Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
May 16, 2025 at 05:05 AM
*سلسلۂ نقوشِ قرآن* *سورت الکہف* *پانچویں قسط* *شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت مولانا شیخ زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *اصحابِ کہف کے قصے سے سبق حاصل کرو* گزشتہ سے پیوستہ ان کی تعداد کے بارے میں مفصل وضاحت کی جاچکی ہے،آیت نمبر 22 میں یہی درس دیا گیا ہے کہ اصحابِ کہف کی تعداد کے بارے میں مختلف گروہوں کے مختلف نظریات ہیں لہٰذا خواہ مخواہ کسی سے بحث ومباحثہ اور الجھنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے واقعہ میں اصل سبق یہ ہے کہ کس طرح انہوں نے مشکل حالات میں حق پر ثابت قدمی دِکھائی اور اللہ تعالیٰ نے کیسے ان کی مدد فرمائی۔ باقی رہی یہ بات کہ ان کی درست تعداد کیا تھی؟ اس کے جاننے پر دین و دنیا کا کوئی مسئلہ موقوف نہیں،اگر کوئی آپ سے اس سلسلے میں بات کرنا بھی چاہے تو سرسری طور پر اسے موقف بتا کر خاموشی اختیار کر لی جائے۔ *وحی یقینی علم کا قطعی ذریعہ* اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی تعلیم دی گئی کہ وحی کے ذریے آپ کو اصحابِ کہف کی جتنی معلومات دے دی گئی ہیں وہ کافی ہیں،اسی پر قناعت کیجیے،اس سے زیادہ کسی سے اس حوالے سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں۔ *اپنے کام اللہ کی مشیت سے منسلک* جب مشرکینِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح، اصحابِ کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک طرح سے وعدہ کر لیا تھا کہ ان کا جواب کل بتاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امید تھی کہ وحی کے ذریعے کل تک یہ سب حالات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیے جائیں گے، لیکن وعدہ کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِن شاء اللہ کہنا بھول گئے،اسی لیے تقریباً پندرہ دن تک وحی کاسلسلہ رکا رہا اور پھر یہ آیت نمبر 23 اور 24 نازل ہوئیں، جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے امت کو بھی یہ تعلیم دی گئی کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کاارادہ ہو تو اسے اللہ کی مشیت کے ساتھ لازماً منسلک کر دیا کرو،آئندہ کا حال کس کو معلوم ہے؟ اس لیے کوئی وعدہ یا معاملہ کرتے وقت ان شاء اللہ کا کلمہ ساتھ کہہ دیا کرو کہ اگر اللہ نے چاہا تو یہ کام میں کل یا فلاں دن تک کر دوں گا۔ یہی مومن کا طریقہ ہے کہ وہ دل اور زبان دونوں سے اللہ پر بھروسا کرے۔ *واقعہ علوم کے مقابلے میں بیوقعت* اس واقعہ کی حقیقت بیان کرنے کے تھ ساتھ یہ بھی صاف کہہ دیاگیا کہ یہ واقعہ تمہاری نظروں میں کوئی حیثیت رکھتا ہو تو الگ بات ہے، لیکن پیغمبرانہ علوم ومعرفت کے سمندر کے مقابلہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔ اس واقعہ کے بارے میں کچھ نا کچھ تو وہ شخص بھی بتا سکتا ہے جو تاریخ عالم سے واقفیت رکھتا ہو، یہ قصہ تو غیرِ نبی بھی بتا سکتا ہے، میرے رب نے تو مجھے اس سے بھی زیادہ عالیشان علوم عطاء فرمائے ہیں، ایسے ایسے انبیاء علیہم السلام کے تفصیلی واقعات جن کا زمانہ اصحابِ کہف سے زیادہ قدیم ہے، پھر میری نبوت کے اثبات کے لیے سب سے قطعی دلیل خود قرآنِ مجید ہے جس کی ایک آیت کی نظیر لانے سے بھی پوری دنیا عاجز ہے۔ اس لیے بلا وجہ کے سوالات چھوڑو اور میری نبوت کو دل سے تسلیم کرلو،اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ *سونے کی مدت اللہ تم سے بہتر جانتا ہے* جیسے لوگوں میں اصحابِ کہف کی حقیقی تعداد کے بارے میں اختلاف تھا،اسی طرح ان کے سونے کی اصل مدت کے بارے میں بھی لوگوں کی آراء مختلف تھیں،آیت نمبر 25 اور 26 میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ وہ لوگ اپنی غار میں شمسی لحاظ سے 3 سو سال سوئے رہے جو کہ قمری لحاظ سے 309 سال کا عرصہ بنتا ہے۔ یہود ونصاریٰ میں چونکہ شمسی سال کا رواج تھا،اس لیے انہیں انہی کے جانے پہچانے اسلوب میں بتایا گیا اور مسلمانوں میں قمری سال رائج تھے تو انہیں انہی کے حساب سے کل مدت بتائی گئی۔ اگر یہ لوگ حقیقت سننے کے باوجود اپنی بات پر اڑے رہیں تو انہیں صاف کہہ دو: اللہ کو زیادہ پتا ہے یا تمہیں زیادہ معلوم؟ زمین وآسمان میں جس ذات سے بڑھ کر کوئی علم رکھنے والا نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی معاون ومدد گار ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کا علم تم سب سے زیادہ وسیع ہے،بلکہ تم اور تمہارا سب کچھ اسی ذات کی طرف سے عطاء کر دہ ہے۔ لہٰذا ائے پیغمبر یہ بات کہہ کر بحث ختم کر دو کہ بس جو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا وہی مدت درست اور حق ہے، باقی سب افسانے ہیں۔ *قمری و شمسی دونوں تقویموں کا علم* اللہ تعالیٰ نے شمسی وقمری دونوں لحاظ سے ان کے سونے کی مجموعی مدت بیان فرمائی،اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ انسان کو دونوں تاریخوں سے واقفیت ہونا چاہیے۔ بحیثیتِ مسلمان ہمیں قمری تقویم سے اس لیے بھی واقفیت ضروری ہے کہ ہمارے کئی دینی معاملات (روزے، عیدین، حج وغیرہ) اسی تقویم پر موقوف ہیں۔ نیز دونوں تاریخیں بتانے سے بات میں کوئی ابہام اور کمزوری بھی باقی نہیں ۔ *سونے کی مدت واضح کیوں بتائی؟* اس اسلوب میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی تعداد جاننے میں دین یا دنیا کا کوئی مسئلہ موقوف نہیں، اس لیے اس کے پیچھے نہ پڑو،البتہ اتنا طویل عرصہ بغیر کسی غذا کے سونے اور صحیح سلامت اٹھنے سے چونکہ قیامت اور حشرِ اجساد پر اِستدلال ہوتا ہے، اس لیے سونے کی اصل مدت واضح طور پر بیان فرما دی گئی۔ *آپ کے ذِمہ صرف دِین پہنچانا* آیت نمبر 27 میں دین سے متعلق آزمائش کے علاج کاپہلا جز تجویز فرمایا گیا ہے اور وہ ہے قرآنِ کریم کی تلاوت اور دعوت، کفارِ مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کرتے تھے کہ اگر آپ قرآنی احکام میں کچھ نرمی پیدا کر دیں اور ہمیں اپنے عقیدوں پر چھوڑ دیں تو ہم آپ کی پیروی کر لیں گے۔ اسی طرف اشارہ کیا گیا کہ آپ ان کی باتوں کی طرف توجہ نہ دیں، بلکہ یکسوئی سے دین کی دعوت ان تک پہنچا دیا کریں۔ ایمان لائیں یانہ لائیں وہ ان کا نصیب۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں (یعنی اسلام کی نصرت اور دشمنانِ اسلام کی رسوائی) کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا، یہ وعدے پورے ہو کر رہیں گے۔ اگر بالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کفار کی اس انداز میں دلجوئی کی کہ جس سے احکامِ خداوندی کا ترک اورابطال لازم آئے تو یاد رکھیے آپ بھی رب کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہونا ہی محال تھا، لیکن تاکیداً ایسا کہا گیا تاکہ معلوم ہو جائے کہ اللہ کے کلام میں تبدیلی کا کسی کو بھی اختیار نہیں۔ اگر بالفرض! پیغمبر بھی اپنی مرضی سے ایسا کرلے تو اسے بھی اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں مل سکتی۔ *اپنے صحابہ سے دوری اختیار نہ کرنا* دینی آزمائش کے علاج کا دوسرا جز بیان کیا جا رہا ہے یعنی صحبتِ صالحین۔ آیت نمبر 28 کا پس منظر یہ ہے کہ بعض کفار (عیینہ بن حصن فزاری اور امیہ بن خلف وغیرہ) کا مطالبہ تھا کہ ہم سردار لوگ ہیں،اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی بات سنیں تو اپنے نادار اور غریب صحابہ کو پہلے ہٹانا ہوگا،ہم غرباء اور فقراء کے ساتھ ایک مجلس میں نہیں بیٹھ سکتے،لہٰذا یا تو ہمارے لیے الگ مجلس قائم کریں یا پھر اِن نادار لوگوں کو یہاں سے ہٹائیں، ہم تبھی آپ کی بات سنیں گے۔ (بعض مفسرین نے ان نادار صحابہ سے مراد اصحابِ صفہ لیے ہیں)۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں کفار کے اس مشورے پر عمل کرنے سے نہ صرف سختی سے روکا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ آپ ان اللہ والوں کے ساتھ خود کو گویا لازم کر لو،اپنے ہر معاملے میں انہیں سے مشورہ لو، چند روزہ کسمپرسی سے پریشان نہ ہوں،عنقریب اللہ فتوحات پیدا فرما دے گا۔ دین میں مال وجاہ کا کوئی امتیاز گوارا نہیں ہے۔ باقی اگر آپ کو یہ امید ہے کہ ان کفار کے اسلام سے اسلام کو رونق نصیب ہو گی تو واضح رہے کہ اسلام کی رونق مال ومتاع نہیں، بلکہ اخلاص اور اطاعت ہے، اگر یہ کیفیت غریب لوگوں میں بھی ہو تب بھی اسلام کی رونق میں اضافہ ہی ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کفار کی مذمت بھی بیان فرمائی کہ ان کے دل اللہ کی یاد سے غافل اوران کے سب امور اپنی نفسانی خواہشات کے تابع ہیں۔ یہ کیفیات اللہ کے قریب نہیں بلکہ مزید دور کرنے والی ہیں،اس لیے انہی لوگوں میں رہو جو اللہ کے نزدیک اور اس کی نصرت کے حق دار ہیں۔ *اپنے برے اعمال کے تم خود ذمہ دار* آیت نمبر 29 میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خبردار کیا جارہا ہے کہ رب تعالیٰ کی طرف سے بر حق دین آچکا، اب مرضی تمہاری ہے کہ اللہ کی مانو یا اپنی خواہشات کے پیچھے چلو، ہمارا اس میں کوئی نفع یا نقصان نہیں۔ اگر کفر اختیار کرو گے اور غلط راستے پر چلو گے تو جہنم کا ایندھن بنو گے، جس کی آگ کافر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور پانی مانگنے پر انہیں تیل کی تلچھٹ جیسا گرم ترین پانی پلایا جائے گا، جو اُن کے چہروں کو بھون کر رکھ دے گا۔ کتنے برے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی اور کتنی بری آرام گاہ یعنی جہنم میں انہیں داخل کیا جائے گا۔ *ایمان والے مزے میں* کفار کے احوال بتا کر اللہ تعالیٰ نے آیت نمبر 30 اور 31 میں آخرت میں اہلِ ایمان کی بہترین حالت بیان فرمائی تاکہ انسانوں کو رغبت ہو اور وہ کفر چھوڑ کر اسلام کی دعوت قبول کر لیں۔ اس لیے فرمایا کہ اہلِ ایمان جو دنیا میں اچھے اچھے اعمال کیا کرتے تھے ہم ان کی محنتوں کے ثمرے اور اجر کو ضائع نہیں کریں گے۔ جنتیں ان کی آرامگاہ ہوں گی، حسین وجمیل باغات ہوں گے، دودھ، شہد وغیرہ کی نہریں ہوں گی، اعلیٰ ترین اور ہمہ قسمی ریشم کا لباس ہوگا،سونے چاندی اور موتیوں کے زیورات انہیں پہنائے جائیں گے۔ اونچی اونچی مسندوں پر ایسے لوگ آرام فرما ہوں گے۔ کتنا ہی بہترین اجر ہے اور کتنی خوبصورت آرام گاہ انہیں ملی ہے۔ *(جاری ہے)*
❤️ 🇵🇸 2

Comments