Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
May 23, 2025 at 06:49 AM
*سلسلۂ نقوشِ قرآن* *سورتِ الکہف (چھٹی قسط)* *شیخ الحدیث والتفسیر استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *مال کا فتنہ اور ایک عبرت انگیز واقعہ* آیت نمبر 32 سے 44 میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے : دو شخص تھے جن میں سے ایک کافر تھا اور دوسرا مومن، جو کافر تھا وہ دُنیوی لحاظ سے بہت مالدار تھا، اس کے انگوروں کے کئی خوبصورت باغات تھے، جن کے کناروں پر کھجور کے درخت لگے ہوئے تھے، باغ کے درمیان میں کھیتی اُگائی ہوئی تھی، نہایت سرسبز و شاداب باغ تھے، نہریں جاری تھیں اور ہر وقت ہر طرح کی پیداوار اور مال و دولت کی کثرت رہتی تھی جبکہ مومن شخص غریب تھا، ایک دن اس کافر مالدار شخص نے اس مومن کے سامنے فخر اور غرور کرتے ہوئے کہا کہ میں تجھ سے مال و دولت میں کافی بڑھا ہوا ہوں، میرے پاس تجھ سے زیادہ مال و دولت ہے، اولاد ہے، نوکر چاکر ہیں اور عزت وجاہ وحشم ہے، اس کے بعد وہ تکبر کرتے ہوئے اپنے باغ میں گیا اور وہاں کی سرسبزی و شادابی کو دیکھ کر غرور میں آکر کہنے لگا کہ یہ ناممکن ہے کہ میرا باغ اور اس کی یہ شادابی کبھی فنا ہو سکے اور میرے خیال میں قیامت کبھی نہیں آئے گی اور اگر بالفرض قیامت آئی بھی اور میں اپنے رب کے پاس لوٹایا بھی گیا تو مجھے وہاں اس سے بہتر عطاء کیا جائے گا۔ *اللہ کو اور اپنی حقیقت نہ بھولیں* جب اس مومن شخص نے اس کی یہ متکبرانہ گفتگو سنی تو اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ تجھے یہ کہنا ہرگز زیب نہیں دیتا، تو اپنے اس رب کی قدرت کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی اور نطفہ سے پیدا کیا، تجھے تو یہ چاہیے تھا کہ جب تواپنے باغ میں داخل ہوتا تو اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتا اور ماشاء اللہ لا قوة اِلا باللہ کہتا اور جہاں تک رہی تیری یہ بات کہ میں مال ودولت اور اولاد کے لحاظ سے تم سے کمتر ہوں، تو مجھے اس کا کوئی غم نہیں، مجھے اپنے رب سے امید ہے کہ وہ مجھے ان سے بہتر نعمتیں عطاء فرمائے گا اور جس باغ پر تو یوں اِترا رہا ہے، اسے تباہ کرنا اللہ رب العزت کے لیے کوئی مشکل نہیں، وہ اگر چاہے تو اس پر آسمان سے کوئی آفت اتار دے یا اس باغ کا پانی خشک کر دے، جس سے تمہارا باغ سوکھ کر ویران ہو جائے گا، اس لیے آپ اس پاک پروردگار کی طرف رجوع کرو اور تکبر و کفر سے باز آؤ۔ مومن شخص کے اس وعظ و نصیحت کو سن کر بھی وہ شخص اپنی روِش سے باز نہ آیا اور کفر وتکبر پر ڈٹا رہا، چنانچہ اللہ رب العزت نے اس کے باغ اور تمام مال و دولت کو غارت فرما دیا اور وہ اپنے مال کی بربادی پر کف ِافسوس ملتا رہ گیا، اور اس وقت اس نے آرزو کی کہ اے کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ شرک نہ کیا ہوتا، افسوس کوئی بھی اس کے کام نہ آیا، مال وجائیداد، اولاد اور نوکر چاکر سب ختم ہو گئے، اس سے ثابت ہوگیا کہ سارے اختیارات صرف اللہ رب العزت کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر) *دنیا کی ناپائیداری کی ایک اور مثال* آیت نمبر 45 سے 49 میں اللہ رب العزت نے دنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی کی ایک عام اور سادہ سی مثال بیان فرمائی ہے کہ جیسے بارش کا پانی زمین میں جذب ہوتا ہے اور اس سے زمین میں ہریالی آجاتی ہے اور پودے وغیرہ لہلہانے لگتے ہیں، پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ ہریالی ختم ہو جاتی ہے اور پھول بوٹے خشک ہو کر چورا چورا ہو جاتے ہیں، جنہیں ہوا اڑائے پھرتی ہے، یہی حال دنیا کا ہے کہ آج تو ہری بھری اور بارونق نظر آتی ہے مگر ایک وقت آئے گا کہ اس کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا۔ یہی فکر اور دنیا کی بے ثباتی پر یقین مال کے فتنہ کا علاج ہے۔ باقی رہنے والے صرف اعمال دنیا اپنی تمام تر نعمتوں اور رونقوں کے ساتھ ختم ہو جائے گی، دنیا کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، مال اور اولاد بھی دنیا کی نعمت اور دنیوی رونق کا باعث ہیں، انہیں بھی ایک دن یہیں رہ جانا ہے، البتہ نیک اعمال کا ثواب اور اجر باقی رہنے والاہے، ان کی وضاحت ایک حدیث مبارک میں کی گئی ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باقیات صالحات کو زیادہ سے زیادہ جمع کیا کرو، عرض کیا گیا کہ وہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ لا الہ الا اللہ الحمد للہ اللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ کہنا (شعب الایمان) اسی طرح ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ کلمہ یعنی سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر میرے نزدیک ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔(صحیح مسلم) بعض مفسرین کرام کے نزدیک ان باقی رہنے والے اعمال میں پانچ وقتی نماز اور دوسرے تمام نیک اعمال بھی شامل ہیں۔ (معارف القرآن) *قیامت کی ہولناکی* اس کے بعد اللہ رب العزت نے قیامت کی ہولناکی اور اس کے چند مناظر بیان فرمائے کہ اس دن پہاڑ چلا دیے جائیں گے اور زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی جس سے وہ مکمل طور پر ظاہر ہو جائے گی، اللہ رب العزت تمام اولین وآخرین کو جمع فرمائیں گے، سب اللہ رب العزت کے سامنے پیش ہوں گے، اس وقت ان کی حالت یہ ہوگی کہ خالی ہاتھ، ننگے پاؤں، ننگے بدن پیدل چلتے ہوئے باری تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے اور سب سے پہلے جس کو لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے، حدیث پاک میں ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تو امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا سب مرد وعورت ننگے ہوں گے اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے؟ آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا اس روز ہر ایک کو ایسی فکر گھیرے ہوئے ہوگی کہ کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا خیال ہی نہیں آئے گا، سب کی نظریں اوپر اٹھی ہوئی ہوں گی۔(صحیح بخاری) پھر اللہ رب العزت ہر ایک کو ان کا نامہ اعمال پیش فرمائیں گے، جب کفار و مجرمین اس اعمال نامے کو دیکھیں گے تو افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ اس کتاب نے تو ہمارا کوئی عمل نہیں چھوڑا، ہمارے سارے کرتوت سامنے لا کر رکھ دیے، پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا اور سزا ملے گی اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ *اِبلیس جِنات میں سے* آیت نمبر 50 سے 54 میں اللہ رب العزت نے نہایت اجمالی طور پر تخلیق آدم کے موقع پر شیطان کی عداوت اور بغض کو بیان کرنے کے ساتھ انسان کو اس کی پیروی کرنے سے باز رہنے کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا جب ہم نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کے موقع پر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں تو وہ سب سجدہ میں گر پڑے لیکن ابلیس جو کہ جنات میں سے تھا، اس نے بغض و عناد کی وجہ سے سجدہ نہ کیا اور اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی اور کھلم کھلا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد سے دشمنی کا اعلان کر دیا، کیا اب بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست سمجھتے ہو اور اللہ رب العزت کی فرمانبرداری چھوڑ کر شیطان کی اطاعت کرتے ہو، یہ تو سراسر بے وقوفی اور نری حماقت ہے۔ اس لیے اس کی پیروی چھوڑ کر اللہ رب العزت کی طرف لوٹ آؤ، وگر نہ قیامت کے دن تمہارے یہ جھوٹے معبود تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے اور تمہیں جہنم کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔ *سب سے بڑا ظالم کون؟* آیت نمبر 57 سے 59 میں اللہ ر ب العزت نے سب سے بڑے ظالم کی پہچان بیان فرمائی ہے یہ وہ شخص ہے جس کے سامنے اللہ رب العزت کی آیات پڑھ کر اس کو نصیحت کی جائے اور حق کی طرف اسے بلایا جائے، لیکن وہ اس بلاوے کو ٹھکرا کر حق سے منہ موڑ لے اور اپنے گناہوں کے نتیجہ کو بھول جائے اور دن رات گناہوں میں غرق رہے جس کی وجہ سے اس کے دل میں حق قبول کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جائے اور وہ ہمیشہ کے لیے گمراہی اور ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پڑا رہ جائے، اس شخص سے زیادہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے لیے ہمیشہ کی کامیابی کو چھوڑ کر دائمی خسارہ کو قبول کر لیا ہے۔ اور یہ بھی اس رب کا کرم اور احسان ہے کہ ان ظالموں کے اعمال اور معاصی سے باخبر ہونے کے باوجود ان پر عذاب نازل نہیں فرماتا، بلکہ انہیں مہلت اور ڈھیل دیے رکھتا ہے کہ شاید ان کو ہوش آجائے اور یہ راہِ حق قبول کر لیں تو ان کی مغفرت کر دی جائے، ورنہ ان کے اعمال تو اس قابل ہیں کہ ان پر فوری عذاب نازل ہو جائے اور یہ سب تباہ وبرباد ہو جائیں، لیکن قربان جائیں اس کے کرم پر کہ انہیں اپنی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھتا بھی ہے اس کے باوجود ان پر اپنی نعمتوں کے دروازے بند نہیں فرماتا۔ *(جاری ہے)*
❤️ 3

Comments