مہران اور فیروزان کی طرف دیکھ کر سکوت توڑا ____ ’’تم میں سے کوئی ایک بھی جرنیل کسی ایک بھی میدان میں نہیں ٹھہر سکا۔ بُہر شیر کے دفاع کیلئے میں تمہیں اور کتنی مدد دے سکتا تھا؟۔ خرزاد نے سب کچھ ضائع کر دیا۔‘‘ ’’ہم ابھی زندہ ہیں شہنشاہِ فارس!‘‘ ____ مہران نے کہا _____ ’’دجلہ ہمارے دُشمن کے سامنے ایسی رکاوٹ ہے جو اسے بُہر شیر سے آگے نہیں بڑھنے دے گی۔ فوج واپس آ رہی ہے۔ اُدھر کے کنارے سے تمام چھوٹی بڑی کشتیاں ادھر لے آئیں اور پُل کو آگ لگا دیں۔‘‘ ’’پھر کیا ہو گا ؟" _____ یزدگرد نے طنزیہ سے لہجے میں پوچھا۔ "ہم اپنی تمام فوج کو اکٹھا کریں گے" ____ مہران نے کہا _____ "اور بہت جلد بہت بڑا لشکر تیار کر کے اُس جگہ سے دریا پار کریں گے جہاں پانی تھوڑا ہو۔" "مہران!" _____ یزدگرد نے کہا ____ "تم میرے باپ کی عمر کے آدمی ہو ، جو تجربہ تمہیں حاصل ہے ، میں اُس سے محروم ہوں لیکن جو تجربہ مجھے عربوں کی لڑائی میں ہوا ہے وہ میری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ میں تمہیں اتنا بڑا لشکر دے چکا ہوں جو فارس کے لوگوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے تمہیں ہاتھی بھی دیے تھے اور میں نے تمہیں وہ جنگی ساز و سامان دیا تھا جو عرب خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے ۔۔۔۔۔ ہمارے بہت سے جرنیل مارے گئے ہیں جن کا مجھے ذرا سا بھی افسوس نہیں۔ اگر تم بھی مارے جاؤ گے تو مجھے افسوس نہیں ہو گا۔ ہر اُس جرنیل کو جو اتنی تھوڑی نفری سے شکست کھا کر بھاگ آئے ، اسے خود کشی کر لینی چاہیے ۔" "شہنشاہِ فارس!" _____ فیروزان نے کہا ____ "ہمیں ایک موقع دیں ۔" "میرا فیصلہ سُن لو۔‘‘ ____ یزدگرد نے کہا ____ ’’ایک وہ وقت تھا جب ہم کہتے تھے کہ عربوں کو عراق کی سرحد سے باہر کر دیں گے اور رستم کہتا تھا کہ وہ پورے عرب کو تباہ و برباد کر کے مدینہ پر قبضہ کرے گا اور اسلام کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے گا۔ پھر وہ وقت آیا کہ ہم نے بے انتہا نفری کا لشکر تیار کیا کہ عرب کے ان مسلمانوں کو قادسیہ کے میدان میں کچل ڈالیں گے…… "پھر تم جانتے ہو کہ قادسیہ کے میدان میں کیا ہوا۔ عرب کو تباہ کرنے والا رستم خود تباہ ہو گیا۔ ہمارا لشکر اس طرح بکھر گیا جس طرح آندھی میں خشک گھاس کے تنکے اُڑ جایا کرتے ہیں۔ پھر ہم نے کہا کہ عربوں کو بُہر شیر تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ مگر اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم مدائن کو بھی شاید نہ بچا سکیں ۔‘‘ *=== ( ان شآءاللہ جاری ہے )* کاپی
🙏 1

Comments